[blockquote style=”3″]
ایروٹیکا ایک ایسی نثری صنف ہے جس میں بڑے فنکارانہ انداز کوئی جنسی کہانی یا قصہ تحریر کیا جاتا ہے، دوسری بعض بڑی اصناف کے ساتھ یہ بھی مغرب سے ہمارے یہاں درآمد ہوئی۔ اس صنف میں لیکن بدقسمتی سے سنجیدگی کے ساتھ کچھ زیاده نہیں لکھا گیا جبکہ اردو میں پھوہڑ اور غیر دلچسپ جنسی کہانیوں کی بہتات ہے، پہلی سنجیده اور قابل ﺫکر ایروٹیکا اردو کے اہم افسانہ نگار بلراج مین را نے لکھی جس کا عنوان تھا، ‘جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے’، اس کے بعد ابھی تک ایسی کوئی سنجیده کوشش نہیں دیکھی جا سکی ہے۔ تصنیف حیدر نے اسی صنف میں ایک ناولٹ لکھنے کا اراده کیا ہے جسے قسط وار لالٹین پر اپ لوڈ کیا جا رہا ہے
[/blockquote]
باب-9
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
انتباہ: اس تحریر کے مندرجات صرف بالغ افراد کے لیے ہیں۔
عام طور پر جو لڑکیاں آزاد مزاج ہوتی ہیں، ان کی صفت سیمابی ہوا کرتی ہے، مگر صدر کو بہت جلد اندازہ ہوگیا تھا کہ این کی فطرت سیمابی سے زیادہ تیزابی ہے۔اس کے اندر پاگل پن کی حد تک ایک خیال رچا بسا رہا کرتا تھا کہ وہ جو کچھ حاصل کرنا چاہے کرلے۔وہ کہا کرتی تھی کہ دنیا اس کمرے کی طرح ہے، جس میں ہمیں بند کرکے لاک کردیا گیا ہے، اس لیے رونے دھونے سے بہتر ہے کہ ہم اپنی ضرورت اور پسند کی چیزیں حاصل کریں یا چھین لیں۔اس کے نزدیک چوروں، لفنگوں، بدمعاشوں اور اٹھائی گیروں میں بس اتنی خرابی تھی کہ وہ پسند اور ضرورت کے پیمانوں کو حد سے زیادہ بڑا کرلیتے ہیں۔لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ انسان جو چاہے اسے حاصل کرنے کے لیے منہ دیکھتا رہے۔وہ صدر کے ذہن پر ایک ڈراؤنی رات کی طرح حاوی ہوتی جارہی تھی، جس کی وحشت سے نکل پانا بہت آسان کام نہ تھا۔اس نے خود صدر سے کئی بار کہا تھا کہ وہ ایک آسیب ہے، جس کا سایہ رات کے ان لمحوں میں بھی بھٹکتا رہتا ہے، جب وہ خود نیند میں ہوا کرتی ہے۔وہ جنسی عمل کے دوران اپنے بال کھول کر جھوما کرتی تھی، اسے اس ہیجانی رقص کا جیسے جنون سا تھا، صدر کے لیے اپنی شہوت کے گھوڑوں کو گھسیٹ کر اس آڑھی اور سفید لکیر تک لے جانا ضروری سا تھا، جہاں این خود تڑ سے اس کے بدن پر کسی کچے پھل کی طرح گر پڑے۔این کے شوق بڑے عجیب تھے، ہوش کے عالم میں صدر جب ان باتوں کے حوالے سے سوچتا تو اسے بڑی کراہت ہوا کرتی تھی، وہ کئی بار اپنے بدن اور منہ کو رگڑ رگڑ کر صاف کیا کرتا تھا، مگر این کے چہرے پر کبھی بھی ان حرکتوں کی وجہ سے ندامت اور تاسف کا شمہ بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔مگر رفتہ رفتہ صدر اس کا عادی ہوتا جارہا تھا۔اس کی ان عجیب حرکتوں کا جن سے وہ عالم خرد میں بھاگتا تھا، مگر اب عالم خرد کے وقفے خود اس کی زندگی میں بہت کم رہ گئے تھے۔اس کا دماغ ماؤف ہوتا جارہا تھا اور وہاں بس این کی حکمرانی قائم ہورہی تھی۔جیسے شہروں کے شہر، بسیتوں کی بستیاں اجاڑتا، خاک و خون کرتا ہوا کوئی لشکر اپنی اشتہا اور گرسنگی کو ہوا دیتا، ایک نئی زمین اور مملکت کا لال نقشہ تیار کررہا ہو۔این بھی اسی طرح اس کے حواس پر چھارہی تھی، اس کی جنسی ترنگ کا نہ کوئی طے شدہ وقت تھا، نہ اندازہ۔ وہ کہتی تھی کہ موت اور جنس کا وقت معین ہو تو ان کا مزہ ہی خراب ہوجاتا ہے، یہ دونوں مختلف قسم کے ایڈونچر کی طرح ہم پر ہر وقت سوار رہنے چاہیے، اس لیے رسک لینے، اور خطرہ اٹھانے سے باز آ جانا عقلمندوں کا شیوہ نہیں ہے۔موت، کنہی حالات میں بھی ممکن ہے اور جنس کنہی حالات میں بھی دلچسپ، اس لیے سب طرح کے حالات کا کم از کم ایک دفعہ جائزہ لینا ضروری ہے، صدر آرٹ کی حد تک تو اس بات کا قائل تھا، مگر زندگی میں خطرے اٹھانے اور ایڈونچر کی طرح اس گیند کو مختلف طریقوں سے اچھالنے کی ا س میں ہمت نہ تھی۔وہ گیند چھوٹ جانے سے ڈرتا تھا، جبکہ این کے ماتھے پر شکن تک نہ آتی۔وہ کھانا کھاتے کے عین درمیان، جب نوالے کی کرچیاں، اس کے داڑھ کی اوبڑ کھابڑ درازوں میں کھچا کھچ بھری ہوتیں، زبان اور تالو میں رال سے گتھے ہوئے گیہوں کی بواور سالن کی مہک جھمک رہی ہوتی، صدر کے ہونٹوں پر منہ رکھ کر اسے ہلکے ہلکے گلابی پرتوں کی ہتھیلیوں سے کترنے لگتی۔ان دونوں کے منہ کی مختلف بو، ذرات اور گاڑھا لعاب وصل کے اس انتہائی لمحے میں ایک دوسرے سے الجھ پڑتے اور آوااز کے ہلکے اجالے، ہچکیوں کے دھندلکوں میں ڈوبنے لگتے۔وہ جنگل میں پھیلی ہوئی کسی آگ کی طرح دستر خوان پر ہی بچھ جایا کرتی، وہ صدر کے چہرے کو اپنی گرم سانسوں اور چپچپے لعاب میں بھگا دیتی، بکھرے ہوئے دانوں اور چھچھلتی ہوئی ہواؤں کے درمیان وہ صدر کا لباس اتار کر اس کی شرمگاہ کو اپنے سینے کا ستون بنالیا کرتی اور ہانپتی ہوئی دھاروں کے درمیان اس کی ننگی امنگوں کو بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتی۔وہ صدر کو اس جنسی مملکت میں حکم دینے کی عادی ہوتی جارہی تھی، اتنی کہ اگر کبھی صدر مدہوشی کے عالم میں کوئی بات ماننے میں دیر کردیتا تو وہ اس کا بدن نوچنے لگتی یا پھر عین جوش کے لمحوں میں الگ ہوکر کھڑی ہوجاتی، اسے گالیاں بکتی اور باہر نکل جانے کے لیے کہتی۔ ایک دفعہ رات میں اس نے صدر کو کوریڈور میں ننگا نکال کر دروازہ بند کردیا۔انجان جگہ پر اسے اپنی عریانی کی اتنی فکر نہ تھی، جس قدر سن سن کرتی ہوئی ہواؤں سے لڑنے کے پست حوصلوں کا اندازہ تھا، وہ دروازہ پیٹتا، منتیں سماجتیں کرتا اور بعض اوقات رودیا کرتا۔رو دینا، این کے سامنے ایک آخری اور فائنل دھمکی کی طرح ہمیشہ کار گر ثابت رہتا۔صدرکا اصل مقصد دراصل اس وقت چنگھاڑتی ہوئی جنسی تشنگی کو رام کرنا ہوتا تھا۔پتہ نہیں کیوں مگر خود ایسے لمحات میں اسے این کے سامنے گڑگڑانے اور رونے میں لطف آیا کرتا تھا، این نے ایک دفعہ اس سے اپنے پاؤں تک زبان سے چٹوائے، تلووں پر ناک رگڑوائی اور قہقہہ لگاتے ہوئے، اس کے گالوں پر کئی تھپڑ بھی رسید کیے۔دیکھنے میں یہ سارے مناظر ایسے معلوم ہوا کرتے، جیسے کوئی نہایت مظلوم شخص، دنیا کی سب سے ظالم عورت کے سامنے اپنی عزت نفس کو بٹے سے کچل کر، ٹشو پیپر میں رکھ کر پیش کررہا ہو، مگر ایسا نہ تھا، یہ تمام باتیں اصل میں اسی جذبہ جنسی کی نمائندہ ترین صورتیں تھیں، جن میں بدن کے حرکی تیشے، شہروں میں پٹے پڑے سرد جذبات کی برفانی سلیوں پر ضرب لگاتے تھے اور اس میں صدر کو بہت مزہ آتا تھا۔ایسا ہر رات نہ ہوتا، مگر صدر کو محسوس ہوا کہ جب بھی یہ ہوتا، وہ اگلے دن بہت اچھی اور آرٹ سے چھلکتی ہوئی ایک تصویر بنایا کرتا تھا۔یہ سب بالکل غیر عقلی معلوم ہوتا تھا، مگر جذباتی طور پر واقعی یہ نہایت شاندار اور کامیاب تجربے کی صورت میں اجاگر ہوتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ اسی طرح کبھی نہایت تیز گرم پانی میں نہاتے ہوئے، کبھی مختلف قسم کے مہکتے ہوئے تیلوں کا لباس پہن کر، چکنی جلدوں کو تھامتے، انہیں چاٹتے اور حلق میں اتارتے ہوئے رات اور دن ہانپ اور بھانپ کے کھیل میں مصروف رہا کرتے۔دنیا کے سارے کام چھوٹ گئے تھے، بس ایک کام تھا، جس نے تنہائیوں کا سارا عرق نکال کر ان دونوں کے ماتھوں پر سجادیا تھا۔
ایک روز این صدر کو ڈوبتی ہوئی شام کے موقع پر ہوٹل کے چھت پر لے گئی، کچھ وقت پہلے برسات ہوئی تھی اور ٹھنڈی ہوائیں معلوم ہوتا تھا گرم کوٹ کے آرپار ہوئی جارہی ہیں، حالانکہ صدر نے دستانے اور موزے دونوں پہن رکھے تھے، مگر سردی کی شدت سے اس کی ناک لال ہوگئی تھی اور آنکھیں بار بار بھیگ جاتی تھیں۔این نے صدر کو ایک کھجور سے بٹا ہوا پلنگ دکھایا، یہ لکڑی کے چوپایوں پر کھجور کی موٹی، سخت اور چبھنے والی رسیوں سے بٹی گئی ایک کھاٹ تھی، جسے سردی کے موسم کے لیے خاص طور پر این کے والد کو ان کے کسی دوست نے تحفے کے طور پر پیش کیا تھا۔ساتھ میں زعفران سے بھرا ایک گدا بھی دیا گیا تھا، جس کا یہاں کوئی اتا پتا نہ تھا۔این نے دروازہ بند کیا اور اپنے کپڑے اتارنے لگی، صدر کچھ کہتا، اس سے پہلے اس نے عالم عریانی میں اس کے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیر کر اسے خاموش رہنے کا حکم دیا۔این چاہتی تھی کہ اس سرد رات میں وہ دونوں اس چبھتے ہوئے کھجور کے پلنگ پر بے لباسی کے عالم میں ایک یادگار رات گزاریں۔صدر کہنا چاہتا تھا کہ اتنی سردی میں اس کے دل و دماغ پر بھی دھند جم سکتی ہے، بدن سن ہوسکتے ہیں، زہریلی ہوائیں ہڈیاں اکڑا سکتی ہیں، مگر وہ این کو جانتا تھا۔وہ کسی حال ماننے والی نہ تھی، چار و ناچار اسے کانٹوں بھرے اس بستر کی زینت بننا پڑا۔وہاس عذاب میں اس کی برابر کی شریک تھی، اورپھر دونوں ایک دوسرے کے بدن پر جلتی ہوئی رسیوں کے تازیانے برسارہے تھے، ہوائیں اس دہکتی ہوئی دیگچی میں ان کو چمکتے ہوئے گوشت اور کھنکھتی ہوئی ہڈیوں کی طرح خوب ابال رہی تھیں۔چند ہی منٹوں میں ان دونوں کے گھٹنے بری طرح اکڑ چکے تھے، کھاٹ کی سائز صدر سے کافی چھوٹی تھی، اس لیے جب اس کے سمٹے ہوئے پیروں کو این نے اپنی رانوں کے زور سے نیچے دھکیلا تو اس کی چیخ نکل گئی۔وہ کپکپاتے، کانپتے ہوئے، ایک دوسرے کے بدن کو ڈھال بنانے کی کوشش میں ہلکے ہلکے گرم ہورہے تھے، مگر ہواؤں کی تاب، ان کی ننھی کوششوں سے زیادہ کارگر تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ جنسی عمل پورا ہونے سے کافی پہلے، ان دونوں پر غشی چھانے لگی، این کو دھندھلاتی ہوئی نگاہوں سے اپنی پھڑپھڑاتی ہوئی پینٹ نظر آرہی تھی، جو اس وقت ٹین کے ایک باسی ٹکڑے پر پڑی،کہیں دور جاگرنے کے لیے بے صبر ہوئی جارہی تھی، اور اس کے بعد گرجتی ہوئی سخت سرد اور دبیز چادر نے نہ جانے کب اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔اس کے پورے بدن میں چیونٹیاں رینگنے لگیں۔ادھر صدر کا بلڈ پریشر اتنا ہائی ہوگیا تھا کہ کانوں کی لویں گویا آگ کی لپٹوں میں تبدیل ہوگئی تھیں۔اسے محسوس ہورہا تھا، جیسے وہ کسی لبلبی مگر نہایت گرم تختی پر سجا ہوا کوئی پکوان ہے، جو ہوا میں اڑتا جارہا ہے، نہ جانے کس سمت مگر یہ سرمئی خلا، بڑھتا ہی گیا، دل دھڑکنے کے بجائے دھڑ دھڑ کرنے لگا اور عافیت اسی میں تھی کہ آنکھیں بند کرلی جائیں، مگر وہ تو بند ہوگئی تھیں، یا شاید دو سفید کناروں کے بیچ پھنسی ہوئی ایک کالی گوٹ برف کی سنسان اور اتھاہ تہوں پر سجے ہوئے کسی گول اور سیاہ جزیرے کی طرح جمی ہوئی نظر آتی تھی۔ نظر آتی تھی، مگر کس کو۔۔۔یہ نہ معلوم ہوا۔۔۔۔
این جانتی تھی کہ رات کو جو کچھ بھی ہوا وہ بہت الگ اور عجیب تھا، مگر کیا وہ کل رات ہی ہوا تھا، اسے بیتے ہوئے تو کافی وقت گزر چکا تھا۔کئی دن یا شاید کچھ مہینے۔نہ جانے کتنے یگوں تک وہ اپنے بستر پر ہڈیوں کے پگھلنے کا انتظار کرتی رہی تھی۔مگر وہ جو کچھ بھی تھا، اس نے موت کو کس قدر قریب کردیا تھا، بس جیسے سرد موت، جنس کے لفافے میں چھپی ہوئی اس کی مٹھی تک آگئی تھی، تو پھر اس نے مٹھی بند کیوں نہیں کی؟ اس نے موت کو جانے کیوں دیا؟صدر کہاں تھا۔کیا وہ مرگیا تھا؟کہیں دور سے ستار کی دھن بجتی ہوئی سنائی دے رہی تھی۔کیا وہ ہسپتال میں تھی، مگر ہسپتال کے نزدیک موسیقی کی لہریں کہاں سے آسکتی ہیں۔ہسپتال تو قبرستان کی نمائندگی کرنے والی خاموش دنیا ہے، جہاں موت اپنی اونگھ میں کسی قسم کا خلل پسند نہیں فرماتی۔اس نے ہلکے اجالے میں ہچکولے کھاتے ہوئے کیلنڈر کو دیکھا، واقعی بہت وقت بیت گیا تھا، شاید بارہ، تیرہ دن۔پھر اسے اپنے والد سے آخر معلوم ہی ہوگیا کہ اس گہری اور سرد نیند کے وقفے کے دس گیارہ گھنٹوں بعد، ٹھٹھرتی دوپہری میں کسی ویٹر نے ان دونوں کو ٹیرس پر، ایک دوسرے کے جسم پر ننگ دھڑنگ حالت میں پایا تھا، ان کے ہونٹ خون کی بے حد ہلکی رفتار کی وجہ سے دھیمے اودے ہورہے تھے۔پریس والوں نے اس معاملے میں کافی شور مچایا تھا۔ابھی دو دن پہلے صدر کی طبیعت جب سنبھلی تو اس کے والد نے اسے نہایت سخت برا بھلا کہہ کر راتوں رات، اس کے شہر واپس بھجوادیا تھا۔جہاں ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں سڑتی ہوئی، بغیر کسی مستقبل کا نقشہ تیار کرتی عجیب سی زندگی اس کی منتظر تھی۔۔باپ نے اسے یہ نہیں بتایا کہ اس نے اپنے ویٹرز کے ساتھ مل کر اس یقین کے ساتھ صدر کی اچھی خاصی پٹائی بھی کروائی تھی، کہ اس کی بیٹی کو ایسا واہیات آئیڈیا اسی نے دیا ہوگا۔وہ اسے ایک جنسی و ذہنی مریض بک رہا تھا اور اپنی بیٹی سے بار بار ہمدردی ظاہر کررہا تھا۔این کے پاؤں میں مزید کچھ دنوں تک سوجن رہی، مگر جب وہ چلنے پھرنے کے لائق ہوئی تو اس نے ایک ویٹر کی مدد سے صدر کے گھر کا پتہ نکلوالیا اور اس کے شہر کو روانہ ہوگئی۔وہ سوچ رہی تھی کہ شاید اس کا باپ، صدر سے اچھی طرح پیش نہیں آیا ہوگا، جب کہ وہ خود اس معاملے میں ایک وکٹم کی سی حیثیت رکھتا تھا۔این کے خیال میں اس کا صدر سے ملنا نہایت ضروری تھا۔وہ بغیر یہ جانے، بوجھے اس کی گلیوں کی طرف بڑھتی چلی جارہی تھی کہ پتہ نہیں وہ شخص، جس کو اس نے عین سرد رات میں مرنے کے لیے بدن کی ٹھنڈی دعوت میں شریک کیا تھا،اس کے ساتھ کیسا سلوک کرسکتا ہے۔
(جاری ہے)
(جاری ہے)