علی زریون
تخلیق کاری کائنات کا خوبصورت ترین منصب ہے
میں جب جب ان تخلیق کاروں کے گروہ کی طرف دیکھتا ہوں کہ جن کا کام محض نقالی رہ گیا ہے تو سوچتا ہوں کہ طلب – شہرت ،اس غیرت – تخلیق کو کیسے کھا جاتی ہے جسے ایک سچا تخلیق کار کسی بھی حال میں ترک نہیں ہونے دیتا ..اردو شاعری میں چربے اور نقالی کی بھونڈی ترین مثالیں جیسی اب آ رہی ہیں ،کبھی ایسا نہیں تھا ..ذریعہ – ابلاغ کی ہر کس و نا کس تک رسائی نے جہاں بہت سے مفید عوامل پیدا کئے ہیں ،وہیں ایک ایسا بنیاد
ی خلا بھی برپا کر دیا ہے کہ جس میں شاعروں کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے جو اپنے جز وقتی اور کچے پکے خیالات کو جلد سے جلد “مقبول و معروف ” کروانے کے چکر میں بے حال ہوئے نظر آتے ہیں ..
محض کوئی چمکتی ہوئی ردیف سامنے آنے کی انتظاری ہے اور بس پھر چل سو چل ..جو زمین میں غزل نہیں کہ سکے گا وہ سب سے آسان طریقہ ڈھونڈھ لے گا ،کہ ردیف کو بدل لو اور غزل ارشاد فرما لو ..چلو جن لوگوں کی عمریں اسی دشت کی سیاحی میں بیت گئیں ،انھیں تو آپ کہ سکتے ہیں کہ تخلیقی آگ ٹھنڈی پڑ گئی سو اب جواں خیالات کی خیرات کھا کر اپنا گزارا کرتے ہیں (جب کہ ایسے کئی بزرگوں کو میں جانتا ہوں جو آج بھی تخلیقی طور پر نوجوان ہیں ) مگر ان نو جوانوں کو کونسی بلا پھر گئی کہ بجائے اپنی الگ فکری رو تلاش کرنے کے ،اسی ڈگر پہ چل پڑے کہ “ہیں ؟؟ ایسی اچھی ردیف ؟ ایسی عمدہ زمین ؟ بس کرو اس میں تبدیلی اور کہو ایک دھانسو غزل “..حد ہے ..
تخلیق کار کا محض تخلیقی ہی نہیں ،کیفیتی طور پر بھی غیرت مند ہونا سب سے بلند مرتبہ ہے ! عزت تو سوائے سائیں کے اور کسی کے لئے ہے ہی نہیں ،تو جب اختیار ہی سارا اس کا ہے تو آپ کس چکر میں حال سے بے حال ہوئے جاتے ہیں ؟ مجھے میرے سائیں جی کی بات یاد آتی ہے کہ سرکار نے بہت واضح طور پر فرمایا تھا کہ “علی ! خبردار ! خود کو دھوکہ مت دینا ! ” ..بھلا اس سے بڑا دھوکہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ آپ کو ہے کہ آپ غلط کر رہے ہیں ،آپ کو پتا ہے کہ آپ جس بات پر یہ “داد و دہش ” وصول کر رہے ہیں یہ تو آپ کی ہے ہی نہیں ! لیکن آپ کی آنکھیں بند ہیں ،میرے بادشاہ ! یہی خود کو دھوکہ دینا کہلاتا ہے ..! اس کا سب سے بڑا نقصان ہی یہ ہوتا ہے کہ آپ وقتی طور پر تو ایک شور مچا لیتے ہیں ،لیکن وہ شور محض انہی کی نظر میں اہمیت رکھتا ہے جنھیں “اصل ” کی خبر نہیں ہوتی ،اور وہ جو “اصل ” کو جانتے ہوتے ہیں وہ ہنس رہے ہوتے ہیں کہ کیا اس شخص سے زیادہ بھی کوئی اندھا ہوگا کہ جو کسی کا مانگا ہوا لباس پہن کر یہ سمجھ رہا ہے کہ مجھ سے زیادہ خوش لباس اور کوئی نہیں ! کیوں کہ اگر محض کسی جاگی ہوئی روح کی کہی ہوئی بات دہرا دینے سے کوئی صوفی ہو جاتا تو “قوالوں ” سے بڑا صوفی اور کوئی نہ ہوتا ! تخلیق کاری کائنات کا خوبصورت ترین منصب ہے ! اگر آپ تخلیق کار ہیں تو آپ کا اور کچھ ہونا ضروری ہو یا نہ ہو لیکن تخلیقی طور پر غیور ہونا بہت لازمی ہے ..!! محبّت اور خیر
محبت کے بارے میں سب سے مہلک بکواس
خدا کے بارے میں سب سے خطرناک جھوٹ “تصوّف ” اور محبّت کے بارے میں سب سے مہلک بکواس “شاعرى” کی ذیل میں کی گئی ہے ..یہ دونوں الہی و روحی منطقے ،نام نہاد متقیوں اور بغیر از علم “منطقیوں” کے ہاتھوں ہرغمال بنائے گئے اور بنے ہوئے ہیں ..آج کے اس عہد – لا کیفیت میں سب سے آسان کام ،”صوفی و شاعر” بننا رہ گیا ہے ..”تصوّف ” صافیوں کا “حال ” تھا ،جس میں مداری آ گئے ..شاعرى ،محبین کا قال تھا ،جس میں اداکاروں اور منافقوں نے شرکت شروع کر دی ..کیسی عجیب بات ہے کہ “ہجر ” وہ بیان کر رہا ہے جسے “وصال ” کا علم ہی نہیں …بھلا جو کبھی نگاہ – یار کو موصول ہی نہیں ہوا وہ “فراق” کیا بیان کر سکے گا ..!! .میں آج جس لفظ – امیر و اسم – کبیر کی دھجیاں اڑتے ہوئے دیکھ رہا ہوں وہ “عشق ” ہے ..عشق خود خدا ہی کا اسم – کبیر ہے ،یہ اس قدر خالص اسم ہے جس کی تحقیق میں کئی “حق زدگاں” اپنے وصال کو پہنچے ..تصوّف اور بیان – فقر کبھی بھی ایسا ارزاں تو نہ ہوا تھا جیسا آج کر دیا گیا ہے .ادب اتنا ذلیل تو کبھی نہ رہا تھا جیسا آج کر دیا گیا ہے .اور یہ تمام جہالت کا پھیلاؤ در حقیقت “بیرون ” کا پھیلاؤ اور “اندرون ” سے دوری کے سبب ہے .اپنے قرب اور ارادے کی پہچان کا سب سے بڑا فائدہ ہی یہی ہوتا ہے کہ آپ “جاہل ” نہیں رہتے ! کیوں کہ جھوٹ اور بکواس صرف اور صرف جاہلین کیا کرتے ہیں ،عارفین نہیں ..!! محبّت اور خیر