محمد علی جناح نے اپنی زندگی میں کہا تھا کہ میں اپنی جس جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوں آگے سے کھوٹا سکہ نکلتا ہے اور یہ بات قائد اعظم کی وفات کے بعد درست ثابت ہوئی۔ ابتدائی دنوں میں ہی پاکستان بنانے والی مسلم لیگ پاکستان کو اس مقام پر لے آئی کہ ایک فوجی آمر کو عنان حکومت سنبھالنے کا موقع مل گیا۔ ملک کے "وسیع تر مفاد” میں جب فیلڈ مارشل ایوب خان نے مارشل لا کا نفاذ کیا تو عوام کی اکثریت یا تو خاموش رہی یا پھر انہوں نے ایک آمر کا خیر مقدم کیا۔ مگر عوام کی اس خاموش اکثریت کے دباو پر زرعی اصلاحات، انفراسٹرکچر کی تعمیر، سرمایہ کاری اور ڈیموں کی تعمیر کے باوجود انہیں صدارتی انتخابات کا انعقاد کرنا پڑا۔عوام کے پر زور اسرار پر 1965 میں جب محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے مقابلے پر صدارتی الیکشن لڑا تو اس میں دھاندلی کر کے نہ صرف محترمہ کو ہرایا گیا بلکہ ان کے کردار پر کیچڑ بھی اچھالا گیا۔ انتخابات جیتنے کے لئے کیچڑ اچھالنے کی یہ روایت آج بھی زندہ ہے، سیاسی مفادات کی خاطر ہر رہنما کو متنازعہ بنانے کے لئے الزامات اور دروغ گوئی کا چلن آج عام ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جناح سے لے کرعمران خان تک ہر سیاستدان متنازعہ ہے ۔
بنگلہ دیش بن جانے کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو پہلے عوامی وزیر اعظم بنے تو ان کی اصلاحات، دستور سازی اورخارجہ پالیسی کے باوجود ان کے آمرانہ طرز حکومت ، 1977 کےانتخابات میں بے قاعدگیوں، احتجاجی مظاہرین سے معاملات طے کرنے میں ناکامی اورعوام کے خلاف طاقت کے استعمال کے باعث فوج کو پھر مداخلت کا موقع مل گیا۔
ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان صدارتی انتخابات تو جیت گئے لیکن سرکاری مشینری کےاستعمال اور دھاندلی سے جیتنے کی جو روایت صدر ایوب ڈال کر گئے وہ آج تک پاکستان میں جمہوری انتقال اقتدار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ایوب آمریت کے خلاف انہیں ڈیڈی کہنے والے ” وزیر خارجہ” کی بغاوت اور ستر کی دہائی میں عوامی طاقت سے پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنا اسٹیبلشمنٹ کا وہ بھیانک خواب ہے جو سول ملٹری توازن میں سویلین برتری کے قیام کی راہ پر آسیب کی طرح مسلط ہے۔ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو پہلے عوامی وزیر اعظم بنے تو ان کی اصلاحات، دستور سازی اورخارجہ پالیسی کے باوجود ان کے آمرانہ طرز حکومت ، 1977 کےانتخابات میں بے قاعدگیوں، احتجاجی مظاہرین سے معاملات طے کرنے میں ناکامی اورعوام کے خلاف طاقت کے استعمال کے باعث فوج کو پھر مداخلت کا موقع مل گیا۔ عوامی ہمدردیاں پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونے کے باوجود عنان حکومت ایک ایسے فوجی آمر کے ہاتھ آ گیا جس کے افغان جہاد اور مذہبی انتہاپسندی کے فروغ کی پالیسی کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔
ضیا دور کا خاتمہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتوں پر ہواجنہیں ان کے اپنے منتخب صدور نے فوجی اور عوامی دباو پرتحلیل کیا۔1993 میں بی بی نے لانگ مارچ کر کے میاں صاحب سے استعفٰی لیا، اور بعدازاں میاں صاحب کے احتجاج پر بینظر کی حکومت تحلیل کی گئی۔بقول شخصے نواز شریف اگر برطانیہ کے وزیر اعظم ہوتے تو وہاں بھی مارشل لا لگوا دیتے۔گوکہ معاشرہ کی اکثریت آمریت کی حمایت نہیں کرتی لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ سیاسی جماعتوں کی محاذ آرائی اور غیر جمہوری رویوں نے ہی فوج کو مداخلت کا موقع دیا ہے۔موجودہ بحران سمیت ماضی کی سیاسی تحریکوں کے حوالے سے بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ عسکری اسٹبلشمنٹ ایسے حالات پیدا کرتی ہے جن سے فوج کی مداخلت کا جواز پیدا ہو۔ ایسے افراد یہ نقطہ فراموش کر دیتے ہیں کہ دھاندلی، بد عنوانی اور شہری سہولیات کی عدم فراہمی جیسے مسائل کے حل میں ناکامی کی ذمہ داری سویلین قیادت پر ہے جو اپنے غیر جمہوری طرز عمل کے باعث احتجاج اور مداخلت کے مواقع فراہم کرتی ہے۔حالیہ بحران میں ماڈل ٹاون ہلاکتوں اور انتخابات میں دھاندلی کے معاملہ پر مسلم لیگ نواز کا ردعمل سست اور غیر جمہوری تھا جس کے باعث ایک بار پھر نوے کی دہائی جیسے حالات پیدا ہو گئے ہیں۔
ضیا دور کا خاتمہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتوں پر ہواجنہیں ان کے اپنے منتخب صدور نے فوجی اور عوامی دباو پرتحلیل کیا۔1993 میں بی بی نے لانگ مارچ کر کے میاں صاحب سے استعفٰی لیا، اور بعدازاں میاں صاحب کے احتجاج پر بینظر کی حکومت تحلیل کی گئی۔بقول شخصے نواز شریف اگر برطانیہ کے وزیر اعظم ہوتے تو وہاں بھی مارشل لا لگوا دیتے۔گوکہ معاشرہ کی اکثریت آمریت کی حمایت نہیں کرتی لیکن تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ سیاسی جماعتوں کی محاذ آرائی اور غیر جمہوری رویوں نے ہی فوج کو مداخلت کا موقع دیا ہے۔موجودہ بحران سمیت ماضی کی سیاسی تحریکوں کے حوالے سے بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ عسکری اسٹبلشمنٹ ایسے حالات پیدا کرتی ہے جن سے فوج کی مداخلت کا جواز پیدا ہو۔ ایسے افراد یہ نقطہ فراموش کر دیتے ہیں کہ دھاندلی، بد عنوانی اور شہری سہولیات کی عدم فراہمی جیسے مسائل کے حل میں ناکامی کی ذمہ داری سویلین قیادت پر ہے جو اپنے غیر جمہوری طرز عمل کے باعث احتجاج اور مداخلت کے مواقع فراہم کرتی ہے۔حالیہ بحران میں ماڈل ٹاون ہلاکتوں اور انتخابات میں دھاندلی کے معاملہ پر مسلم لیگ نواز کا ردعمل سست اور غیر جمہوری تھا جس کے باعث ایک بار پھر نوے کی دہائی جیسے حالات پیدا ہو گئے ہیں۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ ہر مرتبہ مسلم لیگ ن پر ہی دھاندلی کا الزام کیوں لگتا ہے؟ الیکشن 2013 سے قبل 1990 اور 1997کے انتخابات پر بدعنوانی اور دھاندلی کے الزامات ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
پارلیمنٹ کے مشرکہ اجلاس میں اعتزاز احسن کا یہ سوال صورت حال کی عکاسی کرنے کو کافی ہے کہ میاں صاحب ہر دفعہ آپ کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ میاں صاحب کے ارد گرد لوگ ٹھیک نہیں ہیں جاوید ہاشمی کے مطابق نون لیگ کی ٹیم گھٹیا ہے یہ لوگ )جنہیں عمران خان صاحب درباری کہتے ہیں( میاں صاحب کو درست کام کرنے نہیں دیں گے۔یہ سوال بھی اہم ہے کہ ہر مرتبہ مسلم لیگ ن پر ہی دھاندلی کا الزام کیوں لگتا ہے؟ الیکشن 2013 سے قبل 1990 اور 1997کے انتخابات پر بدعنوانی اور دھاندلی کے الزامات ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔آج عوام کی اکثریت گزشتہ 67 سالوں کی کرپشن، بدعنوانی اور ناہلی کا احتساب میاں برادران سے لینا چاہتے ہیں۔
موجودہ سیاسی بحران میں عمران خان کا ایک متبادل قیادت کے طور پر ابھر کر سامنے آنا موجودہ حکومت کی نااہلی کا ثبوت ہے۔ گو کہ عمران خان اور تحریک انصاف سول نا فرمانی اور پارلیمنٹ کی طرف پیش قدمی جیسے اقدامات کے باعث متنازعہ ہو چکے ہیں لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد انہیں باقی سیاستدانوں سے بہتر اور ایماندار سمجھتی ہے اور ان کے حکومت میں آنے تک ان کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے کو تیار نہیں۔ بلاول بھٹو کی سیاست میں آمد سے سیاسی جماعتوں کے عدم تحفظ کا اظہار ہوتا ہے جو تحریک انصاف اور عمران خان کو ملنے والی عوامی حمایت کی وجہ سے ہے۔ بھٹو خاندان کی میراث کی بجائے اب پیپلز پارٹی کے نئے سربراہ کو اپنے ووٹ بنک کے لئے خود جدوجہد کرنا ہو گی، تمام سیاسی جماعتوں کا مستقبل اب عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش سے جڑا ہے اور ناکامی کی صورت میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ جمہوری نظام کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
موجودہ سیاسی بحران میں عمران خان کا ایک متبادل قیادت کے طور پر ابھر کر سامنے آنا موجودہ حکومت کی نااہلی کا ثبوت ہے۔ گو کہ عمران خان اور تحریک انصاف سول نا فرمانی اور پارلیمنٹ کی طرف پیش قدمی جیسے اقدامات کے باعث متنازعہ ہو چکے ہیں لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد انہیں باقی سیاستدانوں سے بہتر اور ایماندار سمجھتی ہے اور ان کے حکومت میں آنے تک ان کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے کو تیار نہیں۔ بلاول بھٹو کی سیاست میں آمد سے سیاسی جماعتوں کے عدم تحفظ کا اظہار ہوتا ہے جو تحریک انصاف اور عمران خان کو ملنے والی عوامی حمایت کی وجہ سے ہے۔ بھٹو خاندان کی میراث کی بجائے اب پیپلز پارٹی کے نئے سربراہ کو اپنے ووٹ بنک کے لئے خود جدوجہد کرنا ہو گی، تمام سیاسی جماعتوں کا مستقبل اب عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش سے جڑا ہے اور ناکامی کی صورت میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ جمہوری نظام کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
Leave a Reply