Laaltain

ٹوٹی ہوئی عورت

7 مارچ, 2015
Picture of شہربانو

شہربانو

مچھیرے نے جب تیسری بار جال دریا میں ڈالا تو مچھلیوں کے ساتھ ایک ٹوٹی ہوئی عورت بھی نکلی۔ بےحد ٹوٹی ہوئی، مگر عورت۔ مچھیرا پریشان ہوا کہ وہ اس کا کیا کرے۔ بہت سوچنے کے بعد بھی جب کچھ سمجھ نہ آ سکا تو اس نے عورت کو کنارے پر لا پھینکا اور اپنی راہ لی۔کچھ دن بعد اُسے کُمہار کے کُتے نے دریافت کِیا اور بہت بھونکا۔ کُمہار نے کُتے کی آواز کا تعاقب کیا تو اُسے بھی کنارے کی ریت میں کچھ ادھ دبا نظر آیا۔ اُس نے عورت کو زمین سے نِکالا، دریا کے پانی سے دھویا اور سامنے رکھ کر سوچنے لگا کہ اس ٹوٹی ہوئی عورت کا کیا کرے۔ اچانک اسے یاد آیا اس کے گھر کچھ پرانی آنکھیں پڑی ہیں جن میں سے شاید کوئی جوڑا عورت کے خالی ڈیلوں کو بھر سکے۔ وہ گھر گیا اور بہت تلاش کے بعد سب سے اچھی لگنے والی آنکھیں اس عورت کو لا لگائیں۔ آنکھیں اسے لگنے کے بعد چہکنے لگیں اور عورت نے گردن موڑ کر اِدھر اُدھر دیکھنے کی کوشش کی۔ تب کُمہار کو اُس کی آدھی ٹوٹی ہوئی گردن نظر آئی جسے بنانے میں وہ فوراً جُٹ گیا۔ اپنی تمام تر مہارت صرف کر کے جب کُمہار نے گردن بنا دی تو عورت کی آنکھوں میں شکریہ صاف پڑھا گیا۔ اب وہ سکون سے سانس لیتی تھی۔ کُمہار نے اپنا راز کنارے کی گھاس میں چھپایا اور بستی کو ہو لیا۔
پھر اس نے کچھ دن تو اپنی بے چینی مہارت سے برتنوں کو منتقل کی مگر کب تک؟ کچی مٹی نے اس کی بات سننے سے انکار کر دیا تو وہ ایک دوست سے ملنے سے جا پہنچا جو بڑھئی تھا۔ اِدھر اُدھر کی باتوں کے باوجود پرانے دوست نے کُمہار کے چہرے سے بات بھانپ لی کہ اصل قصہ کچھ اور ہے اوراس کے ساتھ چل پڑا۔ بڑھئی کو جب ٹوٹی ہوئی عورت دکھائی گئی تو وہ خاصا حیران ہوا مگر کُمہار پر ظاہر نہ ہونے دیا اور وہ دونوں اس راز کےساتھ اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
سویر دوپہر میں بدلی اور دوپہر شام میں۔ بے کل بڑھئی نے لکڑی اور اوزار اُٹھائے اور ٹوٹی ہوئی عورت کے سرہانے جا کھڑا ہوا۔ کچھ دیر اُسے دیکھا اور پھر بڑی مشاقی سے عورت کے ہاتھ پیر تراشنے لگا۔ بڑھئی کو اس کام میں چند روز لگے۔ وہ روز شام تک دریا کے کنارے بیٹھا ٹوٹی ہوئی عورت کو جوڑتا رہتا۔ اُس کی اس مشکوک آمدورفت سے بازار میں بیٹھتا ایک سنار تجسس میں مبتلا ہوا اور بڑھئی کا پیچھا کرتا دریا کے کنارے آپہنچا۔
جب بڑھئی چلا گیا تو سنار نےاوٹ سے نکل کر عورت کا معائنہ کیا، وہ تقریباً مکمل ہونے کو تھی۔ سنار نے اُس سے پوچھا کہ تم کون ہو اور یہاں کیسے آئی؟ عورت کی زبان نہ تھی سو وہ کچھ نہ بتا سکی۔ سنار کو بہت دکھ ہوا اور اگلے روز وہ چاندی کی بنی زبان لیے عورت کے پاس گیا اور زبان اسے لگا دی۔ عورت کی خوشی دیدنی تھی وہ مکمل ہو چکی تھی۔
سنار نے اُ س سے پھر اُس کے بارے میں سوال کیا مگر وہ پھر کچھ نہ بتا سکی۔ اُسے یاد نہ تھا کہ وہ یہاں تک کیسے آئی (یا شاید وہ بتانا نہ چاہتی تھی) سنار نے اُسے ساتھ لیا اور اپنے گھر آگیا۔چند دن میں بات ساری بستی میں پھیل گئی کہ سنار کے گھر ایک بےحد حسین عورت موجود ہےجس کا اتاپتا نہ سنار بتا سکتا ہے اور نہ وہ عورت۔

مچھیرا ٹھٹھکا کہ کہیں یہ وہ نہ ہو جسے اُس نے دریا سے نکالا تھا۔
کُمہار کو لگا اُس کے راز کو عقل کے اندھے بڑھئی نے فاش کر دیا ہے۔
اور بڑھئی نے کہا کہ ہائے میری دن رات کی محنت ۔ ۔ ۔

تینوں بھاگتے ہوئے دریا پر پہنچے تو وہاں عورت کا دور دور تک کوئی پتا نہ تھا۔ وہ غصے میں بھرے ہوئے سنار کے گھر جا دھمکے اور عورت پر اپنا حق جتانے لگے۔ سنار کو بھی غصہ آ گیا اور بات زبان سے ہوتی ہوئی ہاتھوں تک آپہنچی۔ سب کے طرفدار اکٹھے ہوئے اور ایک دوسرے پر پل پڑے۔ جس کے ہاتھ جو چیز آئی اُس نے اٹھا کر اگلے کو دے ماری۔ دروازے، کھڑکیاں توڑے گئے، خوب مار دھاڑ ہوئی۔ اس ہنگامے کے دوران بستی کی عورتوں نے سوچا کہ فساد کی جڑ یہی ٹوٹی ہوئی عورت ہے اور وہ غصے میں تنتناتی ہوئی سنار کے گھر وارد ہوئیں اور عورت کو خوب مارا۔
جب ہنگامہ سرد ہوا اور نقصان کا اندازہ لگایا جانے لگا تو مچھیرے، کُمہار، بڑھئی اور سنار کو پتا چلا کہ سب سے بڑا زیاں تو ان کا ہوا ہے۔ عورت پھر سے ٹوٹ چکی تھی۔ اُنھوں نے ہر چیز سے پہلے اُسے سمیٹا اور دریا بُرد کر آئے۔

ٹوٹی ہوئی عورت دریا کی تہہ سے اپنے ٹوٹے ہوئے ہونٹوں سے مسکرائی ۔ ۔ ۔

ہمارے لیے لکھیں۔