Laaltain

پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ میں ناکامی کے اسباب

30 دسمبر, 2014
Picture of محمد شعیب

محمد شعیب

انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ اور پاکستان کاآئین ،ریاست کو تمام شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ 1973 کے آئین کے آرٹیکل 8 تا 28 شہریوں کے لیے ان تمام بنیادی انسانی حقوق کی فہرست پر مشتمل ہیں جو ریاست کی ذمہ داری قرار دیے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کی پاسداری اور بنیادی آزادیوں کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے پاکستانی آئین ایک ایسا آئینی ڈھانچہ مہیا کرتا ہے جہاں مقننہ کو ان حقوق کی فراہمی کے لیے مناسب قانون سازی کا ذمہ دار جبکہ اعلیٰ عدلیہ کوان کا محافظ قرار دیا گیا ہے۔ ایک آئینی وجمہوری سیاسی نظام اور انسانی حقوق کے تمام اہم عالمی معاہدوں کا رکن ہونے کے باوجودانٹرنیشنل ہیومن رائٹس انڈیکس کے مطابق پاکستان انسانی حقوق کی صورت حال کے اعتبار سے 146 ویں نمبر پر ہے جو یقیناًتشویش ناک ہے۔
پارلیمان آئین میں انسانی حقوق کی فراہمی کی واضح ہدایات کے باوجود تاحال خواتین، بچوں، اقلیتوں، ہم جنس پرستوں کے تحفظ اور حقوق کی فراہمی کا نظام بنانے میں ناکام رہی ہے۔
پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے خواتین، اقلیتوں، بچوں اور ہم جنس پرستوں کے حقوق سے متعلق تمام عالمی اشاریوں پر نچلی ترین سطح پر ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ اور ان کی خلاف ورزیوں کی روک تھام میں حائل روکاوٹیں پاکستان کے کمزور سیاسی نظام اور قدامت پرست معاشرتی تشکیل کی پیداوار ہیں۔ جمہوری اقدار کے زوال اور شدت پسندی کے فروغ کے باعث بنیادی حقوق سے متعلق مسائل اور روکاوٹوں میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔غیر مستحکم جمہوری نظام،وسائل کی کمیابی، سیاسی ارادے کی کمی، انصاف کی فراہمی کے نظام میں نقائص، انسانی حقوق سے متعلق آگہی کی کمی اور امن و امان کی خراب صورت حال وہ چند عوامل ہیں جو انسانی حقوق کی فراہمی کو بہتر بنانے میں روکاوٹ ہیں۔
انسانی حقوق کی پامالی کا عمل پاکستان میں نیا نہیں اوراس ضمن میں حکومتی کارکردگی مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی ، مسلح علیحدگی پسندتحریکوں اور مذہبی انتہا پسندی کا سامنا کرنے والی پاکستانی ریاست میں انسانی حقوق کی اس صورت حال کے لیے سیاسی حکومتوں کے علاوہ سکیورٹی اداروں اور معاشرے میں سرگرم نظریاتی اور مسلح گروہوں کو بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب قرار دیا جانا چاہیے۔
غیر مستحکم سیاسی نظام
فوجی مداخلت کے خطرے تلے پروان چڑھنے والے جمہوری نظام کو متعدد بار اپنے کمزور ہونے کاتجربہ کرنا پڑا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک کی مقتدر جماعتیں انسانی حقوق کی فراہمی جیسے معاملات کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے وسائل کا ایک بڑا حصہ ایسے منصوبوں پر خرچ کرتی ہیں جو انہیں انتخابات میں کامیابی دلا سکیں۔ اگرچہ انسانی حقوق کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے منشورکافی حد تک واضح ہیں تاہم حکومت اور حزب اختلاف میں شریک تمام سیاسی جماعتیں انسانی حقوق کے تحفظ کے عمل میں خاطر خواہ کردار ادا نہیں کر پائیں۔
پارلیمان آئین میں انسانی حقوق کی فراہمی کی واضح ہدایات کے باوجود تاحال خواتین، بچوں، اقلیتوں، ہم جنس پرستوں کے تحفظ اور حقوق کی فراہمی کا نظام بنانے میں ناکام رہی ہے۔ ایک قدامت پسند مذہبی معاشرہ ہونے کے باعث حکومتوں کے لیے انسانی حقوق خصوصاً مذہبی اور جنسی اقلیتوں کے معاملات پر قانون سازی کرنا بے حد مشکل رہا ہے۔ ماضی میں گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی، ریپ اور شادی کی کم سے کم عمر کے حوالے سے قانون سازی کرنے والی حکومتوں کو حزب مخالف اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سیاسی ردعمل کے خوف سے تاحال حکومت توہین مذہب ، توہین رسالت اور غیر مسلم اقلیتوں کے مساوی حقوق پر قانون سازی کا آغاز نہیں کر سکی۔
سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی کے باعث جمہوری حکومتیں عسکری اداروں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ جمہوری سیاسی نظام کی کم زور حیثیت کے باعث ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی حکومتیں بلوچ علیحدگی پسندوں، جبری گم شدگیوں اور ماورائے عدالت قتل روکنے اور بلوچوں سمیت دیگر علیحدگی پسند گروہوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں ناکام رہی ہیں۔ پشاورسانحہ کے بعد فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ بھی سول ملٹری تعلقات میں فوج کی جانب سے سویلین عدلیہ اورمقننہ پرعدم اعتماد کا مظہر ہے۔
دہشت گردی کے خلاف بنائے جانے والے قوانین کے غلط استعمال اور ان قوانین میں پائے جانے والے نقا ئص کے باعث عام افراد اور سیاسی کارکنوں کے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستانی سیاسی نظام میں بھی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں دیکھنے کو ملتی ہیں جنہیں آئینی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ مثلاً خواتین اور اقلیتوں سے متعلق مذہبی قوانین میں بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا جس کے باعث سرکاری اور معاشرتی سطح پر ان طبقات کو حقوق کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
دہشت گردی اور مسلح علیحدگی پسند تنظیمیں
عسکری اداروں کی جانب سے دہشت گردوں اور مسلح علیحدگی پسندوں کے خلاف کاررایوں کے دوران کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تناظر میں سیاسی حکومت اور عدلیہ کا کردار مایوس کن رہا ہے۔ ایک جانب ریاست کے عسکری ادارے ماورائے عدالت قتل ، تشدداور جبری گمشدگیوں جیسے ہتھکنڈے بلوچ اور سندھی سیاسی کارکنوں اور قوم پرست تحریکوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں تو دوسری طرف دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ایسے قوانین تشکیل دیے جا رہے ہیں جو انسانی حقوق کی مزید خلاف ورزیوں کا باعث بن سکتے ہیں۔
نامناسب قوانین
دہشت گرد تنظیمیں ریاست کے لیے خطرہ بن چکی ہیں لیکن دہشت گردی کے خلاف بنائے جانے والے قوانین کے غلط استعمال اور ان قوانین میں پائے جانے والے نقا ئص کے باعث عام افراد اور سیاسی کارکنوں کے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوئے ہیں۔ اسی طرح ہم جنس پرستوں، خواتین، بچوں اور دیگر زدپذیر طبقات کے تحفظ کے قوانین نہ ہونے یا ان کے خلاف موجود امتیازی قوانین کے باعث بھی انسانی حقوق کے تحفظ کی صورت حال ابتر ہے۔
سیاسی ارادے کی کمی
سیاسی جماعتوں اور ملکی قیادت میں انسانی حقوق کی فراہمی کے حوالے سے قوت ارادی کی کمی بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کی روک تھام کی راہ میں روکاوٹ ہے۔ بیشتر سیاسی جماعتیں مذہبی گروہوں کے احتجاج اور اپنا ووٹ بنک کم ہونے کے خطرے کے باعث کھل کر بات کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ ملک میں ترقی پسند فکر کے زوال اور شدت پسند سوچ میں اضافہ کے باعث پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعتوں کے لیے انسانی حقوق کے معاملات پر سیاست کرنا دشوار ہوتا جارہا ہے۔ ترقی پسند سیاسی جماعتوں کے محدود کردار کے باعث انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے حکومت پر خاطر خواہ دباو ڈالنا ممکن نہیں۔ دوسری جانب مذہبی جماعتوں کے متشدد ہتھکنڈے اوراحتجاجی قوت سیاسی حکومتوں کے لیے انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے قانون سازی کی راہ میں روکاوٹ ہیں۔
وسائل کی کم یابی
دولت کی پیداوار اور تقسیم کے ناقص نظام کی وجہ سے حکومت کے پاس بنیادی حقوق کی فراہمی اور تحفظ کے لیے ضروری وسائل موجود نہیں۔ خسارے کی معیشت اور کم پیداواری قوت کے باعث حکومت شہری سہولیات کی فراہمی کے اداروں اور فلاحی ترقیاتی منصوبوں پر خاطر خواہ رقم خرچ نہیں کر پاتی۔ پاکستان میں تعلیم، صحت، خوراک ، رہائش اور تحفظ پر عالمی معیار سے کہیں کم رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ سرحدوں پر کشیدگی، دہشت گردی اور علیحدگی پسند گروہوں کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے دفاع پر بجٹ کا ایک بڑا حصہ خرچ کرنے کی وجہ سے بھی عوامی فلاح کے لیے بجٹ میں وسائل کی فراہمی ممکن نہیں۔انتخابی سیاست کے رحجانات کی وجہ سے مسلم لیگ نواز جیسی سیاسی جماعتیں تعلیم، صحت اور تحفظ کے منصوبوں کی بجائے سڑکوں، پلوں اور انفراسٹرکچر کی تعمیر جیسے اقدامات پر زیادہ پیسہ خرچ کررہی ہیں۔
انصاف کی فراہمی کا ناقص نظام
مناسب قوانین کی عدم موجودگی، تفتیش کے ناقص نظام اور غیر فعال عدلیہ کے باعث پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا عمل ناممکن ہے۔انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق مقدمات پر عدالتوں کی جانب سے مناسب کارروائی نہ ہونے کے باعث ایسے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ مقننہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں کے درمیان پائی جانے والی سردمہری بھی انصاف کی فراہمی کی راہ میں روکاوٹ ہے۔ لاپتہ افراد کے کیس میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے اعلی عدلیہ کے احکامات کی خلاف ورزی ، توہین مذہب اور رسالت کے واقعات میں نچلی عدالتوں میں غیر معیاری سماعت اور اقلیتوں کی انصاف کی فراہمی کے نظام میں نمائندگی بے حد کم ہونے سے بھی اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ پاکستان میں بنیادی حقوق سے متعلق مقدمات پر انصاف کی فراہمی کیوں ناممکن ہے۔
تفتیشی اداروں کے فرسودہ طریقوں اور پیشہ ورانہ غفلت کے باعث مقدمات کے اندراج اور تفتیش کے دوران ایسے قانونی سقم رہ جاتے ہیں جس کے باعث یا تو ملزمان تک پہنچنا ہی ممکن نہیں ہوتا یا پھر ملزمان باآسانی چھوٹ جاتے ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف جرائم کے بیشتر ملزمان تاحال گرفتارنہیں کیے جاسکے، اسی طرح خواتین پر تیزاب انڈیلنے، ریپ اورغیرت کے نام پر قتل کے ملزمان کے خلاف کارروائی کا عمل بھی تسلی بخش نہیں۔
پدرسری مذہبی معاشرہ اور غیر فعال سول سوسائٹی
پاکستانی معاشرہ پدرسری اور مذہبی ہونے کے باعث انسانی حقوق کے جدید تصورات کو تسلیم کرنے اور رائج کرنے سے انکاری ہے۔ خواتین کی مساوی حیثیت، ہم جنس پرست افراد کے حقوق، مذہبی آزادی اور آزادی اظہار رائے جیسے تصورات کو معاشرے میں ناپسند کیا جاتا ہے۔ مخصوص قدامت پسند معاشرتی تشکیل کے باعث انسانی حقوق کی فراہمی اور تحفظ کے لیے حکومت پر دباو ڈالنے کے لیے ایک فعال سول سوسائٹی وجود میں نہیں آسکی۔مذہبی جماعتوں کی جانب سے سیاسی اور معاشرتی سطح پر انسانی حقوق کے جدید تصورات کو متنازعہ، غیر اسلامی اور فحش قرار دینے کے باعث بھی انسانی حقوق کے کارکنوں اور تنظیموں کے لیے کام کرنا مشکل ہوا ہے۔
شعور و آگہی کی کمی
خواندگی سے متعلق یونیسکو کی 2012 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان خواندگی کے اعتبار سے 180 ویں نمبر پر ہے۔ محض 56 فی صد خواندہ افراد، جن میں سے ایک بڑی تعدادکے صرف بنیادی لسانی مہارتوں سے واقف ہونے کے باعث پاکستان میں بنیادی حقوق سے متعلق شعور اور آگہی کی صورت حال تشویشناک ہے۔ پاکستانی تعلیمی نظام میں بنیادی انسانی حقوق کے تصورات سے متعلق مبہم، متنازعہ اور بعض اوقات غلط معلومات کی فراہمی کے باعث تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے زیادہ تر افراد بنیادی انسانی حقوق سے متعلق گمراہ کن خیالات کے حامل ہیں۔ مذہبی متن، نظریاتی تکرار اور غیر معیاری تدریس کے باعث بھی پاکستانی معاشرہ میں انسانی حقوق سے متعلق آگہی کا فقدان ہے۔
مذہبی جماعتوں کی جانب سے سیاسی اور معاشرتی سطح پر انسانی حقوق کے جدید تصورات کو متنازعہ، غیر اسلامی اور فحش قرار دینے کے باعث بھی انسانی حقوق کے کارکنوں اور تنظیموں کے لیے کام کرنا مشکل ہوا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی جانب سے بھی انسانی حقوق کے معاملات پر رپورٹنگ اور پروگرامنگ کا معیار تشویش ناک ہے۔ جنسی جرائم، اقلیتوں کے خلاف جرائم اور بلوچستان کے حالات پر مجرمانہ خاموشی یا غیر سنجیدہ سنسنی خیزی کی وجہ سے عام قاری، ناظر اور سامع انسانی حقوق کی تشویش ناک صورت حال سے ناواقف ہے۔
اظہار رائے پر پابندیاں
بڑھتی ہوئی سرکاری اور غیر سرکاری سنسرشپ اور پابندیوں کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلا ف ورزیوں پر آواز اٹھانا مشکل ہورہا ہے۔ تعلیمی اداروں، ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کڑی نگرانی اور سنسر شپ کی وجہ سے حکومتی اداروں اور طاقتور طبقات کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو سامنے لانا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ صحافیوں اورانسانی حقوق کے کارکنوں کو لاحق خطرات کی وجہ سے اکثروبیشتر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات خصوصاً اقلیتوں اور خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کی بجائے چھپایا جاتا ہے۔امن اومان کی مخدوش صورت حال، سماجی کارکنوں اور صحافیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں اور کم زور نظام انصاف کی وجہ سے انسانی حقوق کے اداروں اور کارکنوں کے لیے کام کرنا مشکل ہوا ہے۔

ہمارے لیے لکھیں۔