محمد شعیب
tabbbosbaat2مشرقی معاشرتی ڈھانچے اور خاندانی نظام میں جنسی استحصال کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہونے ، جنسی زیادتی کو انتقام کے لئے استعمال کئے جانے اور جنسی گھٹن کے باعث زیادہ تر افرادجنسی اور نفسیاتی سطح پر بیمار رویہ اختیار کر لیتے ہیں اورہردوسرے فرد کو محض ایک Sex Objectسمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔مشرقی خاندانی نظام میں والدین اور بہن بھائیوں کے علاوہ رشتے دار، کزن ، ہمسائے، اساتذہ یہاں تک کے عمر میں بڑا ہر شخص محبت کے جسمانی اظہار یا سرزنش کا حق رکھتا ہے جس سے وہاں بچوں سے جنسی ہراسانی یا زیادتی کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ سماج میں جنسی ہراسیت اور زیادتی کی مختلف صورتوں اور اس سے متعلق اثرات سے عدم آگہی کے باعث بہت سے معاملات میں بچے اور بڑی عمر کے افراد بھی اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا گیا برتاو جنسی ہراسیت کے زمرے میں آتا بھی ہے یا نہیں۔ گھر یا گھر سے باہر کسی بھی جگہ کوئی بھی ایسی بات، رویہ یا حرکت جو جنسی تسکین حاصل کرنے یا جنسی عمل میں شرکت پر مجبور کرے یا اس کی دعوت دے وہ جنسی ہراسیت سمجھا جائے گا۔ گالی دینا،گھورنا، جسم کو چھونا، بوسہ لینا، جنسی عمل کی کوشش کرنا اور زبردستی ، ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر جنسی عمل میں شریک کرنا یا شریک کرنے کی کوشش کرنا (بالغ افراد کی صورت میں زبردستی) جنسی ہراسیت ہیں۔

گھر یا گھر سے باہر کسی بھی جگہ کوئی بھی ایسی بات، رویہ یا حرکت جو جنسی تسکین حاصل کرنے یا جنسی عمل میں شرکت پر مجبور کرے یا اس کی دعوت دے وہ جنسی ہراسیت سمجھا جائے گا۔ گالی دینا،گھورنا، جسم کو چھونا، بوسہ لینا، جنسی عمل کی کوشش کرنا اور زبردستی ، ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر جنسی عمل میں شریک کرنا یا شریک کرنے کی کوشش کرنا (بالغ افراد کی صورت میں زبردستی)جنسی ہراسیت ہیں۔

جنسی ہراسیت سے متعلق عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایسا کرنے والے نفسیاتی مریض ہوتے ہیں، ان پڑھ یاگھر اور خاندان سے باہر کے اجنبی افراد ہوتے ہیں اور جنسی زیادتی اور ہراسانی کے واقعات عام طور پر کم آمدنی والے اور پسماندہ طبقات میں ہوتے ہیں۔ ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ گھر اور خاندان میں بچے اور خواتین زیادہ محفوظ ہیں۔ تاہم یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ جنسی ہراسیت کا مسئلہ ہر جنس، عمر، طبقہ، علاقہ اور سماجی گروہ میں موجود ہے۔ پڑھے لکھے، ان پڑھ، رشتے دار، اجنبی، امیر اور غریب ہر طرح کے لوگ ہراسانی کے عمل کا شکار ہو سکتے ہیں اور ہراساں کرسکتے ہیں۔ جنسی زیادتی بچوں اور بچیوں دونوں سے ہوتی ہے۔ بچے اور خواتین چوں کہ اس مسئلہ کا زیادہ شکارہوتے ہیں اس لئے انہیں گھر پر رکھنے، یا ان پر پابندی لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔خوتین اور بچیوں کو جنسی زیادتی اور ہراسیت سے بچنے کے لئے مخصوص لباس پہننے خاص طور پر پردہ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور ان کے آزادانہ میل جول پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ تاہم بچوں سے جنسی زیادتی اور ہراسیت کے زیادہ تر واقعات گھر اور خاندان کے افراد کرتے ہیں، اور رشتے داروں کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے باعث متاثرہ خاندان شرمندگی اور بدنامی سے بچنا چاہتے ہیں اس لئے اس مسئلہ کو دبادیا جاتا ہے اور خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔
جنسی زیادتی اور ہراسانی کے واقعات میں عام طور پر ہراسانی کا شکار ہونے والے متاثرہ شخص کے رویے، لباس یا خوبصوریتی کو وجہ سمجھا جاتا ہے اس لئے زیادتی کرنے والے کی بجائے زیادتی کا شکار ہونے والوں کی "اصلاح ” اور "پاکیزگی” پر زور دیا جاتا ہے ۔مردوں اور لڑکوں کے بر عکس خواتین اور کم عمر بچیوں کے ساتھ خصوصی طور پر ان کے تحفظ کے لئے میل جول اور آزادانہ نقل و حرکت کی پابندی کے علاوہ پردہ یا مخصوص لباس پہننے کی پابندی عائد کی جاتی ہے جو بچیوں اور خواتین میں اپنی صنف (Gender)کو ایک بوجھ یا جرم سمجھنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔معاشرہ اور خود متاثرہ فرد جنسی زیادتی کا شکار ہونے پر خود اس فرد کے رویے میں ہی غلطی تلاش کرتے ہوئے اسے مجرم قرار دیتے ہیں، جس کے باعث عام طور پر معاشرہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے اور دیگر افراد پر اخلاقی پابندیاں عائد کر کے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جنسی زیادتی اور عورت کے رویے اور سماجی کردار (Social Behavior) کے درمیان یہ علت و معلول کا رشتہ (cause and effect) بہت سی غلط فہمیوں کا باعث ہے۔ جیسے یہ خیال عام ہے کہ اگر عورت چست یا "فحش” لباس پہنے گی یا گھر سے باہر نکلے گی یا اکیلی کہیں جائے گی، ہنس کر بات کرے گی تو ایسا ہونا لازم ہے اور اس کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ عورت کے لباس اور نقل و حرکت کی حدود طے کی جائیں۔ مردوں یا ہراساں کرنے والوں کی بجائے زیادتی کا شکار افراد اور بچوں کونفرت اور حقارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جس سماج میں جنسی تسکین کے موزوں اور صحت مند مواقع جتنے محدود ہوں گے وہاں جنسی ہراسیت اور زیادتی کے واقعات کی شرح اتنی زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ جنسی ہراسیت یا زیادتی کرنے والے تمام افراد نفسیاتی مسائل کا شکار نہیں ہوتے، بلکہ اکثر لوگ اپنی روزمرہ زندگی میں عام افراد ہی کی طرح رہتے ہیں مگر جنسی خواہش اور ضرورت کے اظہار اور تسکین کے مواقع نہ ہونے کے باعث ایسا کرتے ہیں۔

عام خیال یہ ہے کہ جنسی خواہش یا ہوس انسان کو جنسی زیادتی کرنے یا ہراساں کرنے پر اکساتی ہے، اس لئے جنسی خواہش کو دبانے کے لئے پاکیزگی اختیار کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنسی عمل کی خواہش ایک فطری ضرورت ہے اور اس ضرورت کے اظہار اور تسکین کے صحت مند اور موزوں مواقع میسر نہ آنے پر عام نارمل افراد جنسی تلذذ کے لئے جنسی کج رویاں اختیار کر سکتے ہیں۔ جس سماج میں جنسی تسکین کے موزوں اور صحت مند مواقع جتنے محدود ہوں گے وہاں جنسی ہراسیت اور زیادتی کے واقعات کی شرح اتنی زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ جنسی ہراسیت یا زیادتی کرنے والے تمام افراد نفسیاتی مسائل کا شکار نہیں ہوتے، بلکہ اکثر لوگ اپنی روزمرہ زندگی میں عام افراد ہی کی طرح رہتے ہیں مگر جنسی خواہش اور ضرورت کے اظہار اور تسکین کے مواقع نہ ہونے کے باعث ایسا کرتے ہیں۔ جنسی عمل اور جنسی تسکین کو ایک گندا یا ناپاک عمل تصور کرنے کے باعث اس موضوع پر تربیت اور آگہی کے ساتھ اپنی جنسی الجھنوں کے اظہار اور ان الجھنوں کے حل کے لئے کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ بچے اپنی جنسی جبلت سے متعلق اپنے ماحول سے ہر اچھا برا عمل اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیتے ہیں اور جنس سے متعلق لٹریچر اور پورنوگرافس(Phonographs) کے ذریعے جنسی عمل سے متعلق معلومات اور لذت حاصل کرتے ہیں۔ ایسے لٹریچر اور فلمز میں بسااوقات ایسا مواد بھی شامل ہوتا ہے جو جنسی ہراسیت پر اکساتا ہے۔ ہندوستانی اور پاکستانی سینما میں مرد ہیروز کا کردار جو عام طور پر ہیروئن کوہراساں کرتا دکھایا جاتا ہے، اور بچوں پر بننے والے پورن بھی کم عمر بچوں کی جنسی ہراسیت کی ایک وجہ بنتے ہیں۔ ایسے افراد جو خود بچپن میں جنسی زیادتی یا ہراسیت کا شکار رہے ہوں وہ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔والدین کا بچوں سے نامناسب رویہ، پدرسری معاشرتی نظام، مردانہ برتری کا احساس، گھریلو ماحول ،نفسیاتی امراض، اپنے سے بڑی عمر کے بچوں سے دوستی اور سماجی گھٹن بھی جنسی ہراسیت کی وجہ بنتے ہیں۔بچپن میں جنسی ہراسیت اور زیادتی کا شکار ہونے والے افراد بھی ایسا کرسکتے ہیں۔

برصغیر کی مقامی زبانوں اور ثقافتوں میں جنسی زیادتی سے متعلق استعمال کی جانے والی زبان اور عمومی سماجی رویے بھی اس موضوع سے متعلق حساسیت سے محروم ہیں۔ اردو اور دیگر مقامی زبانوں میں استعمال ہونے والے الفاظ اور تراکیب نہایت پسماندہ اور صنفی امتیاز سے معمور ہیں اور جنسی زیادتی کے واقعات کو بیان کرنے کی نزاکت سے محروم ہیں۔اظہار کے جو پیرایے ان واقعات کے بیان کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں وہ یا تو لطف اٹھانے کے لئے ہیں یا ان میں متاثرہ فرد کو کمزور اور شکست خوردہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، جس سے متاثرہ افراد مزید نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پاکستانی معاشرہ جنسیات اور جنس سے متعلقہ مسائل کو چوں کہ زیرِ بحث لانے سے ہچکچاتا ہے اس لئے ذرائع ابلاغ، گھروں، تعلیمی اداروں حتیٰ کہ ایوانِ نمائندگان میں بھی جنس اور اس سے متعلقہ مسائل خصوصاً زیادتی اور ہراسیت پر بات چیت اور بحث سے گریز کیا جاتا ہے، اس وجہ سے جنسی زیادتی اور ہراسانی کا شکار بیشتر افراد اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف احتجاج کی بجائے خاموشی اختیار کرتے ہیں۔

اردو اور دیگر مقامی زبانوں میں استعمال ہونے والے الفاظ اور تراکیب نہایت پسماندہ اور صنفی امتیاز سے معمور ہیں اور جنسی زیادتی کے واقعات کو بیان کرنے کی نزاکت سے محروم ہیں۔اظہار کے جو پیرایے ان واقعات کے بیان کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں وہ یا تو لطف اٹھانے کے لئے ہیں یا ان میں متاثرہ فرد کو کمزور اور شکست خوردہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے

جنسی ہراسانی اور زیادتی پر بحث اور گفتگو کے دوران زبان کے استعمال میں سب سے زیادہ لاپروائی ذرائع ابلاغ پر برتی جاتی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں جنسی زیادتی اور ہراسیت کے واقعات کو رپورٹ کرتے ہوئے متاثرہ افراد کی شناخت اور واقعہ کی تفصیلات جس سنسنی اور وضاحت سے دی جاتی ہیں وہ ان افراد اور ان کے خاندان کے لئے شدید مشکلات کا باعث بنتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں جنسی زیادتی کی کوریج سے متعلق ضابطہ اخلاق پر عمل نہ کرنے کے باعث عام طور پر متاثرہ فرد خاص طور پر خواتین اور بچوں کو معاشرے میں تضحیک، طنز اور بدنامی برداشت کرنا پڑتی ہے ۔ لوگوں کی نظروں میں آ جانے کی وجہ سے ان کے لئے سماج میں معمول کی زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔
جنسی زیادتی اور اس کے بعد متاثرہ افراد کے ساتھ لوگوں کا امتیازی سلوک انہیں کم اعتمادی، غصہ، چڑچڑاپن، خوف، منشیات کا استعمال، نفسیاتی الجھنوںاور بعض صورتوں میں خودکشی کی طرف مائل کرتے ہیں۔جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے افراد معاشرتی بدنامی سے بچنے کے لئے اکثر ایسے واقعات کا ذکر کسی سے نہیں کر پاتے ۔ عام طور پر بچے ایسے واقعات کے بعد تحفظ اور اعتماد چاہتے ہیں، لیکن وہ اس معاملے پر کسی سے بات نہیں کر پاتے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان پر پھر سے اعتماد کیا جائے اور ان کے مسئلے کو سمجھتے ہوئے انہیں بحالی کا موقع دیا حائے ۔

جنسی زیادتی کے واقعات کو چھپائے جانے کی ایک بڑی وجہ پولیس اور عدالتی نظام کی خامیاں ہیں۔ پولیس اور عدلیہ کا زیادہ تر عملہ مردوں پر مشتمل ہے اور جنسی زیادتی کے واقعات عموماً بچوں اور خواتین کے ساتھ پیش آتے ہیں جنہیں رپورٹ کرنے اور پھر عدالت میں پیشی کے دوران عموماً مردانہ نقطہ نظر سے دیکھا، سنا اور پرکھا جاتا ہے۔ جنسی ہراسیت اور زیادتی کے زیادہ تر واقعات پر مقدمات درج نہیں کرائے جاتے۔ قانونی پیچیدگیوں اور موزوں قوانین اور تفتیش کا طریقہ کار نہ ہونے کے باعث اکثر لوگ ایسے واقعات کو رپورٹ کرنے اور ان کا تذکرہ کرنے سے کتراتے ہیں۔ زیادتی اور ہراسانی کے عمل کو روکنے اور سزا دینے کے قوانین میں تفتیش،شہادت ، سماعت اور سز ا کے تعین کا طریقہ کار مشکل، فرسودہ اور غیر موثر ہے۔ زیادتی کا شکار افراد کو قانونی مدد فراہم کرنے کے لئے جنسی زیادتی اور ہراسانی سے متعلق قوانین میں ترمیم اور ان کے استعمال کے لئے زیادہ آسانیاں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ تھانے اور عدالت کے ماحول کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے واقعات کو رپورٹ کرنے اور ان مقدمات کی پیروی میں سہولت محسوس کریں۔

متاثرہ افراد خصوصاً بچوں کو توجہ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن والدین اور بچوں کے درمیان جنس کے موضوع پر گفتگو نہ ہونے اور ایسے واقعات سے متاثر افراد کو کلنک سمجھنے کے باعث اس مسئلے کو دبا دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں زیادتی اورہراسیت کا شکار افراد کی بحالی کا کوئی مناسب انتظام اور سہولت موجود نہیں۔ بیشتر واقعات میں متاثرہ افراد کی نفسیاتی اور سماجی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ خاموشی ہے جو معاشرہ ان معاملات میں اختیار کئے ہوئے۔ متاثرہ افراد خصوصاً بچوں کو توجہ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے ، لیکن والدین اور بچوں کے درمیان جنس کے موضوع پر گفتگو نہ ہونے اور ایسے واقعات سے متاثر افراد کو کلنک سمجھنے کے باعث اس مسئلے کو دبا دیا جاتا ہے۔ لیکن اب ان ٹیبوز (Taboos)پر بات کرنی ہو گی ، جنس سے متعلق موضوعات پر ذمہ دارانہ گفتگو کرنا ہو گی ، جنسی ہراسیت سے متعلق قوانین اور ان کے اطلاق کے لئے سماجی فعالیت کی ضرورت ہےورنہ پانچ برس کی کوئی بچی محفوظ نہ رہے گی۔


3 Responses

  1. Saeed Ibrahim

    تحریر کا موضوع بہت اھم ھے لیکن خام اسلوب نے تحریر کی تاثیر کو خاصا نقصان پہنچایا ھے۔ جملوں کی ساخت پر اورجنل کی بجائے ترجمے کا گمان گزرتا ھے اور یہی اس تحریر کی سب سے بڑی خامی ھے۔

    جواب دیں
    • سجاد خالد

      میرے خیال میں تحریر سادہ زبان میں لکھی گئی ہے، اور حقائق کے قریب بھی ہے۔ میں اسے کسی مضمون کا ترجمہ سمجھنے اُسے قاصر ہوں۔ مضمون نگار نے کچھ اہم سوالات بھی اُٹھائے ہیں

      جواب دیں
  2. shabee

    what i have gathered so far from this idealization is that awareness is far from our concern on such issues,we prefer to lock or overlook such beliefs from our younger generation so that they might not get influenced. however, when the flood has already passed and a mature round comes in the life of an individual he is too feeble to accept such realities all at once and the reason he falls towards it. i believe we must grasp the rights of media and use them against lightening such issues that harass the tiny brains of people of Pakistan .

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: