[blockquote style=”3″]

کنور خلدون شاہد کا یہ مضمون اس سے قبل مسلم ورلڈ ٹوڈے پر بھی شائع ہو چکا ہے، لالٹین قارئین کے لیے یہ مضمون ترجمہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔

[/blockquote]

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی 41 نشستوں کے انتخابات 21 جولائی 2016 کو منعقد ہوئے۔ ان انتخابات سے ایک رات پہلے تک ہندوستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہندوستانی افواج کے ہاتھوں 41 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ منقسم جموں و کشمیر کے دونوں حصے باہم اس طرح ایک دوسرے سے پیوست ہیں کہ ہندوستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والے مظالم سے پاکستانی سیاست دانوں کو ایک سفاکانہ خوشی محسوس ہوئی ہو گی، بھلا کشمیریوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کا اس سے بہتر موقع کیا ہو گا کہ جب لائن آف کنٹرول کے اُس جانب ہندوستانی افواج کشمیریوں پر اس بڑے پیمانے پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہو۔

یہ وقت سیاسی اعتبار سے سونے کی کان ثابت ہوا، لیکن 2018 کے انتخابات کے لیے۔

بلاشبہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں منعقد کرائے جانے والے انتخابات بھی محض ڈھونگ ہیں۔ یہاں کوئی بھی حکومت آ جائے اس خطے کے معاملات وفاقی حکومت ہی چلاتی ہے۔
بلاشبہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں منعقد کرائے جانے والے انتخابات بھی محض ڈھونگ ہیں۔ یہاں کوئی بھی حکومت آ جائے اس خطے کے معاملات وفاقی حکومت ہی چلاتی ہے۔ لیکن چونکہ پاکستانی رائے دہندگان کے دلوں میں کشمیر کے لیے ایک جذباتی وابستگی موجود ہے اسی لیے جہاں ایک جانب کشمیر جل رہا تھا، تو اسی آگ کی چنگاریوں سے پاکستانی سیاستدان اپنے مفادات کی انگیٹھیاں سلگاتے رہے۔

دیگر وفاقی اکائیوں کے برعکس پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اپنےانتظامی امور کے لیے مکمل طور پر وفاقی حکومت کا محتاج ہے، اس کے باوجود اس خطے کے نام کے ساتھ’ آزاد’ کا دم چھلا لگایا گیا ہے۔ ‘آزاد’ کا یہ سابقہ، پاکستانی حکام کی کشمیر کی آزادی سے متعلق سوچ کا بہترین عکاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہادی جماعت حزب المجاہدین کو کشمیری جدوجہد کی نمائندہ جماعت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جب کہ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ اور یونائیٹڈ کشمیر پیپلز پارٹی کو منظر نامے سے دور رکھا جاتا ہے۔ کشمیر کی آزدی اور خودمختاری کی حامی جماعتوں کو دبانے کے لیے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ آزاد کشمیر اور بھارتی مقبوضہ کشمیر، دونوں جگہ پر طاقت کا استعمال کرتی ہے۔

جھوٹ کے ان تمام پلندوں کے باوجود جو پاکستان اقوام متحدہ میں بار بار پیش کرتا ہے، پاکستان بالخصوص پنڈی والوں کے لیے کشمیر کی آزادی کا مطلب پاکستان سے الحاق کے سوا کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہادی گروہ یا جنوبی ایشیاء کے دہشت گرد گروہوں کو آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ عسکریت پسدنی ترک کر کے سیاسی جدوجہد شروع کرنے والی جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ جیسی جماعتوں کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مکمل طور پر دبا دیا گیا ہے۔

جیسے جیسے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے نعرے "کشمیر بنے گا خود مختار” کی جگہ حزب المجاہدین کے نعرے "کشمیر بنے گا پاکستان” نے لی ہے ، کشمیریوں کی ہلاکتوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوا ہے۔
جیسے جیسے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے نعرے "کشمیر بنے گا خود مختار” کی جگہ حزب المجاہدین کے نعرے "کشمیر بنے گا پاکستان” نے لی ہے ، کشمیریوں کی ہلاکتوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ جتنے زیادہ کشمیری "کشمیر بنے گا پاکستان” کے نعرے لگاتے ہلاک ہوئے، اقوام متحدہ میں پاکستان کا مقدمہ اتنا ہی مضبوط ہوتا گیا۔

بلاشبہ ایک ایسی حقیقی دنیا جو کسی جہادی یوٹوپیا کے زیر تسلط نہیں، وہاں پاکستان کے لیے اپنا مقدمہ پیش کرنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں تھا کہ وہ ‘آزاد’ کشمیر کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹے۔ اس آزادی کو جانچنے کا ایک بہتر طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آزادی کی حامی جماعتوں کی انتخابی عمل میں شرکت کا جائزہ لیا جائے۔ آزاد کشمیر کے آئین کے باب دوئم کے یکشن سات کے مطابق: ” کسی بھی فرد یا جماعت کو (کشمیر کے) الحاق پاکستان کے ریاستی نظریے کے منافی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں”۔ ‘آزاد جموں و کشمیر’ اسمبلی کے جاری کردہ الیکشن آرڈیننس کے سیکشن 5 (2) (vii) کے مطابق "ریاست کے پالستان سے الحاق کے نظریے سے متصادم کسی بھی سرگرمی میں شامل ہونے والے یا ایسا بیان دینے والے فرد کو نااہل قرار دے دیا جائے گا۔” ان قوانین کا واضح مطلب یہی ہے کہ کوئی بھی شخص جو کشمیر کو پاکستان کا لازمی حصہ قرار دینے اور پاکستان سے کشمیر کے الحاق کا حلف اٹھانے کو تیار نہیں وہ پاکستان کے ازیرِ انتظام کشمیر کے انتخابات میں حصہ لینے کا اہل نہیں۔ سرکاری ملازمین کے لیے بھی اسی ریاستی نقطہ نگاہ سے اتفاق کرنا ضروری ہے۔

اس متنازعہ علاقے میں اس بڑے پیمانے پر پاکستانی فوج کی موجودگی قابل فہم ہے، تاہم اس علاقے میں جہادیوں کی تربیت و تعلیم کے 22 کیمپوں کی موجودگی ناقابل فہم ہے۔ ریاست کے ‘کشمیر بنے گا پاکستان’ کے بیانیے سے انحراف کرنے والے غیر جانبدار صحافیوں اور کتابوں پر پابندیاں بھی سمجھ سے بالاتر ہیں۔

سعید اسد کی کتاب "شعورِ فردا” جیسی کتابیں محض اس لیے پابندی کی زد میں ہیں کہ ان میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی رہنما مقبول بٹ کا خط موجود ہے۔
سعید اسد کی کتاب "شعورِ فردا” جیسی کتابیں محض اس لیے پابندی کی زد میں ہیں کہ ان میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی رہنما مقبول بٹ کا خط موجود ہے۔ خبررساں ادارے رائٹرز کے نامہ نگار وحید کیانی کو 2003 کی کشمیر اتحاد کانفرنس کی کوریج کرنے پر اٹھا لیا گیا۔ اس کانفرنس کے 300 مندوبین میں سے محض چار نے الحاق(دو پاکستان اور دو ہندوستان سے الحاق) کے حق میں ووٹ ڈالا جبکہ بقیہ تمام رائے دہندگان نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا۔ وحید کیانی کی رہائی کے بعد آزاد کشمیر کے اس وقت کے صدر سردار محمد انور خان نے مظفر آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ان سے کہا، "شکر کریں کہ آپ زندہ بچ گئے ہیں، شکرانے کے نفل ادا کیجیے”۔

پٹھان کوٹ واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کے چند روزبعد، اسی برس جنوری میں حزب المجاہدین کے روحانی کمانڈر اور متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے بھی مظفر آباد میں ایک پریس کانفرنس کی۔ یہ پریس کنفرنس انہی دنوں کی گئی جب پاکستانی سیکیورٹی ادارے بہاولپور میں ‘پٹھان کوٹ حملے کے ذمہ داران کی تلاش میں” چھاپے مار رہے تھے۔
ایک جانب جہاں پٹھانکوٹ حملے کے بعد پاکستان کی کشمیری مجاہدین سے متعلق دوغلی پالیسی زور و شور سے نافذ العمل تھی، وہیں دوسری جانب وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس ضمن میں ‘آزاد کشمیر’ اور گلگت بلتستان کے حکام اور مقامی سیاسی قیادت کے احتجاج کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ جموں و کشمیر کی علاقائی وحدت اور کشمیریوں کی جانب سے خودمختاری اور آزادی کے مطالبے کو پس پشت ڈالتے ہوئے، گلگت بلتستان کے پاکستان میں انضمام کا فیصلہ چینی حکام کی خواہشات کے پیش نظر کیا گیا۔ چینی حکام سی پیک کے کسی متنازع خطے سے گزرنے کے حامی نہیں۔

وفاقی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان کے پاکستان میں انضمام کی تجویز، اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کشمیری مجاہدین کی سرپرستی، آزاد کشمیر آئین کے تحت الحاق پاکستان کی تائید کا جبری تقاضا، مذہبی علماء کی جانب سے اپنے اسلام پسند ایجنڈے کے فروغ کے لیے لوگوں کے مسائل کا ڈھنڈورا پیٹا جانا اور ذرائع ابلاغ پر ہندوستانی حکام کے زیرِاختیار امور پر نشرواشاعت؛ یہی وہ تمام امور ہیں جو کشمیر پر پاکستان کی ناکامیوں کے سزاوار ہیں۔ انہی عوامل کے باعث پاکستانی اداروں نے اپنے اپنے مفادات کے تحت کشمیریوں کو مایوس کیا ہے۔

لشکرِ طیبہ، حرکتہ المجاہدین، جیش محمد اور حرکتہ الجہاد اسلامی کے ہاتھ لائن آف کنٹرول کی دونوں جانب بسنے والے کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
کشمیر میں ہندوستانی مظالم کی نشاندہی کرتے ہوئے پاکستان اپنے زیرِانتظام کشمیر میں روا رکھے جانے والے جبر کو چھپانا چاہتا ہے۔ اس دوہرے طرزعمل سے پاکستان کشمیریوں کے مصائب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی مشکلات میں اضافے کا بھی باعث بن رہا ہے۔ حزب المجاہدین اور برہان وانی جن کی پذیرائی قدامت پسند اور لبرل ہر دو طرح کے حلقوں کی جانب سے کی جا رہی ہے، ایسے دہشت گرد گروہوں سے منسلک ہیں جو ہندوستانی کشمیر کے ساتھ ساتھ ‘آزاد کشمیر’ میں بھی کشمیریوں کے اغواء اور قتل و غارت میں ملوث ہیں۔ لشکرِ طیبہ، حرکتہ المجاہدین، جیش محمد اور حرکتہ الجہاد اسلامی کے ہاتھ لائن آف کنٹرول کی دونوں جانب بسنے والے کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔

کشمیر میں ہمارے ریاستی اداروں کی مشترکہ ناکامی انسداد دہشت گردی کی پاکستانی حکمت عملی اور نیشنل ایکشن پلان کو ایک ڈھکوسلہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ کیوں کہ اگر ہم نے کشمیری جہادیوں سے لاتعلقی اختیار کی تو ہمیں کشمیریوں کی خواہشات کے سامنے سر جھکانا پڑے گا۔ گزشتہ تین دہائیوں سے جاری اسلام پسند پروپیگنڈے کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ‘کشمیر بنے گا پاکستان’ تمام کشمیریوں کی خواہش نہیں۔

Image: Drew Martin

Leave a Reply