Laaltain

پاگل خانہ

16 ستمبر، 2015
بچے کہیں جاتے ہیں تو اُنہیں بار بار تاکید کرتا ہوں کہ پہنچتے ہی اطلاع کرنا اور ہاں کسی ایسے علاقے میں مت جانا جہاں دوسری زبان بولنے والے رہتے ہوں۔ نہ خود بتاتا ہوں اور بچوں کو بھی منع کررکھا کہ اپنے عقیدے کا کسی کے سامنے ذکر مت کرنا
محترم مبشر علی زیدی صاحب، آپ کی سو لفظوں کی کہانی “غلط فہمی” پڑھی تو سوچا کہ میرے ساتھ جو مسئلہ ہے وہ آپ کو لکھ کر دیکھ لوں شاید آپ میری کچھ مدد کرسکیں۔ میرے ایک دوست آج کل جیل میں ہیں، رشک آتا ہے اُن کی زندگی دیکھ کر، اکثر بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہیں، صبح کو حلوہ پوری، دوپہر میں سیخ کباب اور رات کو کبھی نہاری، تو کبھی بروسٹ یا پیزا کھاتے ہیں۔ اپنا پورا کاروبار جیل میں رہتے ہوئےموبائل سے کرتے ہیں اور اپنے بھتہ خور گینگ کو بھی جیل سے ہی چلاتے ہیں۔ بڑی جلدی بڑی ترقی کی ہےانہوں نے، اُن کی بیگم زیورات سے لدی رہتی ہیں اور ہربچے کے پاس نئے ماڈل کی کارہے۔ جیل میں رہنے کی وجہ سے میرے دوست کو نہ ٹارگٹ کلنگ کی فکر ہے، نہ ہی روڈ پر لٹ جانےکا ڈر، بم دھماکے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ہر جیل میں دھماکے کرنے والوں کے بھائی بھی مہمان ہیں۔ دوسری طرف میں ہوں، پرسوں رات ہی اپنے گھر کے سامنے لٹاہوں، آٹھ سو روپے لے گئے مگر موبائل پرانا دیکھ کر چھوڑ گئے، کسی طرف سے گولی نہ آجائےاس کی بھی فکر ہے، رات کو اٹھ اٹھ کر گھر کے دروازے اور تالے چیک کرتا ہوں، بچے کہیں جاتے ہیں تو اُنہیں بار بار تاکید کرتا ہوں کہ پہنچتے ہی اطلاع کرنا اور ہاں کسی ایسےعلاقے میں مت جانا جہاں دوسری زبان بولنے والے رہتے ہوں۔ نہ خود بتاتا ہوں اور بچوں کو بھی منع کررکھا کہ اپنے عقیدے کا کسی کے سامنے ذکر مت کرنا، میری ان ساری حرکتوں کو میرےبچے نوٹ کرتے ہیں، اور کہتے ہیں ابو آپ نفسیاتی مریض ہوگئے ہیں، گویاوہ بہت مہذب انداز میں مجھے سمجھارہے ہیں کہ ابو آپ پاگل ہوگئے ہیں۔ اب اگر میں پاگل ہوں تو پھرجیل سے باہر کی یہ دنیا تو پاگل خانہ ہے، لہذاجیل سے باہر آنے والوں کو صحیح بتایا گیاہے کہ جو بھی جیل سے باہر جائے گا اُس کی منزل پاگل خانہ ہوگی۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ اپنے ملک کی یوم آزادی سے لےکر آج تک “اب کیا ہوگا”، “اب کیا ہوگا” نے پریشان کیا ہوا ہے، لہٰذا اب میں سوچ رہا ہوں کہ کچھ دن کسی جیل میں رہ کر سکون سے گزار لوں، مگر ابھی تک کوئی تگڑی سفارش نہیں مل پائی ہے۔ اگر آپ کا کوئی جاننے والا میرا یہ کام کرادے تومیں آپ کا اور اُس کا بہت شکرگزار ہوں گا، کم از کم کچھ دن تو پاگل خانے سے دور رہ سکوں گا۔
پیشگی شکریہ،
فقط
ایک نفسیاتی مریض
سو (100)لفظوں کی کہانی
غلط فہمی
مبشر علی زیدی
میں نے جیل جیسی عمارت میں داخل ہونے کے بعد مڑکے دیکھا،
دروازے کے اوپر لکھا تھا، ’’پاگل خانہ‘‘
میں نے اُس شخص کو گھور کے دیکھا جو مجھے بہانے سے وہاں لایا تھا۔
اُس نے نگاہیں چرالیں اور اپنے افسر کے پاس چھوڑکے چلاگیا۔
میں نے افسر سے کہا،
’’شاید یہاں سب یہی کہتے ہوں گے
لیکن میں واقعی پاگل نہیں ہوں۔‘‘
وہ بولا، ’’مجھے معلوم ہے۔‘‘
میں نے پوچھا، ’’پھر مجھے پاگل خانے کیوں لایا گیا ہے؟‘‘
اُس نے کہا، ’’آپ غلط سمجھے۔
پاگل خانہ اندر آنے والے راستے پر نہیں،
باہر جانے والے دروازے پر لکھا ہے۔‘‘
سو (100) لفظوں کی کہانی بشکریہ روز نامہ جنگ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *