غلامی کے خاتمے کی مطالبہ ہو یا سول رائٹس موومنٹ ، حقوقِ نسواں کی تحریک ہو یانسلی تفریق کے اختتام کی کوشش، سبھی کچھ انسانی برابری اور انسانی آزادیوں کے تصور کی بنیاد پر انسانوں کے بیچ خود ساختہ سماجی تفریق اور امتیاز کے خلاف کھڑے ہونے کے عزم کا اظہار تھے۔ وہ عزم جو استحصا ل، بے بسی اور لاچارگی کے خلاف سینہ سپر ہونے کا عزم ہے۔بے بسی اور نفرت کے شعلوں کی تپش سہتے ہوئے لوگوں کے جسموں پر مہم رکھنے کا جذبہ ہی تھا جو صدیوں سے انسانی برتری کے نام نہاد تصورات کو مٹا کر انسانی برابری پر مبنی سماج کی تعمیر کا جذبہ تھا۔
عرب سماج کے قبائلی تفاخر کو مٹانے والا اسلام ہو یا انقلاب فرانس کے بیج بونے والی فکری تحریکیں ہوں ،سبھی انسانوں پر حاکم انسانوں کے خلاف احتجاج کا موثر ذریعہ رہی ہیں۔ تاہم مسلم دنیا میں علم، تحقیق، اور دلیل کی نفی کرنے کے رواج نے پاکستان سمیت تمام مسلم ریاستوں کو ترقی یافتہ اقوام کے نظام سیاست و معیشت ، تصورات،ٹیکنا لوجی ،ثقافت، اور زبان کا محتاج کر دیا ہے کیونکہ نیا زمانہ ترقی یا فتہ قومیں تشکیل دے رہی ہیں۔ آزادئ نسواں کا تصور بھی مغرب سے اٹھا اوروہاں کی عورت نے دنیا کا آدھا بلکہ آدھے سے زیادہ بوجھ اٹھا لیا ہے تو ہمارے ہاں ابھی تک عورت کی برابری، مساوی آزادی اور خود مختاری کا تصور ابھی تک محض مغرب تقاریب اور اخباری بیانات تک محدود ہے ۔غالب اکثریت خصوصاً مرد اس تصور سے سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں،اس لیے وہ اس تصور کو پوری شدت سے رد کرتے ہیں۔تاہم جیسے ہم جمہوریت،کیپٹلزم،انگریزی، پینٹ شرٹ، پیزا،پیپسی،انٹرنیٹ،موبائل، وغیرہ کو اپنے معاشرے میں رائج اور مقبول ہونے سے نہیں روک سکے ،اسی طرح شائد آزادئ نسواں کے تصور کی بھی زیادہ دیر تک مزاحمت نا کرسکیں۔
عرب سماج کے قبائلی تفاخر کو مٹانے والا اسلام ہو یا انقلاب فرانس کے بیج بونے والی فکری تحریکیں ہوں ،سبھی انسانوں پر حاکم انسانوں کے خلاف احتجاج کا موثر ذریعہ رہی ہیں۔ تاہم مسلم دنیا میں علم، تحقیق، اور دلیل کی نفی کرنے کے رواج نے پاکستان سمیت تمام مسلم ریاستوں کو ترقی یافتہ اقوام کے نظام سیاست و معیشت ، تصورات،ٹیکنا لوجی ،ثقافت، اور زبان کا محتاج کر دیا ہے کیونکہ نیا زمانہ ترقی یا فتہ قومیں تشکیل دے رہی ہیں۔ آزادئ نسواں کا تصور بھی مغرب سے اٹھا اوروہاں کی عورت نے دنیا کا آدھا بلکہ آدھے سے زیادہ بوجھ اٹھا لیا ہے تو ہمارے ہاں ابھی تک عورت کی برابری، مساوی آزادی اور خود مختاری کا تصور ابھی تک محض مغرب تقاریب اور اخباری بیانات تک محدود ہے ۔غالب اکثریت خصوصاً مرد اس تصور سے سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں،اس لیے وہ اس تصور کو پوری شدت سے رد کرتے ہیں۔تاہم جیسے ہم جمہوریت،کیپٹلزم،انگریزی، پینٹ شرٹ، پیزا،پیپسی،انٹرنیٹ،موبائل، وغیرہ کو اپنے معاشرے میں رائج اور مقبول ہونے سے نہیں روک سکے ،اسی طرح شائد آزادئ نسواں کے تصور کی بھی زیادہ دیر تک مزاحمت نا کرسکیں۔
صدیوں تک مال و اسباب، ڈھور ڈنگر کی طرح ایک ملکیت سمجھی جانے والی عورت جسے چھینا جا سکتا تھا،خریدا اور بیچا جا سکتا تھا، وراثت میں دیا جاسکتا تھا،شوہر کے فوت ہوتے ہی جلایا جاسکتا تھا، جس کی تمام مرضی و منشا مرد کے تابع تھی ، سماجی ڈھانچے میں عورت کی انفرادی اور اجتماعی حثیت کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔
یہاں دو چیز یں بہت اہم ہیں، آزادئ نسواں کا تصور اور مغرب میں اس کے اطلاق کے نتائج۔ صدیوں تک مال و اسباب، ڈھور ڈنگی کی طرح ایک ملکیت سمجھی جانے والی عورت جسے چھینا جا سکتا تھا،خریدا اور بیچا جا سکتا تھا، وراثت میں دیا جاسکتا تھا،شوہر کے فوت ہوتے ہی جلایا جاسکتا تھا، جس کی تمام مرضی و منشا مرد کے تابع تھی ، اُسے بے شتر سماجی ڈھانچے میں عورت کی انفرادی اور اجتماعی حثیت کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔مغرب میں (Renaissance) کے بعد کئی تحریکوں نے جنم لیا جن کا مقصد فرد اور معاشرے کو ہر طرح کی استبدادی پابندیوں سے نجات دلانا تھا۔ اسی دور میں سیکولرزم،جمہوریت،انسانی حقوق،کیپٹلزم،فری مارکیٹ،اور آزادئ نسواں کے تصورات نے فروغ پایا۔مغرب میں یہ احساس گہرا ہوتا گیا کہ عورت کی آزادی، اس کی انفرادی اور اجتماعی حثییت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ مغرب میں بھی قدامت پرست مذہبی اور مقتدر حلقوں کی جانب سے اس تصور کی شدید مخالفت ہوئی۔خصوصا ًمردوں کی جانب سے جنھیں یہ احساس ہورہا تھا کہ ان کو حق سے محروم کردیا گیا ہے،مگر مغرب کی عورت کی جدوجہد نے نہ صرف عورت کو ایک نئی پہچان دی بلکہ صدیوں سے قائم کہن زدہ مردانہ برتری کے بتوں کو بھی ارض خدا کے کعبہ سے نکال باہر کیا۔
ہمارے معاشرے میں بھی آزادئ نسواں کے تصور کو ماننے میں بڑا تامل ہے اور اس کی بڑی وجہ مغرب میں اس تصور سے جنم لینے والا معاشرہ اور تہذیب ہے۔ عموماً یہ دلیلیں دی جاتی ہیں کہ انسانی آزادیوں اور آزادی نسواں جیسے تصورات کے عام ہونے کے بعد مغرب کی طرح ہمارے ہا ں بھی خاندان کمزور ہوجاے گا اور طلاق بڑھ جائے گی، عورت شمع محفل نہیں ہے، تعلیم اور نوکری عورت کا دماغ خراب کرتی ہے، عورت کم عقل ہے، عورت کے گھر سے نکلنے سے بے حیائی بڑھ جائے گی، وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام دلائل سے جو ایک نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ معاشرے میں استحکام کے لئے ضروری ہے کے مرد کی حاکمیت کو تسلیم کیا جائے اور عورت کو صرف ایک کردار یعنی گھر گھرستی تک محدود کردیا جاے۔ عورت کی آزادی کی نفی کرنے والے افکار اور مذہبی تصورات عورت کی آزاد اور خود مختار حیثیت کو قبول کرنے اور ایک خود مختار عورت اور اس کے فیصلوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔مگر یہ سوچ معاشرے کے تاریخی ارتقاء اور اس میں عورت کے کردار سے ناواقفیت کی بناء پر ہے۔ آج بھی خواتین کھیتوں، فیکٹیروں، گھروں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں اور ہر شعبہ ہاے زندگی میں حصہ لیتی ہیں۔مگر آج کی آزاد اور خود مختار عورت نہ صرف معاشی دباو کا سامنا کرنے پر مجبور ہے بلکہ روایات کی پاسداری اور اپنے کام کی ناقدری بھی برداشت کر رہی ہے۔
ہمارے معاشرے میں بھی آزادئ نسواں کے تصور کو ماننے میں بڑا تامل ہے اور اس کی بڑی وجہ مغرب میں اس تصور سے جنم لینے والا معاشرہ اور تہذیب ہے۔ عموماً یہ دلیلیں دی جاتی ہیں کہ انسانی آزادیوں اور آزادی نسواں جیسے تصورات کے عام ہونے کے بعد مغرب کی طرح ہمارے ہا ں بھی خاندان کمزور ہوجاے گا اور طلاق بڑھ جائے گی، عورت شمع محفل نہیں ہے، تعلیم اور نوکری عورت کا دماغ خراب کرتی ہے، عورت کم عقل ہے، عورت کے گھر سے نکلنے سے بے حیائی بڑھ جائے گی، وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام دلائل سے جو ایک نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ معاشرے میں استحکام کے لئے ضروری ہے کے مرد کی حاکمیت کو تسلیم کیا جائے اور عورت کو صرف ایک کردار یعنی گھر گھرستی تک محدود کردیا جاے۔ عورت کی آزادی کی نفی کرنے والے افکار اور مذہبی تصورات عورت کی آزاد اور خود مختار حیثیت کو قبول کرنے اور ایک خود مختار عورت اور اس کے فیصلوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ۔مگر یہ سوچ معاشرے کے تاریخی ارتقاء اور اس میں عورت کے کردار سے ناواقفیت کی بناء پر ہے۔ آج بھی خواتین کھیتوں، فیکٹیروں، گھروں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں اور ہر شعبہ ہاے زندگی میں حصہ لیتی ہیں۔مگر آج کی آزاد اور خود مختار عورت نہ صرف معاشی دباو کا سامنا کرنے پر مجبور ہے بلکہ روایات کی پاسداری اور اپنے کام کی ناقدری بھی برداشت کر رہی ہے۔
آزادئ نسواں سمیت انسانی آزادی اور مساوات کے تمام تصورات کو مغربی اور مشرقی یا مذہبی اور سیکولر کے خانوں میں تقسیم کرنے کی بجائے انسانی عقل اور تاریخ کے تنقیدی شعور کے تناظر میں اپنانا یا رد کرنا ہو گا اور انسانوں کو جنس، رنگ اور نسل کی تفریق کے بغیر مساوی سمجھنا اور تسلیم کرنا ہو گا۔
مسئلہ عورت کا کمانا یا گھر سے نکلنا نہیں ہے مسئلہ مرد کی صدیوں سے بنی ہوئی سوچ کا ہے جس کے مطابق مرد ہی حاکم ہے وہی فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے کہ عورت کے لیئے کیا فائدہ مند یا نقصان دہ ہے، وہی بہتر جانتا ہے کہ عورت کے لیے کون سا کردار بہتر ہے، اور مرد ہمیشہ کہتا ہے کہ میں یہ سب عورت کی بھلائی کے لیے کر رہا ہوں۔ مرد عورت کو عزت، احترام اور تحفظ تو دیتا ہے مگر برابری نہیں ۔ یہ تمام دلائل تو طاقت کے بل بوتے پر قبضہ کرنے والا غاصب حکمران بھی دیتا ہے۔
ترقی یافتہ معاشرے اپنے تصورات، روایات، اور اقدار میں وقت کے ساتھ مثبت تبدیلی لاتے ہیں، فائدہ مند کو اپناتے اور نقصان دہ کو چھوڑتے ہیں۔ ہمیں بھی مغرب کی تقلید یا تردید میں الجھنے سے سے زیادہ حقیقی اور اصولی بنیادوں پر اپنی اقدار میں تبدیلی لانی چاہیےورنہ ہم جمود ہی کا شکار رہیں گے۔ آزادئ نسواں سمیت انسانی آزادی اور مساوات کے تمام تصورات کو مغربیاور مشرقی یا مذہبی اور سیکولر کے خانوں میں تقسیم کرنے کی بجائے انسانی عقل اور تاریخ کے تنقیدی شعور کے تناظر میں اپنانا یا رد کرنا ہو گا اور انسانوں کو جنس، رنگ اور نسل کی تفریق کے بغیر مساوی سمجھنا اور تسلیم کرنا ہو گا۔
ترقی یافتہ معاشرے اپنے تصورات، روایات، اور اقدار میں وقت کے ساتھ مثبت تبدیلی لاتے ہیں، فائدہ مند کو اپناتے اور نقصان دہ کو چھوڑتے ہیں۔ ہمیں بھی مغرب کی تقلید یا تردید میں الجھنے سے سے زیادہ حقیقی اور اصولی بنیادوں پر اپنی اقدار میں تبدیلی لانی چاہیےورنہ ہم جمود ہی کا شکار رہیں گے۔ آزادئ نسواں سمیت انسانی آزادی اور مساوات کے تمام تصورات کو مغربیاور مشرقی یا مذہبی اور سیکولر کے خانوں میں تقسیم کرنے کی بجائے انسانی عقل اور تاریخ کے تنقیدی شعور کے تناظر میں اپنانا یا رد کرنا ہو گا اور انسانوں کو جنس، رنگ اور نسل کی تفریق کے بغیر مساوی سمجھنا اور تسلیم کرنا ہو گا۔