کو تو یکم مئی مزدوروں کا دن ہے اور دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یہ پورے اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اخبارات اس حوالے سے خاص اشاعت کا اہتمام کرتے ہیں تو مزدور تنظیمیں اور مزدور نمائندے مختلف نشستوں اور جلسے جلوسوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان نشستوں میں مزدوروں کے مسائل کا تذکرہ ہوتا ہے ،حکومتی نمائندے آتے ہیں خوش کن وعدے کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔ یوں یہ رسم یوم مزدور تمام ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ ان تمام مزدور نواز سرگرمیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، ہوتا ہے مگر مزدوروں کی ایک بڑی تعداد اس سے محروم رہتی ہے۔ میں نے اس بار بھی یوم مزدور کے حوالے سے ہونے والی متعدد تقریبات ، مزدور تنظیموں کے اعلامیوں اور اعلانات کو دیکھا ، سنا اور پرکھا ۔ کوئی حکومت کے نجکاری پروگرام پر سراپا احتجاج ہے تو کسی کو مزدوروں کے سماجی تحفظ (Social Security)کے حوالے سے خدشات لاحق ہیں اور کہیں مزدور خواتین سے روا رکھے جانے والے سلوک پر گلے شکوے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ مزدور بھائیوں سے متعلق ان اہم مسائل کے حل کے لئے قانون سازی اور موجودہ مزدور متعلق قوانین پر فوری اور موثر عملدرآمد پر زور دیا گیا ہے۔ بہت اچھا ہے، مگر کیا یہ قوانین بنا لینا اور ان پر عملدرآمد مزدوروں کے مسائل کا حل ہے ؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔ کیوں نہیں ؟ میرے نزدیک اسکی وجہ “غیر اندراج شدہ مزدور طبقہ” اور یوم مئی سمیت کسی بھی فورم کا اس طبقےکے ذکر سے خالی ہونا ہے ۔ اس سے پہلے کہ میں اپنا مقدمہ پیش کروں ” غیر اندراج شدہ مزدور”کی اصطلاح کو سمجھنا ضروری ہے ۔
پاکستان کی کل افرادی قوت کا 73.8 فیصد غیراندراج شدہ مزدور ہیں ، ایک اندازے کے مطابق سنہ 2012 میں پاکستان کی کل جی ڈی پی کا 92 فیصد غیر اندراج شدہ معیشت پر مشتمل تھا اور حالیہ سالوں میں یہ حجم بڑھا ہے ۔
غیر اندراج شدہ مزدور ایسے مزدور ہیں جن کا بطور مزدور کسی بھی حکومتی کھاتے میں ریکارڈ موجود نہ ہو۔ وہ رسمی طور پر حکومتی ریکارڈ کا حصہ نہ ہوں اور نہ ہی انکی ملازمت سے متعلق کسی بھی قسم کی اطلاع اور تفصیل حکومت کے کسی ادارے کے پاس موجود ہو۔ چونکہ ان کی ملازمت حکومتی کھاتوں میں درج نہیں ہوتی لہٰذا ان کی آمدن پر ٹیکس بھی نہیں لگ سکتااور نہ ہی کوئی مزدور متعلق قانون ان کی مشقت پر نافذ العمل ہو سکتا ہے یعنی غیراندراج شدہ مزدورسرے سے محنت کش ہی تصور نہیں کاں جاتا۔ اس لحاظ سے کھیتوں میں کپاس چنتی خواتین، ہمارے گھروں میں کام کرنے والی ماسی، کسی عمارت کی تعمیر میں مصروف مزدور ، گلی میں ریڑھی لگائے کھڑا پھل فروش یا گھریلو صنعت سے وابستہ افراد سب غیر اندراج شدہ مزوروں کی مثالیں ہیں۔ ان سب سے جڑی ہوئی معیشت غیراندراج شدہ معیشت (Informal Economy) کہلاتی ہے پاکستان کی کل مزدور قوت جو کہ محتاط اندازوں کے مطابق 57 ملین کے قریب ہے اور اس کا بڑا حصہ غیراندراج شدہ مزدوروں پر مشتمل ہے۔ دستیاب سروے رپورٹس کے مطابق پاکستان کی کل افرادی قوت کا 73.8 فیصد غیراندراج شدہ مزدور ہیں ، ایک اندازے کے مطابق سنہ 2012 میں پاکستان کی کل جی ڈی پی کا 92 فیصد غیر اندراج شدہ معیشت پر مشتمل تھا اور حالیہ سالوں میں یہ حجم بڑھا ہے ۔ اگر چشم تصور سے دیکھا جائے تو57 ملین مزدور قوت (Labour Force)کے ساتھ پاکستان جو دنیا کی پانچویں بڑی مزدور قوت ہے اس میں 74 فیصد یعنی42.18 ملین مزدوروں کا ریکارڈ حکومت کے پاس ہی نہیں ۔ اگر ایسا ہے توسوال یہ اٹھتا ہے کہ تمام تر حکومتی قوانین ، بین الاقوامی مزدور تنظیموں اور اداروں کے ساتھ کےت جانے والے معاہدوں اور مزدور حقوق کی پامالی روکنے کی کوششیں کیونکر بار آور ثابت ہو سکیں گی ؟ حکومت قوانین بنائے گی ، مزدور تنظیمیں مزدوروں کے مسائل اجاگر کریں گی اور اس سب سے جب فائدہ اٹھانے کی باری آئے گی تو مزدور کہاں ہوں گے؟ کیوں کہ مزدور تو وہ ہوگا جو کہ حکومتی کھاتے میں مزدور کی فہرست میں آتا ہوگا اور وہ کل مزدور قوت کا صرف 26 فیصد ہوں گے اور باقی 74 فیصد ان تمام ثمرات سے اس لےس محروم رہ جائیں گے کیونکہ انکا ریکارڈ حکومت کے پاس موجود ہی نہیں ہوگا۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ غیر اندراج شدہ معیشت کا حجم اتنا زیادہ کیوں ہے اور روز بروز اسمیں اضافہ کیوں ہو رہا ہے ۔ غیر درج شدہ معیشت کے حجم میں اضافے کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں توانائی اور اقتصادی بحران کے باعث رسمی سرمایہ کاری اور معاشی سرگرمیوں کا حجم سکڑ گیا ہے۔ صنعتیں بند اور کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں نہ صرف یہ بلکہ درج شدہ معیشت پر حکومت کی جانب سے عائد بھاری ٹیکسوں کا سامنا بھی ہوتا ہے ۔آجر اور اجیر دونوں کو حکومتی قوانین کے تحت مختلف چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے جس میں ٹیکس کی ادائیگی، مزدوروں کی کم از کم تنخواہ کی حد اور دیگر معاملات شامل ہیں ۔ ایک سرمایہ کار کو یہ سب التزام مہنگا پڑتا ہے اس لے چھوٹے سرمایہ کار غیر رسمی معاشی سرگرمیوں کا انتخاب ہی کیا کرتے ہیں۔ دوسری جانب ہمارا مزدور طبقہ صنعتوں اور دیگر رسمی ذرائع معاش میں مواقع نہ ہونے کے باعث غیر اندراج شدہ روزگار کے ذرائع اپناتا ہے۔ مالک کے رحم و کرم پر زندہ اس غیر اندراج شدہ مزدور طبقہ کو کم تنخواہیں، کام کی جگہ پر غیر مناسب سہولیات، معاشی استحصال جبکہ اکثر جسمانی اذیت رسانی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے مگر نہ تویہ کسی زیادتی کے خلاف درخواست دے سکتے ہیں اور نہ ہی مزدوروں کو فراہم کی جانے والی مراعات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
غیر اندراج شدہ مزدور طبقہ کو کم تنخواہیں، کام کی جگہ پر غیر مناسب سہولیات، معاشی استحصال جبکہ اکثر جسمانی اذیت رسانی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے
غیر اندراج شدہ مزدوروں کو حکومتی ریکارڈ کا حصہ بنائے بغیر یوم مئی کی یہ ساری بھاگ دوڑ پاکستان کے تمام مزدوروں کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی ۔ سمجھ سے یہ بالا تر ہے کہ اگر یہ معاملہ عام آدمی کی سمجھ میں آتا ہے تو حکومت اور مزدور تنظیمیں اس پر بات کیوں نہیں کرتیں۔ یکم مئیمزدوروں کا دن ہے، بہتر تو یہ ہوتا کہ اس موقع پر ان مزدوروں کی بات کر لی جاتی جو کہ مزدور ہوتے ہوئے بھی مزدور نہیں ۔ حکومت پر دباؤ ڈالا جاتا کہ غیر اندراج شدہ مزدور طبقہ کو حکومتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے کیوںکہ مزدوروں کی اتنے بڑی تعداد کو حکومتی ریکارڈ میں لائے بغیر قانون سازی اور محنت کشوں کے حقوق کی باتیں کرنا ہوا میں قلعے بنانے جیسا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اندراج شدہ مزدور طبقہ کے معاملات پر باتنہ کی جائے ، ضرور کی جائے مگر غیر رسمی مزدور طبقہ کے مسئلہ کو زیر بحث لائے بغیر مزدور حقوق کی بات کرناہے تو اس دن کا نام بھی اندراج شدہ یوم مزدور رکھ لیا جائے ۔