ہر قوم اپنی مصنوعات پر فخر کرتی ہے اور بحیثیت قوم ہمیں بھی اپنی مصنوعات پر فخر کرنا چاہیے ۔ دنیا کے کئی ممالک میں ہماری مصنوعات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن افسوس کہ ان مصنوعات کی ہم اتنی قدر نہیں کرتے۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے جب ہم خریداری کرنے بازار جاتے تھے تو دکاندار اکثر کہا کرتے تھے یہ جاپانی ہے اور یہ دیسی ہے ۔ دیسی کا مطلب اپنے دیس میں بنی ہوئی اور ساتھ ہی دیسی مصنوعات کے بالمقابل جاپانی مصنوعات کی تعریفوں کے پل بھی باندھتے تھے گویا آپ کو جاپانی چیز خریدنے پر قائل کرتے تھے یہی نہیں بلکہ بہت ڈھٹائی کے ساتھ کہتے تھےکہ دیسی کی کوئی گارنٹی نہیں اور جاپانی کی ایک سال کی گارنٹی ہے ۔ ہم اس وقت اکثر سوچتے تھے کہ کاش ہمارے ملک کی مصنوعات بھی اتنی معیاری ہوں کہ دکاندارانہیں فروخت کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں بلکہ ہم بھی فخریہ انداز میں بازار جاکر کہہ سکیں کہ ہمیں دیسی یعنی پاکستانی مصنوعات ہی خریدنی ہیں ۔
بہت طویل انتظار کے بعد حالات میں کچھ تبدیلی آنا شروع ہوئی اور چند مصنوعات کا معیار بہتر ہوا لیکن ابھی یہ مصنوعات بازارمیں اپنی جگہ بھی نہیں بنا پائی تھیں کہ چینی مصنوعات نے دھوم مچا دی۔ اب ہمارے دکاندار کوئی بھی چیز دکھاتے ہوئے کہنے لگے یہ جاپانی ہے اور یہ چائنا گویا دیسی اشیاء کا تعارف ہی ختم ہوگیا اور دیکھتے دیکھتے پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر چینی مصنوعات نے اپنی گرفت اتنی مضبوط کرلی کہ لوگ دیار غیر سے اپنے پیاروں کے لیے جو تحائف بھیجنے لگے تو ان پر "میڈ ان چائنا” لکھا نظر آنے لگا۔ چاہے وہ امریکہ ہو،یورپ ہو یا عرب ممالک ہر چیز پر چین کی مہر کندہ ہے۔ حد تو یہ ہے جناب کہ میں نے ایک دفعہ کہیں ایک خبر پڑھی کہ امریکی صدر اوباما جو ٹوتھ برش استعمال کرتے ہیں اس پر بھی میڈان چائنا کندہ ہے ۔
ہم اس وقت اکثر سوچتے تھے کہ کاش ہمارے ملک کی مصنوعات بھی اتنی معیاری ہوں کہ دکاندارانہیں فروخت کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں بلکہ ہم بھی فخریہ انداز میں بازار جاکر کہہ سکیں کہ ہمیں دیسی یعنی پاکستانی مصنوعات ہی خریدنی ہیں
میں یہاں ایک واقعہ آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ لوگ اپنے ملک کی مصنوعات کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ میرا عالمی نشریاتی اداروں سے کافی تعلق رہا ہے اکثر و بیشتر اس حوالے سے کئی غیر ملکی یہاں آکراپنی نشریات کے حوالے سے تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تقریب کے لیے ڈی ڈبلیو ٹی وی (جرمن ٹی وی)کی ایک ٹیم کراچی آئی اس ٹیم کے سربراہ جرمن تھے۔ ہم ریڈیو کے حوالے سے ایک دستاویزی فلم کی عکسبندی کے لیے کراچی شہر میں ان کے ساتھ کام کررہے تھے کہ اچانک ان کے قلم نے لکھنا بند کردیا میں نے انھیں فوراًاپنی جیب سے قلم نکال کر انہیں دیا انہوں سے قلم کو غور سے دیکھا اور کام کرکے مجھے واپس کردیا اور کہا کہ مجھے ایک قلم خریدنا ہے۔ اس غرض سے ہم بازارگئے تو انہوں نے دکاندار سے کہا کہ مجھے جرمان ساختہ قلم چاہیے ۔مختصر یہ کہ ہم نے کئی بازار کھنگال ڈالے بہت محنت اور مشقت کے بعد ہمیں وہ قلم میسر آیا جس پر "میڈ ان جرمنی” لکھا تھا۔ قلم خریدنے کے بعدان کے چہرے پر ایک فاخرانہ مسکراہٹ نظر آئی مجھے بہت اچھا لگا کہ بندہ اپنے ملک کی بنی چیز کے لیے اتنا بے تاب تھا۔
کاش ہمارے ملک میں بننے والی تمام مصنوعات کا معیار بھی ایسا ہو جائے کہ ہرپاکستانی ہمارے ملک کا نام لے کر اشیاء طلب کرے ۔اگرچہ آج بھی ہماری کئی مصنوعات ایسی ہیں جن کے مدمقابل کوئی نہیں ہے جس کی ایک زندہ مثال ورلڈ کپ فٹبال میں استعمال ہونے والی فٹبال ہیں جن کو دنیا کی بہترین فٹ بال قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح اور بہت سی مصنوعات ہیں جنھیں غیر ممالک میں پذیرائی حاصل ہے۔ ہمیں اپنے ملک کی بنی مصنوعات پر نا صرف فخر کرنا چاہیئے بلکہ خریداری کرتے ہوئے کسی بھی دوسرے ملک کی مصنوعات پر اپنے ملک کی مصنوعات کو ترجیح دینی چاہئیے ۔

Leave a Reply