تاریخ
14اور 15اگست 1947کی درمیانی شب ایک ساعتِ سعید میں کرہ ارض پر براعظم ایشیا میں پاک باشندوں کاپاک وطن، پاکستان المعروف الباکستان وجود میں آیا۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اس پاک سرزمین کو چاروں طرف سے ناپاک ممالک نے اپنے نرغے میں لے رکھاہے۔ آزادی کے وقت تو اس پاک وطن کے دو حصے تھے ایک مغربی ایک مشرقی،24 برس کے تقابل کے بعدمغربی حصہ مشرقی حصہ سے زیادہ پاک قرار پایا لہذا نجس حصہ ازراہِ ہمدردی مقامی مچھیروں کے حوالے کر دیا گیا تاکہ وہ خوشی خوشی چاول کھا سکیں اور مچھلیاں پکڑ سکیں۔ باقی ماندہ خالص اور پاک پاکستان طہارت اور پاکیزگی کے کئی مراحل طے کرنے کے بعد آج دنیا کے نقشہ پر قیامت تک کے لئے قائم دائم، شاد اور آباد رہنے کے لئے موجود ہے۔

[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]

جغرافیہ
پاکستان کاظہورجنوبی ایشیا میں ہوا اور اپنے قیام کے وقت سے یہ ملک اداس و مایوس امت مسلمہ کیلے روحانی مرکز اور قلعہ کا کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کا محلِ وقوع اس کے باشندوں اور ان کے عزائم کے لحاظ سے نہایت مناسب اورموزوں ہے۔ پاکستان کو قدرت نے کل چار ہمسایوں سے نوازا ہے ،جن کے ساتھ پاکستان نے ہمسایئگی کے تمام معیارات کے عین مطابق ایسے خوشگوار تعلقات رکھے ہیں کہ دنیا کا ہر ملک حسد میں مبتلا ہو گیا ہے۔ پاکستان میں ایک اچھے ہمسائے کی تمام خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہیں لہذا کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں ملا، وہ تو کچھ بدباطن لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ آپ ان کے لئے کچھ بھی کر لیں وہ ٹرٹر کیے جائیں گے۔ پاکستان کی مثال اس محلے دارکی سی ہے جو کبھی کچھ غلط نہیں کرتا اور سب کے کام آنے کی کوشش کرتا ہے مگر شومئی قسمت، ہر سانحہ ہر حادثہ اسی کے سر مُنڈھا جاتا ہے۔ اقوام عالم کی تمام تر لعن طعن اور الزام تراشیوں کے باوجود پاکستان اچھا ہمسایہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے خاموشی سے عالمی برادری کے وسیع تر مفا د میں یہ کڑوا گھونٹ بھی پی لیتا ہے۔

[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]

پاکستان اور بھارت

pakistan-india-relations-weapons

پاکستان کی مشرقی سرحد ایک کینہ پرور ملک بھارت سے متصل ہے جسے ہم تین جنگوں میں اپنی اعلیٰ عسکری و جہادی صلاحیتوں کی وجہ سے شکستِ فاش دے کر ناکوں چنے چبوا چکے ہیں،جس کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ہم چھ ایٹمی دھماکے کر کے اسے اس کی اوقات کا احساس دلا چکے ہیں۔یہ وہی بھارت ہے جو پاکستان کا نام سنتے ہی گھگھیانے لگتا ہے اور ہمارے ایک اشارے پر تمام جنگی و شہری قیدی رہا کر دیتا ہے۔ بھارت پاکستان کی جانب سے ہلکی سی سرزنش پر بگلیہار ڈیم اور کشن گنگا پروجیکٹ کو فی الفور ختم کرنے کا اعلان کر دیتا ہے۔ بھارتی چانکیائی سیاست اور کینہ پروری کا یہ عالم ہے کہ اس کی سرزمین پر ہونے والے دہشتگردی کے ہرواقعہ کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا جاتا ہے لیکن حافظ سعید صاحب جیسے جری مجاہدین کے ہوتے کوئی اس دھرتی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیموں کی وجہ سے جلد ہی ہندوستان پاکستان کی شہ رگ کشمیر سے اپنی غاصب افواج واپس بلانے کو ہے۔ تمام تر دشمنی کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان اکثر خام اشیا کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے، اجمل قصاب اور ثانیہ مرزا اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ چند سازشی مورخین کے مطابق پاکستان اور بھارت ایک ہی قوم ہیں مگر الحمدللہ ایسے کدل اور بےمغز لوگوں کی آواز بلند ہونے سے پہلے ہی دبا لی جاتی ہے۔یعنی کیا ہی حماقت ہےکہ گائےکے پجاری بنیےاور گائے کھانے والے ایک ہی ہیں؟ کسی کی کیا مجال جو یہ کفریہ کلمات کہے، ہر پاکستانی کا شجرہ نسب کسی نہ کسی عرب، ایرانی، ازبک یا تاجک سے ملتا ہے۔

[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]

پاکستان اور افغانستان

pakistan-afghanistan-border

مغرب میں چند چرواہوں اور گڈریوں کا ملک افغانستان ہے جو پہاڑوں پر بکریاں چرا کر گزر بسر کرتے ہیں۔ اس عظیم ملک نے کئی تاریخ ساز شخصیات پیدا کی ہیں جن میں سے ملا عمر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ مواقع کی سرزمین ہے جہاں آپ نئی زندگی کا آغاز کر سکتے ہیں مگر درحقیقت روئے زمین پر افغانستان وہ واحد ملک ہے جہاں ایک چھوٹی سی مسجد میں یتیم بچوں کو بلامعاوضہ قرآن پڑھانے والا قاری،جنت نظیر شرعی ریاست کا بانی اور أمير المومنين بن سکتا ہے ۔ ملا عمر ہی وہ واحد حکمران ہے جو دنیا کی تمام دجالی طاقتوں کوبے خوف و خطر للکار سکتا ہے کیونکہ اسے یقین ہے تمام یہود و نصاریٰ واجب القتل ہیں اور ان سے کسی قسم کے سفارتی تعلقات غیر ضروری ہیں۔
امارت اسلامیہ افغانستان کے وقتی انہدام کے باوجود پاکستان اور اٖفغانستان کے تعلقات نہایت برادرانہ ہیں یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کی 2640 کلومیٹر لمبی سرحد پر پاسپورٹ اور ویزہ چیکنگ جیسے رسمی قواعدغیرمعینہ مدت تک موقوف ہیں تاکہ عوام الناس بلا روک ٹوک انواع و اقسام کا مال و اسباب لئے آزادانہ نقل و حرکت کر سکیں۔ یہ فراخدلانہ سہولت صرف اٖفغان عوام تک محدود نہیں بلکہ ازبک، تاجک اور عرب بھی اس سنہری پیشکش سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایسی فیاض اور شفقت آمیز خارجہ پالیسی کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں دن بدن بہتری آ رہی ہے جس کی ایک ادنیٰ مثال پشاور میں نمودار ہوتا دوسرا کابل ہے۔

[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]

پاکستان اور ایران

Iran-bomb

پاکستان کے جنوب مغرب میں ایران ہے جہاں چند عشرے قبل رضا شاہ پہلوی نامی یہود و نصاریٰ کا ایک گماشتہ حکمران تھا جس نے اس ملک کو سیکولر اور لادین بنانے کی کوششں کی، تاہم عالمِ اسلام کی مدد سے اس نامراد کو ہٹا کر ایک اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈال دی گئی جس کے ثمرات ہمیں آج اِس ملک میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں جبری زیادتی، بنیادی حقوق کی پامالی، اقلیتوں کا استحصال، خواتین پر بے جا قدغنیں عائد کرنے کا کوئی واقعہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔مسلکی اختلاف اپنی جگہ لیکن پاکستان سے ایران جاتے ہوئے زائرین پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتی ہیں اور انہیں ہر ممکن سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ ایران ایک مسلمان ملک ہے لہذا یہ بھی ایٹمی ہتھیار بنانے کا متمنی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان نے اپنے برادر اسلامی ملک کی حتٰی المقدور مدد کرنے کیلے عالمِ اسلام کے ڈیوڈ کاپر فیلڈ(David Copperfield)کی وساطت سے ‘ادھار’ لی جوہری ٹیکنالوجی ایران کو فراہم کی۔ ایران اور پاکستان ماضی میں بھی تعاون کرتے رہے ہیں؛ اسی کی دہائی میں ایران عراق جنگ میں پاکستان نے ایران کی مدد کر کے امریکہ بہادر کی آنکھ میں دھول جھونک دی اور ستر کی دہائی میں بلوچستان کے اندر چند آزادی کے متوالے، غدار قوم پرستوں کا قلع قمع بھی ایرانی امداد سے ہی ممکن ہوا۔ چندسازشیوں نے ایران کو شک میں مبتلا کر دیا ہے کہ پاکستان جنداللہ نامی تنظیم کی امداد کرتا ہے، مگر انکی یہ سازش جلد ہی بے نقاب کر دی جائیگی۔

[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]

پاکستان اور چین

pakistan-china-border-soldiers

پاکستان کے شمال میں ایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ باہمی تعلقات کو بیان کرتے وقت "ہمالیہ سے اونچی، شہد سے میٹھی، گہرے سمندر سے بھی گہری دوستی” جیسی اصطلاحات استعمال کرنا پڑتی ہیں۔چین کا ذکر آتے ہی ذہن میں جو چیز سب سے پہلے آتی ہے وہ چکن سوپ اور چائنیزکھانے ہیں کیوں کہ پاکستان اور چین کی خارجہ پالیسی میں مرغوں اور مرغیوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔اس قدر محبت و قربت کے بعد بھی چین کی کچھ باتیں پاکستانی سمجھ نہیں پاتے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا کو جتنا اس کی اصلی حالت میں رکھیں گے، اتنا ہی قدرت کے قریب ہوں گے۔ پاکستانی صنعت کار اور واپڈا اس امر کو بخوبی سمجھتے ہیں مگر چینی عجیب ہی لوگ ہیں، جگہ جگہ فیکٹریاں اور صنعتیں لگا کر خود کو قدرت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جتنا پیدل چلیں گے اتنی لمبی عمر پائیں گے پھربھی چینیوں نے ہر جگہ سڑکوں کا جال بچھا رکھا ہے۔ پاکستان میں پیڑول کی قیمت کی محتاط نگرانی کر کے لوگوں کو زیادہ صحت مند اندازِ زندگی اپنانے کی ترغیب دی جاتی ہے مگر چین میں نہ صرف پیٹرول سستا ہےبلکہ گاڑیاں بھی سستی ہیں۔ ایک اور چیز جو ایک عام پاکستانی کو حیران بلکہ پریشان کر دیتی ہے وہ چینی لوگوں کا قطار میں کھڑا ہونا ہے۔ ان لوگوں کو وقت کی قدر کا احساس ہی نہیں۔ جتنا مرضی رش ہو، پاکستانی جانتے ہیں کہ سب سے پہلے اور سب سے آگے کیسے اور کس راستے سے پہنچا جاسکتا ہے۔

Leave a Reply