اقوامِ متحدہ کے ادارے یونائٹڈ نیشن آفس آن ڈرگ اینڈکرائم(United Nation’s Office on Drug and Crime) ، نار کوٹکس کنٹرول ڈویژن اور پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (Pakistan Bureau of Statistics)نے پاکستان میں منشیات کے استعمال کے حوالے سے کیے گئے سروے کی مشترکہ سالانہ رپورٹ برائے سال 2013 ءجاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں15سے 64سال کےتقریباً 60 لاکھ 70 ہزار افراد منشیات کا استعمال کرتے ہیں جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے ۔ مجموعی طور پر نشہ کرنے والے افراد میں سے 20 فیصد خواتین ہیں جومسکن ادویات کونشہ کے لئے استعمال کرتی ہیں ۔ یونائٹڈنیشن آفس آن ڈرگ اینڈ کرائم(UNODC) کے پاکستان میں نمائندے سینرر گویڈز کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں منشیات کے عادی افراد بارے مفصل ڈیٹا فراہم کیا گیا ہے اور یہ معلومات پاکستان میں منشیات کی روک تھام اور علاج کے حوالے سے کافی سود مند ثابت ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ اس سلسلے میں طویل منصوبہ بندی،سرمایہ کاری اور مربوط کاروائی کے لئے حکومتی اداروں کے تعاون کی اشد ضرورت ہے ۔ رپورٹ میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ منشیات کا استعمال خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں زیادہ ہے ، جو منشیات کی ترسیل اور کاشت کے لئے بدنام ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دو سے ڈھائی لاکھ خاندان پوست کی کاشت کرتے ہیں جس سے ان خاندانوں کو اوسطاً تین سے چار ہزار امریکی ڈالر سالانہ آمدنی حاصل ہوتی ہے جو کہ افغانستان جیسے غریب ملک کیلئے ایک خطیر رقم ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دو سے ڈھائی لاکھ خاندان پوست کی کاشت کرتے ہیں جس سے ان خاندانوں کو اوسطاً تین سے چار ہزار امریکی ڈالر سالانہ آمدنی حاصل ہوتی ہے جو کہ افغانستان جیسے غریب ملک کیلئے ایک خطیر رقم ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ پاکستان کا مغربی بارڈر انتہائی غیرمحفوظ ہے اور وہاں حکومتی رٹ بالکل نہیں ہے جس کی بڑی وجہ طالبان کی افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں موجودگی ہے۔طالبان اور دیگر شدت پسند تنظیمیں پاکستان کی ریاستی رٹ کو چیلنج کیے ہوئے ہیں اور اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے منشیات کے کاروبا مٰیں بھی ملوث ہیں ۔ سینٹرل ایشیاء آن لائن نے اپنی ایک رپورٹ میں خیبر میڈیکل کالج کے شعبہ کیمیائی تجزیہ اور فورنزک میڈیسن کے ایک کیمیائی تجزیہ کار پرویز خان کے حوالے سے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ خودکش مشن پر روانہ ہونے سے قبل خود کش بمبار ہیروئن، افیون، اسٹیرائڈز اور دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔ پشاور کے نزدیک ادیزئی قومی لشکر اور پولیس کی کارروائی میں ہلاک ہونے والے ایک متوقع خودکش بمبار کے معائنے سے اس کے خون میں ہیروئن کی بڑی مقدار کا انکشاف ہوا جو حملے سے چند منٹ قبل انجکشن کے ذریعے لی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این او ڈی سی (UNODC)نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں طالبان اور دیگر دہشت گردگروپس اپنی تخریبی کارروائیوں کیلئے منشیات کی آمدنی استعمال کر رہے ہیں اور سال 2012 تک طالبان کی منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی 70 کروڑ ڈالر کے قریب تھی جو مستقبل قریب میں مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
افغانستان میں موجود نیٹو فورسز اور افغان فوج بھی منشیات کی کاشت کو روکنے میں ناکام رہی ہیں جو بہت تشویش ناک امر ہے جبکہ پاکستان میں توحکومتِ وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مصروف نظر آتی ہے اور حکومتی رٹ کو بحال کرنے بجائے ان علاقوں سے فوج کی واپسی جیسی تجاویز پر غور و حوض کررہی ہے۔امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد اگر طالبان اور دیگر جرائم پیشہ تنظیمیں مزید طاقت ور ہو گئی تو پھر یہ منشیات کی پیداوار اور کاروبا ر خطر ناک حد تک بڑھ سکتا ہے ۔ حکومتِ وقت کو قتل و غارت اور منشیات کی سمگلنگ جیسے گھناونے جرائم میں ملوث طالبان سے مذاکرات سے قبل ان پہلو وں کا بغورجائزہ لینا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ایسے گروہ مذاکرات کے بعدہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہو جائیں اور منشیات کی اسمگلنگ سمیت دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کو ترک کر دیں۔
حکومت کی طرف سے وفاقی، صوبائی اور علاقائی سطح پر منشیات کی ترسیل کا عمل روکنے اور منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لئے اقدامات کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبائی حکومتوں کو منتقل کر دیا گیا ہے لیکن اس حوالےسے صوبائی حکومتوں کی استعداد کار بڑھانے کی کو ئی مربوط کو شش نہیں کی گئی جس کی وجہ سے صوبائی حکومتوں کی طرف سے منشیات کی روک تھام اور نشے کے عادی افراد کی بحالی کے حوالے سے کارکردگی مایوس کن ہے۔ جرمن خبر راساں ادارے کے مطابق اس مسئلے کا ایک تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ حکومت کی مجرمانہ غفلت اور معاشرتی بے حسی کی بدولت اتنی بڑی تعداد جو منشیات جیسی لعنت کی عادی بن چکی ہے کے لئے علاج معالجے اور بحالی کی سہولتیں بالکل ہی نا کافی نظر آتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کیلئے حکومتی سطح پر صرف چند مراکز موجود ہیں جو کہ صرف بڑے شہروں میں ہیں ۔اس مقصد کے لئے قائم نجی ادارے بھی اس سلسلے میں کام ضرور کر رہے ہیں مگر وہاں اس لعنت سے چھٹکارے کیلئے علاج اتنا مہنگا ہے کہ عام آدمی وہاں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے ۔اس رجحان کو کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ صوبائی حکومتیں بھی اس مسئلہ کی سنجیدگی کا احساس کریں اور اس پر قابو پالنے کیلئے مناسب وسائل و اقدامات بروئے کار لائیں-
افغانستان میں موجود نیٹو فورسز اور افغان فوج بھی منشیات کی کاشت کو روکنے میں ناکام رہی ہیں جو بہت تشویش ناک امر ہے جبکہ پاکستان میں توحکومتِ وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مصروف نظر آتی ہے اور حکومتی رٹ کو بحال کرنے بجائے ان علاقوں سے فوج کی واپسی جیسی تجاویز پر غور و حوض کررہی ہے۔امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد اگر طالبان اور دیگر جرائم پیشہ تنظیمیں مزید طاقت ور ہو گئی تو پھر یہ منشیات کی پیداوار اور کاروبا ر خطر ناک حد تک بڑھ سکتا ہے ۔ حکومتِ وقت کو قتل و غارت اور منشیات کی سمگلنگ جیسے گھناونے جرائم میں ملوث طالبان سے مذاکرات سے قبل ان پہلو وں کا بغورجائزہ لینا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ایسے گروہ مذاکرات کے بعدہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہو جائیں اور منشیات کی اسمگلنگ سمیت دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کو ترک کر دیں۔
حکومت کی طرف سے وفاقی، صوبائی اور علاقائی سطح پر منشیات کی ترسیل کا عمل روکنے اور منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لئے اقدامات کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبائی حکومتوں کو منتقل کر دیا گیا ہے لیکن اس حوالےسے صوبائی حکومتوں کی استعداد کار بڑھانے کی کو ئی مربوط کو شش نہیں کی گئی جس کی وجہ سے صوبائی حکومتوں کی طرف سے منشیات کی روک تھام اور نشے کے عادی افراد کی بحالی کے حوالے سے کارکردگی مایوس کن ہے۔ جرمن خبر راساں ادارے کے مطابق اس مسئلے کا ایک تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ حکومت کی مجرمانہ غفلت اور معاشرتی بے حسی کی بدولت اتنی بڑی تعداد جو منشیات جیسی لعنت کی عادی بن چکی ہے کے لئے علاج معالجے اور بحالی کی سہولتیں بالکل ہی نا کافی نظر آتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کیلئے حکومتی سطح پر صرف چند مراکز موجود ہیں جو کہ صرف بڑے شہروں میں ہیں ۔اس مقصد کے لئے قائم نجی ادارے بھی اس سلسلے میں کام ضرور کر رہے ہیں مگر وہاں اس لعنت سے چھٹکارے کیلئے علاج اتنا مہنگا ہے کہ عام آدمی وہاں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے ۔اس رجحان کو کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ صوبائی حکومتیں بھی اس مسئلہ کی سنجیدگی کا احساس کریں اور اس پر قابو پالنے کیلئے مناسب وسائل و اقدامات بروئے کار لائیں-