پاکستان بدل رہا ہے اور بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ ہم نے یہ پہلے کبھی نہیں سوچا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ جیسی سیاسی جماعتوں کے خلاف ذرائع ابلاغ کھلے بندوں خبریں اور تجزیے نشر اور شائع کریں گے۔متحدہ قومی موومنٹ کے قائد کی جانب سے معافی مانگنے کا منظر بھی نیا ہے اور عمران خان سے قبل کبھی کسی نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست کو یوں کھلے بندوں تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔ ہم نے یہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ ایک جماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعتیں جمہوریت کے دفاع اور عام شہریوں کی بات کریں گی۔ یہ بھی کبھی نہیں ہوا تھا کہ طالبان اور جہادی تنظیموں کے خلاف مظاہرے ہوں اور لوگ کھل کر طالبان کو تنقید کا نشانہ بنائیں۔ مساجد کے باہر مذہبی انتہا پسند تنظیموں کے اور جہادی بیانیے کے خلاف احتجاج آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا خاص طور پر ایک ایسے پاکستان میں جہاں تین دہائیوں سے مذہبی شدت پسندی کو سیاسی اور سماجی تحفظ حاصل ہو۔
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد کی جانب سے معافی مانگنے کا منظر بھی نیا ہے اور عمران خان سے قبل کبھی کسی نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست کو یوں کھلے بندوں تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔
موجودہ پاکستان ایک ایسی نسل کا پاکستان ہے جو شدت پسندی، معاشی کساد بازاری اور معاشرتی گھٹن کے دوران پل کر بڑی ہوئی اور اب وہ معاملات کو اپنے انداز میں چلانے کے لبے تاب ہے۔ یہ ایک ایسا پاکستان ہے جس کی نوجوان نسل اظہار کے جدید ذرائع سے وابستہ ہے اور اپنی شناخت کے لیے بے چین ہے۔ بے حد جذباتی، توانا مگر صلاحیتوں کے اظہار سے محروم یہ نسل پاکستان کو کیسا دیکھنا چاہتی ہے ایک ایسا سوال ہے جو پاکستان کو مکمل طور پر بدل رہا ہے۔
پاکستان کے سیاسی اور سماجی اشاریے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے اگلے انتخابات نوجوان نسل کے انتخابات ہوں گے اور نوجوان ووٹرز کے رحجانات ہی پاکستان کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ اس نسل کے پاس یہ ایک ایسا موقع ہے کہ وہ پاکستان کا مستقبل اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے اور اپنے تیئں اس ملک کی سمت کا تعین کر سکتی ہے۔ آج کے نوجوان سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں، ایک جمہوری سیاسی نظام کا حصہ ہے جو اپنے تسلسل کی دوسری معیاد پوری کر رہا ہے اور اپنے مستقبل کے حوالے سے ہمیشہ سے زیادہ پرامید ہے۔ آج انتخاب اور اظہار کی جو آزادی اس نسل کو حاصل ہے شاید ماضی میں اس ملک میں کبھی کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔
پاکستان کے سیاسی اور سماجی اشاریے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے اگلے انتخابات نوجوان نسل کے انتخابات ہوں گے اور نوجوان ووٹرز کے رحجانات ہی پاکستان کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ اس نسل کے پاس یہ ایک ایسا موقع ہے کہ وہ پاکستان کا مستقبل اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے اور اپنے تیئں اس ملک کی سمت کا تعین کر سکتی ہے۔ آج کے نوجوان سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں، ایک جمہوری سیاسی نظام کا حصہ ہے جو اپنے تسلسل کی دوسری معیاد پوری کر رہا ہے اور اپنے مستقبل کے حوالے سے ہمیشہ سے زیادہ پرامید ہے۔ آج انتخاب اور اظہار کی جو آزادی اس نسل کو حاصل ہے شاید ماضی میں اس ملک میں کبھی کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔
یہ درست ہے کہ پاکستان میں مسائل اور مایوسیوں کی بہتات ہے مگر یہی حالات پاکستان کی نئی نسل کو اپنے طور پر حالات بدلنے کی طرف مائل کررہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ پاکستان میں مسائل اور مایوسیوں کی بہتات ہے مگر یہی حالات پاکستان کی نئی نسل کو اپنے طور پر حالات بدلنے کی طرف مائل کررہے ہیں۔ آج کا نوجوان ایک نئی سیاسی قوت تحریک انصاف کی طاقت بن کر اپنے بزرگوں کی نسل سے مختلف فیصلے کرنے کا خواہاں نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ روایتی سیاسی جماعتیں اپنی مقبولیت کھو رہی ہیں اور ایک متبادل قیادت کا تصور رائج ہو رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی نوجوان نسل ہندوستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک جتنی باشعور نہیں مگر پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل اور شہری آزادیوں کے حصول کی جدوجہد میں تیزی سے اس شعور میں اضافہ ممکن ہے۔
ایک تبدیل ہوتا ہوا پاکستان جو اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے اسے اپنے لیے نئے اسباب، نئے مواقع اور نئی جہتیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور یہ آنے والی نسل ہی طے کرے گی کے پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا۔ روایتی سیاست کے طور طریقے بدلنے کے باعث اگلے انتخابات میں نئے چہرے اور نئی قیادت بھی سامنے آئے گی اور نئے لوگوں کو اپنی سوچ کے مطابق پاکستان کو چلانے کا موقع بھی ملے گا۔
شہروں کے پھیلاو اور متوسط طبقے میں ایک نوجوان پڑھی لکھی نسل کے پروان چڑھنے سے پاکستان کے سامنے ایسے معاشی اور سیاسی چیلنجز آ کھڑے ہوئے ہیں جوپہلے کبھی نہیں تھے۔ روزگار اور شہری سہولیات کی فراہمی میں ناکام جماعتیں اور قیادت فرسودہ ہو چکی ہے اور عوامی حمایت کھو چکی ہے۔ اس کی واضح مثال مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے طرز حکم رانی پر کی جانے والی تنقید ہے۔ ایک عام نوجوان کے لیے ان جماعتوں کے طرز حکم رانی اور طریق سیاست میں کوئی کشش باقی نہیں رہی اسی لیے وہ ایک متبادل سیاسی قوت کی تلاش میں ہے۔
یہ تحریک انصاف کی سیاست ہی ہے جس نے آج لوگوں کو ایم کیوایم، پیپلز پاڑتی اور مسلم لیگ نواز کے خلاف بولنے اور احتجاج کا حوصلہ دیا ہے۔ یہ نوجوان نسل ہی ہے جس نے عسکریت پسندی سے لاتعلقی اختیار کی ہے اور یہ پاکستان کا تبدیل ہوتا ہوا منظر نامہ ہی ہے جس کے باعث پاکستان میں تعمیراور تبدیلی کا جذبہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔
ایک تبدیل ہوتا ہوا پاکستان جو اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے اسے اپنے لیے نئے اسباب، نئے مواقع اور نئی جہتیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور یہ آنے والی نسل ہی طے کرے گی کے پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا۔ روایتی سیاست کے طور طریقے بدلنے کے باعث اگلے انتخابات میں نئے چہرے اور نئی قیادت بھی سامنے آئے گی اور نئے لوگوں کو اپنی سوچ کے مطابق پاکستان کو چلانے کا موقع بھی ملے گا۔
شہروں کے پھیلاو اور متوسط طبقے میں ایک نوجوان پڑھی لکھی نسل کے پروان چڑھنے سے پاکستان کے سامنے ایسے معاشی اور سیاسی چیلنجز آ کھڑے ہوئے ہیں جوپہلے کبھی نہیں تھے۔ روزگار اور شہری سہولیات کی فراہمی میں ناکام جماعتیں اور قیادت فرسودہ ہو چکی ہے اور عوامی حمایت کھو چکی ہے۔ اس کی واضح مثال مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے طرز حکم رانی پر کی جانے والی تنقید ہے۔ ایک عام نوجوان کے لیے ان جماعتوں کے طرز حکم رانی اور طریق سیاست میں کوئی کشش باقی نہیں رہی اسی لیے وہ ایک متبادل سیاسی قوت کی تلاش میں ہے۔
یہ تحریک انصاف کی سیاست ہی ہے جس نے آج لوگوں کو ایم کیوایم، پیپلز پاڑتی اور مسلم لیگ نواز کے خلاف بولنے اور احتجاج کا حوصلہ دیا ہے۔ یہ نوجوان نسل ہی ہے جس نے عسکریت پسندی سے لاتعلقی اختیار کی ہے اور یہ پاکستان کا تبدیل ہوتا ہوا منظر نامہ ہی ہے جس کے باعث پاکستان میں تعمیراور تبدیلی کا جذبہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔
Leave a Reply