انداز ہ کیجیے ایک شخص اپنے مریدین کو پارلیمنٹ ہاوس کے گھیراو کا حکم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ "کوئی شخص نہ اندر جائے نہ باہر آئے ، اور اگر کوئی باہر نکلنے کی کوشش کرے تو اسے تمہاری لاشوں سے گزرنا ہو گا۔” ارے صاحب کارکنوں کی لاشوں پر سے کیوں ،آپ کی لاش پر سے کیوں نہیں؟ یہ وہی شخص ہے جو رات شہادت پروف ائر کنڈیشنڈ کنٹینر میں گزارتا ہے،چند لمحوں کے لیے باہر آتا ہے اور مریدین کو ورغلانے کے بعد دوبارہ ٹھنڈے کنٹینر میں جا گھستا ہے۔ کارکن سڑکوں پر دندناتے ہیں، پارلینٹ ہاوس کا گھیراو کرتے ہیں اور یہ شخص کنٹینر میں بیٹھ کر کسی نئی چال کا جال بننے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ قبلہ اگر خود آگے بڑھ کر مریدین کے ہمراہ پارلیمنٹ کا گھیراو کرتے تو میں یقیناقادری صاحب کو کسی حد تک داد کا مستحق قرار دیتا،لیکن آپ جناب نے کنٹینر میں پناہ لینے میں ہی عافیت جانی،اس پر مستزاد یہ کہ اندر بیٹھے سنتے رہے ” ہمت اور بہادری طاہر القادری "۔
قبلہ کا انقلاب تب کہاں تھا جب پاکستان پر مشرف حکمران تھا؟ ایک آمر کے دور میں انہوں نے نہ صرف انتخابات میں حصہ لیا بلکہ اسمبلی تک رسائی حاصل کی،مستعفی ہوئے اور وطن کو خیر باد کہہ دیا۔ کاش یہ حضرت کسی آمر کے دور میں بھی اسی جوش خطابت سے انقلاب کی بات کرتے اور شہادت پروف کنٹینر میں دھرنا دیتے۔
قبلہ نے اس سب کو انقلاب کا نام دے رکھا ہے۔ یہ وہی طاہر القادری ہیں جن کے جملہ اوصاف پر لکھنے کے لیے ہزاروں اوراق درکار ہیں۔ یہ کمال زبان کاہے تو کیا ہم کسی بس میں سوار منجن بیچنے والے کو یا صدر کراچی اور آزادی چوک لاہور میں پاکستان کے "سب سے بڑے مسئلے کا حل بیچنے والے” کو اپنا حکمران بنالیں ؟ اسے بھی مجمع سنتا ہے سر دھنتا ہے اور اس کی سن کر اپنی جیب ڈھیلی بھی کرتا ہے ۔ اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ جیب کٹ چکی تو کیا ہم اپنی قومی جیب کسی جیب کترے کو پیش کردیں ؟
فن خطابت کے ماہر یہ صاحب شاید بھول گئے ہیں کہ جس نظام کو یہ مسترد کر رہے ہیں اسی کے تحت انہیں ایسے مجمعے لگانے کی آزادی میسر ہے، جس حکومت کو گرانے کی بات کی جا رہی اس کی سیاسی نااہلی سے قطع نظر یہی حکومت ہے جس کے تحمل کے باعث یہ مجمع مارچ کرتے کرتے پارلیمنٹ ہاوس تک جا پہنچا ہے۔یہ اسی نظام کے ثمرات ہیں کہ قبلہ لاہور سے ہوتے ہوئے وفاق میں شاہراہ سہروردی پر ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں اور کاروبار حیات کو اپنے گھنٹوں طویل خطابات سے کئی روزسےمفلوج کئے ہوئے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا اعلیٰ حضرت یہ انقلاب کسی ڈکٹیٹر کے دور میں برپا کر سکتے تھے؟ قبلہ کا انقلاب تب کہاں تھا جب پاکستان پر مشرف حکمران تھا؟ ایک آمر کے دور میں انہوں نے نہ صرف انتخابات میں حصہ لیا بلکہ اسمبلی تک رسائی حاصل کی،مستعفی ہوئے اور وطن کو خیر باد کہہ دیا۔ کاش یہ حضرت کسی آمر کے دور میں بھی اسی جوش خطابت سے انقلاب کی بات کرتے اور شہادت پروف کنٹینر میں دھرنا دیتے۔
سانحہ ماڈل ٹاون یقینا حکومتی نا اہلی اور بربریت کی بد ترین مثال ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ حکومت کی جانب سے سنجیدہ اقدامات نہ کئے جانے کے باعث بظاہر قبلہ قادری کا حالیہ انقلاب اسی سانحے سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن اس سانحے کے بعد سے آپ دن بھر میں آٹھ آٹھ بار سکرینوں پر جلوہ گر ہوتے رہےلیکن ایک بار بھی ان شہدا کی قبرو ں پر نہ گئے ۔ اس انقلاب کی انقلابیت جانچنے کے لیے فقط یہ جاننا ہی کافی ہے کہ چوہدری برادران آپ کے مکمل ہمنوا ہیں اور شیخ رشید صاحب ہیں بھی اور نہیں بھی کے مصداق انقلاب کا حصہ ہیں بھی اور نہیں بھی۔
فن خطابت کے ماہر یہ صاحب شاید بھول گئے ہیں کہ جس نظام کو یہ مسترد کر رہے ہیں اسی کے تحت انہیں ایسے مجمعے لگانے کی آزادی میسر ہے، جس حکومت کو گرانے کی بات کی جا رہی اس کی سیاسی نااہلی سے قطع نظر یہی حکومت ہے جس کے تحمل کے باعث یہ مجمع مارچ کرتے کرتے پارلیمنٹ ہاوس تک جا پہنچا ہے۔یہ اسی نظام کے ثمرات ہیں کہ قبلہ لاہور سے ہوتے ہوئے وفاق میں شاہراہ سہروردی پر ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں اور کاروبار حیات کو اپنے گھنٹوں طویل خطابات سے کئی روزسےمفلوج کئے ہوئے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا اعلیٰ حضرت یہ انقلاب کسی ڈکٹیٹر کے دور میں برپا کر سکتے تھے؟ قبلہ کا انقلاب تب کہاں تھا جب پاکستان پر مشرف حکمران تھا؟ ایک آمر کے دور میں انہوں نے نہ صرف انتخابات میں حصہ لیا بلکہ اسمبلی تک رسائی حاصل کی،مستعفی ہوئے اور وطن کو خیر باد کہہ دیا۔ کاش یہ حضرت کسی آمر کے دور میں بھی اسی جوش خطابت سے انقلاب کی بات کرتے اور شہادت پروف کنٹینر میں دھرنا دیتے۔
سانحہ ماڈل ٹاون یقینا حکومتی نا اہلی اور بربریت کی بد ترین مثال ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ حکومت کی جانب سے سنجیدہ اقدامات نہ کئے جانے کے باعث بظاہر قبلہ قادری کا حالیہ انقلاب اسی سانحے سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن اس سانحے کے بعد سے آپ دن بھر میں آٹھ آٹھ بار سکرینوں پر جلوہ گر ہوتے رہےلیکن ایک بار بھی ان شہدا کی قبرو ں پر نہ گئے ۔ اس انقلاب کی انقلابیت جانچنے کے لیے فقط یہ جاننا ہی کافی ہے کہ چوہدری برادران آپ کے مکمل ہمنوا ہیں اور شیخ رشید صاحب ہیں بھی اور نہیں بھی کے مصداق انقلاب کا حصہ ہیں بھی اور نہیں بھی۔
کرومویل کی عوالی پارلیمنٹ کا انجام تو تاریخ کے صفحات میں درج ہے مگر قادری صاحب کی عوامی پارلیمنٹ کا انجام کیا ہوگا یہ جاننے کے لیے شاید تھوڑے صبر کی ضرورت ہے۔
قبلہ قادری کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں موجودہ جمہوری نظام اور پارلیمنٹ صحیح کام نہیں کررہے اس لئے اب ملک کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ان کے مریدین پر مشتمل عوامی پارلیمنٹ کرے گی۔1649تا 1653 برطانوی فوجی ولیم کرومویل نے انقلاب برپا کرتے ہوئے اقتدار پرقبضہ کرکے اپنی مرضی کے اراکین پر مشتمل پارلیمنٹ قائم کی جسے تاریخ رمپ پارلیمنٹ کے نام سے یاد کرتی ہے ۔ کرومویل اس پارلیمنٹ کو صرف چار سال تک چلاسکا اوراس دوران اس نے برطانیہ کے بادشاہ چارلس اول کے موت کے پروانے پر بھی دستخط کئے۔رمپ پارلیمنٹ کےاس بانی کی طبعی موت 1658 میں ہوئی اور اس کے بعد ملک میں ایک بار پھر سے بادشاہت بحال ہوئی۔ اور پھر تاریخ شاہد ہے کہ کس طرح کرامویل کی قبر کھود کر اس کی لاش باہر نکالی گئی ،اسے پھانسی دی گئی۔ یہی نہیں بلکہ اس کے بعد خود ساختہ عوامی پارلیمنٹ کے بانی کا سر کاٹ کر اسے کیچڑ میں پھینک دیا گیا۔ برطانوی سرکار نے فقط انہی اقدامات پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ کرومویل کے چار سالہ اقتدار کو ملکی تاریخ سے ہی خارج کر دیا۔ کرومویل کی عوالی پارلیمنٹ کا انجام تو تاریخ کے صفحات میں درج ہے مگر قادری صاحب کی عوامی پارلیمنٹ کا انجام کیا ہوگا یہ جاننے کے لیے شاید تھوڑے صبر کی ضرورت ہے۔
پس تحریر: گزارش ہے کہ حکومت ابھی تک تو دونوں انقلابی دھڑوں کو کسی سیاسی حل تک لانے میں ناکام رہی ہے،حالات کس کو "نواز” دیں گےفی الحال کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن اس بات کا دھڑکا ہے کہ حکمران کوئی "شریف” ہی ہو گا۔ کسی "ایک” کی قربانی لازم ٹھہر چکی ہے کیونکہ قبلہ قادری اور خان صاحب کو خالی ہاتھ واپس بھیجنا اب ناممکن ہو چکا ہے۔
پس تحریر: گزارش ہے کہ حکومت ابھی تک تو دونوں انقلابی دھڑوں کو کسی سیاسی حل تک لانے میں ناکام رہی ہے،حالات کس کو "نواز” دیں گےفی الحال کچھ کہنا مشکل ہے، لیکن اس بات کا دھڑکا ہے کہ حکمران کوئی "شریف” ہی ہو گا۔ کسی "ایک” کی قربانی لازم ٹھہر چکی ہے کیونکہ قبلہ قادری اور خان صاحب کو خالی ہاتھ واپس بھیجنا اب ناممکن ہو چکا ہے۔
I can feel you brother, you’ve severe oral diarrhea along with a constipated mind. May Allah cure you. JazakAllah
There seems to be an anger in the writing, which can easily be considered as non-political since more of emotions and less of substantiated argument make you vulnerable verbal attacks.
Suggestion is when you are angry, don’t write political column/diary; wait for the time when you are cool-headed and have evaluated your thought-process.
Nice article, very thought provoking. Democracy is the only solution. Don’t care about the comments, mostly people in Pakistan are emotional, they don’t know about the true value of the democracy.