Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

پاکستان: گستاخی اور جبر

اسد فاطمی

اسد فاطمی

16 اپریل, 2024

توہین مذہب قوانین کے ذریعے جانوں کے ضیاع کے حوالے سے۲۰ مئی کو علی سیٹھی کا مضمون Tyranny of blasphemy نیویارک ٹائمز کے بین الاقوامی ایڈیشن میں شائع ہوا تھا، لیکن ایکسپریس ٹریبیون کے زیر اہتمام پاکستان میں تقسیم کیے گئے پرچوں سے یہ مضمون حذف کر کے اس کی جگہ کو خالی چھوڑ دیا گیا تھا۔ اگرچہ بہت سے لوگ مضمون میں بیان کیے گئے حقائق سے آگاہ ہیں، تاہم روز افزوں سنسرشپ کی مذمت میں لالٹین اس مضمون کا ترجمہ اپنے قارئین کو پیش کر رہا ہے۔
[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”2″]

لاہور، پاکستان ــ “مجھے لگتا تھا کہ میری زندگی بالکل سادہ اور یک رخی ہے۔”
یہ الفاظ جنوبی پاکستان کے نوجوان شاعر اور فل برائٹ اسکالر جنید حفیظ نے 2011 میں ایک ریڈیو شو کے میزبان سے کہے تھے جب وہ میڈیسن کی تعلیم تیاگ کر ادب کو اپنی زندگی کا شغل بنانے کے بارے میں بتا رہا تھا۔ آج، وہ گستاخی کے الزام میں جیل میں ہے، اسے سزائے موت سنائی جا چکی ہے اور وہ اس وکیل کا سوگ منا رہا ہے جسے ایک ماہ پہلے اس کی وکالت کرنے کی پاداش میں قتل کر دیا گیا تھا۔

نیو یارک ٹائمز کے انٹرنیشل ایڈیشن کا وہ صفحہ جہاں سے علی سیٹھی کا زیرنظر مضمون حذف کیا گیا۔
نیو یارک ٹائمز کے انٹرنیشل ایڈیشن کا وہ صفحہ جہاں سے علی سیٹھی کا زیرنظر مضمون حذف کیا گیا۔

گرفتاری سے پہلے حفیظ پاکستان کے شہر ملتان کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں پڑھا رہا تھا، یہ وہ ضلع ہے جہاں وہ پلا بڑھا تھا۔ اس کی کرشماتی شخصیت اور آزادانہ فکر کی وجہ سے جہاں اس کے طالب علموں میں اس کے پرستاروں کا ایک بڑا حلقہ تھا، وہیں فیکلٹی ممبران میں اس کے حاسدوں کا ایک گروہ بھی موجود تھا۔
سن 2013 میں ایک دن اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ایک طالب علم نے اس پر فیس بک پہ حضرت محمد (ص) کی توہین کا الزام عائد کیا۔ اس طالب علم کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں تھا، لیکن ثبوت تو کوئی مانگتا بھی نہیں۔
جلد ہی شدت پسند طلبہ نے ایک مظاہرہ کیا اور حفیظ کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کی پیٹھ تھپتھپائی اور پولیس نے حفیظ کے خلاف توہین کا مقدمہ درج کر لیا۔ الزام کی توثیق کے لیے کسی سائبر تفتیش کار کو بلانے کی بجائے ایک مفتی کے فتوے پر انحصار کیا گیا۔

حفیظ کا باپ مہینوں تک وکیل ڈھونڈتا رہا۔ بالآخر اس نے 53 سالہ راشد رحمان سے استدعا کی، جو ملتان میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے کوآرڈی نیٹر تھے۔ 20 سال سے سرگرم سماجی کارکن اور ایک ماہر قانون رحمان ناامیدی کا رزق بن چکے مقدمات پر لڑ مرنے کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ تمام خطرات کے باوجود وہ حفیظ کا مقدمہ لینے پر راضی ہو گئے۔ اپریل میں رحمان نے ایک رپورٹر سے کہا تھا کہ توہین کے ملزم کی وکالت کرنا، “موت کے جبڑوں میں سر دینا” ہے۔

یہ جبڑے 1980 کی دہائی سے کھلے ہوئے ہیں جب فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے ان نوآبادیاتی قوانین پر نظرثانی فرمائی تھی جن میں “افراد کے کسی بھی طبقے کے مذہب کی توہین” کو جرم قرار دیا گیا تھا۔ ابتدائی قانون انیسویں صدی میں ابوی طرز کی انگریز حکومت نے وضع کیا تھا، جس کا مقصد مختلف العقائد رعایا کو آپس میں لڑنے سے روکنا تھا۔ ان قوانین میں عمومی لفاظی تھی، اور اس میں جرمانے عائد کیے گئے تھے اور زیادہ سے زیادہ دو سال کی سزا مقرر تھی۔

جنرل ضیا کی ترامیم نے توہین مذہب کے تصور کی تخصیص کر دی اور قوانین کی وضع کو اسلام کے سخت گیر سنی مسلک کی پسند کے مطابق ڈھال دیا۔ انہوں نے قرآن کی بے تحریمی، حضرت محمد (ص) کی بے ادبی اور ان کے اصحاب کے بارے میں غیر شائستہ بات کرنے کو جرم قرار دیا۔ پاکستان کی شیعہ اقلیت کے ہاں پیغمبر (ص) کی وفات کے بعد جانشینی کی کشمکش کے حوالے سے بعض صحابہ کی شخصیت متنازعہ ہے۔ مزید براں، ممنوعہ احمدی فرقے کے افراد کے لیے خود کو مسلمان کہنا جرم قرار دے دیا گیا۔ سزاؤں میں اضافہ کر دیا گیا: توہین کے مرتکب ہونے والے کو پھانسی یا عمر قید کی سزا دی جا سکتی تھی۔

جیکب سٹیڈ، بشکریہ نیویارک ٹائمز
جیکب سٹیڈ، بشکریہ نیویارک ٹائمز

جنرل ضیا 1988 میں طیارے کے حادثے میں مارے گئے، لیکن ان کا بہت سا ترکہ باقی ہے۔ جیسا کہ ملاّ عناصر کو زندگی کے ہر شعبے میں طاقت سے نوازا جانا۔ مذہبی پیشواؤں اور ٹیلی مبلغین سے لے کر کٹڑ عالموں اور شریعہ ججوں تک۔۔ سبھی نے مقنّنہ کو لاتبدیل طور پر ضیا پرستانہ بنائے رکھنے کی نیکی میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔
توہین کے قوانین بھی اسی پیکج کا حصہ ہیں۔ 1980 کی دہائی سے پہلے یہ قوانین کئی عشروں تک شاذ و نادر ہی استعمال میں آتے رہے تھے۔ لیکن جنرل ضیا کی ترامیم نے سیلابی بند کا پاٹ کھول دیا: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق تب سے لے کر اب تک ایک ہزار سے زیادہ مقدمات اطلاع میں آ چکے ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے ایک سنی شدت پسند کے ایما پر 68 وکیلوں کے خلاف توہین کا مقدمہ سامنے آیا ہے۔
یوں تو توہین کے قوانین کسی بھی خوفناک ارادے کے حامل، کسی ناراض رشتہ دار، کسی حاسد کولیگ یا آپ کی جائیداد پر آنکھ رکھنے والے کسی پڑوسی کے کام آ سکتے ہیں۔ لیکن ان سے وہ پیشہ ور مذہبی شدت پسند سب سے زیادہ استفادہ کرتے ہیں، جن کو معاشرے اور ریاست دونوں میں اپنا رسوخ بنانے کے تمام گُر ٹھیک سے آتے ہیں۔
یوں تو توہین کے قوانین کسی بھی خوفناک ارادے کے حامل، کسی ناراض رشتہ دار، کسی حاسد کولیگ یا آپ کی جائیداد پر آنکھ رکھنے والے کسی پڑوسی کے کام آ سکتے ہیں۔ لیکن ان سے وہ پیشہ ور مذہبی شدت پسند سب سے زیادہ استفادہ کرتے ہیں، جن کو معاشرے اور ریاست دونوں میں اپنا رسوخ بنانے کے تمام گُر ٹھیک سے آتے ہیں۔
مجھے اس سب کچھ کا احساس اگست 2009 میں ہوا تھا جب میں پاکستان کے قلب میں واقع ایک چھوٹے سے شہر گوجرہ کی ایک مسیحی آبادی میں گیا تھا۔ ایک مسلمان کسان نے ایک افوا پھیلائی تھی کہ پڑوس کے مسیحیوں نے قرآن کی بے حرمتی کی ہے، جونہی مولویوں نے مساجد کے لاؤڈ اسپیکروں پر جنونی تقریریں کر کے معاملے کو شہ دی، وہاں فساد برپا ہو گیا۔ جب پولیس نے مولویوں کو روکنے کی کوشش کی، انہوں نے توہین کے قوانین کا حوالہ دیا اور “گستاخوں کو پناہ دینے” کی صوت میں مشتعل ہجوم کا رخ پولیس کی طرف موڑ دینے کی دھمکی دی۔ مسیحیوں کے 60 کے قریب گھر جلا دیے گئے اور آٹھ مسیحی مارے گئے۔
اسلام پسند ہمیں یہ بات تو باور کرانا چاہیں گے کہ کسی بھی عقیدے کا آدمی اس وقت تشدد پر اتر سکتا ہے جب اس کے مذہب پر زد پڑ رہی ہو۔ لیکن گوجرہ سانحے پر سرکاری رپورٹ میں درج کی گئی حقیقت کہیں زیادہ قابل تشویش اور المناک ہے۔ توہین کا ایک الزام، جو ایک بار کسی مذہبی کارکن کی طرف سے عاید کر دیا گیا ہو، معمولی ذاتی مفادات سے لے کر بڑے سیاسی منصوبوں تک، ہر طرح کی مفاد یابی کو جائز بنا دیتا ہے اور سب کے لیے بے لگامی کی فضا پیدا کر سکتا ہے۔ گوجرہ کے بلوائیوں میں مقامی اپوزیشن سیاستدان کے حلقے کے افراد، اور قریبی علاقوں کے کسان اور دیہاڑی دار مزدور بھی تھے جو کالعدم لشکر جھنگوی کے مسلح ارکان کی لوٹ مار میں شامل ہو گئے تھے۔
پاکستان کے اسلام پسند گروہوں کو قوانین میں اصلاح کے لیے کچھ نئے راستے نظر آئے ہیں۔ انہوں نے گستاخی کی تفہیم کا دائرہ کچھ اور وسیع کر لیا ہے اور اب توہین کی دائرے میں بذات خود ان قوانین پر تنقید کرنا بھی شامل ہے۔ یہ سب کچھ اختلاف رائے رکھنے والی اعلی سطح کی شخصیات کو نشانہ بنا کر ممکن بنایا گیا ہے، جیسا کہ صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور اقلیتی امور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی، ان دونوں کو 2011 میں قتل کیا گیا تھا۔
اور پھر، صرف دو ہفتے قبل، راشد رحمان کو قتل کر دیا گیا۔
مافیا نے اپنے طریقۂ کار کے مطابق اس کے گرد ہر طرف سے گھیرا تنگ کیا۔ سب سے پہلے اردو اخباروں میں اس کے خلاف دھمکیاں شائع کی گئیں، جس میں اسے “خود کو نقصان پہنچانے کے درپے” ایک وکیل کہا گیا تھا۔ اس کے بعد ملتان میں ایک پریس کانفرنس ہوئی جس میں غضبناک چہروں والے کچھ مولویوں نے رحمان پر الزام عاید کیا کہ وہ حفیظ کے مقدمے کو ایک بین الاقوامی ایشو بنا رہے ہیں۔ اپریل میں، جب حفیظ کا مقدمہ جاری تھا، تین وکلائے استغاثہ نے جج کی موجودگی میں اسے کہا کہ وہ اگلی سماعت تک “سلامت نہیں رہے گا۔”
انسانی حقوق کمیشن میں رحمان کے ساتھیوں نے حکومت سے اس کے لیے سیکیورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہیں کوئی مدد نہیں ملی۔ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز، سیاسی سفر کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستانی طالبان جیسے شدت پسند گروہوں کو امن پر آمادہ کرنے کی پوری تاریخ رکھتی ہے۔
7 مئی کی رات ڈسٹرکٹ کورٹ ملتان کے قریب واقع رحمان کے دفتر میں دو نوجوان گھس آئے، اسے اس کے رفقائے کار کے سامنے قتل کیا، اور رات کی تاریکی میں فرار ہو گئے۔ دوسری صبح پاکستان کے ہر اخبار نے انہیں “نامعلوم افراد” قرار دیا۔ لیکن رحمان کے قاتلوں کو پہچاننا مشکل نہیں: تشدد پسندانہ مذہبیت اس کی قاتل ہے، جسے حکومت کی مدد اور پشت پناہی حاصل ہے۔