جاوید چودھری پاکستان کے اردو صحافتی حلقوں میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والا صحافی ہیں۔ فیس بک پیج پر ان کے چاہنے والوں کی تعداد پانچ لکھ کے لگ بھگ ہے ۔جو واضح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ آں حضرت پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے کالم نگار ہیں۔
چوہدری صاحب اسلامی نظام حیات کے داعی ہیں اور اس کے مساوات اور برابری کے زریں اصولوں کی ترویج کرتے ہیں ۔ جب بھی یورپ جاتے ہیں تو وہاں کی ترقی کو اسلا می نظام کا مرہون منت قرار دیکر مسلمانوں کی زبوں حالی پر آنسو بہاتے ہیں اور اس شعرکی عملی تفسیر بن جاتے ہیں۔
مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کویورپ میں ، تو دل ہوتا ہے سیپارہ
موصوف کے مطابق انہوں نے چودہ سو کی نوکری سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور پھر ایک اخبار میں کالم لکھنے لگے۔ کالم لکھنے سے انہیں اتنا فائدہ ہوا کہ انہوں نےاپنے ایک بھائی کے لیے کمپنی کھول دی ۔ دوسرے سال موصوف نے دوسرے بھائی کےلیے بھی ایک کمپنی کی داغ بیل ڈال دی۔ دونوں بھائیوں کو کمپنی سونپنے کے بعد جناب دوبارہ کالم نگاری میں مصروف ہوگئے اور تاحال یہی شغل فرما رہے ہیں۔
سوال مگر یہ ہے کہ کیا کالم نگاری سے اتنا پیسہ کمایا جا سکتا ہے کہ دو بھائیوں کے لئے کمپنی کھولی جا سکے ؟ یہی چوہدری صاحب اپنے ٹی وی شو زمیں سیاستدانوں کے اس بات پر لتے لیتے ہیں کہ وہ میریٹ ہوٹل میں قیام کرتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال جناب وہ مڈبھیڑ ہے جو ان کی سینیٹر فیصل رضا عابدی سے ہوئی۔ چوہدری صاحب کے اس اعتراض پر پروگرام کے دوران عابدی نےان کو کہا "تم خود تو پچاس ہزار کی ٹائی پہنتے ہو اور مجھ سے میرے خرچے کا حساب مانگتے ہو ” ایک صاحب اگر کالم نگاری کر کے دو بھائیوں کے لئے کمپنی کھول سکتے ہیں تو کیا یہ ممکن نہیں کہ ایک سیاستدان سیاست کرکے میریٹ ہوٹل میں قیام کر سکے اور ایک آدھ کمپنی کھول کے اس کا سربراہ بن جائے؟
موصوف طالبان کے کٹر حامیوں میں سے ہیں اور اوریا مقبول جان کی طرح پانچ سالہ طالبانی حکومت کو افغانستان کے سنہری ادوار میں شمار کرتے ہیں – موصوف ہر وقت قوم کے شاہینوں کو اخلاقیات کا درس دیتے رہتے ہیں ۔یہی اخلاقیات کے مبلغ کچھ عرصہ قبل اپنے ٹی وی کے دفتر میں اپنے ایک ساتھی اینکر پر بندوق لے کر حملہ آور ہوئے۔ اگرچہ یہ واقعہ پریس میں رپورٹ نہیں ہوا مگر کل تک پروگرام میں ایم کیو ایم کے رشید گوڈیل نے اس بات پر چودھری کی خوب کلاس لے لی اور ان سے کہا کہ اخلاقیات کا جو سبق وہ دوسروں کو دے رہے ہیں وہ خود کو بھی اس سے بالاتر نہ سمجھیں
موصوف نے حال ہی میں ایک پروگرام مشرف کے کیسوں سے بری ہونے کے حوالے سے کیا – حیرت انگیز طور پر چودھری نے اپنے پروگرام میں مولانا عبدالعزیز کو مدعو کیا اور مولانا صاحب سے مشرف کے مستقبل پرتبصرے لیے۔موصوف کی علمی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسی پروگرام میں مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے یہ جھوٹا بیان داغ دیا کہ ستر کی دہائی میں جب خانہ کعبہ پر حملہ ہوا تھا تو پاکستان آرمی کے تب کے بریگیڈیر مشرف نے خانۂ خدا کو قابضین سے چھڑوایا ۔ چودھری صاحب نے اس بیان پر سبحان اللہ کہنے کے بعد مشرف کو ایک اسلامی ہیرو قرار دیا اور مختصر سی بریک پر چلےگئے۔ وہ تو بھلا ہوا کہ بریک سے واپسی پر پاکستان آرمی کے ہی ایک اور ریٹائرڈ افسر نے اس واقعے کی تردید کر کے چودھری صاحب اور قصوری کی جہالت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
موصوف سائنس پر بھی بھرپور تبصرے فرماتے رہتے ہیں اور یورپ کی ایجادات و افکار کو مسلمانوں کی ذہنی کاوشوں کا چربہ قرار دیتے ہیں ۔ اپنے ایک آرٹیکل میں موصوف نے نیوٹن کے عمل اور ردعمل کے قانون کی جڑیں افغانستان میں پی جانے والی قہوہ اور اس کے بعد آنے والے پیشاپ میں ڈھونڈ نکالیں ۔اس آرٹیکل میں جناب لکھتے ہیں "نیوٹن زندگی بھر یہ حقیقت فزکس کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کرتا رہا مگر افغان نیوٹن کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل نہ صرف اس حقیقت سے واقف ہو چکے تھے بلکہ یہ پیشاپ کو جواب چائے کا نام دیکر نیوٹن سے آگے نکل گئے ” ہمیں اس بات پر کسی قسم کا تعجب نہیں ہوتا جب مسلمان اس قسم کے دانشوروں کو پڑھ کر تمام ایجادات کو مسلمانوں کی مہربانی سمجھتے ہیں ۔
چوہدری صاحب شدّت پسندی اور جدّت پسندی میں حسین امتزاج پیدا کرنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ موصوف نے حال ہی میں ملالہ پر ایک آرٹیکل لکھ ڈالا ۔ آرٹیکل میں یہ قادیانیوں میں پاکستانیوں کو مساوی شہری حقوق حاصل ہونے کا انکشافی دعویٰ کیا، جبکہ اسی آرٹیکل کے شروع میں ڈاکٹر عبدالسلام کو قادیانی اور آئینی طور پر غیرمسلم ہونے کا طعنہ بھی دے لیا، اور ان کی ناقدری ہونے پر اپنے لوگوں کی علم دشمنی کا ماتم بھی کر لیا، اور یورپ کی علم دوستی اور جوہر شناسی کے گن گانے لگے۔
جاوید چودھری ، انصار عباسی، اوریا مقبول جان اور اس قبیل کے دوسرے خود ساختہ دانشور ہی اس ملک میں پھیلی کئی ایک بیماریوں کے متعدی جراثیم ہیں ۔یہ لوگ لاکھوں جوانوں کے اذہان کی پراگندگی کے ذمہ دار بن رہے ہیں۔شاید انہی لوگوں کے بارے میں خلیل جبران نے کہا تھا "افسوس اس قوم پر جس کا فلسفی مداری ہو”۔
انتباہ: مجلس ادارت کا میگزین میں شامل قلمی معاونین کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ مشمولات کی اسناد اور حوالوں میں کمی یا بیشی کا ادارہ ذمہ دار نہ ہو گا۔
یوتھ یلزایک نیا رنگا رنگ سلسلہ ہے، جس میں نوجوان قلمکار بلا جھجک اپنے ھر طرح کے خیالات کا دوٹوک اظہار کر سکتے ہیں۔۔ آپ کا اسلوب سنجیدہ ہے یا چٹخارے دار۔۔ آپ سماج پر تنقید کا جذبہ لیے ہوئے ہیں یا خود پر ہنسنے کا حوصلہ۔۔۔۔ “لالٹین” آپ کی ہر تحریر کو خوشآمدید کہتا ہے۔ |
سچی بات یہ ہے کہ مضمون میں ربط نہیں ہے. ایک خیال سے دوسرے خیال تک چھلانگ لگاتے ہوے مضمون نگار صرف کیچڑ اچھال مہم کا حصہ بن رہے ہیں. یہ الگ بات ہے کہ اس کیچڑ اچھال مہم میں ان کی مضمون نگاری کی صلاحیت بھی چیخ چیخ کر اپنی کمزوری کا اعلان کر رہی ہے.
نوجوان لکھاریوں کو چاہیے کہ اپنی سوچ میں پختگی پیدا کرنے کے بعد اپنی زبان اور بیان کی صلاحیت کو بھی معیاری کرینگے تو تب ہی تنقید کو لوگ سنجیدگی سے لیں گے.
تنقید نگاری، وہ بھی مزاح کے پرائے میں، بہت مشکل ہے. آسان تو بلکل بھی نہیں ہے.
BILKUL TEEK
kamal sahib sakht zabaan istemaal karna ka khilaaf hooo..ap ki sari tehreeer ka baghoor parhaaa.siwaii bughz oar hasad k kuch nazar nahi ai.lagta hai aiynaa daikhna ki adat nahi…may be aaap ko maloom nahi ed chuadry ko ik program ka 2.5 lac oar ik coloumn kadus lac rupees miltaa hai..aap FBR ki site pa ja kar un tax return daikh saktaa hai..ap pehla apna qad kaaath itna kara ka ap ka lafzoo pa ghooor ja saka..tanked zaroor karai….but ikhlaaaq ka daman hath sana chorna pai…Ik baat oar izAT OAR zilat ALLAH TALLAH KA HATH MAI HAI.SHUKRIYA