Laaltain

پستان ۔ دسویں قسط

10 جنوری، 2017

[blockquote style=”3″]

ایروٹیکا ایک ایسی نثری صنف ہے جس میں بڑے فنکارانہ انداز کوئی جنسی کہانی یا قصہ تحریر کیا جاتا ہے، دوسری بعض بڑی اصناف کے ساتھ یہ بھی مغرب سے ہمارے یہاں درآمد ہوئی۔ اس صنف میں لیکن بدقسمتی سے سنجیدگی کے ساتھ کچھ زیاده نہیں لکھا گیا جبکہ اردو میں پھوہڑ اور غیر دلچسپ جنسی کہانیوں کی بہتات ہے، پہلی سنجیده اور قابل ﺫکر ایروٹیکا اردو کے اہم افسانہ نگار بلراج مین را نے لکھی جس کا عنوان تھا، ‘جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے’، اس کے بعد ابھی تک ایسی کوئی سنجیده کوشش نہیں دیکھی جا سکی ہے۔ تصنیف حیدر نے اسی صنف میں ایک ناولٹ لکھنے کا اراده کیا ہے جسے قسط وار لالٹین پر اپ لوڈ کیا جا رہا ہے

[/blockquote]

باب-10
اس ایروٹیکا کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

انتباہ: اس تحریر کے مندرجات صرف بالغ افراد کے لیے ہیں۔

 

کچ ایک بے پناہ اندھیرے میں لمبی سانسیں بھررہی تھی۔رات کے فرفر کرتے ہوئے ، ہوا سے بھرے قالین پر قدم رکھنے کی جرات اس نے خود میں نہ پائی تو وہ گرائونڈ فلور کے آخری زینے پر بیٹھ گئی۔باہر بارش بہت تیز ہورہی تھی، جیسے کسی نے بادلوں کی بق بق کرتی ہوئی بھری ہوئی توندوں میں چاقو گھسیڑ دیا ہو۔کیا ہوگیا تھا، اسے وہ میسج پڑھ کر،جس رشتے میں کوئی توقع نہ تھی، جس کے مستقبل کی وہ عامیانہ سوچ اس پر کبھی حاوی نہ تھی، کیا وہ دنیا کی باقی عورتوں کی طرح ایک سرخ لباس میں خود کو صدر کے ساتھ حجلہ عروسی میں دیکھنا چاہتی تھی؟ کیا اس خاص، خوشبوئوں سے لدی پھندی اور رویات سے بوجھل رات میں کوئی خاص بات ہوتی، ایسا کیا تھا جو جنسی اختیارات حاصل کرنے میں اب تک مانع رہا تھا،شوہر اور بیوی کا جنسی عمل بھی کوئی ایسی بات ہے،جس کا رومانس محسوس کیا جاسکے۔وہ تو ایک تھکی ہاری عادتوں میں روزبروز بدلتے جانے والا عمل ہے، ایک شخص کے ساتھ محبت کے نام پر اپنا پلو باندھ کر رات کو اسی پر پلو کھول دینا، نہیں یہ سب بہت عجیب تھا۔صرف ایک ہی شخص کیوں، ابھی اس کے پاس زندگی تھی، ایک بھرپور لمبی اور سانس لیتی ہوئی تازہ دم زندگی۔ وہ الگ رہ سکتی تھی، اسے تکلفات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا جانے والا جنسی عمل پسند نہیں تھا، جیسا ان دو افراد کے بیچ ہوتا ہے، جو پتی پتنی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔اس میں دونوں کو ایک دوسری کی جنسی تہذیب کا خیال رکھنا پڑتا ہے، جنسی تہذیب؟ یہ بھی کوئی بات ہے؟اس کا تو دل چاہتا تھا کہ صدر اور وہ ایک دوسرے کے بدن سے کھیلیں، ویسے ہی، جیسے کوئی ضدی بچہ پلاسٹک کے بازیچوں کے ساتھ کھیلتا ہے ، غباروں کے ساتھ کھیلتا ہے۔وہ اپنے بدن کے ہر انگ سے محبت کرتی تھی، اس کی محبت میں ہرنیوں کی سی وحشت تھی، وہ کسی پستانیے کی طرح زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی، جس کا مقصد صرف اپنی اولاد کو دودھ پلانا ہو، وہ اپنے سینے کی حفاظت کرنا چاہتی تھی، اسے اپنی مرضی سے برباد کرنے کے لیے۔جب بھی صدر اس کے سینے کے درمیان موجود خاکی لکیر پر ہاتھ رکھتا،اس کی سانسیں گرم ہونے لگتی تھیں، رانوں کے درمیان کوئی آبشار ابلنے کے لیے بے تاب ہونے لگتا اور سرد موسم میں بھی حدت کی ساری تہیں اس کی ہتھیلیوں میں جذب ہونے لگتیں۔اسے یاد تھا کہ کسی شخص نے اسے بتایا تھا کہ انسان کیچڑ سے بنائے گئے ہیں، لبلبلی مٹیوں سے، جن کو مٹھیوں میں بھرنے کے بعد انگلیوں کے کھانچوں سے نکلتے ہوئے دیکھنے میں ایک سلیٹی سی فرحت محسوس ہوتی تھی۔ایک دفعہ اس نے ایک آدمی کے منہ پر تھوک دیا تھا، جب اس نے کہا تھا کہ عورت کی تکمیل تو ماں بن جانے میں ہے۔حالانکہ اتنا غصہ اسے اچانک کیوں آیا وہ اس کی وجہ نہیں جانتی تھی، مگر ماں بن جانا، قدرت کی جانب سے اس کے نزدیک ایک اضافی بوجھ تھا، ہر عورت پر۔جو دھیرے دھیرے ذمہ داری سے پسند میں بدلتا چلا گیا اور پھر عورت نے لاچاری میں اس تصور کو اپنی ذات کے سب سے اونچے کنگورے پر ٹانگ کر دیکھنا شروع کردیا تاکہ وہ اس لعنت کو کم از کم جب بھی دیکھے، سر اونچا کرکے دیکھے۔ماں بن جانا، ضروری نہیں ہے، ایک عورت بچے کو جنم دے سکتی ہے، بغیر ماں بنے بھی۔عورت کی چھاتیوں میں بننے والا دودھ دراصل اس گرم خون کا پہلا قتل ہے، جو اس میں جنسی حرارت پیدا کیا کرتا تھا۔وہ دنیا کی ساری ماؤں کو بتانا چاہتی تھی کہ انہیں اپنے بچے اس شرم اور جھجھک کے ساتھ نہیں پالنے چاہیے کہ زندگی بھر اپنے ہی پستانوں کو بغلوں میں دبا کر گھومنا پڑے۔اسے تقدس سے چڑ تھی، کسی بھی قسم کے تقدس سے۔عورت کو دیوی، ماں یا اس کے پیروں میں جنت رکھنے کی روایتی فکروں سے اسے سخت الجھن ہوتی تھی، وہ نہیں چاہتی تھی کہ جب وہ کوئی لڑکا پیدا کرے تو اس کا بچہ اپنی گوشت سے بنی ہوئی ایک سادہ اور جنسی خواہش رکھنے والی عورت کو کوئی مقدس ہستی سمجھ بیٹھے اور اس کے ہونٹ چومنے، سینے پر ہاتھ رکھنے اور گلے لگنے پر پستانوں کی موجودگی کو نظر انداز کرنے کے رائج طریقوں سے آشنا ہو۔وہ سوچتی تھی کہ اگر کبھی اس نے بچے کو جنم دیا تو وہ ایک انسان کو تخلیق کرے گی، اپنے ہی بطن سے، اپنے ہی جیسا ایک گوشت کا سانس بھرتا ہوا لوتھڑا۔کیچڑ سے بنا ہوا، اسی کی طرح ، سلیٹی خوشبو سے لیس۔برسات کا زور نہیں تھم رہا تھا اور بھیگنے کی اس میں ہمت نہ تھی، بدن سردی کی شدت سے جھرجھری لینے لگا تو اس نے اپنے آپ کو زانوئوں کے چادر میں لپیٹ لیا، لیکن کچھ دیر یونہی بیٹھنے کی وجہ سے گھٹنوں میں درد ہونے لگا اور گلے میں خشکی سی محسوس ہوئی۔رات کسی اندھے ، گہرے غار کی طرح منہ کھول کر چیخ رہی تھی اور اس کے منہ سے نکلنے والا ٹھنڈی ہواؤں کا بھبھکا کچ کی کنپٹیوں پر زور ڈال رہا تھا، اس کے روئیں روئیں کو چھو رہا تھا۔ اس نے اس بھیانک حملے سے بچنے کے لیے خود کو جھریوں والے حصے میں ایک طرف بٹھا دیا، اب اس کے اور ہوا کے بیچ ایک موٹی دیوار کی پرت تھی، مگر زمین بالکل نم تھی، اتنی سرد اور ایسی سوجی ہوئی، جیسے فریزر میں رکھا ہوا پپیتا ہو۔اس کے کولہے اس سردی سے کچھ دیر تک خود کو بدن کی گرمی کی وجہ سے برداشت کرسکتے تھے، وہ سکڑ کر کونے میں ہی ہلکی غنودگی میں ڈوب گئی۔مگر اب بھی اس لڑکی کا دھیان اس کے دماغ کے ریشوں میں چوکڑیاں بھر رہا تھا۔

 

کیا ایک عورت بغیر رقابت کے زندہ نہیں رہ سکتی، وہ بھی تو انہی عورتوں کی طرح اس معاملے میں پیش آرہی تھی جو مرد کی ناف پر اپنا نام کھدوادینا چاہتی ہیں۔لیکن رقابت کی یہ عجیب و غریب پہیلی عورت ہی کے حصے میں تو نہیں آئی، مرد بھی عورت کے کون سے دوسرے رشتے کو برداشت کرسکتا ہے۔اور پھر سوال یہاں شاید رقابت کا نہیں تھا، یا پھر شاید پہلے کے کچھ لمحوں میں رہا ہو، مگر اب نہ تھا۔اب وہ اپنے اور صدر کے تنہائی پسند تعلق میں ایک تیسرے سایے کو پھیلتا ہوا دیکھ رہی تھی، اسے لگا کہ این نامی وہ لڑکی ، کون تھی، کب تھی ، شاید اس بات سے اسے کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا، خاص طور پر اب جب وہ اس معاملے پر سرد موسم میں ٹھنڈے دل سے وچار کررہی تھی۔وہ شاید اب یہ سچ جانتے ہوئے کہ ایک مست و بے خود سانپ اس طرف لپک رہا ہے، اپنے آپ کو ، اپنے جسم کے سبز ناگ کو صدر کے تن سے لپیٹے رکھنے میں برائی محسوس کررہی تھی۔اب تک اس نے کوئی رشتہ دل سے نہیں بنایا تھا، صدر بلاشبہ وہ پہلا شخص تھا، جس نے اس کے بدن کی آیتوں کو ترجمے ہی نہیں تفسیر کے ساتھ پڑھا تھا، ان پر بحث کی تھی، انہیں اچھا یا خراب، مقبول یا منسوخ قرار دیا تھا۔مگر اب یہ کھیل اور کتنے دن جاری رہ سکتا تھا، سانسوں کا جھرنا، اس کی ناف کے نیچے موجود سیاہ جھلیوں کی کٹوری میں کہاں تک ٹھہرتا، ایک نہ ایک روز تو چھلکنا تھا، اور پھر آج تو یہ رات بھی طوفانی ہورہی تھی، اندر و باہر کا اتنا پانی اس کے شریر کے چلو میں کیسے سماسکتا تھا، سو اس نے ہمیشہ کے لیے خود کو اس رشتے سے الگ کردینے کا یہ سب سے بہتر موقع سمجھا تھا۔یا پھر یہ بالکل بے ارادہ سی کیفیت تھی، جیسے کبھی کبھی کوئی مسافر بغیر کسی منزل کے بھی راستوں پر نکل پڑتا ہے، صرف اپنی ذات کی بے چینی کی وجہ سے۔کچ کے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہورہا تھا۔ بہت دیر اسی غنودگی کے عالم میں بیٹھنے کے بعد اسے اچانک متلی سی محسوس ہونے لگی، ایسے میں جب اسے واپس اسے صدر کے برابر میں پھیلے کمفرٹر کی گرم آغوش میں چلے جانا چاہیے تھا، وہ برسات میں باہر کی طرف نکل کھڑی ہوئی۔کالی گھنی برسات میں سفید بوندوں کی ایسی یلغار اس پر شروع ہوئی کہ اس کا تقریبا ننگ دھڑنگ بدن بے جان سا ہونے لگا، برسات کے ہی دوران اسے دو چار الٹیاں ہوئیں، رات کا سارا کھانا باہر نکل چکا اور اب پتھ کی آخری ہری الٹی نے اسے بالکل بے دم کردیا۔اچانک اسے ایک ٹھیلہ دکھائی دیا، یا شاید وہ اس سے ٹکراگئی تھی، اس پر نیلے رنگ کی موٹی سی پلاسٹک تنی ہوئی تھی، شاید اس کے مالک نے اس پلاسٹک کو تان دیا تھا تاکہ اس گھنگھور برسات میں لکڑی کا ٹھیلہ پھولنے سے بچ جائے، اسی ٹھیلے پر ایک جانب ایک کتیا اپنے چار بچوں کو بغل میں دبائے سانسیں بھررہی تھی، اس کی پھولتی پچکتی پسلیوں کی کسرت بتارہی تھی کہ وہ گہری نیند میں ہے،ٹھیلے کو لگنے والی ٹھیل سے اس میں کچھ انگڑائی سی کیفیت پیدا ہوئی، لیکن ٹھنڈ کی اتھاہ گہرائی میں اترجانے کے ڈر سے وہ خود اپنے بچوں سمیت اپنے ہی بازوئوں میں دوبارہ سمٹ گئی۔وہ کتیا کی بغل میں ٹانگوں کو گھٹنوں کے بل موڑ کر لیٹ گئی، ٹھنڈ تو بہرحال تھی، مگر پانی کی بہت دھیمی پھوار پڑرہی تھی، کچھ دیر بعد اسے ہوش ہی نہیں رہا کہ وہ سورہی ہے یا جاگ رہی ہے، ایسا لگتا تھا جیسے اس کی کمر پر کوئی بھاری بوجھ رکھ دیا گیا ہے، بہت سارے بھیڑیے مل کر اس کی چھاتی کو بھنبھوڑ رہے ہیں اور وہ رسیوں سے بندھی،سر کو اچکا کر اپنے ہی جسم سے اٹھنے والے تعفن اور نوچے جانے والے گوشت کے ٹکڑوں کو دیکھ رہی ہے، اچانک اسے لگا جیسے اسے ایک بہت اونچی عمارت سے پھینک دیا گیا ہے، مگر نیچے گرنے سے پہلے ہوا نے اچک کر اس کے بالوں کو ایک بہت بڑے سے ہینگر میں ٹانگ دیا ہے۔اس نے یہ بھی دیکھا کہ وہ مرچکی ہے اور اس کی ارتھی پر بہت ساری عورتیں بال کھول کر رورہی ہیں، چیخ رہی ہیں، مگر ان کے منہ سے عجیب و غریب اور دل کو جھنجھوڑنے والی آوازیں نکل رہی ہیں۔انہی عورتوں میں صدر بھی شامل ہے، اس کے بھی سینے پر پستان کے دو بھاری پھول کھل اٹھے ہیں اور وہ ماتھے پر لال رنگ کا بھبھوت لگائے ، ہاتھوں میں موجود چوڑیوں کو زمین پر مار کر توڑ رہا ہے۔بہت دیر سے اسی کیفیت میں موجود رہنے کے بعد اسے لگا جیسے کوئی اس کے کولہے کو ہلکے ہلکے کھرچ رہا ہے، اس نے کروٹ لینی چاہی تو معلوم ہوا کہ وہ تو سیدھی ہی لیٹی ہے، کولہے پر ٹھیلے پر اگی ہوئی کوئی کیل مستقل چبھ رہی تھی، اس نے اپنے کپکپاتے ہوئے پوروں سے اس کیل کو چھوا، اس کے سینے پر ایک پلا آکر لیٹ گیا تھااور اتنی ہی بے خبری کے ساتھ سورہاتھا، جیسے کوئی معصوم بچہ اپنی ماں کی چھاتی سے لپٹ کر ،گرم و گداز اور گدگدے بدن کی لہر میں لپٹ کر اپنے بند نتھنوں کی الجھن کو بھول کر سوجاتا ہے۔اسے صدر کا دھیان آیا، شاید وہ یہ سب کچھ جو کررہی تھی، ٹھیک نہیں تھا۔اس نے بڑی محنت سے اپنی ہمت کو مجتمع کیا اور دوبارہ اسی سمت کو لوٹ گئی جدھر سے آئی تھی۔بارش ابھی بھی فراٹے سے ہورہی تھی، اور اندھیرا بدستور اپنی کوربینی پر دہاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔مگر وہ ٹٹولتے ہوئے صحیح سمت میں پہنچ گئی۔

 

گھر پہنچ کر سب سے پہلے اس نے بھیگے ہوئے بدن کو بہت تھکا ہوا محسوس کیا، اتنا کہ وہ اپنے ہی بوجھ کو اٹھانے سے قاصر معلوم ہوتی تھی، سلائڈنگ کھلی ہوئی تھی اور ہوا کے ساتھ ساتھ پانی کی زبردست پھواریں اندر بھی داخل ہورہی تھی، فرش پر اور دیواروں پر پانی ہی پانی نظر آرہا تھا، جیسے وہ اجلے خوابوں کی ایسی گھٹی ہوئی آوازوں اور بجھی ہوئی امیدوں پر پڑا ہوا پانی ہو، جس کو واپس بھیجنا ناممکن سا ہی ہوا کرتا ہے۔اس نے اپنے بدن کی اس تکان کو بہت دیر تک صوفے پر بیٹھ کر اس کی گیلے سفنج میں جذب کیا ، پھر یکایک اس کی نظر صدر کی بنائی ہوئی ایک تصویر کی جانب گئی ، جس میں ایک کاگ پستان کو اپنے منہ دبائے حرص کے مارے اڑرہا تھا اور ایک بڑی سی چیل اس کے پیچھے منڈرارہی تھی، اس نے اٹھ کر تصویر میں موجود پستان کو چھوا،وہ اس تصویر کامطلب کئی دفعہ صدر سے پوچھ چکی تھی، مگر کچھ نہیں بتا تا تھا یا شاید بتاہی نہ پاتا ہو۔وہ کسی فرانسی داداازم کا حوالہ دے کر اس کے سوال کو ہوا میں اڑا دیا کرتا تھا، مگر کوئی تو مطلب ہوگا جو کاگ کے پنجوں میں دبے ہوئے اس پستان کو ایک مخصوص مطلب دے سکے۔صدر کہتا تھا، وہ اپنی ہر تصویر میں موجود ہوا کرتا ہے، تو کیا وہ اس تصویر میں بھی تھا، وہ کاگ تھا،یا چیل تھا یا پھر پستان یا پھر وہ خلا جو ان تینوں کے درمیان موجود کشمکش اور ندیدگی کو کسی لاچار بوڑھے کی طرح دیکھ رہا تھا۔اسے بہت دیر تک کچھ سمجھ میں نہ آیا تو اس نے الجھن میں دیوار پر ابھر آئے پلاستر کو اپنے لمبے ناخن سے ادھیڑنا شروع کردیا۔ہوا کی ایک تیز لہر نے اس کے سن ہوتے ہوئے بدن کا احساس جب بے حد شدید کردیا تو وہ ہال سے ملحقہ باتھ روم میں گھس گئی اور باتھ ٹب میں لیٹ کر کافی دیر تک گرم پانی کی آغوش میں اپنے جسم کو جگانے کی کوشش کرتی رہی۔عجیب سی بات تھی، یہی پانی تھا بس سرد و گرم کی وجہ سے اس کی تاثیر میں ایسی تبدیلی واقع ہوئی تھی کہ ایک کچ کے حق میں زہر بن گیا تھا تو دوسرا اس زہر کو چوس کرباہر نکال لینے والا چارہ گر۔نہا کر نکلنے کے بعد جب وہ کمرے میں گئی تو صدر غائب تھا، اتنی رات میں وہ کہاں نکل سکتا تھا، ہوسکتا ہے، اسے ہی ڈھونڈنے گیا ہو، کچ کو بہت تیز سردی کا احساس ہورہا تھا، اس کا سارا بدن پھک رہا، دماغ پھوڑے کی طرح پھولنے پچکنے کے عمل میں مصروف تھا ، مگر ایسے میں بھی اسے اس بات سے بہت فرحت محسوس ہوئی تھی کہ صدر اتنی بھیانک رات میں اس کی تلاش میں نکلا ہے، وہ شخص جس کے اندر اپنی ہی پرواہ کے جراثیم بالکل نہ پائے جاتے ہوں، کچ کی عدم موجودگی سے اتنا پریشان ہوگیا تھا۔اسے یہ سوچ کر خوشی ہورہی تھی، اسی خوشی میں اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھے ہوئے ریکارڈر کے تار کو چھیڑدیا۔اس میں سے جل ترنگ کی لہریں پیدا ہونی شروع ہوگئیں۔

 

راہ تکے من ہارے نہیں
اب کوئی کہیں ہے کوئی کہیں
کیوں راہ تکے من ہارے نہیں

 

کمرے کی لائٹ آن تھی، بارش کے شور کی گرج ہولے ہولے مدھم پڑرہی تھی، وہ کمفرٹر میں گھس گئی اور ابھرتے ہوئے سورج کی گرد میں نہ جانے کب اس کے بھاری اور گہرے سرخ پپوٹوں کا آفتاب غروب ہوگیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *