ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کرپٹ ممالک کی فہرست میں پاکستان کی پوزیشن میں دس درجے کمی خوش آئند ہے۔ حکومت اور نیب کی طرف سے اس رپورٹ کو ایک کامیابی قرار دیاجارہا ہے۔ کرپشن کے عالمی دن کے موقع پر جہاں پاکستان میں کرپشن کی تحقیقات کرنے والا سب سے بڑاادارہ قومی احتساب بیورو(نیب) پاکستان کی عالمی درجہ بندی میں دس درجہ کمی کاکریڈٹ لے رہا ہےوہیں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیاملک میں کرپشن واقعی کم ہوئی ہے اور اس سے عام آدمی کو کوئی فائدہ پہنچا ہے یا نہیں۔
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں نیب کی کاروائیاں اگرچہ سیاسی انتقام کی ایک صورت تھیں تاہم اس ادارے کی کارکردگی گزشتہ چھ برس کی جمہوری حکومتوں سے بہتر تھی۔
قومی احتساب بیورو کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو نیب کے حکام اپنی کارکردگی سے زیادہ ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں نیب کی کاروائیاں اگرچہ سیاسی انتقام کی ایک صورت تھیں تاہم اس ادارے کی کارکردگی گزشتہ چھ برس کی جمہوری حکومتوں سے بہتر تھی۔ مشرف دور میں کئی سابق وزرائے اعظم سمیت سرکاری اہلکاران کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے تھے۔ کروڑوں اربوں روپے کی مالی بدعنوانی سے لے کر دس ہزار روپے کی کرپشن کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی تھی۔ جمہوری حکومتوں کے آنے کے بعد اس ادارے کی کارکردگی تنزلی کا شکار ہوئی ہے۔چیئرمین نیب کی تعیناتی کا تمام تر دارومدار حکومت اور اپوزیشن کو مل جانے سے اس عمل کی شفافیت مجروح ہوئی ہےاور نیب کی کارکردگی سیاسی دباو کے باعث بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت اور موجودہ حکومت کے ڈیڑھ سال کے دوران نیب کی کارکردگی میں کچھ خاص فرق نظر نہیں آتا ۔ قومی احتساب بیورو کی کارکردگی سرکاری اہلکاروں اور موسمی فراڈیوں کے حوالے سے تو بہت بہترہوئی ہو گی جیسے ڈبل شاہ سکینڈل یا مضاربہ سکینڈل کی صورت میں، لیکن سیاستدانوں کے خلاف نیب کی کارروائی غیر موثر رہی ہے۔ نیب کا حال یہ ہے کہ گزشتہ تین برس کے دوران رینٹل پاور ، سیف سٹی ، ریلوے ، سی ڈی اے ، نیشنل بنک ، ہاؤسنگ سوسائٹیوں ،این ایچ اے ، پی ڈبلیو ڈی ، ایف بی آر ، این آئی سی ایل اوراین ایل سی کرپشن سکینڈل میں کسی اہم اور بڑی مچھلی کو نیب نے نہیں پکڑا ۔ اگر قومی احتساب بیورو کی کرپشن کے خلاف تحقیقات غیر جانبدار اورسیاسی دباو سے آزاد ہوتیں تو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اورراجہ پرویز اشرف، سابق وفاقی وزیر امین فہیم، سابق چیئرمین اوگرا توقیر صادق ، سابق وفاقی وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین اور دیگر بااثر افراد باہر نہ بیٹھے ہوتے۔ نیب اٹھارہ کروڑ عوام کے ٹیکس پر کام کرنے کے باوجود بااثر شخصیات کے خلاف کافی شواہد اکٹھے نہیں کرپایا،نیب کی کم زور تحقیقات کے باعث مالی بدعنوانی کے مرتکب افرادعدالتوں سے باآسانی چھوٹ جاتے ہیں۔ بیاسی ارب روپے کی کرپشن کرنے والے توقیر صادق لاہور میں کھلے بندوں موجود ہیں ، یہ وہی توقیر صادق ہےجس کی گرفتاری کے لیے نیب نے کروڑوں روپے خرچ کیے تھے۔
پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت اور موجودہ حکومت کے ڈیڑھ سال کے دوران نیب کی کارکردگی میں کچھ خاص فرق نظر نہیں آتا ۔ قومی احتساب بیورو کی کارکردگی سرکاری اہلکاروں اور موسمی فراڈیوں کے حوالے سے تو بہت بہترہوئی ہو گی جیسے ڈبل شاہ سکینڈل یا مضاربہ سکینڈل کی صورت میں، لیکن سیاستدانوں کے خلاف نیب کی کارروائی غیر موثر رہی ہے۔ نیب کا حال یہ ہے کہ گزشتہ تین برس کے دوران رینٹل پاور ، سیف سٹی ، ریلوے ، سی ڈی اے ، نیشنل بنک ، ہاؤسنگ سوسائٹیوں ،این ایچ اے ، پی ڈبلیو ڈی ، ایف بی آر ، این آئی سی ایل اوراین ایل سی کرپشن سکینڈل میں کسی اہم اور بڑی مچھلی کو نیب نے نہیں پکڑا ۔ اگر قومی احتساب بیورو کی کرپشن کے خلاف تحقیقات غیر جانبدار اورسیاسی دباو سے آزاد ہوتیں تو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اورراجہ پرویز اشرف، سابق وفاقی وزیر امین فہیم، سابق چیئرمین اوگرا توقیر صادق ، سابق وفاقی وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین اور دیگر بااثر افراد باہر نہ بیٹھے ہوتے۔ نیب اٹھارہ کروڑ عوام کے ٹیکس پر کام کرنے کے باوجود بااثر شخصیات کے خلاف کافی شواہد اکٹھے نہیں کرپایا،نیب کی کم زور تحقیقات کے باعث مالی بدعنوانی کے مرتکب افرادعدالتوں سے باآسانی چھوٹ جاتے ہیں۔ بیاسی ارب روپے کی کرپشن کرنے والے توقیر صادق لاہور میں کھلے بندوں موجود ہیں ، یہ وہی توقیر صادق ہےجس کی گرفتاری کے لیے نیب نے کروڑوں روپے خرچ کیے تھے۔
اٹھارہ کروڑ عوام کے ٹیکس پر کام کرنے کے باوجود بااثر شخصیات کے خلاف کافی شواہد اکٹھے نہیں کرپایا،نیب کی کم زور تحقیقات کے باعث مالی بدعنوانی کے مرتکب افرادعدالتوں سے باآسانی چھوٹ جاتے ہیں۔
نیب کے سابق چیئرمین نےسرکاری سطح پر سات ارب روزانہ کرپشن تسلیم کی تھی تاہم اس کرپشن کی روک تھام کے لیے خاطر خواہ اقدامات اب تک نہیں کیے جا سکے۔ان اعدادوشمار کی تصدیق یوں بھی ہو سکتی ہے کہ ملک میں اس وقت سات سو ارب کے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے اور ہر سرکاری منصوبے میں بڑے پیمانے پر کرپشن کاامکان نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔نیب کے طریق کار میں دو اہم اوربڑی خامیاں ہیں جو اس ادارے کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں؛ نیب کی طرف سے ہر کرپٹ شخص کو دو آپشن دیئے جاتے ہیں ابتدائی انکوائری کے بعد ہزاروں روپے سے لے کر اربوں روپے تک کی کرپشن کرنے والوں کو وی آر (Voluntary Return) یعنی رضاکارانہ واپسی کااختیار دیا جاتا ہے ۔ اس سہولت کے تحت اگر لوٹی ہوئی کرپشن کی رقم رضاکارانہ طور پر واپس کر دی جائے تو نیب اس کے ساتھ مکمل تعاون کرے گا ۔ نیب ایسے افراد کو خوردبردکی جانے والی رقم قسطوں میں واپس کرنےکی سہولت بھی دیتا ہے، اور سرکاری افسرہو نے کی صورت میں اس کی سرکاری نوکری کوبھی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔دوسری صورت میں اگر کرپٹ شخص رضاکارانہ تعاون سے انکار کرے تو نیب انکوائری کو تفتیش میں تبدیل کر دیتا ہے ۔ تفتیش کے دوران اگر کرپشن ثابت ہو تو پھر نیب کرپٹ شخص کو پلی بارگین یعنی لوٹی ہوئی رقم جرمانہ کے ساتھ واپس کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے، جرمانے کے ساتھ رقم کی واپسی پر نیب مقدمہ پر مزید کاروائی روک دیتا ہے۔ نیب کا یہ طریق کار متنازعہ ہے اورراقم کی رائے میں کرپشن بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
نیب کی جانب سے مالی بدعنوانی کا ارتکاب کرنے والے فرد کو رقم واپس کرنے پر تحفظ اور اقساط کی سہولت دینے سے اگرچہ سرکاری خزانہ میں لوٹی ہوئی رقم واپس آئی ہے تاہم بدعنوان سرکاری افسروں کے خلاف کاروائی نہ کرنے کے باعث پکڑے جانے اور سزا کا خوف کم ہوا ہے۔ گزشتہ سات آٹھ برس کے دوران کسی اہم شخصیت ،سرکاری افسر ،سیاستدان یا فوجی افسر کو نیب عدالت سے سزا نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیب کی تمام تر توجہ صرف لوٹی ہوئی دولت کی بازیابی تک محدودہے ۔نیب افسران کو لوٹی ہوئی رقم بازیاب کرانے میں اس لیے بھی زیادہ دلچسپی ہے کیوں کہ اس طرح نیب افسران ، ملازمین اور حکام کوانعامی رقم، سہولیات اور مراعات ملتی ہیں اور نیب رقم کی وصول پر اپنی کارکردگی کی بہتر تشہیر کرسکتا ہے۔
نیب کی جانب سے مالی بدعنوانی کا ارتکاب کرنے والے فرد کو رقم واپس کرنے پر تحفظ اور اقساط کی سہولت دینے سے اگرچہ سرکاری خزانہ میں لوٹی ہوئی رقم واپس آئی ہے تاہم بدعنوان سرکاری افسروں کے خلاف کاروائی نہ کرنے کے باعث پکڑے جانے اور سزا کا خوف کم ہوا ہے۔ گزشتہ سات آٹھ برس کے دوران کسی اہم شخصیت ،سرکاری افسر ،سیاستدان یا فوجی افسر کو نیب عدالت سے سزا نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیب کی تمام تر توجہ صرف لوٹی ہوئی دولت کی بازیابی تک محدودہے ۔نیب افسران کو لوٹی ہوئی رقم بازیاب کرانے میں اس لیے بھی زیادہ دلچسپی ہے کیوں کہ اس طرح نیب افسران ، ملازمین اور حکام کوانعامی رقم، سہولیات اور مراعات ملتی ہیں اور نیب رقم کی وصول پر اپنی کارکردگی کی بہتر تشہیر کرسکتا ہے۔
فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ جنرلوں اور نچلی سطح کے افسران کی کرپشن پر کسی قسم کی کاروائی نہ ہونے سے نیب کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔
نیب طریق کار میں دوسری خامی جعلی پرائیویٹ کمپنیوں کی کرپشن روکنے میں ناکامی ہے۔ نیب اور سکیورٹی ایکسچینج کمیشن پاکستان کے درمیان کوئی ایسا معاہدہ یا طے شدہ طریق کار موجودنہیں جس کے تحت ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ ہونے والی جعلی اور گمنام کمپنیوں کے خلاف کاروائی کی گئی ہو۔ مضاربہ اور دیگر رجسٹرڈ کمپنیوں اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی طرف سے عوامی دولت لوٹنے کے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سرکاری محکموں اور سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ نجی کمپنیاں بھی کرپشن سے پاک نہیں۔اس کے علاوہ فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ جنرلوں اور نچلی سطح کے افسران کی کرپشن پر کسی قسم کی کاروائی نہ ہونے سے نیب کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔نجکاری، تھری جی اور فور جی لائسنسوں کی فروخت اور چینی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کی شفافیت کی تحقیق بھی ضروری ہے۔نیب افسران پر سے سیاسی دباو کم کرنے، نیب افسران کی بدعنوانیوں کی روک تھام اور نیب کے دائرہ کار کو وسیع کیے بغیر کرپشن کم کرنے کی کوششوں کو کامیاب نہیں بنایا جا سکتا ۔
Leave a Reply