کیمیا گر نے مجھے امانتا ً ایک سیاہ ملفوف پتھر دیا اور اُسے سنبھالنے کی تاکید کی . ایک شب میں نے پارس سے پوچھا کہ اے خام کو کندن بنا نے والے! دِکھنے میں تو تُو بھی پتھر ہی ہے، مگر کس صفت نے تجھے دوسروں سے ممتاز کیا اور جوہری نے تجھی پہ کیوں اِرتکاز کیا؟ اے پارس بتلا!
اس کی سیاہ دبیز میلی تہہ کے گرد سنہری روشنیوں کا ہالہ تھا۔ پارس کی خیرہ کردینے والی چمک اس کے سیاہ بطن سے نکلی اور پھیلتی گئی۔خدا نے اسے گویائی عطا کی تو بولا، سن اے کم سن طالب!میں تو حجر ہی ہوں، پتھر ہی ہوں۔ میرا نسب بھی ریگزاروں کے اُن بے مروّت ، بکھرے سنگ ریزوں سےجا ملتا ہے جن پر سے حدی خوان ، شتر بان ، بنا دیکھے ، بنا سوچے اوربنا چھوئے گذرجاتے ہیں۔جن کے ارمان گھڑ سواروں کی چابک تلے مسل دیے جاتے ہیں، جو چاہ کر بھی عقیق نہیں بن پاتے ۔ مگر اے بے خبر! میرا شجرہ بدل گیامجھے نعم البدل مل گیا۔بس ہوا ہی کیا تھا، مجھے ایک روز سنیاسی نے چھوا اور اٹھا لیا، ہاں ، اپنا بنا لیا۔اس کے لمس نے مجھ میں جوگ جگا دی،مجھے سنیاس عطا کی، کیمیا گر نے مجھ سے وفا کی اور مجھے دعا دی۔اُسی دعا کا مدعا ہوں میں نسب نہ بدلا تو کیا کسب بدل گیا ،میرا جیون سبب بدل گیا۔ دیکھ تو میں جوگی کی آنکھ کا دیا ہوں ،اب میں کیا،بس پیا ہی پیاہوں ۔ میں پارساؤں کی پوشاک ہوں،قدموں کی خاک ہوں۔جان لے، نسبت بدلے تو نسب بدل جاتے ہیں، پارساوں نے مجھے قربت دی اور پارس بنا ڈالا۔میں کیمیا٫ گر کا صحابی ہوں ۔اُس کے سوا تو اِک کہانی یا کتابی داستان ہوں۔
میں نے پارس کی حقیقت جان لی اور اُس کی بات مان لی ۔
کل شام کیمیا گر نے مجھ سے پارس طلب کیا اور کہا کہ اسکی امانت لوٹا دوں ،میں نے خود کو اسکے سامنے پیش کر دیا اور سر جھکا لیا۔

4 Responses

  1. Shajjar Abbas ( Twaif )

    نسبت بدے تو نسب بدل جاتے ہیں ـــــــــــــــ بے حد باکمال صاحب ــــــــــــــــــ !!!

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: