وقت بہت گزر کر میرے پاس آیا ہے
اتنا گزر جانے کے باوجود
اس کے مصافحے میں
اتنی گرم جوشی ہے کہ میں ڈر کر
اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہوں
گھبرا کر اپنا ہونا
معطل کردیتا ہوں
مگر اس کی دوستی دیکھو
یہ مجھے پھر سے
جاری کر دیتا ہے
میری از سرِ نو
آبیاری کر دیتا ہے

 

میں نے وقت سے دوستی کر لی ہے
میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ
بھائی تم نے کہاں تک جانا ہے؟
میں خدمتِ خلق کے واسطے
تمہیں وہاں تک لے جاتا ہوں
تم بس گزرنا چاہتے ہو نا؟
آؤ میں تمہیں گزار دیتا ہوں

 

تم بس ایسے بیوہ مٹی کی طرح
اڑتے نہ رہا کرو
مجھے افسوس ہوتا ہے کہ
ہم دونوں کو خدا نے عاق کیا ہوا ہے
لیکن تمہاری آنکھوں کے نیچے
حلقے زیادہ تاریک ہیں
جبکہ میں اور تم گانوں کی طرح
پلٹ پلٹ کر
اپنے کورس (Chorus)کی طرف لوٹ جاتے ہیں
خدا کی شطرنج پر
ایک ہی رفتار سے ہار رہے ہیں
پھر تم کیوں زیادہ غمگین ہو بھائی؟
خدا ہم دونوں کا
ایک ہی بچھڑا ہے

 

تمہیں گھڑی بھر سسکیوں میں
کچھ گنتیوں کی لت لگے حسابی لوگوں نے
قید کیے رکھا ہوا ہے
مگر دیکھو میں تمہیں کیسے
گھڑی کی آذر ڈنڈیوں کی
بت تراش ہچکیوں سے
توڑ کر اپنے ساتھ لا کر
بیٹھا سکتا ہوں
تمہیں میری دوستی بھاری نہیں پڑے گی
تمہیں اس آزادی کی
قیمت چکانی نہیں پڑے گی
بس اگر ہو سکے تو میرے لیے
کچھ گھنٹے
گھڑی کی پشت پر بجا دیا کرو
بڑی مہربانی ہوگی یار

 

ابھی دیکھو مجھے کچھ گھنٹے
چپ کرانے ہیں
کچھ کام تم سے بھی علیحدہ ہیں
جو مجھے اکیلے نمٹانے ہیں
تم تو سمجھ سکتے ہو
تم مجھ سے پہلے سے
برس رہے ہو
پھر بیٹھیں گے بھائی ہم دونوں
اور کریں گے کچھ ایسی باتیں
جن کو سمجھنے کے لیے
میرے باقی دوستوں کو بھی
وقت چاہیے

Leave a Reply