حلقہ ابابِ ذوق ،کراچی کا ہفتہ وار اجلاس ، یکم اگسست ، ۲۰۱۷ ، بروز منگل ، کانفرنس روم ڈیمپ میں منعقد ہوا۔نثری نظم کے ممتاز شاعرافضال احمد سید کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں مایہ ناز افسانہ نگار نیر مسعود اور ان کے کام کو یاد کیا گیا۔جمال مجیب قریشی نے ان کے افسانوی مجموعے ‘‘ عطرِ کافور’’ کا آخری افسانہ ‘‘ ساسانِ پنجم’’ اپنے مخصوص لب و لہجے میں پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد آصف فرخی صاحب کا انگریزی مضمون جس کا ترجمہ رفاقت حیات نے کیا تھا، ظہیر عباس نے پڑھ کر سنایا۔اس کے بعد گفتگو کا آغاز ہوا۔ سب سے پہلے عذرا عباس نےآضف فرخی کے مضمون کے ترجمے کے ایک جملے پر اعتراض کیاکہ ادبی سرگرمی زوال پذیر کیسے ہوسکتی ہے، جب کہ نیر مسعود اپنا سارا کام تو بہت پہلے ختم کرچکے تھے۔ افضال احمد سید نے ان کی تائید کی۔رفاقت حیات نے کہا کہ وہ اس جملے کو بدل دیں گے۔آصف فرخی نے وضاحت دی کہ نیر مسعود صاحب چاہتے تھے کہ تعبیرِ غالب نامی کتاب کی پروف ریڈنگ و ہ خود کریں لیکن خراب صحت کی بنا پر وہ ایسا نہیں کر سکے اورو ہ بچوں کے لیے کچھ اور کہانیاں لکھنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد عذرا عباس نے افسانے ‘‘ ساسانِ پنجم’’ اور جمال مجیب قریشی کی قرات کو سراہا ۔ان کے خیال میں اس افسانے میں گم ہوجانے والی تہذیبوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ جب سے دنیا بنی ہے ان گنت تہذیبیں وجود میں آئیں اور فنا کے گھاٹ اتر گئیں۔کرن سنگھ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ نیر مسعود کی کہانیوں میں ان کا زرخیز تخئیل کارفرما دکھائی دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کہانیوں میں لکھنو کی تہذیب بھی سانس لیتی محسوس ہوتی ہےاور کہیں کہیں ماورائی عنصر بھی موجود نظر آتا ہے۔ اسی بنا پر ان کی کہانیاں مختلف اور منفرد محسوس ہوتی ہیں۔ شجاعت علی نے کہا کہ نیر مسعود کے افسانوں کے بین السطور صرف لکھنو کی تہذیب نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی تہذیب کار فرما دکھائی دیتی ہے، جو بدقسمتی سے اب دم توڑ چکی ہے۔ نیر مسعود صاحب نے اس زمانے میں افسانے لکھنے شروع کیے ،جب اردو افسانے کے افق پر علامت اور تجرید کا غلبہ تھا۔ نیر مسعود صاحب نے اپنے افسانوں کے لیے الگ راہ نکالی۔
شعیب قریشی نے نیر مسعود صاحب کے سفر نامہِ ایران کو سراہا۔ آصف فرخی نے اس بات کو آگے بڑھایا کہ نیر مسعود صاحب صرف ایک مرتبہ سرکاری دورے پر ایران گئے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ایک مرتبہ بنگلور، دہلی اور الہ آباد بھی گئے لیکن وہ سفر کرنے اور اپنے گھر سے نکلنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔انہیں الہ آباد میں لیکچرار کی ملازمت ملی تو وہ وہاں گئے۔ پہلے دن انہوں نے جوائننگ دی اور اگلے روز استعفی دے کر واپس لکھنو آگئے۔وہ جس مکان میں پیدا ہوئے جو ان کے والد کا بنوایا ہوا تھا۔ اسی میں ان کا انتقال ہوا۔سعیدالدین صاحب نے کہا کہ نیر مسعود صاحب کی تحریروںمیں اتنی وسعت ہے کہ انہیں ایک نشست میں سمیٹنا آسان نہیں ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں انسانوں کو کرادار کے طور پر لینے کے ساتھ ساتھ دروازوں، کھڑکیوں اور عمارتوں سے بھی ایک کردار کی طرح انصاف کرتے اور انہیں بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ان کے افسانوں کی فضا اتنی مسحورکن ہوتی ہے کہ لگتا ہے ان کے پاس کہنے کے لیےکہانی نہیں صرف یہی فضا ہے، لیکن ان کی سب کہانیوں میں ایسا نہیں ہے ۔ انہوں نے اپنی کہانیوں کے ذریعے دکھایا ہے کہ وقت کس طرح گلیوں، محلوں، عمارتوں پر اپنے نقوش چھوڑتا ہے۔نیر مسعود نے اپنے افسانوں میں وقت کو قید کیا ہے۔ رفاقت حیات نے کہا کہ ان کا نیر مسعود صاحب کی تحریروں سے پہلا تعارف ان کے افسانے ‘‘اوجھل’’ کے ذریعے ہوا۔ اس کے بعد ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ‘‘ سیمیا’’ پڑھا۔ یہ افسانے اپنی بھید بھری اور پراسرار فضا کے سبب آج بھی انہیں اپنے ذہن میں زندہ محسوس ہوتے ہیں۔رفاقت حیات نے مزید کہا کہ انہوں معرو ف فکشن نگار خالد جاوید صاحب کی ایک گفتگو سنی، جس میں وہ نیر مسعود صاحب کوصادق ہدایت ، کافکا اور ایڈگر ایلن پو کی قبیل کا فکشن نگار قرار دے رہے تھے، کیوں کہ نیر صاحب صاحب کے افسانوں میں بھی خوف اور دہشت سے مملو فضا غالب دکھائی دیتی ہے۔
اجمل کمال صاحب سے اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے رفاقت حیات نے کہا کہ ان کے خیال میں نیر مسعود صاحب نے زیادہ تر ہاتھ سے کام کرنے والوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔ آصف فرخی نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات مکمل طور پرنہیں صرف جزوی طور پر درست کہی جاسکتی ہے اور خالد جاوید صاحب کی توجیہہ سے قطع نظر ،نیر مسعود صاحب واقعیت یا حقیقت پر مبنی فکشن کے بہت قائل تھے۔وہ غلام عباس، محمد خالد اختر ، رتن ناتھ سرشارکو پسند کرتے تھے۔ انہوں نے ضمیر الدین احمد پر ایک مضمون لکھا۔عظیم بیگ چغتائی بھی انہیں پسند تھے۔نیر مسعود خود کو حقیقت پسند افسانہ نگار سمجھتے تھے۔یہ الگ بات ہے کہ ان کہ ہاں حقیقت تہہ دار اور واہمے کے بہت قریب ہے۔حقیقت تخئیلاتی بھی تو ہو سکتی ہے۔ان کے تمام افسانوں میں ایک دبا ہوا احساسِ زیاں، ایک ملال، ایک حُزن اور افسوس کی کیفیت پائی جاتی ہے۔انہوں نے لکھنو کی مخصوص زبان اور محاوروں سے یکسر اجتناب کیا ، جس کے باعث انکے افسانوں میں ایک نامانوس پن در آیا۔
آخر میں اجلاس کےصاحبِ صدر افضال احمد سید صاحب نےکہا کہ حلقے کو یہ نشست ضرور کرنی چاہیے تھی اور حلقے نے کی، کیوں کہ نیر مسعود اردو کے اہم تریب ادیب تھے۔ ہم انہیں جتنا یاد کر سکیں، کرنا چاہیے۔ میری کبھی نیر صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی۔ ایسے میں آصف صاحب کےذریعے ہمیں نیر سعود صاحب کے فن اور شخصیت کے باے میں بہت اچھی گفتگو سننے اور انہیں سمجھنے کا موقع ملا۔ میں نیر مسعود صاحب کا صرف ایک قاری ہوں۔میں نے ان کی تنقیدیں نہیں پڑھیں۔ میں ان سے ان کے ترجمے کے ذریعے متعارف ہوا۔ وہ تھا ‘‘ شجر الموت’’۔وہ پیٹر پان کی کہانی تھی۔وہ کہانی اور اس کا ترجمہ دونوں بہت خوب صورت تھے۔میں وہ پڑھتے ہی نیر صاحب کا عاشق ہوگیا۔ا س کے بعد ان کی کہانیاں پڑھیں۔ ان کی کہانیوں میں ابہام کی ایک صورت ہوتی ہے۔ابہام کو شاعری اور ادب میں ایک وصف سمجھاجاتا تھا۔ابہام کی وجہ سے ان کہانیوں کو بارِ دگر پڑھنے اور ان کے متعلق سوچنے کا موقع ملتا ہے۔نیر صاحب اپنے افسانوں میں جو فضا بناتے ہیں وہ ابہام کے ساتھ بھی بناتے ہیں اور طائوس چمن کی مینا جیسی کہانیوں میں بھی بناتے ہیں۔اس کہانی میں انہیں واجد علی شاہ ہیرو نظر نہیں آتا۔اس کہانی کے آخر میں ایسا جملہ بھی آتا ہے کہ اسے(مالی کو) قید واجد علی شاہ نے کیا مگر اسے رہائی انگریزوں نے دلوائی۔نیرمسعود صاحب اپنے افسانوں میں بہت کچھ بین السطور بھی کہتے تھے، جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
افضال احمد سید کی گفتگو کے حلقے کے اجلاس کے خاتمے کا اعلان کیا گیا۔