Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

پاکستان کی سیکولرتشکیل ضروری ہے

test-ghori

test-ghori

18 فروری, 2014
(حصہ اول)
مسلم ریاستوں میں موجود سیاسی بحران ماضی کی قدامت پرست روایات اور آئین سازی اور قانون سازی کے عمل میں مذہبی علماء خصوصاً تقلید پرست اور قدامت پسند علماء کے غلبہ کی وجہ سے ہے۔موجودہ مسلم ریاستیں کی سیاسی شناخت قومیت سے ہٹ کر مذہبی خصوصاً فقہی ہوتی جارہی ہے جس کی بڑی وجہ مذہبی علماء کی طرف سے جدید قومی ریاست کے تصور کی نفی اور امت یا ملت کی مذہبی توسیع پسند شخصی حکومت کا قیام کی حمایت ہے جو عالمگیر غلبے کے لئے سیاسی، معاشی اور فوجی قوت استعمال کرے۔ مذہبی علماء ابتدائی اسلامی دور کی فتوحات کے اثر میں اپنی سیاسی حیثیت کے برقرار رکھنے کے لئے عالمگیر خلافت کے قیام کی حمایت کرتے رہے ہیں، اور مسلم ممالک میں بتدریج قومی ریاست کا تصور غیر مقبول ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ عالمگیر خلافت کے قیام اور شریعت کے نفاذ کے مطالبے کی حمایت بڑھ رہی ہے۔ مذہبی علماء کا سیاسی کردار مسلم ممالک میں بتدریج بڑھا ہے۔ ابتدائی چاروں خلفاء میں کوئی مقتدر مذہبی طبقہ موجود نہیں تھا۔ اموی خلفاء کی متنازعہ حیثیت نے حکومت کے جواز کے حصول کے لئے علماء کے طبقے کو پروان چڑھایا اور ان کی سیاسی حیثیت کو مستحکم کیا۔ ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق مذہبی علماء کبھی بھی مسلم ریاستی معاملات میں اتنے دخیل نہیں رہے، بلکہ بیشتر نے ریاست اور حکومت سے علیحدگی کا رویہ اپنایا ۔ تاہم نوآبادیاتی دور کے بعد یورپی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کے جذبے کے تحت مسلم اصلاح پسند تقلیدی تحریکوں کے آغاز نے مذہبی بنیادوں پر علماء کی سیاسی حیثیت کو مستحکم کیا۔ علماء آج مسلم ممالک میں براہ راست سیاسی معاملات پر اثرانداز ہونے کی طاقت اور حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ علماء کی سیاسی حیثیت کے ارتقاء کا مسلم ریاستوں کی قومی، فلاحی اور جدید سیکولر ریاست کی صورت میں تشکیل کے لئے جائزہ لینا ضروری ہے۔
مسلم فقہ کی تشکیل اور احادیث کی تدوین نے اسلام کی تشریح کا اختیار ریاست کے حکم ران سے لے کر مذہبی علما کو دے دیا جنہوں نے بعد ازاں حکم رانوں کے ساتھ مل کر اپنے مخالف فرقوں کے افراد کو اور حکمران طبقے نے مذہبی علماء کی مدد سے سیاسی مخالفین کو تہ تیغ کرنا شروع کیا۔
عرب علاقوں پر فتوحات کے بعد اُونٹوں کی پُشت پر سوار عربوں کےسامنے جب تلوار، کھجور اور صحرا سے باہر کی دنیا کی فصیلوں کو پھلانگ کر ایران، مشرق وسطی ، ہندوستان ، افریقہ اور یورپ کےد روازے کھلے تو دولت، مقبوضات اور غلاموں کے ساتھ ساتھ تہذیب، ثقافت، علم، فلسفہ اور شہنشاہی نظام جیسے عجائبات بھی ان کی سادہ قبائلی اور مشقت طلب جنگجوانہ زندگی کے لئے ایک طُرفہ تجربہ تھے۔ ان مقبوضات کے لوگوں میں سیاسی فکروبصیرت میں اضافے کے ساتھ ہی عرب برتری اور انا کے لئے جہاں انتظامی اور سیاسی مسائل پیدا ہوئے وہیں مذہب اور عرب ثقافت کے بیچ تفریق کا عمل بھی شروع ہو گیا۔ روم،ترکی، ایران اور ہندوستان کے لوگوں سے میل جول نے عرب تہذیب اور مذہب کے مقامی مذاہب اور تہذیبوں کے ساتھ کہیں توٹکراو کی صورت پیدا کی اور کہیں عربوں کے نئے مذہب کی مابعد الطبعیات نے مقامی اساطیر اور دیومالا کو اسلامی رنگ میں نئے ناموں ، تہواروں اور سورماوں کے ساتھ اپنا لیا ۔ مقامی سرداروں، جاگیرداروں اور حکمرانوں کے قبول اسلام یا جزیہ پر آمادگی سے جہاں عر ب استعمار کو وسعت ملی وہیں عربثقافتی پس منظر کے حامل مذہب اسلام نے بھی نئی ثقافتوں سے میل جول کے نتیجے میں اپنا ایک مستقل مزاج طے کرنا شروع کر دیا۔
عرب قومیت کے پھیلاو نے اسلام کے فروغ کے ساتھ دوسرے خلیفہ کے زمانے میں ہی یہ سوال کھڑا کردیا تھا کہ اسلام کو نئے سماجی ، سیاسی اور معاشرتی ڈھانچے کو کیسے قبول کرنا ہو گا۔ اس دور میں ریاستی ڈھانچے کی عدم موجودگی کی وجہ سے معاشرے، مذہب اور حکومت کے درمیان کسی قسم کو کوئی تفریق کرنا عربوں کے لئے ممکن نہ تھا۔ عربوں کے لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت غیرمتنازعہ مذہبی، سیاسی، عسکری اور سماجی رہنما کی تھی لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے خلفا ء کی دیگر ممالک میں کی جانے والی فتوحات کے بعد مختلف امور پر مسلم حکمران عرب معاشرے کے ساتھ ساتھ مقبوضات میں بھی متنازعہ ہوتے گئے۔ ایک باقاعدہ عرب اور مسلم استعمار پسند ریاست کے قیام کے بعد مسلم حکمرانوں کے دربار میں عربوں کی جگہ ایرانی اور رومی اکابر کی حیثیت بلند ہونے لگی جس سے عرب ثقافت کی جگہ مقامی ثقافتوں نے لینا شروع کر دی۔ ابتدائی دور کے مسلمانوں میں کسی سیاسی اور معاشی نظام اور عرب معاشرے میں کسی متمدن تہذیب کی عدم موجودگی کے باعث قدیم قبائلی تنظیم کو بادشاہت میں تبدیل ہونا پڑا۔ خلافت اور خلیفہ کے متنازع ہوجانے کے باعث ابتدائی ،اموی اور عباسی خلفاء کے دور میں مذہب کی بنیاد پر خلفاء نے اپنی حکومت کے جواز کے لئے مذہب کا استعمال کیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد سے ہی مذہبی بنیاد پر مسلم تقسیم کا جوعمل مرتدین، نبوت کے مدعین اور بعد ازاں خوارج کی صورت میں شروع ہو گیا تھا، اسے سرکاری سرپرستی میں معاشی ذرائع کے تحفظ اور سیاسی مخالفین کے خلاف جنگ کے لئے مذہبی بنیادوں پر شروع کر دیا۔تمام خلفاء نے سیاسی مقاصد کے لئے مختلف گروہوں کو کافر قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف جہاد کیا۔ ان خلفاء کے خلاف خروج کرنے والے بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مذہب کی آڑ لیتے رہے ہیں۔ ابتدائی خلفاء کے عہد میں بھی مذہبی تشریح کا اختیار خلیفہ کے پاس رہا ہے، بلکہ اسلام کی بنیادی تشکیل کا عمل بھی دوسرے اسلامی خلیفہ نے شروع کیا تھا۔مذہبی اصلاحات اور اجتہاد کے دوران نہ صرف رسول سے اختلاف رائے کیا گیا بلکہ وقت کے تقاضوں اور سیاسی مقاصد کے لئے اختراعات بھی کی گئیں۔
مسلم بادشاہوں کے زمانے میں علما کا طبقہ ریاست یا حکمرانوں کے لئے تب تک کوئی بڑاخطرہ نہیں بنا جب تک مسلم بادشاہتیں اندرونی خلفشار کا شکار ہو کر زوال پذیر نہیں ہوئیں۔ مذہبی علماء اپنی سیاسی اور سماجی حیثیت مستحکم رکھنے کے لئے روایت پرست اور مقلد رہے ہیں۔
مسلم سلطنت کے پھیلاو کے بعد مختلف لہجوں میں قرآں پڑھنے، قرآن کے مختلف متن، نماز پڑھنے کے مختلف طریقوں کے تنازعات کے ساتھ بنوہاشم اور بنوامیہ کی قدیم دشمنی نے یزید بن معاویہ کے دور میں ایک نیا رنگ اختیار کیا اور مسلمانوں میں فرقہ کی تقسیم کا آغاز کیا۔ مسلم فقہ کی تشکیل اور احادیث کی تدوین نے اسلام کی تشریح کا اختیار ریاست کے حکم ران سے لے کر مذہبی علما کو دے دیا جنہوں نے بعد ازاں حکم رانوں کے ساتھ مل کر اپنے مخالف فرقوں کے افراد کو اور حکمران طبقے نے مذہبی علماء کی مدد سے سیاسی مخالفین کو تہ تیغ کرنا شروع کیا۔ مذہب کی مستقل تشکیل کا زیادہ تر عمل چوں کہ اموی اور عباسی خلفاء کے زمانے مین ہوا اس لئے اس قرآن اور احادیث کی تدوین اور فقہ کی تشکیل کا عمل بھی اموی اور عباسی سیاسی مقاصد اور اس زمانے کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کیا گیا۔ ابتدائی دور کے مسلمان جب ایران اور روم جیسی عظیم سلطنتوں پر قابض ہوئے تو انہیں مقامی مذاہب کے علم الکلام اور فقہ کے مقابل اسلام کی باقاعدہ تدوین اور تشکیل کرنا پڑی۔ مذہب کی تشکیل کے اس عمل کے دوران علماء اور مدارس کو مرکزی حیثیت حاصل ہوئی، گو کہ مسلمانوں میں کلیسا جیسا کوئی منظم مذہبی ادارہ وجود میں نہیں آیا پھر بھی علماء کی دربار کے ساتھ وابستگی کے نتیجے میں خلفاء نے کسی ایک فقہ اور مسلک سیاسی مقاصد کے لئے اپنا کر دیگر مسالک اور فرقوں کے علماء اور پیروکاروں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنایا۔
ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی میں اموی خلفاء نے کربلا اور مسلمانوں کے مقدس مقامات پر حملہ کرنے کے کی ذمہ داری سے بری ہونے کے لئے “جبر” کے نظریہ کی حمایت کی اور “قدر” کے نظریہ کی مخالفت کرتے ہوئے نظریہ قدر کے حامیوں کو مرتد قرار دے کر قتل بھی کیا۔بعدازاں معتزلہ اور اشاعرہ کی بحث نے جہاں اسلام کے علم الکلام کی بنیاد پڑی اور حکمرانوں کے لئے مذہب کے سیاسی استعمال کے لئے علماء کی درباری اور سیاسی حیثیت مستحکم ہوئی۔دربار سے وابستہ علماء نے اپنے مکتبہ فکر کی فقہ اور علم کلام کی بالادستی کے لئے ریاستی طاقت کو مخالف علماء کو سزائیں دینے کے لئے بھی استعمال کیا۔
عباسی دور میں مسلمان ارسطو اور دیگر یونانی فلاسفہ کے افکار سے آگاہ ہوئے تومعتزلہ اور اشاعرہ کی آزاد ارادہ کی بحث، خدا کی ذات اور صفات کا قضیہ اور قرآن کے خلق اور مخلوق ہونے کا تنازعہ بڑھتے ہوئے خرد دشمنی، قدامت پسندی اورفتووں اور مناظروں کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے تک جا پہنچا۔ مذہب کی تشریح کا اختیار جو اسلام کے ابتدائی دنوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خلفا کو منتقل ہوا اور خلافت کے ملوکیت میں بدلنے کے بعد یہ اختیار علما کے پاس آگیا۔ مسلم بادشاہوں کے زمانے میں علما کا طبقہ ریاست یا حکمرانوں کے لئے تب تک کوئی بڑاخطرہ نہیں بنا جب تک مسلم بادشاہتیں اندرونی خلفشار کا شکار ہو کر زوال پذیر نہیں ہوئیں۔ مذہبی علماء اپنی سیاسی اور سماجی حیثیت مستحکم رکھنے کے لئے روایت پرست اور مقلد رہے ہیں۔ امام غزالی کے افکار نے عملی طور مسلم دنیا میں کسی نئی فکری تحریک کے امکانات کو ختم کردیا۔ عثمانی دور خلافت صحیح معنوں میں مسلم بادشاہتوں کے زوال کا باعث ہے۔ اس دور میں تقلید اور قدامت پرستی کو حاصل سرکاری سرپرستی کی وجہ سے مسلم فکر سے جدت، اختراع اور اجتہاد ختم ہوگئے اور عباسی دور میں یونانی فلسفہ کی بنیاد پر پروان چڑھنے والی مسلم فلسفہ، سائنس اور خرد پسندی کی روایت بھی دم توڑ گئ۔
مسلم حکومتوں میں قانون سازی کے اختیارات تو مسلم حکمرانوں کے پاس رہے مگر قانون سازی کے لئے رہنمائی اور قوانین کی تشکیل میں مذہبی علماء کا کردار مسلم معاشرے میں بتدریج بڑھا ہے۔علما کے طبقے نے اپنے سیاسی، انتظامی اور قانونی اثرو رسوخ کو برقرار رکھنے کے لئے مسلم معاشروں میں مذہب کی کسی بھی نئی تشریح، خرد پسندی کی تمام کوششوں اور سائنسی انداز فکر کی ہمیشہ بیخ کنی کی ہے۔ ابن رشد، رازی، فارابی،ابن سینا ، الکندی ؛سبھی کو علما کے فتووں اور مذہبی سزاوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مذہبی علما نے اپنے مسلک کے برخلاف مذہب کی کسی بھی عقلی توجیہہ، جدید زمانے سے مطابقت کی کوشش کی نفی کر کے مسلم سماج کو پسماندہ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کے ہاں ریاست کی جمہوری تشکیل یا کسی علمی اور فکری تحریک کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔آزادی فکر کی عدم موجودگی کے باعث سیاست، معیشت، سماجیات اور علمیات کے شعبہ فکر نو سے محروم رہے ہیں۔ مسلم بادشاہتوں کے استحکام کے لئے ہمیشہ مذہب اور فوجی طاقت پر انحصار کیا گیا ہے۔
اسلام میں زیادہ تر اصلاحی تحریکیں مذہبی احیاء کی تحریکیں رہی ہیں، بہت کم ایسا ہوا ہے کہ مذہب میں جدت اور اجتہاد کی بنیاد پر نئے زمانے کے لئے مذہب کی نئی تشکیل یا تشریح کی کوئی کوشش کی گئ ہواور اسے عوامی پذیرائی بھی حاصل ہوئی ہو۔ ہندوستان اور مشرق وسطیٰ کے زیادہ تر مسلمان تعلیمی ، فکری اور معاشی پسمانگی کے باعث جدید افکار سے دور رہتے ہوئے یورپی استعماری قوتوں کے لائے ہوئے نظریات کی بجائے اپنے قدیمی شہنشاہی دور یا خلافت کی واپسی کے خواہش مند رہے ہیں۔
اسلام میں زیادہ تر اصلاحی تحریکیں مذہبی احیاء کی تحریکیں رہی ہیں، بہت کم ایسا ہوا ہے کہ مذہب میں جدت اور اجتہاد کی بنیاد پر نئے زمانے کے لئے مذہب کی نئی تشکیل یا تشریح کی کوئی کوشش کی گئ ہواور اسے عوامی پذیرائی بھی حاصل ہوئی ہو۔ ہندوستان اور مشرق وسطیٰ کے زیادہ تر مسلمان تعلیمی ، فکری اور معاشی پسمانگی کے باعث جدید افکار سے دور رہتے ہوئے یورپی استعماری قوتوں کے لائے ہوئے نظریات کی بجائے اپنے قدیمی شہنشاہی دور یا خلافت کی واپسی کے خواہش مند رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسلم ریاستوں میں مذہب اور سیاست کی علیحدگی اور جمہوری سیاسی نظام کو اپنانے کا عمل ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔ ہندوستان اور ترکی میں مذہبی علما کے اس مرتبہ اور مقام کو تب پہلی بار حقیقی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا جب یورپی سامراجیت کے بعد انگریز، فرانسیسی اور دیگر مغربی اقوام کی نوآبادیات میں جمہوری نظام ہائے حکومت متعارف ہوئے اور آزادی کی تحریکوں میں قوم پرست اور اشتراکی طبقات نے مذہب کی بجائے قوم پرستانہ افکارکی بنیاد پر اپنے علاقوں میں آزاد ریاستوں کے قیام میں کامیابی حاصل کی۔ مگر ہندوستان میں مسلم سیاست میں تحریک خلافت کے بعد سے مسلم علما کی سیاسی طاقت اور اثرو رسوخ میں اضافہ پاکستان کے قیام کے بعد نفاذسلام کے مطالبے کی صورت میں سامنے آیا۔ شاہ ولی اللہ سے لے کر دیوبندی علماء اور اقبال تک، تمام مذہب اور سیاسی اختیار کو علیحدہ کرنے پر تیار نہیں رہے۔ سید احمد جو مذہب کی سائنسی تشریح کے قائل تھے وہ بھی ہندوستانی قومیت کی بجائے مسلم ہندوستانی اور ہندو ہندوستانی کی سیاسی تقسیم کے زیادہ قائل نظر آتے ہیں۔ جناح نے بھی سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اسلام کا سہارا لیا جس کے باعث پاکستان کے قیام کے بعد بھی ریاست اور مذہب کی علیحدگی ممکن نہیں ہو سکی۔