دھواں چار سو پھیلا ہے۔ کچھ نہیں دکھتا کہ آگے کیا ہورہا ہے اور ہوگا؟ ہماری نگاہ یا بقول اقبال مردمومن والی قلندرانہ نگاہ زائل ہوچکی ہے اورسوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوچکی ہے۔اس دھندلے منظر میں سکوت طاری ہے حالانکہ نوحہ گاہ میں یا تو شام غریباں منائی جاتی ہے یا پھر چٹانی حوصلہ اور عزم وہمت سے نئی تاریخ رقم کرنے کی تیاری کی جاتی ہے لیکن یہاں کون ہے جو کسی مرنے والے کا نوحہ پڑھے یا کسی کو بچانے کو علم برداری کرے۔ اب تک تو قرب و جوار میں کوئی حادثہ یا دھماکہ ہوتا تو پورا معاشرہ دکھاوے کو ہی سہی ہمدردی اور اظہار تعزیت کی رسم پوری کرتی مگر اب تو منظر بدل گیا ہے۔ اب جذبہ انسانیت بیمار پڑچکا اور ہمدردی و تعزیت کے سہارے کمزور پڑتے پڑتے معدوم ہو چکے۔ اب صبر کے پیمانے تب ہی لبریز ہوتے ہیں جب کوئی اپنا رشتہ دار یا دلدوز قومی سانحہ رونما ہوتا ہے۔
اول تو اس معاشرے میں کوئی صدائے حق بلند کرنے کی جرات نہیں کرتا اور اگر کوئی بہادر نڈر شخص آگے آتا بھی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ خاموش تماشائی بجائے لب کشائی کے اس آواز کو دبانے اور فتوے لگانے کے لیے چوکس و تیار بیٹھے تھے۔غم منائے زمانے بیت گئے اور خوشی محسوس کیے مدت ہوئی۔ اب اگر کوئی کونے کھدرے سے کوئی خبر حاصل ہوبھی جائے تو اسےشرلاک ہومز کی شکی نگاہوں سےگھورا جاتا ہے۔ سنسان کھیل کے میدانوں سے لے کر اولمپکس کے خالی دستوں تک، کرپشن کی کہانیوں سے لے کر دھشت گردی کی کا رروائیوں تک ہم دنیا میں اپنی پہچان سے واقف ہیں، مگر حیرت ہے کہ کوئی شرمساری نہیں۔
ایک سولہ سالہ بچی جس نے معاشرے میں شدت پسندی کی بجائے امن و بھائی چارہ کی بات کی اور پہلی وحی کو مقصد حیات بنایا ۔ اقوام متحدہ میں کھڑے ہوکر، بے نظیر کی شال اوڑھ کر "تعلیم سب کے لیے” کا نعرہ لگایا اور فنڈ قائم کر کے کڑوروں روپے تعلیم کے لیے مختص کر دیے۔ ہم نے اسے ہی اپنا دشمن گردانا۔ اور اس پر سوالات و اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی کیونکہ بقول ہمارے سازشی تھیوریوں کے وہ ایجنٹ ملک و مذہب کا امیج خراب کر رہی ہے۔
اس بے یقینی اور ناآسودگی میں سینکڑوں سوالات، جن کا جواب فقط اتنا ہے کہ "جو کرا رہا ہے امریکہ کر رہا ہے”تمام حقائق کا گلہ گھونٹ چکے ہیں۔ ہم جس شاہراہ پر گامزن ہیں اس پر "غیر ملکی ہاتھ” نے فریبی سائے ہیں جس سے آگے”راستہ عارضی طور پر بند ہے” کا عنوان پیوست ہے۔ جس دن ہم نے اصلیت جانی اور اپنی کمزوریوں کا ٹھندے دل و دماغ سے جائزہ لیا ہم اس زہریلے دھواں کو زائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے وگر نہ کتے کی شہادت اور فتووں کے گورکھ دھندوں میں پھنس کر رہ جایئں گے، جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔
انتباہ: مجلس ادارت کا میگزین میں شامل قلمی معاونین کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ مشمولات کی اسناد اور حوالوں میں کمی یا بیشی کا ادارہ ذمہ دار نہ ہو گا۔
یوتھ یلزایک نیا رنگا رنگ سلسلہ ہے، جس میں نوجوان قلمکار بلا جھجک اپنے ھر طرح کے خیالات کا دوٹوک اظہار کر سکتے ہیں۔۔ آپ کا اسلوب سنجیدہ ہے یا چٹخارے دار۔۔ آپ سماج پر تنقید کا جذبہ لیے ہوئے ہیں یا خود پر ہنسنے کا حوصلہ۔۔۔۔ “لالٹین” آپ کی ہر تحریر کو خوشآمدید کہتا ہے۔ |
صرف اتنا ہی کہوں گا کے جب کچھ لکھنے لگیں تو حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھیں۔ ایک دور اندیش نظر کا فقدان ہماری نوجوان نسل میں موجود ہے۔ اگر ایک نوجوان سنتا ہے ک یہ دن ہے تو وہ نوجوان اس بات کے دفاع میں بنا سوچے سمجھے ڈٹ جاتا ہے۔ اس کے نزدیک سچ اتنا ہی ہے۔ ۔ ۔ دوسرے جوان سے کوئی کہہ دے کہ یہ رات ہے تو بھی بن سوچے سمجھے محاذ آرائی شروع کر دیتا ہے۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کا گلا کاٹنے پر تل جاتے ہیں۔ ہمارا میڈیا ادھوری تصویر پیش کرتا ہے۔ اور اس ادھوری تصویر کو ہمارے جوان مو ضوع سخن بنا کر اپنی سوچ کو زنگ آلود کرتے جا رہے ہیں۔ یاد رکھئے کہ جس طرح ماضی میں تاریخ ہمیشہ حاکم قوموں کے نظریات اور حالات کا مجموعہ رہی ہے، آج کا میڈیا بھی ایک ایسی ہی تاریخ مرتب کر رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے ہم متحد ہو کر اپنے نظریات کا جائزہ لیں ۔ اور سچائی سے پردہ ہٹائیں۔ ۔ ۔