مغربی چین سمندر سے دوری کی وجہ سے مشرقی چین کی نسبت پسماندہ رہ گیا تھا، پسماندگی اور غربت کی وجہ سے مغربی چین میں آزادی کی تحریکیں جنم لینے لگیں۔ چینی قیادت نے ان علاقوں کی ترقی کے لیے پاکستان کے برعکس فوجی کارروائی کی بجائے 1978ءمیں ایک طویل منصوبے کا آغاز کیا۔ چینی رہنما "ڈنگ ژیاﺅپنگ” کے زمانے میں اس علاقے میں سڑکیں اور شاہراہیں تعمیر کی گئیں، ریلوے لائنیں بچھائی گئیں اور سرمایہ داروں کو مراعات دی گئیں۔ان اصلاحات کے باعث سرمایہ کاروں نے ان علاقوں کا رخ کیا اور آج وہاں بے شمار صنعتیں لگ چکی ہیں۔ ان صنعتوں کے لیے درکار خام مال درکار کے حصول کے لیے چین کو ایک لمبا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ کاشغر سے شنگھائی تک کا زمینی فاصلہ 5000 کلومیٹر ہےجبکہ گوادر کا فاصلہ صرف 2000 کلومیٹر ہےیہی وجہ ہے کہ چین نے پاکستان کو گوادر اقتصادی راہداری کی تجویز دی۔ چین اس راہداری کے ذریعے عرب ممالک، مغربی دنیا اور وسط ایشیا کے ساتھ منسلک ہونا چاہتا ہے۔
پاکستان کے راستے مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک کا ایک راستہ کھل جانے کی صورت میں چین کے تجارتی کاروان بارہ ہزار کلومیٹر کے اضافی بحری سفر سے بچ جائیں گے۔
چین انیس سو نوے سے مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک سے تیل درآمد کر رہا ہے اور آج چین دنیا کا سب سے بڑا تیل درآمد کرنے والا ملک ہے۔ سست رفتار آئل ٹینکر مہینوں طویل بحری سفر طے کرکے چین کے مشرقی ساحل تک پہنچتے ہیں جس سے نہ صرف رسد متاثر ہوتی ہے بلکہ بار برداری کے اخراجات میں بھی بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے راستے مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک کا ایک راستہ کھل جانے کی صورت میں چین کے تجارتی کاروان بارہ ہزار کلومیٹر کے اضافی بحری سفر سے بچ جائیں گے۔ دنیا کے سب سے بڑے تیل درآمد کرنے والےملک چین کیلئے اس سے خوش کن بات کیا ہوسکتی ہے کہ گوادر کا تجارتی راستہ کھل جانے سے 12 ہزار کلو میٹر مسافت سمٹ جائے جس سے ایک اندازے کے مطابق ایک برس کے درآمدی بل میں ہونے والی بچت مجوزہ اقتصادی راہداری پر اٹھنے والے اخراجات سے کہیں زیادہ ہوگی ۔ اس منصوبے کی کامیاب تکمیل سے چین امریکہ کی ممکنہ بلیک میلنگ سے بھی محفوظ ہوجائے گا جو وہ موجودہ سمندری سپلائی لائن کے حوالے سے گاہے بہ گاہے کرتا آیا ہے۔ بیجنگ امریکی بحری ناکہ بندی کے مسلسل دباو میں ہے اور کسی بھی ہنگامی صورت حال میں واشنگٹن تیل کی رسد کے چینی انتظامات کو درہم برہم کرسکتا ہے۔
اقتصادی راہداری کے حوالے سے پاکستان فطری طور پر نسبتاً زیادہ پرجوش ہے کیونکہ اقتصادی پریشانیوں سے نکلنے کیلئے اس کے پاس مواقع محدود ہیں جبکہ چین کیلئے اور راستے بھی کھلے ہیں۔ وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت اور رسل و رسائل کی ترقی کیلئے طویل شاہراہوں کا سلسلہ پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہےاور بڑے دہانوں والی پائپ لائنیں بچھ چکی ہیں۔ برما سے لے کر چین تک پائپ لائن منصوبے پر بھی کامکمل ہوچکا ہے، گوادربندرگاہ کے فعال نہ ہونے کی صورت میں تیل بردار ٹینکروں کو برما کے ساحل پر خالی کرکے پائپ لائن کے ذریعےچین پہنچایاجائے گا،اس راستے سے چین کو کم از کم چھ ہزار کلومیٹر سفر کی بچت ضرور ہوجائے گی۔
ایک جانب پاکستان میں اقتصادی راہداری کو معاشی ترقی کا ایک نیا دور قرار دیا جارہا ہے وہیں دوسری جانب اس منصوبے کی تکمیل کی راہ میں بہت سی روکاوٹیں بھی موجود ہیں۔ امریکہ اور ہندوستان کی جانب سے اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے، ایک امریکی تھنک ٹینک کا ماننا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری بے معنی شور شرابے کے سوا کچھ نہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس راہداری نے پاکستانی کشمیر سے بھی گزرنا ہے اس لیے بھارت نے اس منصوبے پر ناپسندیدگی کا اظہارکیاہے کیونکہ بھارت کو خدشہ ہے کہ اس شاہراہ کی تعمیر سے پاکستان کی کشمیر میں عمل داری مزید مضبوط ہوجائے گی۔
چینی شدت پسند مسلم تنظیموں کا معاملہ بھی پاک چین تعاون کی راہ میں حائل ایک بڑی روکاوٹ ہے۔ سنکیانگ میں جاری اسلامی تحریکوں اور علیحدگی پسند رجحانات کے ڈانڈے پاکستان سے جا ملتے ہیں ، ماضی گواہ ہے کہ چین کی زبردست خواہش کے باوجود اس سمت میں کوئی ٹھوس اقدامات دیکھنے کو نہیں ملے اور حالات بتارہے ہیں کہ مستقبل میں بھی شاید کچھ نہیں ہونے جارہا۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے سب سے اہم مسئلہ امن و امان اور غیر متوقع دہشت گردی کے واقعات ہیں۔ گوادر محفوظ جگہ نہیں رہی یہاں تعمیراتی کاموں میں مصروف کئی چینی کارکن علاقے میں جاری شورش کی زد میں آچکے ہیں۔ بلوچستان بھر میں گیس پائپ لائنز، بجلی کی ٹرانسمیشن لائنز ، سرکاری اور نیم سرکاری اہلکاروں کا اغوا اور اس جیسے کئی اور واقعات متواتر جاری ہیں۔ ایسے میں اگر اس راستےپر چینی تنصیبات اور قافلوں کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ سارا ہلا گلا دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ ثابت نہیں ہو گا۔
سنکیانگ میں جاری اسلامی تحریکوں اور علیحدگی پسند رجحانات کے ڈانڈے پاکستان سے جا ملتے ہیں ، ماضی گواہ ہے کہ چین کی زبردست خواہش کے باوجود اس سمت میں کوئی ٹھوس اقدامات دیکھنے کو نہیں ملے
پاکستان کو چین سے ملانے والی 800 کلومیٹر طویل شاہراہ قراقرام بھی محفوظ نہیں ،یہ شاہراہ کبھی قدرتی آفات کی زد میں رہتی ہے تو کبھی فرقہ واریت کی۔ یہ امر بھی خارج از امکان نہیں کہ اِ س منصوبے سے ناخوش ہمسائے اور عالمی طاقتیں بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے حالات خراب کرنے کے درپے ہوں۔ اقتصادی راہداری کیلئے چین نے جو راستہ تجویز کیا تھا وہ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ پر مشتمل تھا لیکن وزیراعظم نواز شریف نے وسائل کی کمی اور بلوچستان کے حالات کے پیش نظر نئی سڑک کی تعمیر کی بجائے اس شاہراہ کا راستہ بدل کر اسے حسن ابدال سے موٹروے کے ذریعے پہلے لاہورپھر ملتان اور وہاں سے گوادر لے جانے کی تجویز دی ہے۔چین کا مجوزہ راستہ کاشغر، ایبٹ آباد، حویلیاں، ڈیرہ اسماعیل خان، ژوب، کوئٹہ اور گوادر شامل تھے جبکہ نیا راستہ کاشغر، حسن ابدال، لاہور، ملتان، سکھر، حیدر آباد، رتو ڈیروسے ہوتا ہوا گوادر تک جا پہنچتا ہے۔اس شاہراہ کی اطراف میں جگہ جگہ اقتصادی زون بنیں گے اور صنعتیں لگیں گی، اگر یہ شاہراہ چین کے تجویز کردہ راستے پر تعمیر کی جاتی ہے تو دونوں پسماندہ صوبوں (خیبرپختونخوا اور بلوچستان) اور پنجاب و سندھ کے درمیان توازن پیدا ہوجائے گا اور ان علاقوں کی معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوگا۔ ہمیں اِن دونوں صوبوں کو اس منصوبے سے دور کرنے کی بجائے معاملات حل کرنے ہوں گے وگرنہ بلوچستان اورخیبرپختونخوا میں نفرت اور احساس محرومی میں اضافہ ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ وسائل کم ہونے کی آڑ میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو اس نعمت سے محروم کیوں رکھا جا رہا ہے جبکہ پنجاب کے کئی شہروں میں مہنگے میٹرو بس منصوبے شروع کیے جا چکے ہیں۔نئے تجویز کردہ راستے کے باعث چین کےلیے یہ فاصلہ کئی سو کلو میٹر بڑھ جائے گا۔ خبر یہ بھی ہے کہ وزیراعظم نے اقتصادی راہداری کے راستے میں تبدیلی کا ارادے ترک کر دیا ہے تاہم حتمی طور پر ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ میاں نواز شریف نے ایبٹ آباد حسن ابدال سیکشن کا افتتاح تو کردیا لیکن حسن ابدال تا گوادر تک شاہراہ کی تعمیر کےلئے کوئی لائحہ عمل نہیں دیا۔ حکومتی منصوبہ بندی کے باوجودایسے کسی بھی اقتصادی منصوبےکو عملی جامہ پہنانے کے لیے بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر کرنا ہو گی، ممبئی ، عمان اور بندر عباس جیسی بندرگاہوں کی فہرست میں گوادر پ کا شمار پرامن بلوچستان کی بدولت ہی ممکن ہےاور اس کے لیے پاکستان کو نہ صرف داخلی شورش بلکہ علاقائی اور عالمی طاقتوں کے گٹھ جوڑ پر بھی گہری نظر رکھنا ہوگی۔

Leave a Reply