نصیر جسکانی
مذاکراتی عمل میں تعطل کے بعدکراچی ائر پورٹ پر حملہ اور بلوچستان کے علاقے تفتان میں شعیہ زائرین پر ہونے والے خود کش حملوں نے ایک بار پھر سر زمین پاک کومعصوم لوگوں کے خون ناحق سے سیراب کر دیا ہے ، ان حالیہ واقعات نے نا صرف پاکستان کےشہریوں کوشدید خوف میں مبتلا کر دیا ہے بلکہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں اورسکیورٹی اداروں کی کارگردگی پر بھی سوال اٹھنے شروع ہو چکے ہیں۔ جس طرح ملکی و غیر ملکی دہشت گردوں نے کئی گھنٹوں تک پاکستان کے سب سے بڑے بین الاقوامی ائیر پورٹ کو اپنے حملوں کا نشانہ بنائے رکھا اور تفتان میں شعیہ زائرین پر حملوں سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ایک سالہ کارکردگی کی کلی کھل گئی ہے۔دہشت گردی کے حالیہ منظم واقعات میں جس طرح قومی اہمیت کے مقامات اور شخصیات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ دہشت گرد پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے اور ریاستی ڈھانچہ کو مفلوج کرکے اپنے لئے ایک محفوظ امارت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
حکومت اور عوام میں دہشت گردوں کےخلاف کاروائی کے مسئلے پر پایا جانے والا ابہام اور بے اعتمادی ریاست کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ حکومت اور عوام کی جانب سےدہشت گردی کے خاتمے کے لئے سیاسی عزم کی کمی کی وجہ سے سکیورٹی خدشات کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھ رہے ہیں۔
حکومت اور عوام میں دہشت گردوں کےخلاف کاروائی کے مسئلے پر پایا جانے والا ابہام اور بے اعتمادی ریاست کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ حکومت اور عوام کی جانب سےدہشت گردی کے خاتمے کے لئے سیاسی عزم کی کمی کی وجہ سے سکیورٹی خدشات کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ داخلی خطرات کے ساتھ ان حملوں کی وجہ سے پاکستان کی عالمی تنہائی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ غیر ملکی جنگجووں کی پاکستان میں موجودگی کی وجہ سے ہندوستان، ایران، افغانستان اور چین سے پاکستان کے سفارتی تعلقات بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔ انہی غیر ریاستی عناصر کے باعث پاکستان کے ہندوستان اور افغانستان سے جاری مذاکرات کا عمل بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی جنگجووں کی پناہ گاہیں دنیا بھر میں جہاد کی برآمد کا باعث ہیں اور ان کے خلاف اگر پاکستان نے خود اپنی سرزمین پر کاروائی نہ کی تو پاکستان کو عالمی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
حکومت اور سکیورٹی اداروں کو دہشتگردی کے ناسور سے نمٹنے کیلئے عالمی برادری کو اعتماد میں لے کر ایک جامع اور مشترکہ حکمت عملی تشکیل دینا ہوگی اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف کاروائی کے خلاف موثر کاروائی کرنا ہوگی ورنہ ہو سکتا ہے کہ دیگر ممالک پاکستان سے ملحقہ سرحدوں کو بند کردیں اور پاکستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو خودنشانہ بنائیں جس سے پاکستان کی داخلی سلامتی کے خطرات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے ۔ بھارت اور افعانستان سےپاکستان کے تعلقات پہلے ہی کوئی زیادہ اچھے نہیں ہیں اور ان ممالک کی طرف سے پاکستان پر دراندازی اور دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزامات مسلسل عائد کئے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں اگر پاکستان بین الاقوامی برادری کو اعتماد میں لے کر پاکستان کی سرزمین سے دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے خلاف ایک بھر پور آپریشن کرے اور عالمی تعاون کی بھی درخواست کرے تو یہ راستہ پاکستان کی عزت و توقیر میں اضافے کے ساتھ داخلی استحکام کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔
دہشت گردوں کی کاروائیوں کے باعث پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ، سیاحت اور میل جول کے مواقع کےختم ہو چکے ہیں ، پولیو ورکرز پر پے در پے حملے کر کے پاکستانیوں پر بین الاقوامی سفری پابندیوں کا اطلاق کروا دیا ہے ، فرقہ واریت کازہر گھول کر ہزاروں لوگوں کوموت کے گھاٹ اتار کر ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے،سکولوں اور یونیورسٹیوں میں دھماکے کر کےپاکستان کی نوجوان نسل پرتعلیم کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں، تنگ نظر مذہبی تعبیر پر مبنی تعصب اور توہمات کی ترویج سےپاکستانیوں کو ذہنی انتشارکی طرف دھکیلا جا رہا ہے ،بازاروں اور مارکیٹوں پر حملے کر کے پاکستان میں اقتصادی سرگرمیوں کوسبوتاژکرنے کی سازش جاری ہے ، ایئر پورٹ پر حملے کر کے پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس سب کے باوجود بعض سیاسی و مذہبی جماعتیں ان دہشت گرد وں کو محب وطن ثابت کر رہے ہیں ۔ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کوبھی تزویراتی گہرائی کےنظریہ کودفن کر کےپاکستان کی اندورونی چیلنجز سے نمٹے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس مرحلہ پرجب پاکستان پر دہشتگردی کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک کے جائز مطالبات پر توجہ دیتے ہوئے ان کے تعاون سے دہشتگردوں کے توسیع پسندانہ عزائم کو خاک میں ملانا چاہئے۔دہشتگردوں کی حامی مذہبی و سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کے عمل کو شروع کرنا ہو گا، نام بدل بدل کر کام کرنی والی کالعدم تنظیمیوں کے خلاف بھر پور کاروائی وقت کا اہم تقاضہ ہے اس عمل سے ہم عالمی برادری میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کر سکتے ہیں اور پاکستان کو دہشتگردی کے عفریت سے بچا سکتے ہیں۔

Leave a Reply