بظاہر پاکستان میں بلوچوں کی بات کرنا منع ہے اور اکیس ہزار لاپتہ بلوچوں اور چھ ہزار مسخ شدہ لاشوں کی بات کرنا ممنوع تر۔ جامعہ کراچی میں “لاپتہ بلوچ افراد ؛ معاشرےاور ریاست کا کردار” کے عنوان سے منعقد کی جانے والی نشست کو ریاستی اداروں کے دباو پر یونیورسٹی کے آرٹس آدیٹوریم میں منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جس کے بعد طلبہ، اساتذہ اور بلوچ کارکنوں نے آرٹس لابی میں ہی اس تقریب کا اہتمام کیا۔6 مئی 2015کو اس نشست کا اہتمام Teachers and Students against war and oppression نامی تنظیم نے کیا تھا جن کا مقصد جنگ اور جبرزدہ علاقوں کے عوام کے مسائل کو اجاگر کرنا اور منظم تشدد کا تدارک کی کوشش کرنا ہے۔
جامعہ کراچی میں بلوچ لاپتہ افراد کے حوالے سے نشست کا انعقاد روکنے کے لیے رینجرز اہلکاروں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندو ں اور طلبہ کومسکن گیٹ، سلورجوبلی گیٹ اورشیخ زید گیٹ پرکئی گھنٹے روکے رکھا تاہم ماماقدیر، فرزانہ مجید اور دیگر بلوچ کارکن مبینہ طور پر سیکیورٹی اداروں کی کارروائی سے پہلے ہی یونیورسٹی میں پہنچ چکے تھے۔
جامعہ کراچی میں بلوچ لاپتہ افراد کے حوالے سے نشست کا انعقاد روکنے کے لیے رینجرز اہلکاروں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور طلبہ کو مسکن گیٹ، سلور جوبلی گیٹ اور شیخزید گیٹ پرکئی گھنٹے روکے رکھا تاہم ماماقدیر، فرزانہ مجید اور دیگر بلوچ کارکن مبینہ طور پر سیکیورٹی اداروں کی کارروائی سے پہلے ہی یونیورسٹی میں پہنچ چکے تھے۔سیمینار کے دوران رینجرز اہلکاروں نے شرکاء کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ سیمینار رختم ہونے کے بعد وائس چانسلر کے دفتر کے باہراحتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔ ذیل میں سیمینار کے دوران کی گئی تقاریر کا خلاصہ لالٹین قارئین کے لیے پیش کیا جارہا ہے؛
ریاض احمد:
(استاد شعبہ کیمسٹری، جامعہ کراچی)
ہمارا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا یا کوئی شورش برپا کرنا نہیں تھا،آخر ایسی کیا بات ہے جو بلوچستان کا نام لینا بھی اس ملک میں حرام قرار دے دیا گیا ہے؟ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں لاہور کی لمز یونیورسٹی (لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز ) میں بلوچستان پر بات کرنے کی اجازت نہیں ملتی، کراچی میں ایک کیفے کی چار دیواری میں گفتگو کے بعد اس کی مالکن سبین کو بہیمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور جامعہ کراچی کو ایک فوجی چھاونی میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ جامعہ کراچی اس ملک کے سب سے بڑے شہر کی پبلک سیکٹر یونیورسٹی ہے اور ہمارے ٹیکس سے چلتی ہے، اب کیا یہاں بھی ہمیں بلوچستان پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی؟ علمی و فکری مباحث(Academic Discussion) اور آزاد اظہار رائے کے حصول کے لیے ہم کسی بھی حدتک جائیں گے۔
ہم نے یہ جلسہ کر کے بتا دیا ہے کہ ہم وہ بےحس پاکستانی نہیں ہیں جو بلوچستان میں پنجابی، اردو بولنے والے یا دیگر لوگوں کو مارتے ہیں۔ ہم بلوچوں کے درد میں برابر کے شریک ہیں۔
اس ملک میں صرف بلوچ ہی نہیں بلکہ شیعہ،احمدی اور ہزارہ بھی قتل ہوتے ہیں، مقتدر حلقوں کی نوکرشاہی کوتقویت بخشنے کے لیے مزدور ی کرتے ہوئے پختون، سندھی اور پنجابی بھی قتل ہوتے ہیں، ہم یہاں یہ پوچھنا چایتے ہیں کہ ریاست دلاسے دینے کے سوا کیا کررہی ہے؟
ریاض احمد:
(استاد شعبہ کیمسٹری، جامعہ کراچی)
ہمارا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا یا کوئی شورش برپا کرنا نہیں تھا،آخر ایسی کیا بات ہے جو بلوچستان کا نام لینا بھی اس ملک میں حرام قرار دے دیا گیا ہے؟ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں لاہور کی لمز یونیورسٹی (لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز ) میں بلوچستان پر بات کرنے کی اجازت نہیں ملتی، کراچی میں ایک کیفے کی چار دیواری میں گفتگو کے بعد اس کی مالکن سبین کو بہیمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور جامعہ کراچی کو ایک فوجی چھاونی میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ جامعہ کراچی اس ملک کے سب سے بڑے شہر کی پبلک سیکٹر یونیورسٹی ہے اور ہمارے ٹیکس سے چلتی ہے، اب کیا یہاں بھی ہمیں بلوچستان پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی؟ علمی و فکری مباحث(Academic Discussion) اور آزاد اظہار رائے کے حصول کے لیے ہم کسی بھی حدتک جائیں گے۔
ہم نے یہ جلسہ کر کے بتا دیا ہے کہ ہم وہ بےحس پاکستانی نہیں ہیں جو بلوچستان میں پنجابی، اردو بولنے والے یا دیگر لوگوں کو مارتے ہیں۔ ہم بلوچوں کے درد میں برابر کے شریک ہیں۔
اس ملک میں صرف بلوچ ہی نہیں بلکہ شیعہ،احمدی اور ہزارہ بھی قتل ہوتے ہیں، مقتدر حلقوں کی نوکرشاہی کوتقویت بخشنے کے لیے مزدور ی کرتے ہوئے پختون، سندھی اور پنجابی بھی قتل ہوتے ہیں، ہم یہاں یہ پوچھنا چایتے ہیں کہ ریاست دلاسے دینے کے سوا کیا کررہی ہے؟
جامعہ کراچی اس ملک کے سب سے بڑے شہر کی پبلک سیکٹر یونیورسٹی ہے اور ہمارے ٹیکس سے چلتی ہے، اب کیا یہاں بھی ہمیں بلوچستان پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی؟
خود کراچی شہر میں اردو بولنے والوں کا استحصال ہوتا ہے اور ریاست کیا کرتی ہے؟ میں بتاتا ہوں؛ ریاست یوٹیوب بند کرتی ہے، ریاست زبان کاٹ دیتی ہے، ریاست سائبر کرائم بل لانے میں مصروف ہے، ریاست اپنا اختیار فوجی عدالتوں کی صورت میں اہل وقار کو بیچ دیتی ہے۔ ریاست بلوچستان سے زندہ بلوچوں کو غائب کر کے ان کی مسخ شدہ لاشیں صحرا میں پھینک دیتی ہے۔ ریاست آپ کو اور ہمیں اس جبر کے خلاف بولنے سے روکتی ہے۔ لیکن ہم کیوں نہ بولیں؟
ریاست اپنے پالے ہوئے مذہبی دہشتگردوں کو تحفظ دیتی ہے مگر ماما قدیر اور فرزانہ مجید کے نام ای سی ایل میں ڈال دیتی ہے، ماما قدیر ، میرمحمد تالپور اور فرزانہ کو تپتی دھوپ میں گھنٹوں روکنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ وہ جامعہ کراچی کی حدود میں داخل نہ ہوسکیں، ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ رینجرز کس کے دم پر ان سے بدتمیزی کرتی ہے؟
ہم آج یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ رینجرزجامعہ کراچی کو چھاؤنی بنانے میں توکامیاب ہوگئے ہیں مگر ہم اساتذہ اور طلبہ انہیں آزادی اظیار رائے کا حق کسی صورت نہیں چھیننے دیں گے۔جو سیمینار آرٹس آڈیٹوریم کے بند کمرے میں ہونا تھا وہ اب یہاں باہر آرٹس لابی میں ہوگا اور ہم دھوپ، سخت گرمی، اور فرشی نشست کے باوجود اسی جگہ ،اسی مقام پر چیخ چیخ کر اپنی آواز لوگوں تک پہنچائیں گے۔
ہم پاکستان نہیں توڑنا چاہتے بلکہ اپنی جھوٹی انا اور وقار بچانے کی کوششوں میں تم لوگ ایک بار پھر سے پاکستان توڑنا چاہتے ہو، ہم نہیں بلکہ خود تم پاکستان اور پاکستانیوں کے بدترین دشمن ہو۔
ریاست کے پالے ہوئے درندوں نے پچاس ہزار انسان موت کے گھاٹ اتار دیئے، ارے ہم تو 1971 میں بھی تمہیں سمجھاتے تھے کے یہ مت کرو جو کر رہے ہو مگر تمہارے مظالم اور بدمعاشی کی وجہ سے پاکستانیوں کی اکثریت نے تمہیں لات مار دی۔ ہم آج بھی تمہیں سمجھا رہے ہیں کہ لاپتہ بلوچوں کو واپس کردو،اگر وہ واقعی مجرم ہیں تو عدالت میں پیش کرو لیکن آج بھی کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہیں۔ بلکہ ہم پر ملک توڑنے اور غدار ہونے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ہم پاکستان نہیں توڑنا چاہتے بلکہ اپنی جھوٹی انا اور وقار بچانے کی کوششوں میں تم لوگ ایک بار پھر سے پاکستان توڑنا چاہتے ہو، ہم نہیں بلکہ خود تم پاکستان اور پاکستانیوں کے بدترین دشمن ہو۔آج ہمارے اساتذہ، طلبہ، بچے، بڑے اور سول سوسائٹی کے ارکان نے بھاری تعداد میں یہاں شرکت کر کے بتا دیا کہ کون اس ملک سے وفادار ہے اور ۔سلامتی چاہتا ہے اور کون اس ملک کے امن و سلامتی کا دشمن ہے
ابھی بھی بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو شامل ہونے سے زبردستی روکا جارہا ہے اور میڈیا کو اندر نہیں آنے دیا جارہا۔جامعہ کراچی کے تین بڑے دروازے مسکن گیٹ، سلور جوبلی گیٹ اور شیخ زید گیٹ پر رینجر اور ایف سی کے اہلکاروں نے سخت پہرہ بٹھا رکھا ہے اور وہ کسی کو بھی اندر نہیں آنے دے رہے۔ بہر حال ہم لوگ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے ہیں، آپ سب کے یہاں آنے کا بہت شکریہ، یہاں ہونے والی باتیں اور تصاویر جنگل کی آگ کی طرح سوشل میڈیا پر پھیلا دیں بس یہی گزارش ہے، شکریہ بہادر دوستو!!
ماما قدیر
بلوچ کارکن، وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز
ہم لوگ کسی کا برا نہیں چاہتے، کسی سے دشمنی نہیں رکھتے، ہم بھی انساں ہیں،ہمارا مقصد پر امن جدوجہد ہے، ہم نے کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا مگر ہماری بات نہیں سنی گئی۔ لمز میں ہمیں بولنے نہیں دیا گیا،ملک سے باہر نہیں جانے دیتے کیا ہم نے کسی کا خون بہا یا ہے، کسی کی جان لی ہے؟ کراچی میں ہم زبان کھولتے ہیں تو ہماری بہن سبین کو مار دیا جاتا ہے۔ جامعہ کراچی میں بولنے آئے تو کہتے ہو مت بولو، خاموش ہوجاو۔ایک جانب کہا جاتا ہے کہ بات کرو ہتھیار نہیں اٹھاو، جب ہم بات کرتے ہیں تو کہتے ہو بات بھی نہ کرو۔۔۔ یہ کیسی منافقت اور ظلم ہے؟ ہمارے بچے اور لاپتہ افراد بے شک ہمارے حوالے نہ کرو مگر انہیں میڈیا اور عدالت کے سامنے پیش کردو۔ بتاو تو کہ وہ لوگ زندہ ہیں یا کسی روزان کی بھی مسخ شدہ لاشیں ملیں گی ہمیں؟
ہم لوگ کسی کا برا نہیں چاہتے، کسی سے دشمنی نہیں رکھتے، ہم بھی انساں ہیں،ہمارا مقصد پر امن جدوجہد ہے، ہم نے کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا مگر ہماری بات نہیں سنی گئی۔ لمز میں ہمیں بولنے نہیں دیا گیا،ملک سے باہر نہیں جانے دیتے کیا ہم نے کسی کا خون بہا یا ہے، کسی کی جان لی ہے؟ کراچی میں ہم زبان کھولتے ہیں تو ہماری بہن سبین کو مار دیا جاتا ہے۔ جامعہ کراچی میں بولنے آئے تو کہتے ہو مت بولو، خاموش ہوجاو۔ایک جانب کہا جاتا ہے کہ بات کرو ہتھیار نہیں اٹھاو، جب ہم بات کرتے ہیں تو کہتے ہو بات بھی نہ کرو۔۔۔ یہ کیسی منافقت اور ظلم ہے؟ ہمارے بچے اور لاپتہ افراد بے شک ہمارے حوالے نہ کرو مگر انہیں میڈیا اور عدالت کے سامنے پیش کردو۔ بتاو تو کہ وہ لوگ زندہ ہیں یا کسی روزان کی بھی مسخ شدہ لاشیں ملیں گی ہمیں؟
بلوچستان میں ریاستی زیادتیوں کا انکار کرتے ہوئے اس کو بیرونی مداخلت قرار دیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر خواجہ آصف کہتے ہیں کہ بعض علیحدگی پسند رہنما بھارتی پاسپورٹ پر سفر کرتے ہیں۔ اگر وہ سچے ہیں تو پھر ان ثبوتوں کو بھارت اور دنیا کے دیگر ممالک کے سامنے کیوں پیش نہیں کرتے؟
اگر بلوچستان کا مسئلہ بیرونی مداخلت اور بھارت کا پیدا کیا ہوا ہے تو پھر بلوچستان کے ماضی کے زخموں پر مرہم رکھنے کا دعویٰ کیوں کیا جاتا ہے اور بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں مصروف قیادت سے مفاہمت اور مذاکرات کی بات کیوں کرتے ہیں؟‘
اگر بلوچستان کا مسئلہ بیرونی مداخلت اور بھارت کا پیدا کیا ہوا ہے تو پھر بلوچستان کے ماضی کے زخموں پر مرہم رکھنے کا دعویٰ کیوں کیا جاتا ہے اور بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں مصروف قیادت سے مفاہمت اور مذاکرات کی بات کیوں کرتے ہیں؟‘
ہم کہاں جائیں ہم مظلوم ہیں ہم ظالم نہیں۔ ہمارا ایک ایک بچہ انقلابی ہے ہم قلم سے جنگ لڑنا چاہتے ہیں تم قلم بھی ہاتھ سے چھین لیتے ہو اور پھر کہتے ہو کہ ہمارے بچے ہتھیار اٹھا رہے ہیں۔ ہم اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم اپنے جائز حقوق کے متلاشی ہیں، اس کے سوا ہمیں کچھ نہیں چاہیئے بس ہمارے لوگ ہمارے حوالے کردو، آنکھیں اندھی ہونے سے پہلے یہ بوڑھا اپنے بیٹے کو دیکھنا چاہتا ہے۔
فرزانہ مجید:
جنرل سیکرٹری انٹرنیشنل وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز
میں انتہائی مجبوری کے عالم میں جگہ جگہ جا کر اپنے بھائی اور دوسرے مظلوم بھائیوں کی خاطر احتجاجی آواز بلند کرتی ہوں۔میرے بھائی نے کبھی کسی معمولی چیز کے لیے بھی مجھے گھر سے باہر نہیں جانے دیا۔ کہتا تھا میری بہنا دھوپ میں گرمی میں تجھے باہر کیوں جانے دوں؟ ابھی تیرا بھائی ہے، جوان بھائیوں کی بہنیں ہر کام اپنے بھائیوں سے کہتی ہیں۔
جنرل سیکرٹری انٹرنیشنل وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز
میں انتہائی مجبوری کے عالم میں جگہ جگہ جا کر اپنے بھائی اور دوسرے مظلوم بھائیوں کی خاطر احتجاجی آواز بلند کرتی ہوں۔میرے بھائی نے کبھی کسی معمولی چیز کے لیے بھی مجھے گھر سے باہر نہیں جانے دیا۔ کہتا تھا میری بہنا دھوپ میں گرمی میں تجھے باہر کیوں جانے دوں؟ ابھی تیرا بھائی ہے، جوان بھائیوں کی بہنیں ہر کام اپنے بھائیوں سے کہتی ہیں۔
بلوچ سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جبری گمشدگی قبضہ گیری کے خلاف بلوچوں کی مزاحمت کا عکس ہے۔ پاکستان اب تک بلوچستان میں پانچ بڑے آپریشن کر چکا ہے جس میں بچوں اور خواتین سمیت ہزاروں لوگ مارے گئے ہیں جبکہ اسی طرح ہزاروں کو اپنے آبائی علاقے چھوڑنے پڑے۔‘
لانگ مارچ کے دوران ہمیں ڈرایا دھمکایا گیا لیکن ہم نے بے فکر ہو کر یہ مارچ کیا۔ایک سال کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن کچھ تبدیل نہیں ہوا، جبری گمشدگیاں، تشدد شدہ لاشوں کی برآمدگی اسی طرح سے جاری ہیں جس طرح پہلے تھیں۔
لانگ مارچ کے دوران ہمیں ڈرایا دھمکایا گیا لیکن ہم نے بے فکر ہو کر یہ مارچ کیا۔ایک سال کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن کچھ تبدیل نہیں ہوا، جبری گمشدگیاں، تشدد شدہ لاشوں کی برآمدگی اسی طرح سے جاری ہیں جس طرح پہلے تھیں۔
آج میں آپ سب کے سامنے ( روتے ہوئے) کہتی ہوں میرے بھائی اس ریاست نے جو ماں جیسی نہیں بلکہ ڈائن جیسی ہے،تمہیں مجھ سے چھین لیا ہے۔ تمہاری بہن جو کبھی ہورا گاوں بھی نہیں گھومی تھی صرف تمہیں ڈھونڈنے کی خاطر گلی گلی شہر شہر کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل چل کر گئی مگر تم نہیں ملے۔ میں انسانیت کے لیے درد دل رکهنے والے تمام لوگوں سے اپیل کرتی ہوں کہ میرے بھائی اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لے ہماری مدد کریں، ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے اور آواز اٹھاتے رہیں گے۔