زندگی صرف آگے بڑھ جانے کانام ہی نہیں، کبھی رُک کر پیچھے دیکھنے کاعمل بھی ہے۔ رواں برس کی شروعات پر، 2007میں ریلیز ہونے والی ایک فلم "سانوریا” کو اب کہیں جا کر دیکھنے کاموقع ملا۔ یہ حُسنِ اتفاق تھا، مگر صاحب، ایسا محسوس ہوا، جیسے کسی نے یاد کے کینوس پر، جاناپہچانا منظر کھول کر انڈیلاہے، اتنا وقت گزرجانے کے باوجود، جس کے رنگ تازہ بلکہ اب تک گیلے ہیں۔ یہ نمی شاید جذبے کی ہے، ورنہ گزرے ماہ وسال کے ہندسے، تو اسے نیا ماننے سے انکاری ہیں۔
زمانہ طالب علمی کاتھا اورموسم رومان کا۔ ایک صبح بیدار ہونے پراندازہ ہوا، تاخیر ہو گئی، یونیورسٹی پہنچنا تھا، وہاں یار دوست انتظار میں ہوں گے۔ اسی لمحے، ایک دم خیال آیا، ایک دن ہوگا، ایسے ہی آنکھ کھلے گی، مگر کہیں نہیں جانا ہو گا اور دوست بھی منتظر نہیں ہوں گے۔ یہ سوچ کر دل اداسی کی آماجگاہ بن گیا۔ اسی کیفیت میں یونیورسٹی پہنچے اوردوستوں کو اس حالت سے آگاہ کیا۔ دوستوں نے بات ہنسی مذاق میں اڑادی، لیکن کتنی سفاک حقیقت ہے، آج نیند سے بیدار ہوتے ہیں، تو یونیورسٹی میں کوئی دوست انتظار نہیں کر رہا ہوتا۔ سب دوست اپنی اپنی منزلوں کو روانہ ہو گئے۔ اب یادوں کی شاہراہ پر، دل کے مسافرخانے میں صرف خاک اڑتی ہے۔
زندگی کے اسی منظر نامے پر کبھی کوئی گیت، فلم، تصویر، نظم یا کوئی آواز سیدھی دل کے پردے چاک کرتی، اس گمشدہ احساس تک جاپہنچتی ہے، جس کی تلاش ہمیں بھی ہوتی ہے، مگر ہم اس کو ڈھونڈ نہیں پاتے۔ یہ فلم”سانوریا” بھی ایسے ہی دنوں کی یاد کا جھونکا ہے، جس احساس کو پلٹ کرآنے میں بہت وقت درکار ہوتاہے۔ وہ دوست، جو اپنے دوستوں سے بچھڑے ہوئے ہیں، یہ فلم اورتحریر انہی کے لیے ہے۔
فلم "سانوریا” 2007 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس فلم نے رواں برس ایک دہائی مکمل کرلی، یعنی 10برس بیت گئے، لیکن اسے دیکھ کربالکل اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، شاید اس کی تھیم، موسیقی، کہانی اور کرداروں میں زندگی کی رمق بہت تیز ہے، دھڑکنیں ابھی تک برقرار ہیں۔ ہجر وفراق کے مرحلے، پانے اورکھونے کے احساس سے لبریز، عشق کی سانسوں کے اتار چڑھاؤ، محبت کے طے ہوتے قدموں کی چاپ سے گونجتی، اس فلم میں محسوس کرنے کے لیے بہت کچھ ہے، بشرطیکہ آپ پر کبھی نہ کبھی رومان کاموسم اترا ہو۔
اس تخلیق کے پیش کار "سنجے لیلا بھنسالی” ہیں، جن کے کریڈٹ پر فلم سازی اورہدایت کاری کے شعبے ہیں۔ سنجے لیلا بھنسالی کی شخصیت کے دو واضح رخ بہت نمایاں ہیں، وہی ان کی فلموں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ دو طرح کی فلمیں بناتے ہیں، ایک تووہ فلمیں، جن میں یہ صرف فلم ساز کے طورپرشریک ہوتے ہیں اور وہ فلم کمرشل پہلوؤں سے بھی اپنا وزن رکھتی ہے، بلکہ یوں کہہ لیں، اس طرح کی فلموں میں، صرف اس بات کاہی خیال رکھا جاتاہے کہ وہ باکس آفس پر اچھے نتائج حاصل کریں۔ اس تناظر میں، ایک مثال "راؤڈی راٹھور” جیسی فلم ہے، جوخالص کمرشل تھی۔
دوسری طرح کی فلمیں وہ ہیں، جن میں یہ خود ہدایت کاربھی ہوتے ہیں، ان فلموں کوبناتے ہوئے، کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجاتا، نہ ہی باکس آفس کے نتائج کی پرواہ کی جاتی ہے، بس فلم کو اس کی پوری جمالیات کے ساتھ تخلیق کیا جاتا ہے، اس طرح کی فلموں میں، اگر مثال لی جائے، توباجی راؤ مستانی، گزارش، بلیک، دیوداس، ہم دل دے چکے صنم، خاموشی جیسی فلمیں ہیں، جبکہ زیر نظر فلم "سانوریا” بھی ان کا حسن نظر ہے، جس کو انہوں نے سینما کے پردے کے لیے فلمایا تھا۔ اب ان کی ہدایت کاری میں بننے والی اگلی فلم "پدماوتی” تاریخ کے ایک اہم کردار "علاؤ الدین خلجی” کے عہد کو تازہ کرنے کرنے کے لیے رواں برس کے اختتام پر نمائش کے لیے پیش کر دی جائے گی۔
فلم "سانوریا” اجنبی گلیوں میں ملنے والے پریمی جوڑے کی ہے، جن کی محبت نہایت اثر انگیز لیکن تکونی ہے۔ فلم کامرکزی کردار یعنی ہیرو، اس فلم میں اپنی ہیروئن سے محبت کرتا ہے، مگر اس کا محبوب کوئی اور ہے۔ اس کے باوجود وہ ہیرو کی محبت کوقدر کی نگاہ سے دیکھتی اوراس کو، دوستی کے تقاضوں میں نبھانے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ اب صاحب دوستی بھلا محبوب کی محبت کابدل تو نہیں ہو سکتی۔ ایک طرف دیوانگی ہے، تو دوسری طرف عشق، دونوں میں گاڑھی چھنتی ہے، یہی اس فلم کا مرکزی خیال ہے۔ فلم کی کہانی کامرکزی خیال تو روس کے شہرہ آفاق ادیب "فیودور دستوئیفسکی” کی کہانی "وائٹ نائٹس” سے لیا گیا ہے، مگر سنجے لیلابھنسالی نے، اس میں اپنی محبتوں کے نیلے اور سنہرے رنگ ڈال کر، تصورکے پردے کو مزید خوبصورت کردیا۔ رہی سہی کسر موسیقی کے حسین امتزاج سے پوری ہو گئی ہے۔ فلم کے موسیقار مونٹی شرما ہیں۔
فلم کامنظر نامہ بے حد خوبصورت ہے۔ نیلے رنگ میں رنگے ہوئے درودیوار اور رات کے ماحول کے تناظر میں ایک شاندار سیٹ بنایا گیا، جس کے تخلیق کار "امنگ کمار”ہیں، جنہوں نے سنجے لیلا بھنسالی کے ساتھ اس سے پہلے، فلم "بلیک” میں بھی اپنی غیرمعمولی صلاحیتوں کوثابت کیا۔ نیم تاریکی میں گلیوں اوربل بورڈز کی تشکیل، ندی کے بہاؤ پرایک پل کی تعمیر، بڑے گھڑیال اوردیگر چیزوں سے سیٹ کو سجا دیا۔ اس پر چلتے پھرتے کردار آنکھوں کو بھلے لگتے ہیں۔ اس فلم میں جن اداکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا، ان میں مرکزی کرداروں میں رنبیر کپور، سونم کپورکے علاوہ دیگر اداکاروں میں سلمان خان، رانی مکھرجی، زہراسہگل، بیگم پارا اوردیگر شامل ہیں۔
کسی چھٹی کے دن، فراغت کے لمحوں میں، اس فلم کودیکھیے، مجھے یقین ہے، آپ کی ملاقات کسی نہ کسی گمشدہ احساس سے ضرور ہو جائے گی، یہی اس فلم کا کمال ہے اور سنجے لیلا بھنسالی کی ہدایت کاری کا جادو، سر چڑھ کر جو بول رہا ہے، دل کی تنہائی میں۔۔۔۔۔
Leave a Reply