Laaltain

نیا سال اور تعلیمی خوداحتسابی کی ضرورت

9 جنوری، 2014

فاروق احمدyouth-yell-inner1۲۰۱۳ ختم ھو گیا، ۲۰۱۴ آ گیا- اس سے پہلے بھی نئے سال آتے رہےہیں اور آئندہ بھی آتے رہیں گے- انسان کی تقدیر پہلی جنوری کو نہیں بدلتی اور نہ ہی سال کے بدلنے کے ساتھ لازماً سماجی و سیاسی زندگی میں تبدیلی رونما ہوتی ہے- نیا سال ہمیں احساس دلاتا ہےکہ وقت کا پہیہ کتنی تیزی کے ساتھ آگے بڑھتا چلا جا رہا ہےاور آج ہماری سماجی و سیاسی زندگی کس مقام پر ہے- ہر گزر جانے والا سال ہمیں یہ بتاتا ہے کہ وقت کےساتھ ساتھ ہمارے اجتماہی حالات سدھرنے کی بجائے بگڑتے ہی جا رہے ہیں- عوام کی امیدیں پوری ہونے کی بجائے مایوسی کی چٹان سے ٹکرا کر رہ گئی ہیں- مستقبل کی جگمگاتی روشنیوں کی بجائے ماضی کے دھندلکے فضا میں لہرا رہے ہیں- سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی ہمارے ملک میں بھوک کے مارے خاندان اجتماہی خودکشی کرنے پر مجبور ہیں- جب دنیا کی دیگر اقوام چاند پر قدم رکھ چکی ہیں اور مریخ کا قریب سے مشاہدہ کر رہی ہیں ہمارے ملک میں آج بھی ‘نظریاتی بنیادوں پر مادی اور سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے-

تازہ ترین سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں اس وقت ۹۷۷۶ سکول بغیر عمارت ،۸۱۶۳۳ سکول بغیر بجلی،۴۶۷۶۶ سکول بغیر پانی،۵۷۲۱۶ سکول بغیر لیٹرین اور ۴۳۴۸۱ سکول بغیر چاردیواری کے تعلیم میں مصروف ہیں-

ہمارا پڑوسی ملک بھارت جسے ہم اپنا ازلی دشمن تصور کرتےہیں اس نے خلا میں راکٹ بھیج کر سائنس اور خلائی تکنیک کے شعبے میں اہم مقام حاصل کر لیا ہے-دوسری طرف ہمارے ملک میں انسان کی عظمت اور استعداد سے منکر ہونے کا نظریہ گھڑا جا رہا ہے-آج وقت کہاں ہے اور ہم کہاں – اگر ماضی کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک بطورایک قوم ہماری کارکردگی کوئی بہت زیادہ اچھی نہیں رہی جس کے اسباب کی سچی جھوٹی گردان ہر بار نئی آوازوں میں پرانی کہانی کے ساتھ ہم بڑے تسلسل سے دیکھتے سنتے چلے آرہے ہیں- لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو اس تاریکی میں روشنی کی اس قدر کرنیں شروع سے موجود رہی ہیں کہ اگر ان کو ظہور کے صرف مناسب مواقع ہی فراہم کر دئیے جاتے تو آج چاروں طرف روشنی ہی روشنی ہوتی- زندگی کا کون سا ایسا شعبہ ہے جس میں انفرادی سطح پر ہماری قوم نے بےمثال کارکردگی کا مظاہرہ نہ کیا ہو- آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی بکھری ہوئی صلاحیتوں کو ایک جگہ جمع نہیں کر پائے انہیں کسی نظام کا حصہ نہیں بنایا اور ان میں تعمیر کے تسلسل کو قائم نہیں رکھا- اوپر سے نیچے تک پھیلی ہوئی ہمہ جہت اور ہمہ گیر بدعنوانی، مذہبی انتہاپسندی، سیاستدانوں کی نااہلی ،فوج کی بے جا مداخلت ،روز افزوں بڑھتی ہوئی دہشت گردی،لاقانونیت اور آخری سانسیں لیتی ہوئی معیشت نے ہمارے ملک کی بنیادیں تک کھوکھلی کر دی ہیں- اور تو اور تعلیم جس کے بل بوتے پر آج امریکہ اور یورپ نے سانئس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں اہم مقام حاصل کیا ہوا ہے،لیکن ہمارے ہاں آج بھی ۳ کروڑ بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں-اقوام متحدہ کے عالمی ادارے کی طرف سے مرتب کردہ رپورٹ کےمطابق پاکستان ۶۶سال سےبھی زائد عرصہ گزرنے کے باوجود تعلیم کے اہداف حاصل نہیں کر سکا جس کی بنیادی وجہ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی عدم دلچسپی ہے- یہ الگ بات ہے کہ ماضی میں بھی بہت ساری تعلیمی پالیسیاں تشکیل دی گئی تھی لیکن افسوس صد افسوس ان سب پالیسیوں کو کسی نہ کسی مصحلت کی بنا، پر الماریوں کی زینت بنا دیا گیا اور آج وہ ثقافتی ورثہ کے طور پر موجود ہیں- آج پاکستان کی آبادی تیئس کروڑ کے لگ بھگ ہے جن میں ۱۰ سال سے زائد عمر کے ان پڑھ افراد کی تعداد ۵ کروڑ سے زیادہ ہے- بلوچستان میں المیہ یہ ہے کہ وہاں آج بھی ٪۸۰ خواتین ان پڑھ ہیں،علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں لوگوں کو اغوا کیا جا رہا ہے وہاں حالات بد سے بد ترہوتے چلے جا رہے ہیں اورہم ابھی تک خواب غفلت سے نہیں جاگے – ہمارے ہاں آج بھی مجموعی طور پر پاکستان کے دیہی علاقوں میں ۶۹٪ اور شہری علاقوں میں ۳۶٪ خواتین ناخواندہ ہیں- اگر پاکستان کا ایشیا میں ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس دیکھیں تو ۱۳۴ واں نمبر بنتا ہے- جو بھارت سے بھی ابتر ہے- اس فہرست میں ناروے سب سے پہلے نمبر پر ہے جہاں اوسط زندگی،شرح خواندگی،سکول میں داخل بچوں کا تناسب،نوزائیدہ میں شرح اموات اور فی کس آمدنی،خواتین میں شرح خواندگی سب سے بہتر ہے- پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہےجہاں تعلیم پر مجموعی پیداوار کا سب سے کم حصہ خرچ کیا جاتا ہے- بھارت میں جی ڈی پی کا ۳۔۳،پاکستان میں ۲۔۰،بنگلہ دیش میں ۲۔۱۔نیپال میں ۳۔۴،ایران میں ۴۔۸،اور مالدیپ ۸۔۵ فیصد تعلیم پر خرچ کر رہےہیں- حالیہ دنوں میں تازہ ترین سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں اس وقت ۹۷۷۶ سکول بغیر عمارت ،۸۱۶۳۳ سکول بغیر بجلی،۴۶۷۶۶ سکول بغیر پانی،۵۷۲۱۶ سکول بغیر لیٹرین اور ۴۳۴۸۱ سکول بغیر چاردیواری کے تعلیم میں مصروف ھیں- ایسے سکولز بھی ہزاروں میں ھیں جہاں سٹاف سو فیصد نہیں ہے- تو یہ ہے ہمارا نظام تعلیم۔۔۔۔ ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ جس ملک کے سیاستدان سکیورٹی کے نام پر ایک دن میں لاکھوں،کڑوروں روپے خرچ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ تو کیا وہ قوم ذلیل و خوار نہیں ہو گی؟
نیا سال ہمیں یہی احساس دلاتا ہے کہ ہم کب زمانے کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لائق ہوں گے-در حقیقت سال نو کا آغاز خود احتسابی کا متقاضی ہے- ہرشخص اپنےاپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھے کہ اس کے قول و فعل میں کوئی تضاد تو نہیں، انفرادی عمل اور اجتماعی مفاد میں کوئی تضاد تو نہیں- اپنی محدود دنیا سے متعین شدہ فکر اور اس وسیع کائنات کے تقاضوں میں تضاد تونہیں- اپنا انفرادی اور اجتماعی جائزہ لینے کے ساتھ سال نو عہد کرنے کی دعوت بھی دیتا ہے اور مظلوم و مجبور عوام کے لیے سب سے بڑا عہد یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی سماجی و روحانی غلامی کی زنجیریں توڑنے کا عہد کریں- ارباب حل و عقد کوئی اور عہد نہ کریں تو کم از کم کیے ہوئے وعدوں کو ایفا کریں- اگر نیا سال اس ملک کے عوام کے لیے زیادہ پرامید نہیں ہو سکتا تو خدارا اسے زیادہ تاریک بنانے کی کوشش نہ کی جائے-


Farooq-ahmed-khudiمضمون نگار سیاسیات کے طالب علم اور سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔


انتباہ: مجلس ادارت کا میگزین میں شامل قلمی معاونین کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ مشمولات کی اسناد اور حوالوں میں کمی یا بیشی کا ادارہ ذمہ دار نہ ہو گا۔
یوتھ یلزایک نیا رنگا رنگ سلسلہ ہے، جس میں نوجوان قلمکار بلا جھجک اپنے ھر طرح کے خیالات کا دوٹوک اظہار کر سکتے ہیں۔۔ آپ کا اسلوب سنجیدہ ہے یا چٹخارے دار۔۔ آپ سماج پر تنقید کا جذبہ لیے ہوئے ہیں یا خود پر ہنسنے کا حوصلہ۔۔۔۔ “لالٹین” آپ کی ہر تحریر کو خوشآمدید کہتا ہے۔

2 Responses

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

2 Responses

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *