[blockquote style=”3″]
پاک بھارت کرکٹ کی یہ مختصر تاریخ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ٹی ٹونٹی مقابلوں کی تاریخ پر مشتمل ہے۔ جب کہ دوسرے اور تیسرے حصے میں پاکستان اور بھارت کے مابین کھیلے گئے ون ڈے اور ٹیسٹ مقابلوں کی تاریخ کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔
[/blockquote]
پہلا حصہ
پاکستان بننے کے پانچ سال بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بھارت کا دورہ کیا اور اپنا پہلا بین الاقوامی ٹیسٹ میچ 16 تا 18 اکتوبر 1952 کو کھیلا۔ پاکستانی ٹیم میں عبدالحفیظ کاردار اور عامر الٰہی دو ایسے کھلاڑی تھے جو پہلے بھارت کی طرف سے کھیل چکے تھے، باقی کھلاڑیوں کے لئے یہ ان کا پہلا بین الاقوامی میچ تھا۔ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع ہونے والی ایک طویل اور نا ختم ہونے والی مسابقت کا آغاز تھا جو اب تک جاری ہے اور آگے بھی جاری رہے گی۔
پاکستانی ٹیم میں عبدالحفیظ کاردار اور عامر الٰہی دو ایسے کھلاڑی تھے جو پہلے بھارت کی طرف سے کھیل چکے تھے، باقی کھلاڑیوں کے لئے یہ ان کا پہلا بین الاقوامی میچ تھا۔
یوں تو بین الاقوامی سطح پر بیس اووروں پر مشتمل ٹی ٹونٹی کرکٹ کا آغاز 2005 میں ہی ہو گیا تھا لیکن بہت سے ممالک کرکٹ کے اس فارمیٹ کے بارے میں سنجیدہ نہیں تھے۔ 2007 کے ایک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ کی ناکامی کے بعد آئی سی سی نے سب کرکٹ بورڈز کو منا کر پہلا ورلڈ ٹی ٹونٹی منعقد کرایا۔ ٹورنامنٹ کے دسویں میچ میں روایتی حریفوں پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلا ٹی ٹونٹی میچ کھیلا گیا۔ بھارت نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے رابن اوتھاپا کے پچاس رنز کی مدد سے 141 کا مجموعی سکور بنایا۔ پاکستان کی طرف سے محمد آصف نے چار اوور میں چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ جواب میں پاکستانی بلے باز یکے بعد دیگرے آؤٹ ہوتے گئے اور 9 اووروں میں پاکستان کا مجموعی سکورصرف 47 تک پہنچ سکا اور اس کے چار کھلاڑی پویلین لوٹ گئے۔ بیچ کے اوورز میں شعیب ملک نے تھوڑی محتاط بلے بازی کرکے سکور آگے بڑھایا مگر وہ بھی جلد آؤٹ ہوگئے اور پھر اٹھارہویں اوور میں جب آفریدی آؤٹ ہوئے تو پاکستان کو 14 گیندوں پر انتالیس رنز درکار تھے۔ میچ پاکستان کے ہاتھوں سے پھسلتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ ایسے میں چار سال بعد بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کرنے والے مصباح الحق نہایت ہی جارحانہ انداز میں بیٹنگ کرتے ہوئے 4 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے آخری اوور کی چوتھی گیند پر سکور برابر کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اب پاکستان کو جیتنے کے لئے دو گیندوں پر صرف ایک رن کی ضرورت تھی۔ پانچویں گیند کو مصباح پوائنٹ کی طرف کھیلنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، آخری اوور کی آخری گیند کو وہ cover کی طرف کھیل کر رن لینے کی کوشش کرتے ہیں مگر بد قسمتی سے گیند سیدھی یوراج کے پاس پہنج جاتی ہے اور یوراج گیند کو سری سانتھ کی طرف پھینک دیتے ہیں جو مصباح کو رن آؤٹ کر دیتا ہے اور اس طرح یہ میچ برابر ہو جاتا ہے۔ بعد میں اس میچ کا فیصلہ بال آؤٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے جس میں پاکستان کو شکست ہو جاتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کا اگلا مقابلہ اسی ٹورنامنٹ کے فائنل میں ہوتا ہے۔ بھارت ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور 157 سکور بنا لیتا ہے جس میں گوتم گمبھیر کے 75 رنز کا حصہ سب سے نمایاں تھا۔ پاکستان کی طرف سے عمر گل شاندار گیند بازی کر کے 3 کھلاڑیوں کو اپنا شکار بناتے ہیں۔ جواب میں پاکستان کے بلے باز ایک بار پھر بری طرح ناکام ہوجاتے ہیں۔ سولہویں اوور میں جب پاکستان کی ساتویں وکٹ گر جاتی ہے تو اس وقت پاکستان کا سکور 104 ہوتا ہے اور جیتنے کیلئے 24 گیندوں پر 54 رنز درکار ہوتے ہیں۔ ایک بار پھر پاکستانی ٹیم کی ساکھ بچانے کے لئے مصباح الحق شاندار بلے بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ہربھجن سنگھ کے ایک اوور میں تین چھکے لگا کر اسکور کو آگے بڑھا تے ہیں۔
ایسے میں چار سال بعد بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کرنے والے مصباح الحق نہایت ہی جارحانہ انداز میں بیٹنگ کرتے ہوئے چار چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے آخری اوور کی چوتھی گیند پر سکور برابر کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
اگلے اوور میں جب سری سانتھ سہیل تنویر کو ایل بی ڈبلیو کرنے کی کوشش میں ان کے پیروں پر گیند کرتے ہیں تو سہیل تنویر لیگ کی طرف دوخوبصورت چھکے لگاتے ہیں۔ سہیل تنویر اور عمر گل کے آؤٹ ہونے کے بعد پاکستان کے پاس صرف ایک وکٹ باقی تھی اور 6 گیندوں پر 13 زنزدرکار تھے۔ آخری اوور کے لئے مہندر سنگھ دھونی گیند جوگیندر شرما کو تھماتے ہیں۔ جوگیندر شرما پہلی گیند وائیڈ کرادیتے ہیں اور انہیں دوبارہ وہی گیند کرنا پڑتی ہے جسے وہ بہتر انداز میں پھینکتے ہیں۔ اوور کی دوسری گیند فل ٹاس ہوتی ہے جس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے مصباح گیند کو باؤنڈری کے باہر مارنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں. اب4 گیندوں پر صرف 6 رنز درکار ہیں۔ مچ پاکستان کی گرفت میں ہے۔ اگلی گیند کو مصباح فائن لیگ کے اوپر سے باؤنڈری کےباہرمارنے کی کوشش کرتے ہیں مگر گیند کی سست رفتار سے دھوکہ کھا کر گیند کو ہوا میں کھیلتے ہیں جو سیدھی فیلڈر کے ہاتھوں میں آجاتی ہے اور اس طرح پاکستان پہلے ورلڈ ٹی ٹونٹی کا سنسنی خیز فائنل ایک دلچسپ مقابلے کے بعد 5 رنز سے ہار جاتا ہے۔
یہ میچ نہ صرف ٹی ٹونٹی کی تاریخ کے بہترین میچوں میں سے ایک ہے بلکہ اس میچ کی کامیابی کے بعد ٹی ٹونٹی کا فارمیٹ اتنا مقبول ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد آئی پی ایل اور دیگر کرکٹ لیگوں کا آغاز کیا گیا۔ اگر یہ میچ نہ ہوا ہوتا تو شاید کرکٹ میں اتنی تبدیلیاں نہیں آتیں۔ لہٰذا جب بھی کرکٹ کے جدید دور کی تبدیلیوں اور اہمیت کی بات آئے گی اس میچ کا تذکرہ ضرور ہو گا۔
ورلڈ کپ دو ہزار سات کا فائنل میچ نہ صرف ٹی ٹونٹی کی تاریخ کے بہترین میچوں میں سے ایک ہے بلکہ اس میچ کی کامیابی کے بعد ٹی ٹونٹی کا فارمیٹ اتنا مقبول ہوا کہ اس کے بعد آئی پی ایل اور دیگر کرکٹ لیگوں کا آغاز کیا گیا۔
پاک بھارت کی ٹیموں کا اگلا ٹکراؤ پانچ سال بعد 2012 کے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے بیسویں میچ میں ہوتا ہے۔ پاکستانی ٹیم ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے اور کپتان محمد حفیظ کی سست رفتار بیٹنگ کی وجہ سے صرف 128 سکور بنا پاتی ہے۔ جواب میں ویرات کوہلی کی شاندار بلے بازی کی مدد سے بھارت سترہ اوور میں سکور پورا کر لیتا ہے۔ ویرات کوہلی نے اس میچ میں 2 چھکوں اور 8 چوکوں کی مدد سے 78 کی شاندار اننگ کھیلی۔
سیاسی چپقلش اور ملکی صورتحال کی وجہ سے کئی سالوں تک پاکستان بھارت کا دورہ نہیں کر پاتا اور سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد تو دوسرے ملکوں کی ٹیموں نے بھی پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسرے ملکوں کی ٹیموں کے ساتھ پاکستان کے مقابلے متحدہ عرب امارات میں ہوتے ہیں لیکن بھارت وہاں کا دورہ کرنے سے بھی انکاری ہے۔ 2012 کے آخری مہینے میں پاکستان دو ٹی ٹونٹی میچوں کی سیریز کھیلنے بھارت جانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ پہلے میچ میں عمر گل کی شاندار گیند بازی اور محمد حفیظ اور شعیب ملک کی جارحانہ بلے بازی کی بدولت پانچ وکٹوں سے میچ جیت لیتا ہے۔ دوسرے میچ میں یوراج سنگھ کی تباہ کن بلے بازی کی وجہ سے بھارت کا سکور 192 تک پہنچ جاتا ہے۔ اس میچ میں عمر گل اور محمد عرفان کے علاوہ تمام پاکستانی باؤلروں کی اچھی خاصی دھلائی ہوئی۔ 192 کے تعاقب میں پاکستانی ٹیم اچھے آغاز کے بعد ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بڑے ہدف کا تعاقب کرنے میں ناکام رہی اور میچ گیارہ رنز سے ہار گئی۔
2014 کے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی ٹیم کو بھارت کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سال کھیلے گئے ایشیا کپ میں جب پاکستان اور بھارت آمنے سامنے آتے ہیں تو پاکستانی بلے بازوں کی غیر ذمہ دارانہ بیٹنگ کی وجہ سے پوری ٹیم صرف 83 کا سکور بنا کر آوٹ ہو جاتی ہے۔ بھارتی اننگز کے آغاز میں محمد عامر بین الاقوامی سطح پر اپنی واپسی کا اعلان شاندار انداز میں کرتے ہیں اور دو اووروں میں ہی بھارت کے پہلے تین بلے بازوں کو آؤٹ کرلیتے ہیں لیکن ویرات کوہلی ایک بار پھر بھارت کی نیّا پار لگانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان سات ٹی ٹونٹی میچ کھیلے جاچکے ہیں جن میں سے صرف ایک میں پاکستان کو کامیابی حاصل ہوئی
اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان سات ٹی ٹونٹی میچ کھیلے جاچکے ہیں جن میں سے صرف ایک میں پاکستان کو کامیابی حاصل ہوئی اور ان سات میچوں میں سے 4 میچ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں کھیلے گئے جن میں پاکستان اب تک بھارت کو شکست نہیں دے سکا ہے۔ بھارت کی طرف سے ویرات کوہلی سب سے کامیاب بلے باز ثابت ہوئے ہیں جنہوں نے 199 رنز سکور کئے ہیں اور ان کا ساتھ دھونی اور یوراج نے دیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے محمد حفیظ بھارت کے خلاف بہتر کارکردگی دکھا کر اب تک 151 رنز بنا چکے ہیں۔ باؤلنگ میں بھارت کی طرف سے کسی گیند باز نے کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی جبکہ پاکستان کی طرف سے عمر گل نے کامیاب باؤلنگ کرتے ہوئے بھارت کے 11 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا ہے۔
اگر پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کا موازنہ کیا جائے تو ہر فارمیٹ میں پاکستانی باؤلنگ بھارت سے بہتر رہی ہے جبکہ بیٹنگ کے شعبے میں ہمیشہ بھارت کو پاکستان پر سبقت حاصل رہی ہے۔ آج کا میچ بھی پاکستانی باؤلنگ اور بھارتی بیٹنگ پر منحصر ہے۔ اگر پاکستانی باؤلرز خاص کر محمد عامر ویرات کوہلی، روہیت شرما اور یوراج سنگھ جیسے بلے بازوں کو کم سکور پر آؤٹ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پاکستان پہلی بار بھارت کو ورلڈکپ ٹی ٹونٹی میں شکست دینے میں کامیاب ہوسکتا ہے بشرطیکہ پاکستانی بلے باز بھی پاکستانی باؤلروں کی مدد کریں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان عالمی کپ میں بھارت کو پہلی بار ہرانے میں کامیاب ہو پاتا ہے یا ایک بار پھر بھارت پاکستان کو شکست دے کر اپنا ریکارڈ برقرار رکھے گا۔
Leave a Reply