نامہ نگار+پریس ریلیز
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے طلبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ سے پارکنگ کے تنازعہ پر ہونے والے جھگڑے پر جمعرات 26 مارچ کو ڈی آئی جی چوک پر احتجاج کیا اور یونیورسٹی بسوں کی آمدورفت معطل کردی۔ طلبہ نے ڈی آئی جی چوک سے اولڈ کیمپس تک ریلی بھی نکالی اور دھرنا بھی دیا۔ چار گھنٹے تک جاری رہنے والے احتجاج کے دوران طلبہ نے نعرے بازی کی اور انتظامیہ سے تشدد میں ملوث سیکیورٹی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ احتجاج کرنے والے طلبہ نے 18 مارچ کو یونیورسٹی سیکیورٹی گارڈز سے ہونے والے جھگڑے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے متعلقہ اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے، خاتون سیکیورٹی گارڈوں کی تعیناتی اور فیسیں کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

لالٹین کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق گزشتہ برس پشاور حملے کے اسلامیہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ممکنہ دہشت گرد حملے سے بچاو کے لیے بعد غیر اندراج شدہ گاڑیوں کے لیے داخلی دروازے کے قریب پارکنگ قائم کی تھی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کیمپس حدود میں صرف انتظامیہ کے پاس اندراج شدہ گاڑیوں کو داخل ہونے کی اجازت دینے کے فیصلے کے باوجودبعض طلبہ نے اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے اندراج کے بغیر انہیں یونیورسٹی حدود میں لے جانے کی کوشش کی جس پر انہیں روکا گیا، "طالب علموں نے اپنی موٹر سائیکلیں ڈیپارٹمنٹ تک لے جانے کی کوشش کی، سیکیورٹی اہلکاروں کے روکنے پر ہاتھا پائی اور احتجاج پر اتر آئے۔” ایک یونیورسٹی گارڈ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا۔ گارڈ کے مطابق طلبہ کی جانب سے گالم گلوچ اور مارپیٹ کا آغاز کیا گیا۔
احتجاج کرنے والے طلبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ کو تشدد کا ذمہ دار قرار دیا ،”گارڈز نے یونیورسٹی انتظامیہ کی ایماء پر طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔” اسلامیہ یونیورسٹی کے طالب علم فیاض کا کہنا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے پارکنگ کی جگہ ڈیپارٹمنٹس سے بہت دور بنائی ہے جس کی وجہ سے طلبہ کو کافی دشواری کا سامنا ہے، انہوں نے احتجاج کا دائرہ وسیع کرنے کا عندیہ بھی دیا،”ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے اور ڈی سی آفس کے سامنے بھی دھرنا دیں گے۔” تاہم آج دھرنے کےطے شدہ مقام پر کسی قسم کا احتجاج دیکھنے کو نہیں ملا۔ مظاہرین نے دو طالب علموں محمد طیب جاوید اور جنید ججہ پر تشدد کا الزام بھی عائد کیا۔
یونیورسٹی انتظامیہ کی ایک پریس ریلیز کے مطابق کی جانب سے کیے جانے والے مطالبات بے جا اور احتجاجی طلبہ کو یونیورسٹی کے اٹھارہ ہزار طلبہ کی حمایت حاصل نہیں، احتجاج میں شریک طلبہ یونیورسٹی سے خار کیے گئے طلبہ ہیں۔ پریس ریلیز کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے فیسوں میں اضافہ نہیں کیا اور نئی پارکنگ صرف غیر اندراج شدہ گاڑیوں کے لیے ہے۔

لالٹین کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق گزشتہ برس پشاور حملے کے اسلامیہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ممکنہ دہشت گرد حملے سے بچاو کے لیے بعد غیر اندراج شدہ گاڑیوں کے لیے داخلی دروازے کے قریب پارکنگ قائم کی تھی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کیمپس حدود میں صرف انتظامیہ کے پاس اندراج شدہ گاڑیوں کو داخل ہونے کی اجازت دینے کے فیصلے کے باوجودبعض طلبہ نے اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے اندراج کے بغیر انہیں یونیورسٹی حدود میں لے جانے کی کوشش کی جس پر انہیں روکا گیا، "طالب علموں نے اپنی موٹر سائیکلیں ڈیپارٹمنٹ تک لے جانے کی کوشش کی، سیکیورٹی اہلکاروں کے روکنے پر ہاتھا پائی اور احتجاج پر اتر آئے۔” ایک یونیورسٹی گارڈ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا۔ گارڈ کے مطابق طلبہ کی جانب سے گالم گلوچ اور مارپیٹ کا آغاز کیا گیا۔
احتجاج کرنے والے طلبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ کو تشدد کا ذمہ دار قرار دیا ،”گارڈز نے یونیورسٹی انتظامیہ کی ایماء پر طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔” اسلامیہ یونیورسٹی کے طالب علم فیاض کا کہنا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے پارکنگ کی جگہ ڈیپارٹمنٹس سے بہت دور بنائی ہے جس کی وجہ سے طلبہ کو کافی دشواری کا سامنا ہے، انہوں نے احتجاج کا دائرہ وسیع کرنے کا عندیہ بھی دیا،”ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے اور ڈی سی آفس کے سامنے بھی دھرنا دیں گے۔” تاہم آج دھرنے کےطے شدہ مقام پر کسی قسم کا احتجاج دیکھنے کو نہیں ملا۔ مظاہرین نے دو طالب علموں محمد طیب جاوید اور جنید ججہ پر تشدد کا الزام بھی عائد کیا۔
یونیورسٹی انتظامیہ کی ایک پریس ریلیز کے مطابق کی جانب سے کیے جانے والے مطالبات بے جا اور احتجاجی طلبہ کو یونیورسٹی کے اٹھارہ ہزار طلبہ کی حمایت حاصل نہیں، احتجاج میں شریک طلبہ یونیورسٹی سے خار کیے گئے طلبہ ہیں۔ پریس ریلیز کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے فیسوں میں اضافہ نہیں کیا اور نئی پارکنگ صرف غیر اندراج شدہ گاڑیوں کے لیے ہے۔
Leave a Reply