Laaltain

پریم سنگ

5 اگست، 2013
Picture of علی زریون

علی زریون

شناخت
تمہاری سب سے پہلی پہچان اور شناخت “انسانیت” ہے ..تمہارا سب سے پہلا مذہب “انسانیت” ہے ..دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں کہ جس میں انسانیت کا سبق نہ ہو ! اور اگر تم یہ سبق بھول چکے ہو تو جان رکھو کہ تم کسی مذہب کا نہیں ،دکھاوے کا شکار ہو ..! تمہارا سب سے پہلا سبق انسانیت ہے ..تمہارا سب سے پہلا “ہونا ” انسانیت ہے!
تم خدا سے ہو اور خدا تمھارے بعد ہے ! اور اس بات پر مہر بھی اسی کی ثبت شدہ ہے،کہ اس نے یہ تمام کائنات تمہارے لئے تخلیق کی ! تا کہ تم جان سکو ،دھیان کر سکو ! اور تم الجھ گئے ! کیوں ؟ صرف اور صرف اس لئے کہ تم ہاتھ دھو کر “خدا ” کے پیچھے پڑ گئے ،کہ کسی طرح خدا ہاتھ آ جائے .کوئی سراغ ،کوئی پتا مل جائے ! اور یہیں سے تمہاری الجھن کی مسافت کا آغاز ہو گیا کہ جس نے اپنی نشانیاں تمہارے اپنے وجود میں پنہاں رکھیں ،اسے تم نے باھر ڈھونڈھنا شروع کر دیا!
بات تو تمھاری تھی ! بات تو تمہاری پہچان کی تھی ! تم نے “اپنی ” چھوڑ دی اور اس کی پہچان کے پیچھے پڑ گئے ! تم چاہتے ہو کہ خدا ہاتھ آ جائے ،نہیں آے گا ! کیسے ہاتھ آئے گا بھلا ! یقین جانو کہ تم دنیا کے کسی بھی منطقے پر چلے جاؤ تمہیں “بندہ ” نظر آئے گا ! انسان نظر آئے گا ! انسانیت جو تمہارا خوبصورت ترین “ہونا” ہے ! ایسا ہونا کہ جس پر تمہیں مخلوقات سے اشرف ترین قرار دیا گیا! وہ ہونا کہ جو تمہارا تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تھا ! با الکل خالص ترین ہونا..
تمہیں ہندو برے لگتے ہیں جب ک تم بھی تو محض اس لئے مسلمان ہو کہ مسلمان کے گھر پیدا ہوئے ہو ..ہندوؤں کو مسلمان برے لگتے ہیں ،جب کہ وہ بھی رام رام اسی لئے کرتے ہیں کہ انہوں نے پیدا ہوتے ہی اپنے سامنے رام رام ہوتے دیکھی!
مذہب تمہیں کیا سکھاتا ہے ؟ کیا کبھی جانا ؟ کیا تم نے کبھی ایک مرتبہ بھی محض لفظی طور پر ہی سہی دھیان کیا کہ مذہب اور “مہذب” میں محض اور محض ایک حرف کا ہی تو فرق ہے ! مہذب مذہب ہی میں چھپا ہوا ہے ،بلکول اسی طرح جس طرح “راہ” ہار میں چھپی ہوئی ہے!
اگر آج تم اپنے اپنے مذہب کے ہوتے ہوئے بھی غیر مہذب ہو تو سبب صرف یہی ہے کہ تم نے جانا ہی نہیں کہ مہذب در اصل ہے کیا!!
تم اتنے برے مذہبی اسی لئے ہو کہ تمہیں پہچان ہی نہ ہو سکی کہ مذہب ہے کیا ! کیسی عجیب بات ہے کہ تم کہتے ہو کہ میں فلاں کا ماننے والا ہوں اور نہ اسے تمہاری خبر ہے اور نہ تمہیں اس کی ! تمہاری ساری الجھنیں اسی وقت تک تمھاری ہیں جب تک تم خود کو “پہچان “نہیں لیتے .تم نے خدا کو مسلہ بنا لیا جب کہ خدا سواے “معاملے” کے اور ہے ہی کچھ نہیں ! ایک خالص ذاتی معاملہ ! ایک نہایت دلی اور روحی معاملہ!
تمہیں موت سے بہت ڈر لگتا ہے ..لگتا ہے ناں !ایک ذرا سی زمین کانپی اور تم لرز جاتے ہو .. جانتے ہو ؟ کہ آدمی موت سے کب اور کس وقت ڈرا کرتا ہے ؟ اس وقت کہ جب اسے یہ علم نہ ہو کہ آیا کہاں سے ہے اور اسے جانا کہاں ہے ! کیا تمہیں کبھی پردیس سے دیس آتے ہوئے ڈر لگا ؟ کوشش کرتے ہو کہ جلد سے جلد گھر پہنچ سکو ..جتنی جلد ممکن ہو گھر چلا جاؤں تو [پھر بھلا اس گھر جانے سے کیوں ڈرتے ہو جہاں سے آئے ہو ..وہی تو اصل گھر ہے!
موت اس وقت تمہارے لئے بہت آسان ہو جائے گی جب تم اپنے ہونے کو پہچان لو گے ! اور جس وقت موت آسان ہو جائے گی، زندگی خود بخود سہل ہو جایا کرتی ہے۔ اور بادشاہ سوہنہا ! تمہارا سب سے خوبصورت ،سب سے سوہنا اور پہلا “ہونا” انسانیت ہے ! صرف اور صرف انسانیت!!
انسانوں سے پریمتا ،سب سے بڑی عبادت
اپنے من کو کھوجنا ،سب سے بڑا جہاد!
خیر ہو..

 

تیرے لیے .۱
تو چاہتا ہے کہ تجھ پر آثارِ کائنات اور ‘ذات’ کا بھید کھول دیا جائے۔۔۔ جب کہ تیرے سینے میں رقت اور ذہن میں وسوسے ہیں۔۔۔ کیسے ممکن ہے؟؟ تو چاہتا ہے کہ تجھے وہ علم بتایا جائے جو علمِ کبیر کہلاتا ہے۔۔۔ جب کہ تو اپنے ساتھ اپنا معروضی اور سوالوں سے بھری سلیٹ لے کر آیا ہے۔۔۔ کیسے ممکن ہے؟؟ تو چاہتا ہے کہ تیری نگاہ پر وہ رازِ ہست ظاہر کیا جائے، جس کی شیرینی اور تلخی اپنے مقام اور کیفیات میں نہایت تیز ہے اور جسے اندھے ہوئے بنا نہیں دیکھا جا سکتا۔۔۔ اور تو آنکھیں لے کر دیکھنا چاہتا ہے۔۔ کیسے ممکن ہے؟؟
تو چاہتا ہے۔۔۔ اور بھلا بتا کہ پھر تجھ میں اپنی چاہت کیسے ظاہر کر دوں کہ جو ملتی ہی تب ہے جب ہر چاہت سے خالی ہو جایا جائے۔۔ تو کیسے ممکن ہے؟؟ تو میرا ہونا چاہتا ہے۔۔ اور اِس حال میں جب کہ تو خود ابھی ‘ہے’۔ کیسے ممکن ہے؟؟
اے نادان!! اے نہ جاننے والے!! اے میری جانب، دنیا کا معروضی علم لے کر آنے والے!! تو نہیں جانتا کہ علم سے بڑا حجاب، میں نے پیدا ہی نہیں کیا۔۔۔ تو تو یہ تک نہیں جانتا کہ علم کا علم کیا ہے؟؟؟ اگر یہی ایک راز تجھ پر فاش کر دیا جائے تو تو اپنا پیراہن تار تار کر دے اور اپنا جسم نوچ ڈالے…

 

تیرے لیے .۲
(ایک صوفی حکایت)
وہ سخت عاجز آ چکا تھا… اور اسے کہیں پناہ نہیں مل رہی تھی… آج چالیسویں رات تھی… اور انتہا کی سرد.. اُس کا پہرا بہت سخت تھا… اور وہ مستقل مزاج.. وہ رو رہا تھا… اُسے شدید طیش آ رہا تھا.. اُس کی نسیں تنی ہوئی تھیں اور چہرہ سرخ.. جسم جیسے آگ ہو.. وہ جل رہا تھا.. تپ رہا تھا.. بھڑک رہا تھا.. لیکن آگ بڑھتی جا رہی تھی.. اُس نے یکبارگی اپنا ہاتھ بڑھایا اور قریب پڑا ہوا تیز دھار خنجر اٹھا لیا.. اُس کا ہاتھ دھیرے دھیرے اپنے نچلے دھڑ کی جانب حرکت کر رہا تھا… قریب تھا کہ وہ ایک ہی وار کرتا اور خود کو اُس حصے سے محروم کر دیتا جو اُس کے نزدیک سارے فساد کی جڑ تھا..
“ہاں! یہ حصہ ناپاک ہے.. یہ گوشت کا لوتھڑا میرا دشمن ہے… ہاں یہی ہے جس کی وجہ سے میرا دھیان پکا نہیں رہ پا رہا.. آج میں اسے کاٹ ڈالوں گا… پھر کوئی وحشت نہیں رہے گی اور میں “شہوت” سے پاک ہو جاؤں گا”..
اُس کی زبان پر یہ جملے تھے.. اُس نے خنجر نزدیک کیا اور اس سے قبل کہ وہ اپنا ارادہ پورا کرتا.. فضا ایک با رعب آواز سے گونج اُٹھی..!!
ندا آئی “یا عبدی!.. اے میرے بندے!”، اور اُس کی آنکھیں یک لخت کھل گئیں.. اُسے یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے اُس کے جلتے ہوئے وجود پر گلابوں سے بارش کر دی ہو.. اُس نے آنکھیں کھولیں تو فضا نور سے بھر چکی تھی… آواز نے اپنے لہجے کا دائرہ مکمل کر دیا.. اور پھر گونجی..
“اے نادان! تو سمجھتا ہے کہ یہ حصہ ناپاک ہے… تیرے جسم کا یہ حصہ جسے تو کاٹ دینا چاہتا ہے، کاٹ دیا جائے تو تو آرام پا جائے گا؟؟ نہیں!! ہرگز نہیں.. یاد رکھ.. کہ اگر تو نے اِسے کاٹ دیا تو میں تیرے بال بال میں شہوت بھر دوں گا.. پھر تو کیا کرے گا؟؟”۔
سالک سجدے میں گر چکا تھا.. زار و قطار آنسو تھے اور اُس کی جلتی ہوئی آنکھیں.. اُس کا سینہ خیر سے بھر چکا تھا.. آواز پھر آئی.. “نادان! اِس جذبے کو جاننے کی کوشش کر!! کہ اِس کا منبع و مرکز کہاں ہے؟؟ نادان اِس کا تعلق تیرے اس حصے سے نہیں جسے تو قصور وار گردان رہا ہے”… “دھیان کر!!”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *