[blockquote style=”3″]
رضا رومی کی یہ تحریر ایکسپریس ٹریبیوں میں 13 فروری 2015 کو شائع کی گئی تھی۔
[/blockquote]
ترجمہ: عمید ملک
پشاور حملے کے تقریباً دو ماہ بعد بھی ابھی تک یہ غیر واضح ہے کہ پاکستان نے اپنی سمت تبدیل کی ہے کہ نہیں۔ اس سانحے کے بعد غم و غصہ کے بے مثال اظہار نے اب حسب معمول کی صورت اختیار کر لی ہے۔ افسر شاہی معمول کی گرفتاریوں کی مشق دہرا رہی ہے، سیاست دان بے معنی باتوں اور فوجی قیادت خود کو “ثابت قدم” ظاہر کرنے میں مشغول ہے۔ اسلام آباد میں لال مسجد جیسے ممنوعہ علاقوں میں سول سوسائٹی کے قدم دھرنے سے شدت پسندی اور اس کی متشدد اشکال کے خلاف عوامی تحریک کی کچھ امید ہو چلی تھی۔ مگر اس تحریک میں کم ہی لوگوں نے حصہ لیا اور بے حسی نے اسکی جگہ لے لی جوعمومی پاکستانی مزاج کا خاصہ ہے۔
شکار پور میں 61 عبادت گزاروں کے بہیمانہ قتل پر ریاست اور معاشرے کی خاموشی سے بڑھ کر اس بے حسی کی اور کیا مثال ہو سکتی ہے؟ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد جاری ہے اور ہزاروں افراد کو بظاہر انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کسی واضح منصوبہ بندی کے بغیر گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس مشق کا نتیجہ بھی ماضی کی ایسی کارروائیوں سے مختلف نہیں ہوگا۔ عدالتیں انہیں جلد یا بدیر ضمانت پر رہا کر دیں گیں۔ فوجی عدالتیں فعال ہورہی ہیں اور بہت سے پاکستانی انہیں عرصہ دراز سے ناکام عدالتی نظام کا علاج سمجھتے ہیں مگر ان کے موثر ہونے اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار نتائج دینے میں ابھی بہت وقت ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ تمام تشدد پسند عسکری گروہ کالعدم قرار دیے جائیں گے اور ان کے خلاف مقدمات چلائے جائیں گے، اس کے باوجود بہت سے گروہ اپنی سرگرمیوں میں آزاد ہیں ۔ جماعت الدعوۃ کبھی کالعدم ہوتی ہے اور کبھی نہیں۔ اہل سنت والجماعت کراچی میں جلوس نکالتی ہے اور وہ مدارس جو ایسی تنظیموں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں وہ پوری طرح فعال ہیں۔ یہ ماننا پڑے گا کہ انھیں فوری طور پر ختم کرنا ممکن نہیں ہے مگر کیا تین دہائیوں کے اس روزافزوں ناسور کے تدارک کا کوئی لائحہ عمل موجودہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
جب سینیٹ نے پنجاب پولیس سے مدارس کی بیرون ملک امداد کے بارے پوچھا تو ابتدائی جواب حسب معمول انکار کی صورت میں تھا۔ سینیٹر طاہر مشہدی یہ کہتے ہوئے رپورٹ کیے گئے کہ اس بات کے ٹھوس ثبوت پائے گئے ہیں کہ ” بیرونی امدادیافتہ مدارس پاکستان میں عسکریت پسندی کے فروغ میں ملوث ہیں “۔ سعودی سفارت خانہ یہ واضح کرچکا ہے کہ فلاحی مدارس، مساجد یا تنظیموں کو حکومت کی اجازت سے امداد فراہم کی جاتی ہے۔ اس سب نے حکومت کے اس اہم مسئلہ کو حل کرنے کے عزم کی قلعی کھول دی ہے۔ پاکستان کسی طور بھی درآمد کیے ہوئے نظریات اور فرقہ وارانہ کشمکش کا جنگی میدان نہیں بن سکتا جس سے معاشرے میں مزید خون بہے۔
واضح طور پر فوج دہشت گردی کے خلاف جدو جہد کی قیادت کر رہی ہے۔ عسکری و سیاسی قیادت پر مشتمل صوبائی کمیٹیاں جن کا پہلے اجلاس ہوا ہے ان کی سمت کا تعین فوجی قیادت نے کیا۔ جہاں یہ ہم آہنگی کی جانب ایک خوش آئند قدم ہے وہیں نیکٹا کا اہم ایجنسی کے طور پر کردار غیر واضح ہے۔ جلد ہی اقتدار میں آنے کے بعد نواز حکومت نے کابینہ کی دفاعی کمیٹی کی ازسرنو تشکیل کی اور اسےقومی سلامتی کی کابینہ کمیٹی کا نام دیا۔ اس کمیٹی کے قیام کا مقصد اندرونی و بیرونی سلامتی کے امر پر رہنمائی کے لیے قومی سلامتی کی ایک جامع پالیسی تشکیل دینا تھا۔ 2014 کے بیشتر حصہ میں جاری رہنے والی سیاسی شورش کے باعث سول حکومت کی اقتدار پر گرفت کمزور ہونے سے قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل نو پر سویلین بالادستی برقرار نہیں رہ سکی۔
اگر سیاسی خلفشار نہ ہوتا تو کیا سول حکومت اس جانب پیش قدمی کر پاتی؟ اگر وفاقی حکومت چلانے کے طریقے کو دیکھا جائے تو وضاحت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ ایسے شعبے جو سویلین دائرہ اختیار میں ہیں وہاں بھی اس حکومت کی کارکردگی مستحسن نہیں۔
خارجہ پالیسی کے اندرونی سلامتی پراثرات کا ادراک کرتے ہوئے فوجی سربراہ افغانستان، برطانیہ، امریکا اور چین سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ نئی افغان حکومت کے ساتھ تعلقات میں بہتری ایک خوش آئند قدم ہے۔ اگر چہ علاقائی سلامتی کی حالت میں تبدیلی پاکستان ہندوستان کے مابین روابط کی بحالی اور ماضی کے آسیب سے نجات کے بغیر ممکن نہیں۔ ہندوستان سے روابط کی بحالی کے لیے نواز شریف بہترین انتخاب تھے مگر ان کے پر کاٹ دیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کیسے اس سب سے نبٹے گا؟ چین کے ساتھ صف بندی کافی نہیں ہے کیوں کہ ہند چین اقتصادی تعاون کئی سالوں کے دوران بہت بڑھ چکا ہے اور چین کسی بھی قسم کے ممکنہ تصادم کے امکان کوکم کرنے کے سوا کسی قسم کی مدد نہیں دے سکتا۔
پاکستان اب کسی طور نجی عسکری گروہوں سے تغافل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ان کے نیٹ ورک پچھلی دو دہائیوں میں بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں اور اب معاشرے میں اپنی جڑیں قائم کر رہے ہیں۔ نظریاتی بنیادوں پر استوارجہادی صنعت سے وابستہ ہزاروں انتہاپسندوں (جن میں سے بعض مسلح بھی ہیں ) کے خلاف کسی مربوط حکمت عملی کے بغیر کریک ڈاؤن اور پولیس کی کارروائیاں موثر ثابت نہیں ہو سکتیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے اس مسئلہ سے نبٹنے کے لیےدرکار بصیرت ناپید ہے۔
اس سے کہیں زیادہ تشویش ناک امر صوبائی حکومتوں کی جانب سے پولیس اصلاحات نہ کرنا ہے۔ نفری میں اضافہ وقتی طورپر سودمند قدم ہے۔ لیکن پولیس کلچر اور سہولیات میں اصلاح کے بغیر کسی نتیجے کی توقع عبث ہے۔ مقدمات کے اندراج اور تفتیش کے طریق کار میں اصلاح کےبغیر ججوں کے لیے کم زور مقدمات میں انصاف کی فراہمی ممکن نہیں۔ اعلیٰ صوبائی عدلیہ اپنی کارکردگی سے متنفر رائے عامہ سے بے خبر ہیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام کا مقبول عام فیصلہ (جو ابھی عدالتی نظرثانی کی زد میں ہے) انکی کارکردگی پر عدم اعتماد کا غیر مبہم پیغام ہے۔ ہائی کورٹس اگر کچھ کرسکتی ہیں تو وہ یہی ہے کہ دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی سماعت میں بہتری کے لیے ماضی میں دیے اپنے فیصلوں کی روشنی میں بہتری کی تجاویز دیں۔ اسی لیے فوج ہی وہ ادارہ ہے جو آگے بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور یہی پاکستان کا المیہ ہے کہ قومی سلامتی کے متنازعہ نظریات تشکیل دینے والا ادارہ ہی حالات سدھارنے کا اہل دکھائی دے رہا ہے۔
آخر میں ابھی تک وفاقی یا خبر پختونخواہ کی حکومت میں سے کسی نے کوئی تفتیشی کمیشن کیوں نہیں قائم کیا؟ اگرچہ یہ کمیشن ماضی میں بے سود رہے ہیں مگر جوابدہی کے کسی نظام کی موجودگی ضروری ہے۔ آخر کار کسی کو تو سولہ دسمبر 2014 کے واقعہ میں حفاظتی ناکامی کا ذمہ دار قرار دینا چاہیے۔ جواب دہی کا معاملہ عوامی مباحث میں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ حتٰی کہ نیک طنیت اراکین سول سوسائٹی بھی اس ملّا کی گرفتاری اور لال مسجد کے بند کرنے پر زیادہ متوجہ تھے جو یقیناً ایک اچھی علامت ہوتی مگر اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
ریاستی احتساب کا معاملہ پاکستان کو درپیش بحران میں بنیادی اہمیت کا حامل مسئلہ ہے۔ جب تک مقتدر ادارے جواب دہی پر مجبور نہیں کیے جاتے وہ ایسی غلطیاں مسلسل کرتے رہیں گے نتیجتاً شہریوں کو مزید الگ اور لا تعلق کرتے چلے جائیں گے۔ ریاست اور شہریوں کے مابین تعلق میں دراڑ پاکستان کے مستقبل کے لیے بہت خطرناک ہے۔ کیا واقعی سول اور فوجی اشرافیہ اس اٹل حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں؟ یہ ایک سوال ہی رہے گا۔ اسی لیے پاکستان کے مستقبل کے خطوط پر خطر ممکنات سے بھرے پڑے ہیں۔
شکار پور میں 61 عبادت گزاروں کے بہیمانہ قتل پر ریاست اور معاشرے کی خاموشی سے بڑھ کر اس بے حسی کی اور کیا مثال ہو سکتی ہے؟ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد جاری ہے اور ہزاروں افراد کو بظاہر انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کسی واضح منصوبہ بندی کے بغیر گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس مشق کا نتیجہ بھی ماضی کی ایسی کارروائیوں سے مختلف نہیں ہوگا۔ عدالتیں انہیں جلد یا بدیر ضمانت پر رہا کر دیں گیں۔ فوجی عدالتیں فعال ہورہی ہیں اور بہت سے پاکستانی انہیں عرصہ دراز سے ناکام عدالتی نظام کا علاج سمجھتے ہیں مگر ان کے موثر ہونے اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار نتائج دینے میں ابھی بہت وقت ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ تمام تشدد پسند عسکری گروہ کالعدم قرار دیے جائیں گے اور ان کے خلاف مقدمات چلائے جائیں گے، اس کے باوجود بہت سے گروہ اپنی سرگرمیوں میں آزاد ہیں ۔ جماعت الدعوۃ کبھی کالعدم ہوتی ہے اور کبھی نہیں۔ اہل سنت والجماعت کراچی میں جلوس نکالتی ہے اور وہ مدارس جو ایسی تنظیموں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں وہ پوری طرح فعال ہیں۔ یہ ماننا پڑے گا کہ انھیں فوری طور پر ختم کرنا ممکن نہیں ہے مگر کیا تین دہائیوں کے اس روزافزوں ناسور کے تدارک کا کوئی لائحہ عمل موجودہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
جب سینیٹ نے پنجاب پولیس سے مدارس کی بیرون ملک امداد کے بارے پوچھا تو ابتدائی جواب حسب معمول انکار کی صورت میں تھا۔ سینیٹر طاہر مشہدی یہ کہتے ہوئے رپورٹ کیے گئے کہ اس بات کے ٹھوس ثبوت پائے گئے ہیں کہ ” بیرونی امدادیافتہ مدارس پاکستان میں عسکریت پسندی کے فروغ میں ملوث ہیں “۔ سعودی سفارت خانہ یہ واضح کرچکا ہے کہ فلاحی مدارس، مساجد یا تنظیموں کو حکومت کی اجازت سے امداد فراہم کی جاتی ہے۔ اس سب نے حکومت کے اس اہم مسئلہ کو حل کرنے کے عزم کی قلعی کھول دی ہے۔ پاکستان کسی طور بھی درآمد کیے ہوئے نظریات اور فرقہ وارانہ کشمکش کا جنگی میدان نہیں بن سکتا جس سے معاشرے میں مزید خون بہے۔
واضح طور پر فوج دہشت گردی کے خلاف جدو جہد کی قیادت کر رہی ہے۔ عسکری و سیاسی قیادت پر مشتمل صوبائی کمیٹیاں جن کا پہلے اجلاس ہوا ہے ان کی سمت کا تعین فوجی قیادت نے کیا۔ جہاں یہ ہم آہنگی کی جانب ایک خوش آئند قدم ہے وہیں نیکٹا کا اہم ایجنسی کے طور پر کردار غیر واضح ہے۔ جلد ہی اقتدار میں آنے کے بعد نواز حکومت نے کابینہ کی دفاعی کمیٹی کی ازسرنو تشکیل کی اور اسےقومی سلامتی کی کابینہ کمیٹی کا نام دیا۔ اس کمیٹی کے قیام کا مقصد اندرونی و بیرونی سلامتی کے امر پر رہنمائی کے لیے قومی سلامتی کی ایک جامع پالیسی تشکیل دینا تھا۔ 2014 کے بیشتر حصہ میں جاری رہنے والی سیاسی شورش کے باعث سول حکومت کی اقتدار پر گرفت کمزور ہونے سے قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل نو پر سویلین بالادستی برقرار نہیں رہ سکی۔
اگر سیاسی خلفشار نہ ہوتا تو کیا سول حکومت اس جانب پیش قدمی کر پاتی؟ اگر وفاقی حکومت چلانے کے طریقے کو دیکھا جائے تو وضاحت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ ایسے شعبے جو سویلین دائرہ اختیار میں ہیں وہاں بھی اس حکومت کی کارکردگی مستحسن نہیں۔
خارجہ پالیسی کے اندرونی سلامتی پراثرات کا ادراک کرتے ہوئے فوجی سربراہ افغانستان، برطانیہ، امریکا اور چین سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ نئی افغان حکومت کے ساتھ تعلقات میں بہتری ایک خوش آئند قدم ہے۔ اگر چہ علاقائی سلامتی کی حالت میں تبدیلی پاکستان ہندوستان کے مابین روابط کی بحالی اور ماضی کے آسیب سے نجات کے بغیر ممکن نہیں۔ ہندوستان سے روابط کی بحالی کے لیے نواز شریف بہترین انتخاب تھے مگر ان کے پر کاٹ دیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کیسے اس سب سے نبٹے گا؟ چین کے ساتھ صف بندی کافی نہیں ہے کیوں کہ ہند چین اقتصادی تعاون کئی سالوں کے دوران بہت بڑھ چکا ہے اور چین کسی بھی قسم کے ممکنہ تصادم کے امکان کوکم کرنے کے سوا کسی قسم کی مدد نہیں دے سکتا۔
پاکستان اب کسی طور نجی عسکری گروہوں سے تغافل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ان کے نیٹ ورک پچھلی دو دہائیوں میں بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں اور اب معاشرے میں اپنی جڑیں قائم کر رہے ہیں۔ نظریاتی بنیادوں پر استوارجہادی صنعت سے وابستہ ہزاروں انتہاپسندوں (جن میں سے بعض مسلح بھی ہیں ) کے خلاف کسی مربوط حکمت عملی کے بغیر کریک ڈاؤن اور پولیس کی کارروائیاں موثر ثابت نہیں ہو سکتیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے اس مسئلہ سے نبٹنے کے لیےدرکار بصیرت ناپید ہے۔
اس سے کہیں زیادہ تشویش ناک امر صوبائی حکومتوں کی جانب سے پولیس اصلاحات نہ کرنا ہے۔ نفری میں اضافہ وقتی طورپر سودمند قدم ہے۔ لیکن پولیس کلچر اور سہولیات میں اصلاح کے بغیر کسی نتیجے کی توقع عبث ہے۔ مقدمات کے اندراج اور تفتیش کے طریق کار میں اصلاح کےبغیر ججوں کے لیے کم زور مقدمات میں انصاف کی فراہمی ممکن نہیں۔ اعلیٰ صوبائی عدلیہ اپنی کارکردگی سے متنفر رائے عامہ سے بے خبر ہیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام کا مقبول عام فیصلہ (جو ابھی عدالتی نظرثانی کی زد میں ہے) انکی کارکردگی پر عدم اعتماد کا غیر مبہم پیغام ہے۔ ہائی کورٹس اگر کچھ کرسکتی ہیں تو وہ یہی ہے کہ دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی سماعت میں بہتری کے لیے ماضی میں دیے اپنے فیصلوں کی روشنی میں بہتری کی تجاویز دیں۔ اسی لیے فوج ہی وہ ادارہ ہے جو آگے بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور یہی پاکستان کا المیہ ہے کہ قومی سلامتی کے متنازعہ نظریات تشکیل دینے والا ادارہ ہی حالات سدھارنے کا اہل دکھائی دے رہا ہے۔
آخر میں ابھی تک وفاقی یا خبر پختونخواہ کی حکومت میں سے کسی نے کوئی تفتیشی کمیشن کیوں نہیں قائم کیا؟ اگرچہ یہ کمیشن ماضی میں بے سود رہے ہیں مگر جوابدہی کے کسی نظام کی موجودگی ضروری ہے۔ آخر کار کسی کو تو سولہ دسمبر 2014 کے واقعہ میں حفاظتی ناکامی کا ذمہ دار قرار دینا چاہیے۔ جواب دہی کا معاملہ عوامی مباحث میں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ حتٰی کہ نیک طنیت اراکین سول سوسائٹی بھی اس ملّا کی گرفتاری اور لال مسجد کے بند کرنے پر زیادہ متوجہ تھے جو یقیناً ایک اچھی علامت ہوتی مگر اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
ریاستی احتساب کا معاملہ پاکستان کو درپیش بحران میں بنیادی اہمیت کا حامل مسئلہ ہے۔ جب تک مقتدر ادارے جواب دہی پر مجبور نہیں کیے جاتے وہ ایسی غلطیاں مسلسل کرتے رہیں گے نتیجتاً شہریوں کو مزید الگ اور لا تعلق کرتے چلے جائیں گے۔ ریاست اور شہریوں کے مابین تعلق میں دراڑ پاکستان کے مستقبل کے لیے بہت خطرناک ہے۔ کیا واقعی سول اور فوجی اشرافیہ اس اٹل حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے یا نہیں؟ یہ ایک سوال ہی رہے گا۔ اسی لیے پاکستان کے مستقبل کے خطوط پر خطر ممکنات سے بھرے پڑے ہیں۔