سرما کی یخ ہوائیں کپڑے اڑاتی گزرتی ہیں
وہ بغیر روح کے بھٹک رہاہے
(دوسرے جنم میں)
ماچوپچو کی چوٹیوں پر
جہاں اب انسان نہیں سائے رہتے ہیں
وہ صنوبر کے سوکھے پیڑوں سے ہاتھ ملاتے
سوال کرتا ہے
جب ٹہنیوں سے ہزاروں پتے جدا ہوئے
جڑوں کے دل میں آخری خواہش کیا تھی
پیڑ مسلسل خاموش ہیں
وہ نہیں جانتے یہ انسان
کاغذ،قلم اٹھائے کس راز کی تلاش میں ہے
وہ جواب نہ ملنے پر
شدید غصے کی حالت میں بڑبڑاتا ہے
میں وہ شاعر ہوں
جس کی نظمیں سرحد پر ،سپاہی بیگ میں سنبھال رکھتے ہیں
خشک راشن ،پانی اور بندوق کے ساتھ
میں وہ شاعر ہوں
جس کے گیت عورتوں کی زبان پر زندہ ہیں
گرم بوسے کی جگہ
مگر پیڑ چِلی کی مادری زبان نہیں جانتے
وہ دکھ کے سناٹے میں سوچتا ہے
کئی سوسال پہلے کی داستان
جب قدیم پتھر نفرت کی کدال سے توڑے گئے
اور گرجا گھر کی گھنٹی
جو آثار قدیمہ کے ماہرین کو کھدائی کے دوران نہیں ملی
جس کی ٹن ٹن کی آواز
شہر کی موت کے کئی دن بعد تک زندہ رہی
جب پرندے غیر اعلانیہ ہجرت کے دوران
پیڑوں سے نظریں ملائے بغیر آبدیدہ لہجے میں گارہے تھے
اے ماچوپچو!
سلام آخری ی ی ی
جارہے ہیں تم سے دور
بہت دور۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اداس ہوجاتاہے
اور ایک پتھر اٹھائے دعا کرتا ہے
ماچو پچو کے ایصالِ ثواب کے لیے
تیز ہوائیں
ٹکراکے گزرتی رہتی ہیں
اور وہ زندہ ہونے کے خلاف کھڑا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭لا طینی امریکہ کے ملک پیرو (Peru) میں واقع اندلس کے پہاڑی سلسلے پر واقع قدیم شہر کا نام
ؔپابلو نیرودا کی طویل نظم ’’ ماچو پچو کی چوٹی ‘‘
((The Height of machu pisshu سے ماخوذ