تحریر: لارا سالومن
ترجمہ: مبشر احمد میر ۔ گجرات
میرے خاندان میں دل کے امراض عام ہیں۔ میرے والد کو اپنے تیسرے عشرے کے آغاز میں اپنا ایک والو، سور کے والو سے بدلوانا پڑا اور میرے چچا کی وفات پچاس کے پیٹے میں ہارٹ فیل ہونے سے ہوئی۔ میں نیوزی لینڈ کے شہر نیلسن میں واقع فائبر بورڈ کےایک پلانٹ میں ملازمت کرتا ہوں اور میرا دل بھی بڑھا ہوا ہے۔ دو ہفتے قبل انھوں نے تشخیص کی کہ دل کا والو صحیح کام نہیں کر رہا اور صرف نو فی صد خون کو گزرنے دے رہا ہے۔ مجھے نیلسن ہسپتال میں داخل کر دیا گیا اور انھوں نے مجھے بتایا کہ مجھے بذریعہ ہوائی جہاز ولنگٹن جانا ہو گا تاکہ میری اوپن ہارٹ سرجری کر کے والو بدلا جا سکے۔ پہلے ان کا خیال تھا کہ وہ سور کا والو استعمال کریں گےجیسا کہ انھوں نے ابا کے ساتھ کیا تھا لیکن پھر انھوں نے اپنا ارادہ بدل لیا اور کہا کہ میری عمر۔۔۔ تینتالیس برس۔۔۔ بہت کم ہےاور یہ کہ سور کا والو میری ساری زندگی نہیں چلے گا اور یہ کہ وہ اس کے بہ جائے ٹائٹینیم کا استعمال کریں گے۔ میں سموکنگ نہیں کرتا تھا۔ بیمار دل وہ بے کار پتا تھا جو تاش کے کھیل میں میرے ہاتھ آیا تھا۔
میری گرل فرینڈ کیری میرے لیے فکرمند رہتی ہے، میری ولنگٹن پرواز سے پہلے کےدنوں وہ ہسپتال کے گرد منڈلاتی رہی۔ میرے والدین اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے کیوں کہ وہ سنگل ماں ہے اور مال و دولت نہیں رکھتی، چناں چہ ماحول میں ایک نوع کی کشیدگی پائی جاتی تھی۔ میں نے لطیفے سنا کر ماحول خوش گوار بنانے کی کوشش کی حالاں کہ نیلسن ہسپتال میں کمر کے بل چت لیٹے۔۔۔ یہ سوچتے کہ کب وہ مجھے ولنگٹن لے جائیں گے اور آیا میرا آپریشن کامیاب ہو گا یا نہیں۔۔۔ میرا ہنسنے کا کوئی موڈ نہیں تھا لیکن میں نے ماحول کو تھوڑا سا خوش گوار بنانے کی کوشش کی۔ کیری ایک حساس دل کی مالک ہے جو چاہا جانا پسند کرتی ہے، اس نے میرے والدین کی نخوت کو پسند نہیں کیا۔
“وہ مجھے جانچ رہے ہیں” اس سے مجھے بتایا، “جب کہ انھوں نے میری شخصیت کو سمجھنے کی کوشش تک نہیں کی۔ وہ میرے بارے میں میرے ظاہر سے اندازہ لگا رہے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ میں ایک اچھی، مہربان شخصیت کی حامل ہوں،میری نگاہ تمھارے مال پر نہیں۔ میں تمھارے بارے میں فکرمند رہتی ہوں، تم پر جو بیتتی ہے، میں اس کے بارے میں پریشان رہتی ہوں۔ مجھے ہمیشہ تمھارا خیال رہتا ہے۔”
لگتا نہیں کہ میرے والدین کے نزدیک مہربانی اور فکرمندی کی کوئی اہمیت ہے۔ ان کی نگاہ میں اصل اہمیت، دولت، مرتبے اور فرد کے مرتبے کی ہے۔ کیری ڈسٹرکٹ ہیلتھ بورڈ میں بہ طور مددگار کارکن، ایک خاتون، جس کے برین ٹیومر کا آپریشن ہوا تھا، کی نگہ داشت کر رہی تھی، لیکن میرے خاندان کے نزدیک یہ کوئی باعزت کام نہیں تھا۔
اتوار کی فلائیٹ کے ذریعے وہ مجھے ولنگٹن لے گئے۔ اس وقت شدید طوفانی بارش ہو رہی تھی اور میں آنے والے وقت کے تصور سےکانپ رہا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی افواج نے گزشتہ شب افغانستان میں داعش کے غاروں پر “بموں کی ماں” کو گرایا تھا۔ اس سے چند روز قبل اس نے شام میں ٹام ہاک کروز میزائل داغنے کا حکم دیا تھا جب کہ سال کے آغاز میں یمن میں القائدہ سے متعلق ایک کمپلکس پر فوجی حملہ کیا گیا تھا۔ ٹرمپ خود کو جنگ کا چیمپئن ثابت کر رہا تھا اور لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ تاریخ میں جنگجو صدر کی حیثیت سے جانا جائے گا۔ اگرچہ نیوزی لینڈ آدھی دنیا دور جنوبی اوقیانوس کے نچلے حصّے میں واقع تھا، پھر بھی میں کَہ نہیں سکتا تھا کہ ایسے جارح اور ہوسِ جنگ میں مبتلا صدر کے دور میں زندہ رہنا کیسا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بم دورانِ جنگ استعمال ہونے والا سب سے بڑا غیر ایٹمی ہتھیار تھا۔ میں نے انٹرنیٹ پر اس کے آزمائشی تجربے کی تصاویر دیکھیں اور اُن لوگوں کے بارے میں سوچا جن کی زندگیاں برباد ہو گئیں۔ امریکا کا دعوا تھا کہ صرف داعش کے ارکان مارے گئے ہیں لیکن میں سمجھتا تھا کہ یہ سب بکواس ہے۔ بم گرائے جانے سے میں نے خود کو حقیر، بے بس اور غیر اہم محسوس کیا، جیسے میری زندگی ایک آن میں ختم کی جا سکتی ہے۔ میرے ذہن کے عقب میں “بموں کی ماں” گونج رہی تھی۔ میرے بڑے آپریشن سے پہلے بمباری نے میرا تذبذب مزید بڑھا دیا تھا۔ آخر کو وہ میرے سینے کی پسلیاں کاٹنے اور میرے دل۔۔۔ وہ عضو جو میری نبض کو متحرک رکھتا ہے، میرے جسم کو خون سپلائی کرتا ہے۔۔۔ کا آپریشن کرنے جا رہے تھے۔ سرجن کے بلیڈ کی صرف ایک لغزش ہو گی اور۔۔۔ روشنی بجھ جائے گی اور کھیل ختم۔۔۔ میرا کیا کرایا سب ختم ہو جائے گا۔ وہ میرے ڈیتھ سرٹیفکٹ پر آپریشن ٹیبل پر دم توڑا، یا، آپریشن تھیٹر میں فوت ہوا، لکھیں گے۔
میں ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کی حرکتوں سے پریشان تھا۔ امریکیوں کے اسے ووٹ دینے کا کیا مطلب تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں تھا کی ڈونلڈ کو ووٹ دینا ہلیری کے خلاف ووٹ دینا تھا اور اس طرح یہ اس امر کی علامت تھی کہ تاحال امریکا انتہائی پرکشش تھا؟ میرے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا لیکن اس کے باوجود میرے ذہن میں سوالات اٹھنے ختم نہیں ہوئے۔
ہسپتال کا ایک اردلی مجھے ائیر پورٹ پر ملا اور اپنے ہم راہ ایک ٹیکسی میں ہسپتال لے گیا۔ انھوں نے مجھے وارڈ نمبر ۶ جنوبی میں رکھا۔ میری ایک جانب وین تھا جس کا ٹرپل بائی پاس ہونا تھا اور دوسری جانب کیرن۔۔۔ ایک سموکر۔۔۔ تھی، جس کے پھیپھڑے کے ٹیومر کا آپریشن تھا۔ وارڈ نمبر ۶ جنوبی ستم ظریفی کا مکمل مظہر تھا۔ کسی آدمی نے کیرن کو گلابی۔۔۔ صحت مند پھیپھڑوں کا رنگ۔۔۔ للی کے پھولوں کا گُل دستہ بھیجا تھا۔ جب کہ کسی دوسرے نے Get Well Soon چھپا ہوا غبارہ وین کے بستر کی پائینتی سے باندھا تھا۔ اس ساری بناوٹی خوش دلی اور حوصلہ افزائی سے مجھے اپنی طبعیت مزید بگڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ میرا بستر فی الحال بے رنگ تھا۔ تاہم میں ابھی ابھی پہنچا تھا، چناں چہ ابھی وقت تھا۔
میری سوچوں کا دھارا میری گرل فریننڈ کیری کی جانب مڑ گیا اور میں سوچنے لگا، آیا وہ مجھے کوئی تحفہ۔۔۔ کوئی کارڈ، کچھ چاکلیٹ یا چند پھول۔۔۔ بھیجے گی؟ کیری نیلسن یونی ورسٹی سے ایڈوانس فکشن کا کورس کر رہی تھی۔ اور ان کے نصاب میں شامل کہانیوں میں سے ایک سٹیفن کنگ کی “پوسٹ مارٹم روم نمبر ۴” بھی تھی۔ میں نے بھی یہ کہانی پڑھی تھی، اس کہانی نے تو گویا میری روح فنا کر دی۔ یہ کہانی ایک ایسے آدمی کے بارے میں ہے، جسے سانپ مفلوج کر دیتا ہے۔ اسے مردہ قرار دے دیا جاتا ہے، جب کہ عین اس وقت جب وہ اس کا پوسٹ مارٹم کرنے جا رہے ہوتے ہیں وہ حواس کا حامل ہوتا ہے لیکن بول نہیں سکتا اور نا ہی حرکت کر سکتا ہے۔ایک ایسی کہانی جس کے بارے میں آپ ایک بڑے آپریشن سے پہلے سوچنا پسند نہیں کریں گے۔
میں اپنا لیب ٹاپ اپنے ساتھ لایا تھا۔ میں نے ایک اردلی سے پوچھا کہ کیا مجھے وائی فائی کا پاس ورڈ مل سکتا ہےتاکہ میں دینا کے حالات سے آگاہ رہوں اور اپنے ذہن کو “پوسٹ مارٹم روم نمبر ۴” کی سوچوں سے توجہ ہٹا سکوں۔ اس نے مہربانی کی اور کہنے لگی، “پریشان نہ ہو، زیادہ سوچنے سے گریز کرو۔ کل تمھارا ایک بڑا آپریشن ہے۔” میں مسکرایا اور اثبات میں سر ہلایا، پھر کمپیوٹر لاگ اون کر لیا۔
اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انتہائی طاقت ور بحری بیڑے کو خلیجَ کوریا کی جانب روانہ کیا تھا اور ٹوئیٹر کے ذریعے شمالی کوریا کو متنبہ کیا تھا کہ وہ مصیبت کو دعوت دے رہا ہے۔۔۔ تلواروں کی جھنکار، فوجی قوت کا اظہار۔ اگرچہ صدر نے اس کی تردید کی تاہم کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ افغانستان پر بم باری کے ذریعے ٹرمپ شمالی کوریا میں کم یونگ بن کو پیغام بھیج رہا تھا۔ اِدھر، نیچے، بحرِ اوقیانوس کے نیچے جنوب میں، میں بستر میں پڑا اپنے بڑے آپریشن کا منتظر تھا۔ اُدھر وہاں، نارتھ ہمپشائر میں، دنیا کی سٹیج پر خبطِ عظمت کا روپ دھارے دو کردار اکڑ دکھا رہے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دہشت گردی اور شمالی کوریا دنیا کے لیے شدید خطرہ تھے، لیکن کیا ٹرمپ کا نسخہ۔۔۔ مزید جنگ۔۔۔ کوئی مناسب علاج تھا؟ آخر، میں اسے کس طرح حل کرنا تجویز کروں گا؟ القاعدہ کے چند ارکان اور ایک مترجم کے ساتھ چائےکی میز پر بٹھا کر مسئلے کے حل پر دوستانہ ماحول میں منطقی گفتگو کی جائے؟ میرا دماغ چکرانے لگا۔ میرے بابا ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ امریکن خود کو دنیا کا تھانے دار سمجھتے ہیں۔ کیا ٹرمپ اب پولیس کمشنر بن رہا تھا؟ میرے سینے میں، خراب والو اس کوشش میں کہ اپنی ذمہ داری پوری کر سکے، زور آزمائی کرتے ہوئے پھڑپھڑا رہا تھا۔اگلی صبح میں نے آپریشن کے لیے رضا مندی کے فارم پر دست خط کیے۔
ایک نرس آئی اور مجھے ہسپتال کے جراثیم سے پاک غسل خانے میں لے گئی۔ اس نے میری قمیص اتاری اور ایک چھوٹے بک ریزر سے میرے پیٹ، چھاتی اور بازؤں کی شیو کی۔
مجھے واپس اپنے وارڈ میں لایا گیا۔ وارڈ میں ایک کھڑکی تھی، جس سے ہسپتال کی پارکنگ دکھائی دیتی تھی۔ میں اپنی موجودہ الجھی ہوئی صورتِ حال سے اکتایا ہوا باہر دیکھ رہا تھا۔ تب ہی اچانک میں نے ایک لیکسس کو پارکنگ میں رکتے دیکھا۔ ڈرائیور کی جانب کی دروازہ کھلا اور گہرے سیاہ بالوں والا ایک طویل قامت پر اعتماد آدمی نمودار ہوا۔ وہ ہسپتال کے صدر دروازے کی جانب بڑھا۔ دس منٹ بعد وہ میرے سرجن کی حیثیت سے اپنا تعارف کراتے ہوئے، میرے بستر کے پاس کھڑا تھا۔
“ہیلو! میں گریمی ینگ ہوں۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا، “میرا خیال ہے کہ ہمیں ایورٹک والو کی سکڑن کا سامنا ہے۔”
میں نے بے زاری سے تائید میں سر ہلایا۔
“تمام تر قصور میرا نہیں۔” میں نے کہا، “میں دنیا کی بہترین خوراک کھانےوالا نہیں ہوں۔ تاہم یہ مرض جزوی طور پر خاندانی ہے اور جزواً ذہنی پریشر۔۔۔ زیادہ تر کام کے پریشر۔۔۔ کی وجہ سے ہے۔ میں سگرٹ نہیں پیتا۔”
“ٹھیک ہے۔”
کمرے میں ایک نرس داخل ہوئی۔
“کیا سب کچھ ٹھیک ہے؟”
“بالکل!” گریمی نے اطمینان سے جواب دیا، “یہ سب مجھ پر چھوڑ دو۔”
اُس نے آنکھ ماری۔
آنکھ سے اشارے بازی مجھے بری لگی۔ یقیناً سرجری سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے، یہ کوئی ایسا کام نہیں جس میں اشارے بازی کی جائے۔
سرجن کمرے سے رخصت ہوا اور میں ٹیلی وژن اور اپنے سوڈوکو Sudoku (نمبر ترتیب دینے کا ایک کھیل) کے ساتھ اکیلا رہ گیا۔ ٹیلی وژن پر عالمی خبریں لگی ہوئی تھیں، جو سب کی سب ٹرمپ اور اس کی بحری افواج کی ایک ایٹمی آب دوز کے خلیجِ کوریا بھیجے جانے کے بارے میں تھیں۔ میں نے سوچا، اس کا ایک ایٹمی آبدوز کو یہ سوچتے ہوئے بھیجنا کہ وہ شمالی کوریا اور اس کے ایٹمی پروگرام سے نفرت میں اتنا بڑھا ہوا ہے، کس قدر مضحکہ خیز ہے۔ گوگل نے مجھے یہ بھی بتایا کہ امریکا کے پاس ڈیڑھ ہزار ایٹمی ہتھیار ہیں، جب کے شمالی کوریا کے پاس ان کی تعداد صرف بیس کے لگ بھگ ہے۔ مجھے اپنی سانسیں گھٹتی ہوئی سی محسوس ہوئیں اور اس جوہری تباہ کاری کے تصور سے میرے دل نے دھک دھک کرنا شروع کر دیا۔
ایک نرس آئی اور مجھے آپریشن تھیٹر سے ملحقہ کمرے میں لے گئی۔ اس نے مجھے میرا آپریشن کے لیے رضامندی والا فارم دکھایا اور مجھ سے دریافت کیا کہ کیا میں اپنے دست خطوں کی تصدیق کرتا ہوں؟ انستھیزیسٹ آیا اور اپنا تعارف کارل مائیر کے نام سے کرایا۔ میں نے خود کو نفسیاتی اعتبار سے آنے والی صورتِ حال پر آمادہ کرنے سے بہت دور پایا،لیکن سب کچھ تیزی سے ہو رہا تھا۔ وہ وہیل چیئر دھکیل کر مجھے آپریشن تھیٹر میں لے گئے۔ انستھیزیسٹ نے میرے بازو میں ایک سوئی داخل کی، اور یہ آخری بات تھی جو مجھے یاد رہی۔
“تو رات تم اپنے آپ میں مگن تھے۔” میں نے کسی کو کہتے ہوئے سنا۔
پہلے تو میں یہی سمجھا کہ کوئی مجھ سے مخاطب ہے۔ میں نے بولنے کی کوشش کی، لیکن میرے گلے میں کچھ اٹکا ہوا تھا۔
“ضرور سانس کی نالی ہو گی۔” میں نے سوچا۔
میں نے سوچا کہ شاید آپریشن مکمل ہو گیا ہے اور ممکن ہے ان کی غلطی سے سانس کی نالی اندر رہ گئی ہے۔
“اوہ، ارے دیکھنا! اس آدمی کا دل واقعی بڑھا ہوا ہے۔ اسے نکال کر چیک کرو، یہ بہت پھیل چکا ہے۔”
اس مرتبہ میں نے سرجن کی آواز پہچان لی۔ وہ میرا دل کس طرح دیکھ سکتا ہے؟ میں جاگ رہا تھا۔۔۔ حواس میں۔ یقیناً اس وقت وہ میرا آپریشن نہیں کر رہے تھے، یہ سب خواب کی طرح لگتا تھا۔ میں نے اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن کچھ ایسا تھا جیسے میرے پپوٹے کسی سُپر گِلو سے چپکائے گئے ہوں۔
“والو لگانے کرنے کا مرحلہ آ گیا، پلیز۔” میں نے سرجن کی آواز سنی۔
دھات سے دھات ٹکرانے سے۔۔۔ ٹائٹینیم والو کے آپریشن ٹرے میں رکھنے پر۔۔۔ ٹن کی آواز آئی۔ میں کچھ محسوس نہیں کر رہا تھا، لیکن میں سب کچھ سن سکتا تھا۔ میں مفلوج تھا اور اپنی آنکھیں نہیں کھول سکتا تھا کہ ان سے اشارہ کر کے کسی کو بتا سکوں کہ میں جاگ رہا ہوں۔ میں خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا۔۔۔ گوند میں پھنسے کسی کیڑے کی طرح۔ پس منظر میں کسی مشین۔۔۔ میرے خیال میں پھیپھڑوں سے دل جدا کرنے کی مشین۔۔۔ کے گھرگھرانے کی آواز آ رہی تھی۔ میرے حواس جزوی طور پر بحال کیوں ہوئے تھے؟ کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ انستھیزیاجزوی طور پر غیر موثر تھا یا مجھے اس کی صحیح مقدار نہیں دی گئی تھی؟ اگر میں اس مرحلے پر پہنچ گیا تھا تو کیا اس کا مطلب ہے کہ میرے مزید حواس بحال ہوں گے؟ میں نے ہارٹ سرجری کے بارے میں تھوڑی بہت ریسرچ کی تھی اور میں یہ جانتا تھا کہ وہ دل کو کام سے روک دیتے ہیں۔ کیا میں آپریشن کے دوران مر گیا تھا؟ کیا اس وقت میں ایک روح تھا؟ کیا اسی وجہ سے میں وہ سب سن سکتا تھا، جو ہو رہا تھا؟ کیا کم جون ینگ نے میرے آپریشن کے دوران آسٹریلیا پر نیوکلئیر بم گرا دیا تھا؟ کیا کسی کو اس امر کا ادراک تھا شمالی کوریا ایٹمی دوڑ میں بہت آگے تھا؟ میرے خون سے خالی دل کو دہشت کے سرد ہاتھ نے بھینچ لیا۔اس سے پہلے صرف ایک مرتبہ میں نے خود کو اسی طرح بے بس محسوس کیا، اس وقت پیش آیا جب میری عمر سات سال تھی، کرسمس کے دن میرے بڑے کزن نے میرے منہ میں کپڑا ٹھونسا اور میرے ہاتھ پاؤں باندھنے کے بعد مجھے کپڑوں کی الماری میں بند کر دیا اور پھر بڑوں کے ساتھ ڈنر کھانے چلا گیا۔
“چلیں، والو فکس ہو گیا، اب مریض کے ٹانکوں کی باری ہے”
میں نے اپنے دل میں سے سوئی تاگا دھاگہ گزرنے کا تصور کیا۔ ایک ٹانکے کے بعد ایک ٹانکا، جیسے مجھے اکٹھا کیا جا رہا ہو۔
“اس پسلی کو تار سے باندھو۔” اگلی ہدایت تھی، جو میرے سُن کانوں تک پہنچی۔
میں نے ہاتھ سے اشارہ کر کے یہ بتانے کی کوشش کہ میں ہوش میں ہوں، مگر میرے دماغ نے عضلات کو سگنل نہیں بھیجا۔ کاش میں اپنے ایک پاؤں کو ہی حرکت دے سکتا۔ انستھیزیا نے اثر کیوں نہیں کیا؟ کیا میرا آپریشن کرنے والے احمق ہیں؟ کیا اس کا اثر مزید کم ہو گا؟ کیا میں رُکے ہوئے دل کے ساتھ مردہ آدمی کا درد محسوس کرنے والا ہوں؟
ایک زنانہ آواز سنائی دی۔
“ایک منٹ رکو، میں نے ایک آنکھ کو پھڑکتے دیکھا ہے۔ یہ ٹھیک نہیں۔۔۔ کارل تم اپنا کام کرو۔ ہمیں ضرورت ہے کہ تم اپنے کام پر پوری توجہ دو۔”
“ارے خانہ خراب۔۔۔ سوری” بڑبڑاہٹ میں جواب سنائی دیا، “میں ابھی مقدار بڑھا دیتا ہوں۔”
تو میں نوسکھیوں کے ہتھے چڑھ گیا ہوں۔ لعنت ہے نیوزی لینڈ کے میڈیکل سسٹم پر۔ کیا ان لوگوں نے کوئی ڈھنگ کی تعلیم حاصل نہیں کی؟ کیا ان کی عملی تربیت نہیں ہوئی؟ دل کا آپریشن ہو گیا تھا اور اب وہ مجھے واپس بحال کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اس کے بعد جو مجھے یاد رہا، میں ہسپتال کے ایک سنسان وارڈ میں جاگ رہا تھا۔ میں مارفین کے زیرِ اثر تھا، جس وقت نرس کی راہ نمائی میں سرجن مجھے دیکھنے آیا۔ مارفین کی غنودگی کے باوجود میں نے اپنی روداد سنانے کی ٹھان لی۔ میں شدید غصے میں تھا۔ انستھیزیسٹ نے اپنا کام ٹھیک سے کیوں نہیں کیا؟
“ہمارے مریض کا کیا حال ہے؟”
“قطعاً ٹھیک نہیں۔ میں آپریشن کے دوران ہوش میں کیوں آیا؟ مجھے اس کی بہت سے باتیں یاد ہیں۔ مجھے تمھارا ہدایات دینا یاد ہے۔ پھر ایک عورت کا کہنا کہ مجھ پر دوا کا پورا اثر نہیں ہوا، اور یہ کہ اس نے میری ایک آنکھ کو پھڑکتے دیکھا ہے۔ مکی ماؤس ٹائپ کے تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو؟
سرجن نے قہقہہ لگایا، جب کہ نرس سٹپٹا گئی۔
“اوہ! بسا اوقات مریض آپریشن کے دوران اس نوع کے ان ہونے مناظر دیکھتے ہیں۔ یہ انستھیزیا کے زیرِ اثر ہوتا ہے۔”
“نری بکواس، مجھے سب پتا ہے، جو میں نے سنا۔”
سانس کی ٹیوب جس جگہ میرے گلے کو چھوتی ہوئی گزر رہی تھی، وہ جگہ سوجی ہوئی تھی لیکن میں ٹھان چکا تھا کہ اپنی بات پوری کر کے رہوں گا۔ سرجن نے میرا ہاتھ تھپتھپایا۔
“پریشان نہ ہوں۔ آپ ایک خوف ناک تجربے سے گزرے ہیں۔ کسی حد تک بے یقینی کا شکارہونا معمول ہے۔ آپ کی گرل فرینڈ نے فون کیا تھا، اس کا کہنا ہے، اس نے پیچھے گھر پر تمھارے لیے سب بندوبست کر لیا ہے۔”
اس کا فون بجنے لگا۔
“اوہ، کسی کو میری ضرورت ہے۔”
وہ راہ داری کو چل دیا، نرس اس کے پیچھے پیچھے تھی۔
میں ایک ہفتہ مزید وارڈ میں رہا۔ کیری ہر رات فون کرتی۔ مجھے اس کی آواز سُن کر مسرت ہوتی۔ کوئی ایسی بات سننا جو مجھےنیلسن کی یاد دلائے، اچھا لگتا تھا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ سرجری کے بعد چار مہینے تک میں اپنے کام پر نہیں جا سکوں گا۔ چناں چہ مجھے بہت سا وقت اپنے گھر پر گزارنا تھا۔۔۔ مطالعہ کرتےاور ساحل پر سیر کرتے۔۔۔ اس کوشش میں کہ اپنے بڑے آپریشن کے بعدبحال ہو سکوں۔
نرسوں میں سے ایک نے مجھے مشورہ دیا کہ اٹھوں اور زیادہ سے زیادہ، جتنا پیدل چل سکوں، چلوں۔ میں نے راہ داریوں میں۔۔۔ آگے پیچھے، پیچھے آگے، کسی آوارہ روح کی مانند۔۔۔ آہستہ آہستہ چلنا شروع کر دیا، اور پھر ہمت کر کے سیڑھیوں پر چڑھنے لگا۔
جس روز انھوں نے مجھے ڈسچارج کیا، میں اپنا مثانہ خالی کرنے مردانہ واش روم گیا۔ مجھے یورینیٹر کی طرف سے آتی ہوئی ایک جانی پہچانی آواز سنائی دی۔
“خدایا! اس رات زبردست پارٹی تھی۔ میں اتنا دھت تھا کہ اگلے روز بڑی مشکل سے اٹھا، اس کے باوجود کام پر پہنچ گیا۔ میں اپنی ملازمت کھونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ اس روز ایک اوپن ہارٹ سرجری کی۔”
میں نے جلدی سے ٹوائلٹ میں پانی بہایا اور بڑے کمرے میں نکل آیا۔۔۔ انستھیزیسٹ کو دیکھنے، جو اس وقت اپنی زپ بند کر رہا تھا۔ میں نے کچھ نہیں کہا لیکن کم از کم میرے اندیشوں کی تصدیق ہو گئی تھی۔
اگلے روز میں ہوائی جہاز کے ذریعے واپس نیلسن پہنچ گیا۔ کیری نے مکان کو گھر میں بدل دیا تھا۔۔۔ بستر پر تکونے تکیے اور باقی سب کچھ ۔ میرے والدین کی مرضی کے برعکس وہ میرے پاس شفٹ ہو گئی، تاکہ میرا زیادہ سے زیادہ خیال رکھ سکے۔۔۔ وہ اب بھی اپنے کام پر جا رہی تھی۔ میں وارفارِن warfarin اور پین کلرز استعمال کر رہا تھا۔ وار فارِن سے میرے بدن پر نیل پڑ گئے۔ جو کچھ ہوا تھا میں اس سے اتنا سہما ہوا تھا کہ سرجری کے بعد ایک ماہ تک میں دن بھر Fuzzy نامی شراب کی بوتل، جو کیری میرے لیے لائی تھی، ہاتھ میں تھامے بستر میں پڑا رہتا۔ میری والدہ بہت فکرمند تھیں۔ انھوں نے مجھے ایک ڈاکٹر کے پاس بھیجا کہ میرے لیے کوئی اینٹی ڈیپریشن دوا تجویز کرے۔ جو میں محسوس کرتا تھا، وہ ڈیپریشن نہیں بل کہ دہشت اور بے چینی تھی۔کس طرح نام نہاد میڈیکل سپشلسٹوں نے اس کا ستیاناس کیا؟ انستھیزیسٹ کو کام کرنے کی کیوں اجازت دی گئی؟ کیا آپریشن سے پہلے کسی نے نہیں دیکھا کہ وہ کس حالت میں ہے؟ ایسے غیر ذمہ دار شخص کو ملازمت پر کیوں رکھا گیا؟
بالآخر کیری نے مجھے باہر ساحلِ سمندر پر سیر کرنے اور اس کے بعد گرما گرم چاکلیٹ پینے پر آمادہ کر ہی لیا۔ یہ سیر اور اس کا انعام چاکلیٹ ہمارا روزانہ کا معمول بن گیا۔ جس کا اب میں ہر روز انتظار کرتا تھا۔۔۔ ہم چکر لگائیں گے۔ ساحلی پٹی پر اور پھر عقبی پٹی پر، جہاں لوگ اپنے کتے ٹہلاتے ہیں۔۔۔ پھر کیفے کی جانب۔
اگرچہ یہ بچگانہ محسوس ہو گا۔ میں نے اپنے ذہن کو مصروف رکھنے کے لیے بہت سی گیمز۔۔۔ کاٹان، ایگری کولا، ڈسک ورلڈ، کلائیڈو اور فرسٹ اراؤنڈ دی ورلڈ بھی کھیلتا۔میرے آجروں کا کہنا تھا کہ وہ چار مہینے تک میری نشست خالی رکھیں گے تاکہ اس دوران میں اپنی صحت بحال کر سکوں۔ آپ نیوزی لینڈ میں کسی معالج کے خلاف مقدمہ نہیں کر سکتے لیکن کیری کا کہنا تھا کہ مجھے ہیلتھ اینڈ ڈس ایبلٹی کمشنر کو باضابطہ شکایت کرنی چاہیے۔ میں نے اپنے بیان لکھا کہ میں دورانِ آپریشن ہوش میں آ گیا تھا اور پھر بعد میں انستھیزیسٹ کو یہ ڈینگ مارتے ہوئے بھی سنا کہ ایک رات پہلے وہ کتنا مدہوش تھا۔ میرے خط کی رسید ایک پرنٹڈ چٹ کے ذریعے دی گئی۔ پھر آٹھ ہفتے بعد مجھے ایک تحریر موصول ہوئی کہ وہ انستھیزیسٹ اب ہسپتال میں کام نہیں کرتا اور یہ کہ کوئی فردِ جرم عائد نہیں کی جائے گی۔
“اس کا کتنا زبردست اثر ہوا۔” میں نے سوچا، “انصاف کے لیے یہ بہت ہے۔”
میں نے اپنے بیمار دل کے ذمہ دار اپنے گندے خون پر لعنت بھیجی۔چوتھے مہینے کے اختتام پر میں نے خود کو معمول کے مطابق صحت مند محسوس کرتے ہوئے واپس لگے بندھے معمولات کی جانب، اپنےکام پر جانے کا منتظر پایا۔ کیا یہ سب انسان کو مایوسیوں کی گہرائیوں میں غوطے کھانے سے بچاتے ہیں؟ کیری نے گھر میں کچھ کتابیں رکھی تھیں، میں نے ان میں سے مختصر کہانیوں کے ایک مجموعے کو، جس میں پوسٹ مارٹم روم ۴ شامل تھی پہچان لیا، لیکن مجھے ہمت نہ ہوئی کہ اسے کھولوں اور ایک مرتبہ پھر سے پڑھوں۔
مجھے بار بار ڈراؤنے خواب دکھائی دینے لگے۔ جن میں سب سے خوف ناک یہ تھا کہ دوبارہ ہسپتال میں تھا، جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں میرا آپریشن ہو رہا ہے۔ساحل پر طویل چہل قدمی بھی اس دہشت ناک خواب سے میرا پیچھا نہیں چھڑا سکی۔ جہاں تک ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ہے تو وہ کسی حد تک ٹھنڈا ہو گیا تھا، یہاں تک کہ کم جون ینگ کے ساتھ مصالحانہ گفتگو کی باتیں کر رہا تھا۔ تاہم، وہ تمام اسلحہ جو ان دونوں کے پاس تھا، میرے ذہن پر سوار تھا۔ ایٹمی اسلحہ ٹائم بم کی مانند تھا، اس ٹائٹینیم والو کی مانند ٹک ٹک کرتا ہوا جو میرے دل میں لگایا کیا گیا تھا۔