[blockquote style=”3″]
ایروٹیکا ایک ایسی نثری صنف ہے جس میں بڑے فنکارانہ انداز کوئی جنسی کہانی یا قصہ تحریر کیا جاتا ہے، دوسری بعض بڑی اصناف کے ساتھ یہ بھی مغرب سے ہمارے یہاں درآمد ہوئی۔ اس صنف میں لیکن بدقسمتی سے سنجیدگی کے ساتھ کچھ زیاده نہیں لکھا گیا جبکہ اردو میں پھوہڑ اور غیر دلچسپ جنسی کہانیوں کی بہتات ہے، پہلی سنجیده اور قابل ﺫکر ایروٹیکا اردو کے اہم افسانہ نگار بلراج مین را نے لکھی جس کا عنوان تھا، ‘جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے’، اس کے بعد ابھی تک ایسی کوئی سنجیده کوشش نہیں دیکھی جا سکی ہے۔ تصنیف حیدر نے اسی صنف میں ایک ناولٹ لکھنے کا اراده کیا ہے جسے قسط وار لالٹین پر اپ لوڈ کیا جا رہا ہے
[/blockquote]
باب-3
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
انتباہ: اس تحریر کے مندرجات صرف بالغ افراد کے لیے ہیں۔
اس کی ہر تصویر میں ایک بات یکساں تھی، وہ دو ملی ہوئی عمارتوں کی تصویر بنائے یا کسی خالی پھٹی ہوئی بالٹی کا عکس اتارے، اس میں پستان کا ایک عنصر، ایک جھلک ضرور موجود ہوا کرتی تھی۔
کاغذ کی ڈور پر ایک ساتھ بہت سارے پسووں نے حملہ بول دیا تھا، جیسے کسی باسی کھانے میں پھپھوند لگ جاتی ہے، اسی طرح ایک پھولی ہوئی سیاہ ہیت اپنے آپ کو سنوار رہی تھی، ابھی کچھ سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ کون سی طاقت ہے، جو ان بنتے بگڑتے خطوط کو ملا کر ایک تصویر بنا دے گی، تصویر بنانا بہت اہم عمل ہے، اس عمل سے دنیا کی بہت سی مقدس تدبیریں خوف کھاتی ہیں۔ تصویر میں زندگی ہوتی ہے، آنکھیں اور بھڑکتا ہوا بدن، اگر بنانے والا خدا ہو تو تصویر بھی دیوی کا روپ اختیار کرسکتی ہے، اور پھر سر سے پیر تک بدن کی ایک تباہ کن کیفیت کو منعکس کرنا اور وہ بھی انگلیوں کی مدد سے، یہ ایک ایسا کام ہے، جس کے لیے مشقت اور مہارت دونوں باتوں کی بے انتہا ضرورت ہے۔صدر تصویر بناتے ہوئے اکثر سانس بھی روک لیا کرتا تھا، اس کی ہر تصویر میں ایک بات یکساں تھی، وہ دو ملی ہوئی عمارتوں کی تصویر بنائے یا کسی خالی پھٹی ہوئی بالٹی کا عکس اتارے، اس میں پستان کا ایک عنصر، ایک جھلک ضرور موجود ہوا کرتی تھی۔ ایک نظر میں کبھی کبھار یہ بات بہت مشکل سے دکھائی دیتی کہ اس نے کسی تصویر میں اپنی مخصوص پستان سازی کو بھی برقرار رکھا ہے۔ عورت کے بدن کے اس اوپری حصے سے اس کی دلچسپی غیر معمولی تھی، ایک دفعہ جب اسے کسی چوہے کی تصویر بنانے کا خیال آیا تو اس نے چوہے کے پیٹ کو ایسی بھربھراتی ہوئی شکل بخشی، جس کے گہرے بھورے رنگ کے گچھے دار بالوں کو دور سے دیکھنے پر ایسا لگتا تھا، جیسے کسی پستان پر بہت سے بال اگ آئے ہوں۔۔۔۔ یہ ایک ایسی عجیب کیفیت تھی، جس سے اس کا چھٹکارا ممکن نہیں تھا۔ حالانکہ اس کے کچھ اساتذہ اسے بتا چکے تھے کہ ہندوستان کے بہت سے مصور ساری زندگی ایک ہی شکل کو متشکل کرتے رہے ہیں، کسی نے تمام عمر صرف اوم پینٹ کیا، کسی نے تا حین حیات صرف صفر کا عدد بنانے پر قناعت کی۔
کسی بھی تصویر کو سرسری دیکھنے والے عام طور پر وہ پیٹرن سمجھ ہی نہیں سکتے جو ایک تخلیق کار کا خاصہ ہوتی ہے، ایک مصور کا اسلوب، جس سے اس کی اپنی شناخت اپنے کینواس اور برش پر ظاہر ہوتی ہے، صدر نے پستان کے ساتھ اپنا ایک ایسا ہی تعلق بنایا تھا۔۔اور آج جب اسے ایک کولی لڑکی کے پستانوں کو تراشنا تھا تو اس نے سانسیں روک لی تھیں،اس نے کچ کا چہرہ بنایا،گردن، سڈول کمر،پیٹ کا شفاف بل کھاتا ہوا حصہ، شرم گاہ پر موجود ہلکی سیاہ دھاریاں اور ران، ان پر گھٹنوں کی دو ننھی رکابیاں، جو ہلکے پیلے بدن پر آنچ لگی ربڑی کے رنگ کی تھیں، پنڈلیاں،ان پر ڈھلتی ہوئی بوندیں، اور پانی کے ساتھ وصل کرتے ہوئے پنجے تک بنا دیے، پھر وہ چہرے پر واپس آیا، اس نے آنکھوں کے دونوں حلقوں کو بڑی احتیاط سے تراشا، جیسے پھل فروش گاہکوں کی خواہش پر تربوز کا پھانکا لگاتے ہیں۔پھر ان میں دو کانچ کے رنگ کی آنکھیں، گالوں پر ہلکے گڑھے، بالوں کی لٹوں کو عین اس کی نقل کے مطابق نقش کیا، بغلوں کا حصہ جب وہ پھیلا رہا تھا تو یہ سوچ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، جیسے وہ کچ کی بغل میں ہلکی گدگدی کررہا ہے۔بہت دیر تک جب وہ کچ کی تصویر گری میں مصروف رہا اور بدن کے ایک ایک حصے کو جلتی ہوئی پرچھائیوں میں ڈھال چکا تب اس نے دیکھا کہ سینے پر بنے ہوئے دائرے بالکل سفید ہونقوں کی طرح، کسی آسیب کی پھٹی ہوئی آنکھوں کی مانند اسے گھور رہے ہیں، اس حصے کو بنانے سے پہلے وہ پھر ایک دفعہ کچ کے پاس آیا، کچ بڑی مشکل سے خود کو اسی پوز میں سنبھالے کھڑی تھی، صدر نے کہا:
“میں نے ابھی پستانوں کا حصہ نہیں بنایا ہے”
“کیوں؟”
“تصویر سے پہلے اس کے لیے مجھے تمہارے بدن پر کام کرنا ہوگا، جب یہاں پستان واقعی بن جائیں گے، تو وہاں بھی بنادوں گا۔”
“کیسی بات کررہے ہو صدر”اس نے منہ میں آجانے والے پانی کو پیتے ہوئے کہا۔”اس طرح تو بہت وقت لگ جائے گا۔”
صدر نے اس کی بغلوں پر زبان رکھ دی، وہ پانی کے بہتے ہوئے منظر میں ہانپنے ہوئے کسی کتے کی طرح اس چھوٹے سے دونے کو چاٹنے لگا۔پھر گردن تک چلا آیا،جب وہ کچ کی گردن کی کھال کو جمع کرکر کے اپنے منہ میں بھر رہا تھا، اس وقت بے اختیار کچ کا ہاتھ اس کی پیٹھ پر چلا گیا، اتنی دیر تھی کہ دوسرے ہاتھ نے بھی بغاوت کر دی، بھیگتی ہوئی رات کے اس چھوٹے سے آباد خانے میں دو بدن شرارے چھوڑنے لگے اور پانی اس جلتی، دہکتی، لاوا ابلتی ہوئی آواز کا گواہ بن گیا۔ کچ نے اپنی انگلی کو پہلے اپنی شرم گاہ میں پیوست کیا اور پھر وہاں سے اسے نکال کر صدر کی زبان پر اسے تیرانے لگی جیسے کوئی بریڈ پر جام لگایا کرتا ہے۔صدر کو کچ کی یہ بات پسند تھی کہ وہ اپنے انتہائی ہوس ناک اندرون کے جاگتے ہی آنکھیں کھول دیتی ہے۔وہ ایک نیولے کی طرح پہلے اسے پے در پے مختلف داو پیچ سے اتنا تھکا دیتی ہے کہ آخر کار وہ اس کا شکار ہوجانا ہی مناسب خیال کرتا ہے۔
٭٭٭
صدر کا جی چاہا کہ وہ اس عورت کے سینے پر رکھی ہوئی کمان کو کھینچے، اتنا کہ وہ سخت ہو جائے، اس قدر سخت کہ اس کو کہیں سے بھی چھونے پر عورت کا بدن تان چھیڑنے لگے، راگ گانے لگے اور صدر اس کمان کو کبھی ڈھیلا نہ کرے۔
صبح اس دن تھک کر چور ہوچکی تھی، اسی لیے اس نے اپنے وجود کو پھیلا کر پودوں کی پیلاہٹ، چیلوں کی اڑان، خچروں کی تھکن اور بھکاریوں کی آواز تک وسیع کردیا تھا،جب صدر کی آنکھ کھلی تو اس کی دھندلی نگاہوں نے دیکھا کہ چاروں جانب کہر کی ایک عجیب سی چادر ہے، یہ چادر ہلکے ہلکے کسی گیلے ٹشو پیپر کی طرح پھٹنے لگی اور اس میں سے ایک اور دوسرا تولیا نما منظر برآمد ہوا، جس نے اس ساری گیلاہٹ کو اپنے بدن میں جذب کرلیا تھا اور اب سب کچھ سوکھا، بے جان اور کریہہ نظر آرہا تھا، دھوپ اس قدر سخت نکلی ہوئی تھی کہ باہر کا منظر دیکھنے کا دل نہ چاہتا تھا، مگر پردے کھلے تھے اور ڈرائنگ روم کے پیٹ میں پڑی میز اور دو کرسیوں پر دھوپ بیٹھی ہوئی قہقہے لگارہی تھی، اس نے آگے بڑھ کر جلدی سے پردہ کھینچ دیا، پردہ کھینچتے ہی دھوپ تو غائب ہوگئی، لیکن ایک قسم کی دبیز گرماہٹ ابھی اس کے کولہوں کی تپن کا احساس کرارہی تھی، جیسے کوئی شخص کرسی پر اٹھ کر اپنے چوتڑوں کی بساند، بدنیت اور گرم سانسیں اس پر رکھ کر بھول جاتا ہے، پھر دھیرے دھیرے جیسے ہواوں کی کمانیں کستی ہیں، تو مناسب موقع پر اس چھون کا تیر تیزی سے کرسیوں کی پشت سے چھوٹ کر دیواریں پھاڑتا ہوا کہیں دور جانکلتا ہے۔
صدر کی نگاہ بھی اس وقت اس کی بنائی ہوئی ایک ایسی ہی پینٹنگ پر مرکوز تھی، جس میں اس نے کمان بنائی ہوئی تھی، یہ کمان ایک عریاں عورت اپنے سینے پر رکھے ہوئے سو رہی تھی، سونے کی کمان، جس سے ایک ربڑ نما ڈور بندھی ہوئی تھی، کمان کا سخت حصہ مرد کے عضو تناسل کی صورت میں بنایا گیا تھا، وہ عورت کے سینے پر یوں رکھا ہوا تھا، جیسے وہ کوئی یونانی دیوی ہو، جسے عضو تناسل سے محبت اور رقابت دونوں کا رشک حاصل ہو، یونان کی وہ واحد عورت، جسے پورے وقار کے ساتھ ، کسی مرد نے ایک رات اپنی شرمگاہ کا امین بنایا ہو، اور دوسرے دن وہ نوبالوں، شہہ بالوں کی بھیڑ میں کہیں کھو گیا ہو۔ عورت کے چہرے پر ایک عجیب قسم کا اضطرار تھا، جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہو، وہ خواب جو اس کے ادھورے وصل اور یونانی تہذیب میں عورت کے ساتھ کیے گئے ناروا سلوک کی سب سے کرب ناک داستان کو بیان کر رہا ہو، وہ عورت جس کے ہاتھ میں پھنسی ہوئی کمان اس اژدہے کی طرح ہو، جس پر اس عورت کا عتاب بس نازل ہونے والا ہے، زمین بس پھٹنے والی ہے اور یہ اژدر نما کمان دنیا کی باقی تمام تہذیبوں، تمام تاریخوں اور تمام ملکوں میں زمین پر اپنی تسکین کے لیے زمین پر گھسٹنے پر مجبور کردی گئی ہو۔وہ عورت جو دو دنیاوں کی مالک ہے، جس کے کھلے ہوئے ہونٹوں، دھنسی ہوئی آنکھوں اور بدن کے پھیلے ہوئے صحرا میں اس کی تسکین کا سارا سامان اس نے خود انسانی فطرت کے ہاتھوں گنوادیا ہو، اور وہ یونان کے گلی کوچوں سے لے کر مصر کے بازاروں تک گورے چٹے، ہٹے کٹے مردوں، لڑکوں کی تجارت ہوتے ہوئے دیکھ کر پیچ و تاب کھا رہی ہو۔ جب وہ انسانی صورت میں ڈھلی ہوئی اور اس نے اپنی اس ہوس کی تکمیل کے لیے کسی عام سے خوبصورت لڑکے کو اپنی جانب راغب کیا ہو تو اچانک اسے معلوم ہوا ہو کہ یہ تو پیغمبر ہے، اس نے اپنے کسی دوست کو اپنے پستانوں پر ہاتھ لگانے پر آمادہ کر لیا ہو تو اسے محسوس ہوا ہو کہ دو دنیاوں کے خدا نے اس حرکت سے تنگ آ کر اسے دوسرے درجے کا شہری بنا دیا ہو۔ وہ عورت اتنے سارے خواب یا عذاب اپنی آنکھوں میں سمیٹے ایک خوبصورت مخملیں بستر پر سو رہی تھی، اور کمان اس کے سینے پر دھری تھی۔۔۔۔صدر کا جی چاہا کہ وہ اس عورت کے سینے پر رکھی ہوئی کمان کو کھینچے، اتنا کہ وہ سخت ہو جائے، اس قدر سخت کہ اس کو کہیں سے بھی چھونے پر عورت کا بدن تان چھیڑنے لگے، راگ گانے لگے اور صدر اس کمان کو کبھی ڈھیلا نہ کرے۔
“تمہیں بھوک نہیں لگی؟ “کچ نے اپنے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے سنبھالتے ہوئے مچی مچی آنکھوں کے ساتھ کہا۔
“ہمم۔۔۔کچھ ہے نہیں ابھی، میں نیچے سے کچھ لے آتا ہوں، تم جب تک فریش ہوجاو”یہ کہہ کر وہ تصویر میں ڈٹے ہوئے
کچ کو یہ بات بہت بری لگتی تھی کہ لوگ زمین کو ماں کہتے ہیں۔۔۔ وہ زمین کو محبوب کے تصور میں زیادہ مناسب سمجھتی تھی، ایک منافق محبوب، جس نے اپنے اپنے سینے پر قابض قوموں کو اپنے چمکتے دمکتے وسائل سے لبھا لبھا کر ان کے ساتھ بے انتہا وصل کیے ہوں۔
انہماک کی پڑیا بنا کر اسے ایک جانب پھینکتے ہوئے باتھ روم میں گھس گیا۔کچ اٹھی، اس نے دھندلی نگاہوں کے ساتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ ٹٹولا اور برش کرنے لگی، اس نے پنکھا تیز کیا اور پردہ کھینچ دیا، اس وقت کوئی بادل سورج کی آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا، اور پورے آسمان میں اتنا بڑا بادل دور دور تک کہیں اور دکھائی نہ دیتا تھا، کچ نے حیرانی سےآسمان کو دیکھا، وہ سورج کی بے بسی پر مسکرادی، اسے علم تھا کہ ابھی کم از کم دس بارہ منٹ تک دھوپ اس بادل کے سرکنے کا انتظار کرتی رہے گی اور اس کی تیز و دھار دار فوجیں بادل کی روئی جیسی پیٹھ پر اپنی تلواریں برسا برسا کر بے دم ہوجائیں گی، مگر پانی اور دھوئیں کو کون کاٹ سکتا ہے۔ اسے اسی لیے ان دونوں چیزوں سے بہت پیار تھا۔۔۔ وہ پانی کو ایک انسان کے طور پر دیکھتی تھی،ایک ایسا انسان جو اچھا برا، غلیظ، نمکین، ہرا، کالا، گہرا گلابی یا پھر کوئی بھی رنگ اپنے اندر سمولیتا تھا، بغیر کسی شکایت کے۔ پانی کچھ سوچتا نہیں، بس چیزوں کو قبول کرتا ہے اور دھواں؟ کہتے ہیں کہ دھواں اگر انسانی دماغ میں گھس جائے تو اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ماوف کر دیتا ہے، پھیپھڑوں میں گھس جائے تو انسان کے سینے میں اپنا سینہ پیوست کر کے اسے بھی اپنے جیسا بنا دیتا ہے، منہ کے راستے داخل ہو تو ناک کی نالیوں سے تیر کر کسی مشاق تیراک کی طرح باہر نکل آتا ہے، دھوئیں کو کتنا بھی قید کرو، وہ اپنے باہر آنے کا راستہ ڈھونڈ نکالتا ہے، بالکل عورت کی طرح۔مرد کو پانی اور عورت کو دھواں سمجھنے والی کچ اس وقت کلی کر رہی تھی، واش بیسن پر لگا ہوا نل جس وقت اس نے بند کیا، صدر سامان لینے نیچے جاچکا تھا، اب موسم میں دھوپ پھر واپس آ گئی تھی، بادل کا وہ ٹکڑا نہ جانے کہاں غائب ہو گیا تھا۔
اس نے ریڈیو آن کیا تو کھرکھراتی ہوئی آواز میں اینکر نے خبریں سنانی شروع کردیں۔موسم کے حال سے لے کر دنیاکے احوال تک، اپنے وطن کی برتری کی داستانیں، جیسی باقی کی کوئی زمین، زمین ہی نہ ہو، کچ کو یہ بات بہت بری لگتی تھی کہ لوگ زمین کو ماں کہتے ہیں۔۔۔ وہ زمین کو محبوب کے تصور میں زیادہ مناسب سمجھتی تھی، ایک منافق محبوب، جس نے اپنے اپنے سینے پر قابض قوموں کو اپنے چمکتے دمکتے وسائل سے لبھا لبھا کر ان کے ساتھ بے انتہا وصل کیے ہوں۔ اس طور پر دیکھا جائے تو زمین سے بڑی فاحشہ اور کون ہو گی، جس کے پستانوں سے لٹکتی ہوئی قومیں خود کو یہ باور کراتے کراتے تاریخ کی نذر ہو جاتی ہیں کہ یہ ان کی ماں کے پستان ہیں، جبکہ وہ انہی پستانوں کو کسی شرابی ڈھنڈاری، معیشت اور قسمت سے پٹے ہوئے ادھیڑ عمر کے ایک شخص کی طرح نوچتے کھسوٹتے رہتے ہیں، ان دودھ ابلتی شریانوں سے اپنا منہ بھڑا دینے کے لیے بہت سے انسانوں کا قتل بھی جائز سمجھتے ہیں۔ زمین ماں نہیں ہے، زمین ماں نہیں ہوسکتی۔۔ زمین صرف ایک عورت ہے، ایک عیار، تجربہ کار اور گھاگ عورت، جو بے انتہا حسین ہے اور اسے اپنے حسن کی قیمت کا اندازہ بہت اچھی طرح ہے۔ اتنے میں دروازہ کھل گیا اور اس کے ہاتھ سے خیالات کا تھیلا چھوٹ کر زمین پر گر گیا، خیالات منتشر ہوگئے لیکن اس نے پھر بھی زمین پر گھورتے ہوئے صدر سے پوچھا۔
زمین صرف ایک عورت ہے، ایک عیار، تجربہ کار اور گھاگ عورت، جو بے انتہا حسین ہے اور اسے اپنے حسن کی قیمت کا اندازہ بہت اچھی طرح ہے۔
‘وہ زمین پر تم نے کسی شاعر کا شعر سنایا تھا اس دن؟ کیا تھا وہ؟ بہت اچھا لگا تھا مجھے؟’
‘زمین پر تو بہت سے شعر ہیں۔’
‘ارے اس میں کچھ کٹاؤ وٹاؤ جیسی بات تھی۔۔۔’
صدر نے بریڈ کا پیکٹ کھولتے ہوئے مسکراکر جواب دیا۔’اب یاد کر لو، بار بار نہیں سناؤں گا۔ اسعد بدایونی کا شعر ہے
میں تو بس دیکھتا رہتا ہوں زمینوں کے کٹاؤ
آدمی سوچنے والا ہو تو پاگل ہو جائے’
آدمی سوچنے والا ہو تو پاگل ہو جائے’
اس نے زیر لب شعر دہرانے کی پھر کوشش کی، لیکن وہ غلط ہوگئی، میں رات بھر ان دونوں کے جاگتے ہوئے بدن کی گواہی دیتے دیتے تھک گیا تھا، اس شعر کی تکرار پر میری آنکھیں ڈوبنے لگیں اور میں اپنے وجود میں ڈوبتا چلا گیا، میں جو کمرے کے چوکور پستانوں سے انہیں دیکھتے رہنے کا عادی ہوں۔