Laaltain

پاکستان میں انسانی حقوق: ایک لمحہ فکریہ

26 مئی، 2014

human rights

شہزاد یوسف

لغات کے مطابق انسانی حقوق سے مراد انسانوں کے وہ حقوق ہوتے ہیں جو ان کے محض انسان ہونے کی وجہ سے ملنا چاہیئں۔ جیسا کہ خوراک، صحت، تعلیم اور آزادیءاظہار وغیرہ۔اور پھر ان کے ثقافتی، سیاسی اور معاشی حقوق جو کہ جدید معاشروں کا لازمہ ہیں۔
انسانی حقوق کی جدوجہدکی ابتدا 1215ءمیں یورپ میں میگنا کارٹا نامی قانون کی منظوری سے ہوئی البتہ عہد جدید میں اس جدوجہد کا پس منظر دوسری جنگ عظیم میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے جڑاہوا ہے۔ اسی جنگ کی تباہیوں کو نظر میں رکھتے ہوئے 1948ءمیں اقوام متحدہ نے 30نقات پر مشتمل انسانی حقوق کا منشور پیش کیاجو کہ اس وقت کے ممبر ممالک نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ معاشروں میں اس وقت انسانی حقوق کی صورت حال، انسانوں کے نان و نفقہ سے لے کرشخصی آزادی تک، خاصی تسلی بخش ہے۔
دیکھا جائے تو اسلام نے دوسرے معاشروں سے بہت پہلے شخصی آزادی اور حقوق کا نعرہ بلند کیاتھالیکن آج مسلم دنیا بالخصوص پاکستان میں اس نعرے کو مغرب کی سازش سمجھا جاتا ہے۔ اور انسانیت کی تکریم کی بات کرنے والوں کو لادین اور مغرب کے پروردہ کہا جاتا ہے حالانکہ اسلام مساوات اور رواداری کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ چنانچہ انسانی حقوق کے نعرے کو مغربی رنگ دینے میں ان استحصالی قوتوں کی بدنیتی اور کاوشیں کارفرما ہیں جو پسے ہوئے طبقوں کو جینے کا حق دینے پر کسی طور بھی تیار نہیں۔اور کیوں نہ ہوں عوام الناس کی محرومی اور کمزوری ہی ان کی طاقت اور اقتدار کا راز ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی معمول کی بات ہے اور اب تو معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ انسانیت سوزواقعات پر حکومتی ایوانوں اور عوام میں اضطراب کی لہر بھی پیدا نہیں ہوتی۔پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق سال 2010ءانسانی حقوق کے حوالے سے نہایت مایوس کن رہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ستمبر تا نومبر صرف تین ماہ کے دوران 1136خودکشی کے واقعات ہوئے جن میں 578 لوگوں نے جان کی بازی ہاری جبکہ 558کو بروقت امداد سے بچا لیا گیا۔ خود کشی کی یہ شرح دنیا کے پس ماندہ ترین ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ اوسطاً دس لوگوں نے روزانہ خودکشی کی کوشش کی جن میں سے پانچ کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
اسی طرح ڈیرہ غازی خان کے علاقے مرہٹہ میں دو بچیوں کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ اپنے ماموں اور باپ کے ساتھ جیل سے رہائی پا کر آرہی تھیں ۔ اس واقعہ کے پیچھے کی کہانی نہایت المناک اور جان سوز ہے، کچھ عرصہ قبل یہ دونوں لڑکیاں زبردستی کی شادی طے ہونے کی وجہ سے گھر سے بھاگ گئی تھیں۔
ہمارے معاشرہ میں خودکشی، غیرت کے نام پر قتل، خاندانی دشمنیاں ، زنا باالجبر ، جنسی طور پر ہراساں کرنا، جبری مشقت، مذہبی تنگ نظری اور دوسرے مذاہب سے عدم رواداری وہ تمام پہلو ہیں جن کی وجہ سے زندگی د ن بدن مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق سال 2010ءانسانی حقوق کے حوالے سے نہایت مایوس کن رہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ستمبر تا نومبر صرف تین ماہ کے دوران 1136خودکشی کے واقعات ہوئے جن میں 578 لوگوں نے جان کی بازی ہاری جبکہ 558کو بروقت امداد سے بچا لیا گیا۔ خود کشی کی یہ شرح دنیا کے پس ماندہ ترین ممالک سے بھی زیادہ ہے۔

اگست 2010ءمیں وزرات برائے انسانی حقوق کے پارلیمنٹ میں پیش کردہ اعدادو شمار کے مطابق صرف آٹھ ماہ کے عرصہ کے د وران کل گیارہ ہزار ایسے کیس رپورٹ ہوئے جن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی اور ان میں 8000کیسز بغیر کسی تفتیش اور انجام کے پولیس کی طرف سے یا دوسرے اداروں کی طرف سے ختم کر دئیے گئے۔ اسی طرح انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے پیش کردہ اعدادو شمار اس سے بھی زیادہ ہیں۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق صرف ستمبر تا نومبر 2010تین ماہ کے دوران کاروکاری کے الزامات لگا کر 64مرد و خواتین کو موت کے گھاٹ اتار گیا ان میں اکثریت خواتین کی تھی۔ ان واقعات میں سے بھی زیادہ ترکی تو رپورٹ بھی درج نہیں ہوئی اور جن کی ہوئی تھی وہ بھی سرد خانے کی نذرہو گئےکیونکہ پاکستان میں غیرت کے نام پر کبھی بھی بہن بھائی ، ماں یا باپ کو قتل کرنے والے کو سزا نہیں ملی۔
اس سلسلے میں حکومتی عدم توجہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 4اگست2010ءمیں گھریلو تشدد سے بچاﺅ اور حفاظت کا ایک بل پارلیمنٹ میں منظور ہوا مگر سینٹ سے منظوری حاصل نہ کر سکا اس کے لئے حکومت نے نہ تو کوئی کمیٹی بنائی اور نہ ہی کوئی اورتگ و دو کی حالانکہ یہ بل خالصتاً عوامی مفاد کا بل تھا چنانچہ یہ بل اپنی موت آپ ہی مر گیا۔ تاہم ایک دوسری سطح پر حکو مت کی تمام تر کوششوں کو مذہب کے نام پر سیا ست کر نے والی جما عتیں ناکام بنانے کے در پے رہتیں ہیں۔ Women Protection Billاس کی ایک مثال ہے۔
2ماہ قبل میر پور خاص کے علاقے میر واہ گور چانی میں ہندوﺅں کی میگھواڑ برادری کی ایک کالونی پر حملہ کرکے کئی لوگوں کو زخمی کر دیا گیا۔ان پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک ایسے نوجوان کو پنا ہ دی ہے جس نے شہر کی دیواروں پر نبی کریم اور مسلمانوں کے بارے میں غلط ریمارکس لکھے ۔ اس طرح اس کالونی پر حملہ کرکے کئی لوگوں کو زخمی کیا گیا اور گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ راجپوت برادری اس کالونی سے گزرنے کا راستہ مانگ رہی تھی جو کہ اقلیتی ہندوﺅں نے دینے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے یہ ناموس رسالت کی توہین کا ڈرامہ رچا کر اقلیتوں کو سبق سکھانے کا حیلہ بنایا گیا ۔ پاکستان میں ضیاءالحق کے دور حکومت سے لےکر آج تک اقلیتوں سے عدم برداشت کا جو رویہ روا رکھا گیا ہے وہ بنیادی انسانی حقوق کے اصولوں کے بالکل منافی ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بہت زیادہ شکوک و شبہات کا اظہار کرتی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گوجرہ میں مسیحیوں پر ہونے والے ظلم اوردوسرے ایسے واقعات کی روشنی میں اور حکومتی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ ”حکومت پاکستان اقلیتوں اور مذہبی اکائیوں کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔“

آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد ہوں یا سیلاب زدگان، ایجنسیوں کے لاپتہ کئے گئے افراد ہوں یا کراچی اور کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ ،بچوں ، مزدوروں، عورتوں اور کسانوں کے حقوق کی خلاف ورزی سے لےکر اقلیتوں کے عدم تحفظ تک کے تمام معاملات میں ہماری حکومت نے حد درجہ بے اعتنائی اور عدم توجہ کا رویہ روا رکھا ہوا ہے۔

اقلیتوں کو تحفظ اور انسانی حقوق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نامور مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے بنگلہ دیش سے موازنہ کرتے ہوئے کہا، ”بنگلہ دیش نے گذشتہ چالیس سال میں انسانی حقوق کے حوالے سے بھی اور مجموعی طور پر بھی اپنے کلچر میں رواداری اور باہمی سمجھوتے کی فضا پید اکرتے ہوئے ہم سے بازی لے گیا ہے جبکہ ہم نے عدم برداشت اور مذہبی جنونیت کے ہاتھوں خود کو مزید گہرائی میں دھکیل دیا ہے۔“ ڈاکٹر مبارک علی پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے آمر ضیاءالحق کے دور کو بدترین قرار دیتے ہیں کہ اس دور کے بنائے ہوئے قوانین اور اقدامات آج بھی جنونیت اور شرپرستی کو ہوا دیتے ہیں۔
جنوبی پاکستان میں سندھ کے علاقے میں ایک ہندو اقلیتی تنظیم کے مطابق قریبا 20لاکھ ہندو جبری مشقت کےلئے غلاموں کے طور پر رکھے گئے ہیں اور ان میں غالب اکثریت نچلی ذات کے ہندوﺅں کی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بننے والے متعصب قوانین نے بھی عدم برداشت، جنسی عدم توازن اور اقلیتوں کے لیے مشکلات کو جنم دیا ہے ان متعصب قوانین میں حدود آرڈیننس ، قانون شہادت 1984، اور قصاص اور دیت کا 1991کا آرڈیننس قابل ذکر ہیں۔
انسانی حقوق کا دفاع کرنے والی تنظیموں کے نزدیک ترقی یافتہ دنیا 2014ءتک پوری دنیا سے چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کا عزم کئے ہوئے ہے جب کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے سبب پاکستان میں چائلد لیبر کی صورتحال دن بدن بگڑتی جا رہی ہے۔اس وقت پاکستان میں لگ بھگ دو کروڑ سے زیادہ بچے رسمی اور غیر رسمی شعبوں میں معاشی سرگرمیوں میں متحرک ہیں۔
خفیہ ایجنسیا ں پاکستان میں آئے دن لوگوں کو اغوا کرکے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑاتی ہیں ،اغوا شدگان کا کسی بھی عدالت یا کچہری میں مقدمہ چلائے بغیر اکثریت کو گمشدگی کے دوران ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار حکومت کو باقاعدہ خط لکھ کر کیا اور سپریم کورٹ آف پاکسان کے گمشدہ افراد کے بارے میں از خود نوٹس لینے کے اقدام کو سراہتے ہوئے مزید اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ گذشتہ ششماہی میں سو کے قریب لوگ لاپتہ ہوئے ہیں۔ ان میں اکثریت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سےاسی کارکنان کی ہے ۔یہ صورتِ حال جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بد ترین مثال ہے وہیں بلوچستان میں بدامنی کا موجب بھی بن رہی ہے۔
اس کے علاوہ مزدوروں، کسانوں، اور ہاریوں کے حقوق کے حوالے سے بھی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ حکومت نے کم از کم اجرت کا اعلان تو کر دیا ہے مگر اس پر عمل در آمد کی صورتحال کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود حکومت کا شروع کر دہ قومی سطح کا صحت پروگرام جس میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کام کرتی ہیں ان کو کم از کم اجرت کے نصف سے بھی کم یعنی صرف پچیس سو سے تین ہزار ماہانہ ادا کئے جا رہے ہیں۔
سوات آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد ہوں یا سیلاب زدگان، ایجنسیوں کے لاپتہ کئے گئے افراد ہوں یا کراچی اور کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ ،بچوں ، مزدوروں، عورتوں اور کسانوں کے حقوق کی خلاف ورزی سے لےکر اقلیتوں کے عدم تحفظ تک کے تمام معاملات میں ہماری حکومت نے حد درجہ بے اعتنائی اور عدم توجہ کا رویہ روا رکھا ہوا ہے۔
اس حکومتی بے حسی اور بے اعتنائی کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر زاہدہ حنا کہتی ہیں ”پاکستان نے جتنی نیک نیتی سے بین الاقوامی میثاق برائے سول و سیاسی حقوق پر دستخظ کئے ہیں اس کا اندازہ ان تحفظات سے لگایا جا سکتا ہے جو حکومت نے شامل کئے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ پاکستان آرٹیکلز 2،7،18 اور 19پر صرف اس حد تک عمل کرے گا جہاں تک وہ ملکی قوانین اور شرعی قوانین سے متصادم نہیں ہوگا۔ آرٹیکل 6کی ذیلی شق کہتی ہے کہ زندہ رہنا اور زندگی کی حفاظت حاصل ہونا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ پاکستانی حکومت شاید زندہ رہنا بھی آئین سے متصادم سمجھتی ہے۔ اور جب پاکستانی حکومت آرٹیکل 6اور7 پر تحفظات کا اظہار کرتی ہے تو وہ دراصل یہ اعتراف کرتی ہے کہ اس کی سرحدوں کے اندر غیر انسانی جرائم کا ارتکاب اس کی مرضی سے ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔“


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *