youth-yell-featuredیہ 1953 کی بات ہے۔ کچھ مذہبی تنظیموں نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ احمدیوں کو غیر مسلم (اقلیت) قرار دیا جائے۔ جب حکومت نے ان کے مطالبات ماننے سے انکار کردیا تو پنجاب میں فسادات شروع ہوگئے۔ پاکستان کی حکومت ان فسادات کو قابو کرنے میں ناکام رہی۔ حکومت نے حالات کو قابو کرنے ک یلئے فوج کو طلب کیا اور پنجاب میں مارشل لاء کا نفاذ ہوا۔ پھر فوج حالات کو قابو کرنے میں کامیاب ہوئی اوریہ پہلا موقع تھا جب پاکستانی فوج نے پاکستان کی سیاست میں ‘باضابطہ’ طور پر اپنا کردار ادا کیا اور شاید یہی وجہ تھی کہ فوج نے عوام (خاص کر پنجاب کے عوام) میں کافی مقبولیت حاصل کی۔

جن لوگوں کو کرکٹ اور سیاست میں دلچسپی ہے انہیں پتہ ہوگا کہ فوج کا کام دفاعی امور کو سنبھالنا اور ایک باؤلر کا کام رنز روک کر دوسرے ٹیم کے بلے بازوں کو آؤٹ کرنا ہوتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی ضرورت کے وقت ٹیم کا کپتان کسی بلے باز کو حالات کی نزاکت کی وجہ سے بیٹنگ کرنے بھیج سکتا ہے
1996 میں پاکستان کرکٹ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ہوا یوں کہ جب پاکستانی کرکٹ ٹیم چار ملکی ایک روزہ (ون ڈے انٹرنیشنل) ٹورنامنٹ کھیلنے کے لیے کینیا گئی تو اس وقت پاکستان ٹیم کے کپتان وسیم اکرم تھے جبکہ نائب کپتان سعید انور تھے۔ پاکستان جب اپنا دوسرا میچ کھیل رہا تھا تو وسیم اکرم ٹیم کا حصہ نہیں تھے (شاید وہ زخمی ہوگئے تھے) اور ٹیم کی قیادت سعید انور کر رہے تھے۔ وسیم اکرم کے نہ کھیلنے کی وجہ سے پاکستان کو ایک باؤلر کی ضرورت تھی جس کے لیے ٹیم نے ایک نوجوان باؤلر شاہد آفریدی کو ٹیم کا حصہ بنایا، جنہوں نے کافی اچھی باؤلنگ کی (پہلے میچ میں آفریدی کو بیٹنگ کرنے کا موقع نہیں ملا)۔ اگلے میچ میں جب پاکستان پہلے بیٹنگ کررہا تھا تو 60 کے مجموعی اسکور پر پاکستان کو پہلی وکٹ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ پھر وہ ریکارڈ بنا جو ٹوٹ جانے کے باوجود بھی شاید ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ شاہد آفریدی نے جو بطور باؤلر پاکستانی ٹیم میں منتخب ہوئے تھے، میدان میں اترتے ہی چھکوں کی بارش کردی۔ انہوں نے 37 گیندوں پر اس وقت کی تیز ترین سینچری اسکور کی اور اسی میچ کے بعد آفریدی نے پاکستانی عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

یہ دونوں واقعات بہت ہی ملتے جلتے اور اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان واقعات سے نہ صرف بحیثیت قوم ہماری پسند، ناپسند کا پتہ چلتا ہے بلکہ یہ بات بھی پتہ چل جاتی ہے کہ ہماری یادداشت کتنی کمزور ہے۔ جن لوگوں کو کرکٹ اور سیاست میں دلچسپی ہے انہیں پتہ ہوگا کہ فوج کا کام دفاعی امور کو سنبھالنا اور ایک باؤلر کا کام رنز روک کر دوسرے ٹیم کے بلے بازوں کو آؤٹ کرنا ہوتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی ضرورت کے وقت ٹیم کا کپتان کسی بلے باز کو حالات کی نزاکت کی وجہ سے بیٹنگ کرنے بھیج سکتا ہے (جیسا کہ ٹیسٹ کرکٹ میں دن کے آخر میں ایک باؤلر کو بطورِ نائٹ واچ مین بھیجا جاتا ہے)۔

اسی طرح فوج کو جو ریاست کا بہت ہی اہم ادارہ ہے ضرورت پڑنے پر ملک کا کپتان (سربراہ) ‘نازک حالات’ میں اسے مدد کے لیے طلب کرسکتا ہے۔ لیکن اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایک باؤلر باؤلنگ پر توجہ ہی نہ دے اور بیٹنگ کی خواہش دل میں لیے میدان میں اترے اور اسی طرح فوج دفاعی امور کو چھوڑ کر دوسرے اداروں میں مداخلت کرنا شروع کردے۔

جس طرح شاہد آفریدی ہمیں میچ جیتنے کی امید دلا کر فوراً آوٹ ہو جاتے ہیں اسی طرح پاکستانی جرنیل بھی آتے ہی سارے مسائل کو حل کرنے کی خوش خبری دیتے ہیں لیکن مسائل کو حل کرنے کی بجائے مزید مسائل پیدا کر دیتے ہیں
کرکٹ اور سیاست میں اہلیت کے کچھ معیارات طے کیے گئے ہیں اور ہر کھلاڑی اور ریاستی ستون کا کردار طے کر دیا گیا ہے۔ کرکٹ میں بہترین بلے باز کا اعزاز حاصل کرنے کے لیے کچھ معیارات رکھے گئے ہیں۔ اگر دنیا کے بلے بازوں کی فہرستیں بنائی جائیں تو شاہد آفریدی کا نام صرف دو فہرستوں میں آتا ہے۔ وہ ہے سب سے زیادہ چھکے مارنے والوں کی فہرست اور سب سے تیز رفتاری سے اسکور کرنے والوں کی فہرست۔ لیکن بہترین بلے باز ہونے کے لیے نہ صرف ایک اچھی اوسط کا ہونا لازمی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک کھلاڑی کتنے تسلسل سے اپنی کارکردگی دکھاتا ہے بلکہ یہ بھی اہم ہے کہ بوقتِ ضرورت (خاص کر ورلڈ کپ میں) وہ ٹیم کو کتنا فائدہ پہنچاتا ہے۔ آفریدی کی ایک روزہ بیٹنگ اوسط 23 ہے جو ایک بلے باز کے لیے نہایت ہی بُری ہے اور اس سے بھی بدتر ورلڈ کپ میں ہے۔ ورلڈ کپ کے 27 میچوں میں ان کی اوسط صرف 14 ہے اور ایک بھی سینچری شامل نہیں ہے۔ آفریدی کا شمار دنیا کے ‘خطرناک ترین’ بلے بازوں میں ہوتا ہے جو میچ کی کایہ کبھی بھی پلٹ سکتا ہے لیکن ایسی کارکردگی دکھانے کے لیے وہ برسوں لگا دیتے ہیں۔ اکثر مواقع پر جب وہ میچ جتا سکتے تھے وہ میچ وننگ کارکردگی نہیں دکھا سکے جو کرکٹ شائقین اور ان کے مداحین کے لیے نہایت ہی تکلیف دہ بات ہے۔ مگر ہماری یادداشت اتنی کمزور ہے کہ پچھلے بیسیوں میچوں کی بری کارکردگی کو بُھلا کر ہر بار انہی سے امید لگا بیٹھتے ہیں اور وہ ہر بار ہماری امیدوں پر پانی پھیر دیتے ہیں۔

پاکستانی فوج کا شمار بھی دنیا کی ‘بہترین’ افواج میں ہوتا ہے (یہ جملہ میں اس لیے لکھ رہا ہوں تا کہ مجھ پر غدار ہونے کا الزام نہ لگے)۔ پاکستانی فوج نے ہمیشہ ہنگامی حالات میں پاکستانی شہریوں کی دل کھول کر مدد کی ہے۔ چاہے زلزلہ ہو، سیلاب یا دیگر قدرتی آفات، پاکستانی فوج نے ہر اس علاقہ میں امداد پہنچائی ہے جہاں دوسرے ادارے نہیں پہنچ پاتے۔ امن و امان کی بحالی کے لیے بھی پاک فوج ہمیشہ تیار رہی ہے جس کا منہ بولتا ثبوت 2004 میں عاشور کے جلوس پر حملہ ہونے کے بعد کوئٹہ میں لگایا گیا کرفیو ہے۔ اس وقت کے حالات کو صرف پاکستانی فوج ہی قابو کرسکتی تھی جو انہوں نے بخوبی انجام دیا اور یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام فوج کی اتنی دلدادہ ہوگئی ہے کہ ہر مسئلے کے حل کے لیے فوج کو آواز دے دیتی ہے۔

سیاسی مسائل کا حل سیاسی اور آئینی اداروں کو ہی نکالنا ہو گا جس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی اور گفت و شنید کے بعد کام کرنے کی ضرورت ہے نا کہ ایک کوتاہ بین کی طرح کسی شاہد آفریدی یا کسی جرنیل سے امیدیں وابستہ کر لینے کی۔
ہماری پیاری فوج کبھی کبھی دعوت پر تو کبھی بن بھلائے مہمان کی طرح نازل ہوجاتی ہے۔ جس طرح شاہد آفریدی ہمیں میچ جیتنے کی امید دلا کر فوراً آوٹ ہو جاتے ہیں اسی طرح پاکستانی جرنیل بھی آتے ہی سارے مسائل کو حل کرنے کی خوش خبری دیتے ہیں لیکن مسائل کو حل کرنے کی بجائے مزید مسائل پیدا کر دیتے ہیں جس کی مثال ایوب خان، ضیاء الحق اور مشرف کے آمرانہ ادوار میں دکھائی دیتی ہے۔ ہندوستان سے پنگا لینے کے لیے آپریشن جبرالٹر کرنا، سیاست کے لیے مذہب کا بے جا استعمال (اسلامائزیشن) کرنا، افغانستان میں دخل اندازی کرنا، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مزید دہشت پھیلانا، امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانا اور بلوچستان کے حالات کو مزید خراب کرنا۔ یہ ایسے ان گنت مسائل ہیں جو پاکستانی آمروں کی دین ہیں لیکن ہم بھی اپنی عادت سے مجبور ہیں اور یہ سب باتیں بھول کر جمہوریت کو گالی گلوچ دیتے رہتے ہیں اور سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے ایک ایسے ادارے سے آس لگائے بیٹھے ہیں جس کا کام سیاست کرنا ہے ہی نہیں۔ سیاسی مسائل کا حل سیاسی اور آئینی اداروں کو ہی نکالنا ہو گا جس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی اور گفت و شنید کے بعد کام کرنے کی ضرورت ہے نا کہ ایک کوتاہ بین کی طرح کسی شاہد آفریدی یا کسی جرنیل سے امیدیں وابستہ کر لینے کی۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی سیاست دان اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع ہی نہیں دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر جتنا بھی برا ہو آپ اپنے مرض کے علاج کے لیے کبھی کسی اینجینئر یا پلمبر کے پاس نہیں جائیں گے، بلکہ کسی بہتر ڈاکٹر کی تلاش کریں گے کیونکہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ اگر ہم نے مختلف آئینی اداروں اور مختلف کھلاڑیوں کے آئینی کردار اور کھیلنے کی صلاحیت کے برعکس ذمہ داریاں دینا جاری رکھا تو ہماری فوج اور کرکٹ کا وہی حال رہے گا جو اس وقت ہے۔

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: