سیروسیاحت، تاریخ اور آثار قدیمہ کے کسی بھی سنجیدہ قاری کے لیے سلمان رشید کا نام احنبی نہیں۔ اس خطے کے طول و عرض میں سفر اور تحقیق کےبعد نو کتابیں اور سینکڑوں مضامین تحریر کر چکے ہیں۔ آپ رائل جیوگرافیکل سوسائٹی کے فیلو بھی ہیں۔ اجمل جامی نے لالٹین کی طرف سے سلمان رشید کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کا خلاصہ قارئین کی نذر ہے۔
[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”2″]
جامی: سلمان رشید کون ہے؟؟
سلمان رشید: (لمبی سی سانس بھری اور کافی شاٹ میز پر رکھتے ہوئے) آہ! بلھیا کیہ جاناں میں کون۔ ویسے تو کچھ نہیں ہوں، بلکہ نہ جانے کیا ہوں اور کون ہوں۔ فقط اتنا معلوم ہے کہ ایک مسافر ہوں۔ جسے نگری نگری دیکھنے کا جنون تھا اور ہے۔ پاکستان کو سرسری نہیں بلکہ بقول میر؛
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا، جہانِ دیگر تھا
میں ‘دیگر’ دیکھنا چاہتا تھا، آغاز گو کہ سرسری انداز میں ہی ہوا۔ لیکن میرے جنون نے مجھے مسافر بنا دیا۔ ایسا مسافر جس نے نگاہ اور قلب کی خوب تسلی ہونے تک پاکستان کا چپہ چپہ دیکھ ڈالا۔
سلمان رشید: (لمبی سی سانس بھری اور کافی شاٹ میز پر رکھتے ہوئے) آہ! بلھیا کیہ جاناں میں کون۔ ویسے تو کچھ نہیں ہوں، بلکہ نہ جانے کیا ہوں اور کون ہوں۔ فقط اتنا معلوم ہے کہ ایک مسافر ہوں۔ جسے نگری نگری دیکھنے کا جنون تھا اور ہے۔ پاکستان کو سرسری نہیں بلکہ بقول میر؛
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا، جہانِ دیگر تھا
میں ‘دیگر’ دیکھنا چاہتا تھا، آغاز گو کہ سرسری انداز میں ہی ہوا۔ لیکن میرے جنون نے مجھے مسافر بنا دیا۔ ایسا مسافر جس نے نگاہ اور قلب کی خوب تسلی ہونے تک پاکستان کا چپہ چپہ دیکھ ڈالا۔
جامی: عموما سفر عارضی نوعیت کے ہوا کرتے ہیں، سلمان رشید ساری عمر سے ہی مسافر ہیں۔ سفر کرنے کی جستجو کب اور کیسے پیدا ہوئی؟
سلمان رشید: ہم جالندھر سے ہیں، لاہور کی پیدائش ہوں، انیس سو بہتر میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا، اور اٹھہتر میں خیر باد کہہ دیا،ایک پاگل پن تھا جس نے چین نہ لینے دیا، ڈسپلن فورس میں رہ کر بھی بولنے سے نہ رکا، جو جی آیا کہا، ڈسپلن فالو نہ ہو سکا، سب سینئر افسران کے ساتھ بھی دو بدو مکالمہ کرنے سے چنداں نہ گھبرایا یعنی؛
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
کیرئیر خراب کر لیا اور جب نبھ نہ پائی تو استعفی دے کر گھر آن پہنچا، سوچا تھل میں والد صاحب کی زمین ہے اسے آباد کروں گا، معلوم ہوا وہ زمین بک چکی ہے، کراچی بسیرا کیا، ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کی جہاں اتفاقا ہر ہفتے دو روز کی آزادی مل جایا کرتی تھی۔ بس، سیر و سیاحت کاباقاعدہ آغاز کراچی سے ہی ہوا، ملیر ندی کے آس پاس دو دو دن پیدل چلا، فطرت کو قریب سے دیکھا، پھر پورا سندھ دیکھ لیا، میں اکثر کہا کرتا ہوں، "میں نےسندھ اتنا دیکھا ہے کہ سندھیوں نے بھی سندھ نہ دیکھا ہوگا”
سلمان رشید: ہم جالندھر سے ہیں، لاہور کی پیدائش ہوں، انیس سو بہتر میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا، اور اٹھہتر میں خیر باد کہہ دیا،ایک پاگل پن تھا جس نے چین نہ لینے دیا، ڈسپلن فورس میں رہ کر بھی بولنے سے نہ رکا، جو جی آیا کہا، ڈسپلن فالو نہ ہو سکا، سب سینئر افسران کے ساتھ بھی دو بدو مکالمہ کرنے سے چنداں نہ گھبرایا یعنی؛
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
کیرئیر خراب کر لیا اور جب نبھ نہ پائی تو استعفی دے کر گھر آن پہنچا، سوچا تھل میں والد صاحب کی زمین ہے اسے آباد کروں گا، معلوم ہوا وہ زمین بک چکی ہے، کراچی بسیرا کیا، ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کی جہاں اتفاقا ہر ہفتے دو روز کی آزادی مل جایا کرتی تھی۔ بس، سیر و سیاحت کاباقاعدہ آغاز کراچی سے ہی ہوا، ملیر ندی کے آس پاس دو دو دن پیدل چلا، فطرت کو قریب سے دیکھا، پھر پورا سندھ دیکھ لیا، میں اکثر کہا کرتا ہوں، "میں نےسندھ اتنا دیکھا ہے کہ سندھیوں نے بھی سندھ نہ دیکھا ہوگا”
جامی: یعنی لکھت پڑھت، نہ رسید نہ کھاتا، دیوانہ وار مسافر گھومتا رہا۔ لیکن پھر ہم دیکھتے ہیں کہ لکھت پڑھت کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے جس نے پوری دنیا کو بتایا کہ آؤ دیکھو۔ یہ ہے میرا پاکستان، سیر و سیاحت کے لیے آپ کی تحریریں لاجواب ہیں۔یہ سلسلہ کب شروع ہوا؟
سلمان رشید: کراچی میں ہی تھا، پی ٹی ڈی سی کسی کام سے گیا، سن تراسی کی بات ہے ۔ وہاں ایک بہت ہی خوبصورت خاتون سے ملاقات ہوئی۔
سلمان رشید: کراچی میں ہی تھا، پی ٹی ڈی سی کسی کام سے گیا، سن تراسی کی بات ہے ۔ وہاں ایک بہت ہی خوبصورت خاتون سے ملاقات ہوئی۔
میں سیاح نہیں، بلکہ مسافر ہوں۔ ٹریولنگ میرا جنون ہے۔ ایکسپلور کرنا فطرت میں ہے۔ مجھے ذاتی طور پر سب سے زیادہ فیسی نیٹ کھیر تھر کے پہاڑی سلسلے نے کیا۔ سچ بتاؤں تو یہاں اس علاقے میں انسان نظر نہیں آتے۔ سوائے اپنے آپ کے۔ اور شاید یہی میری سب سے بڑی فیسی نیشن ہے۔
جامی: دیسی حساب سے تُکا لگایا جائے تو یہی خاتون پھر ہمسفر بنیں؟
(زور دار قہقہہ فضا میں بلند ہوا، جس کے بعد ہم نے تُکے کی بجائے گیان سے مدد لی تو معلوم ہوا کہ پکچر ابھی باقی ہے)
سلمان رشید: جامی یار، اس خاتون کا نام طلعت تھا، میری ہمسفر کا نام البتہ شبنم ہے۔ (قہقہہ)
پی ٹی ڈی سی میں طلعت سے ملاقات ہوئی(جو بعد میں بہت اچھی دوست ثابت ہوئیں) ۔ طلعت نے مشورہ دیا کہ آپ ہمارے میگزین کے لیے سیر و سیاحت پر لکھیں۔ پہلا مضمون فوکس آن پاکستان میں تراسی میں ہی شا ئع ہوا۔ یہ مضمون رانی کوٹ قلعے پر لکھا۔ طلعت نے کہا کہ اس مضمون کے ساتھ تصاویر بھی درکار ہیں،ادھار کیمرا مانگا، جس سے تصاویر حاصل کیں اور یوں پہلا مضمون مکمل ہوا اور پھر یہ سلسلہ بھی پٹڑی پر چڑھ گیا۔ طلعت ہی نے پی آئی کے میگزین ‘ہمسفر’ کے لیے لکھنے کا مشورہ دیا، چھیاسی میں طلعت کے ہی کہنے پر روزنامہ ڈان کے شام کے اخبار سٹار کے لیے لکھنا شروع کیا۔ پرانی دوست ثنیہ حسن سے ملاقات سٹار کے دفتر میں ہوئی۔ جو یہ سن کر کہ میں اخبار کے لیے لکھنا چاہتا ہوں۔ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئی۔ وہیں زہرہ یوسف جیسی قد آور شخصیت سے متعارف ہوا۔ مضمون لکھا تو اخبار کے مدیران خوشگوار حیرانی میں مبتلا ہو گئے۔ امبر خیری نے میرے مضمون پڑھ کر تبصرہ کیا کہ اس مسافر کے ہاں ایک پاگل لکھاری بھی بستا ہے۔ سن اٹھاسی میں لاہور واپس آگیا، پاکستان ٹائمز کے لیے لکھا جہاں آئی اے رحمان جیسے استادوں کی رہنمائی حاصل ہوئی۔ یہ لوگ بہت عظیم ہیں، بڑے لوگوں کی ایک نشانی ہوتی ہے، یہ اپنی بڑائی سن کر قدرے ایمبیرس سے ہو جاتے ہیں۔ رحمان صاحب نے اس پاگل مسافر کے قلم سے بہت لکھوایا، فرنٹیئر پوسٹ کے لیے بھی لکھا۔ جہاں بینا سرور سے بہت اچھی ملاقاتیں رہیں۔ بینا نے دی نیوز جوائن کیا تو مجھے بھی وہاں لے گئیں، پہلی بار ادارے نے مجھے مضمون کے ساتھ ساتھ سفری اخراجات بھی آفر کیے۔ تقریبا بیس سال ہوگئے۔ نیوز کے لیے لکھ رہا ہوں۔ ساتھ ساتھ ہیرالڈ کے لیے بھی لکھا۔اس سب کے علاوہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ساتھ منسلک رہا، ماحولیات کے موضوع پر دسترس رہی، مزاح کے موضوع پر بھی طبع آزمائی کی۔
(زور دار قہقہہ فضا میں بلند ہوا، جس کے بعد ہم نے تُکے کی بجائے گیان سے مدد لی تو معلوم ہوا کہ پکچر ابھی باقی ہے)
سلمان رشید: جامی یار، اس خاتون کا نام طلعت تھا، میری ہمسفر کا نام البتہ شبنم ہے۔ (قہقہہ)
پی ٹی ڈی سی میں طلعت سے ملاقات ہوئی(جو بعد میں بہت اچھی دوست ثابت ہوئیں) ۔ طلعت نے مشورہ دیا کہ آپ ہمارے میگزین کے لیے سیر و سیاحت پر لکھیں۔ پہلا مضمون فوکس آن پاکستان میں تراسی میں ہی شا ئع ہوا۔ یہ مضمون رانی کوٹ قلعے پر لکھا۔ طلعت نے کہا کہ اس مضمون کے ساتھ تصاویر بھی درکار ہیں،ادھار کیمرا مانگا، جس سے تصاویر حاصل کیں اور یوں پہلا مضمون مکمل ہوا اور پھر یہ سلسلہ بھی پٹڑی پر چڑھ گیا۔ طلعت ہی نے پی آئی کے میگزین ‘ہمسفر’ کے لیے لکھنے کا مشورہ دیا، چھیاسی میں طلعت کے ہی کہنے پر روزنامہ ڈان کے شام کے اخبار سٹار کے لیے لکھنا شروع کیا۔ پرانی دوست ثنیہ حسن سے ملاقات سٹار کے دفتر میں ہوئی۔ جو یہ سن کر کہ میں اخبار کے لیے لکھنا چاہتا ہوں۔ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئی۔ وہیں زہرہ یوسف جیسی قد آور شخصیت سے متعارف ہوا۔ مضمون لکھا تو اخبار کے مدیران خوشگوار حیرانی میں مبتلا ہو گئے۔ امبر خیری نے میرے مضمون پڑھ کر تبصرہ کیا کہ اس مسافر کے ہاں ایک پاگل لکھاری بھی بستا ہے۔ سن اٹھاسی میں لاہور واپس آگیا، پاکستان ٹائمز کے لیے لکھا جہاں آئی اے رحمان جیسے استادوں کی رہنمائی حاصل ہوئی۔ یہ لوگ بہت عظیم ہیں، بڑے لوگوں کی ایک نشانی ہوتی ہے، یہ اپنی بڑائی سن کر قدرے ایمبیرس سے ہو جاتے ہیں۔ رحمان صاحب نے اس پاگل مسافر کے قلم سے بہت لکھوایا، فرنٹیئر پوسٹ کے لیے بھی لکھا۔ جہاں بینا سرور سے بہت اچھی ملاقاتیں رہیں۔ بینا نے دی نیوز جوائن کیا تو مجھے بھی وہاں لے گئیں، پہلی بار ادارے نے مجھے مضمون کے ساتھ ساتھ سفری اخراجات بھی آفر کیے۔ تقریبا بیس سال ہوگئے۔ نیوز کے لیے لکھ رہا ہوں۔ ساتھ ساتھ ہیرالڈ کے لیے بھی لکھا۔اس سب کے علاوہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ساتھ منسلک رہا، ماحولیات کے موضوع پر دسترس رہی، مزاح کے موضوع پر بھی طبع آزمائی کی۔
جامی:۔ ویسے تو ہر سفر ہی منفرد رہا۔ کوئی ایسا پڑاؤ جہاں سے اٹھنے کو جی نہ چاہا؟
سلمان رشید: میں سیاح نہیں، بلکہ مسافر ہوں۔ ٹریولنگ میرا جنون ہے۔ ایکسپلور کرنا فطرت میں ہے۔ مجھے ذاتی طور پر سب سے زیادہ فیسی نیٹ کھیر تھر کے پہاڑی سلسلے نے کیا۔کھیر تھر کا مطلب ہے؛ دودھ ملائی کے پہاڑ۔ کھیر تھر کا سلسلہ سندھ اور بلوچستان یعنی کراچی کے شمال سے شروع ہو کر قلات سے جا ملتا ہے۔ یہاں سنگلاخ اور خشک پہاڑ ہیں۔ بیچ میں ندیاں ہیں۔جن کا پانی سبز اوراس قدر شفاف کہ بیچ میں تیرتی مچھلیاں عام آنکھ سے دکھائی دیتی ہیں۔ سچ بتاؤں تو یہاں اس علاقے میں انسان نظر نہیں آتے۔ سوائے اپنے آپ کے۔ اور شاید یہی میری سب سے بڑی فیسی نیشن ہے۔
سلمان رشید: میں سیاح نہیں، بلکہ مسافر ہوں۔ ٹریولنگ میرا جنون ہے۔ ایکسپلور کرنا فطرت میں ہے۔ مجھے ذاتی طور پر سب سے زیادہ فیسی نیٹ کھیر تھر کے پہاڑی سلسلے نے کیا۔کھیر تھر کا مطلب ہے؛ دودھ ملائی کے پہاڑ۔ کھیر تھر کا سلسلہ سندھ اور بلوچستان یعنی کراچی کے شمال سے شروع ہو کر قلات سے جا ملتا ہے۔ یہاں سنگلاخ اور خشک پہاڑ ہیں۔ بیچ میں ندیاں ہیں۔جن کا پانی سبز اوراس قدر شفاف کہ بیچ میں تیرتی مچھلیاں عام آنکھ سے دکھائی دیتی ہیں۔ سچ بتاؤں تو یہاں اس علاقے میں انسان نظر نہیں آتے۔ سوائے اپنے آپ کے۔ اور شاید یہی میری سب سے بڑی فیسی نیشن ہے۔
جامی:۔ اس کے علاوہ ؟
سلمان رشید:۔ بلوچستان سارا کا سارا بہت پسند ہے۔ ضلع خاران کا قدرتی حسن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ واشوک سرسری طور پر دیکھا۔ ایسی عجیب جگہ ہے کہ بس۔ سبزہ کم ہے۔ لیکن اس خطے میں ایک مردانہ وجاہت ہے۔ جیسے کہ اسی علاقے میں ایک وادی مُولا ہے۔انت ہے، اخیر انت۔ اللہ کرے حالات پر امن ہوں اورہم ان علاقوں کو جی بھر کے دیکھ سکیں۔
سلمان رشید:۔ بلوچستان سارا کا سارا بہت پسند ہے۔ ضلع خاران کا قدرتی حسن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ واشوک سرسری طور پر دیکھا۔ ایسی عجیب جگہ ہے کہ بس۔ سبزہ کم ہے۔ لیکن اس خطے میں ایک مردانہ وجاہت ہے۔ جیسے کہ اسی علاقے میں ایک وادی مُولا ہے۔انت ہے، اخیر انت۔ اللہ کرے حالات پر امن ہوں اورہم ان علاقوں کو جی بھر کے دیکھ سکیں۔
گلیشیر کا ایک ٹریک ہے۔ بیافو سمگانگ لکپیلا بورالدو۔ جتنا مشکل نام ہے اس سے کہیں زیادہ مشکل یہ ٹریک ہے۔ پہلا پاکستانی ہوں جس نے ایک سو چالیس کلومیٹر کا یہ دشوار گزار ٹریک مکمل کیا۔ گو کہ اس کے دعوے دار بہت ہیں۔ ایسے ایسے لوگ بھی جو شاید پانچ کلومیٹر کا ٹریک بھی مکمل نہ کر سکیں۔
جامی:۔ شمال کی جانب واقع وادیوں بارے کیا خیال ہے مسافر کا؟
سلمان رشید:۔ مجھے دیہاتی وادیاں بہت لبھاتی ہیں۔ دیو وسائی کا علاقہ دل کو لگا۔ یہاں ایک بار چار راتیں بسر کیں۔ آج کے دور میں تو سڑکیں ہیں، سہولیات ہیں۔ جیسے اس مسافر نے یہ وادی دیکھی ویسے دیکھنے کا اب محض خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنے سفر ناموں میں بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ جو یقینا افسانے ہیں۔ گلیشیر کا ایک ٹریک ہے۔ بیافو سمگانگ لکپیلا بورالدو۔ جتنا مشکل نام ہے اس سے کہیں زیادہ مشکل یہ ٹریک ہے۔ پہلا پاکستانی ہوں جس نے ایک سو چالیس کلومیٹر کا یہ دشوار گزار ٹریک مکمل کیا۔ گو کہ اس کے دعوے دار بہت ہیں۔ ایسے ایسے لوگ بھی جو شاید پانچ کلومیٹر کا ٹریک بھی مکمل نہ کر سکیں۔
سلمان رشید:۔ مجھے دیہاتی وادیاں بہت لبھاتی ہیں۔ دیو وسائی کا علاقہ دل کو لگا۔ یہاں ایک بار چار راتیں بسر کیں۔ آج کے دور میں تو سڑکیں ہیں، سہولیات ہیں۔ جیسے اس مسافر نے یہ وادی دیکھی ویسے دیکھنے کا اب محض خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنے سفر ناموں میں بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ جو یقینا افسانے ہیں۔ گلیشیر کا ایک ٹریک ہے۔ بیافو سمگانگ لکپیلا بورالدو۔ جتنا مشکل نام ہے اس سے کہیں زیادہ مشکل یہ ٹریک ہے۔ پہلا پاکستانی ہوں جس نے ایک سو چالیس کلومیٹر کا یہ دشوار گزار ٹریک مکمل کیا۔ گو کہ اس کے دعوے دار بہت ہیں۔ ایسے ایسے لوگ بھی جو شاید پانچ کلومیٹر کا ٹریک بھی مکمل نہ کر سکیں۔
جامی: کشمیر کی سیرو سیاحت بھی خوب کی آپ نے۔ یہاں کا تجربہ کیسا رہا؟
سلمان رشید: وادی نیلم۔ جسکا اصل نام کشن گنگا ہے، لاجواب ہے، خوبصورتی جگہ جگہ چھلکتی ہے۔ یہاں کا طرز تعمیر قدرے یورپین ہے۔ جو اس وادی کو دیگر وادیوں سے ممتا ز کرتا ہے۔ باقی معروف جگہیں اب بہت کمرشل ہو چکیں۔ لہذا ان کا تذکرہ پھر سہی۔ سون سکیسر ایک ایسا مقام ہے جہاں کسی بھی موسم میں جایا جا سکتا ہے۔ یہاں ویرانہ بھی ہے اور ہجوم بھی۔
سلمان رشید: وادی نیلم۔ جسکا اصل نام کشن گنگا ہے، لاجواب ہے، خوبصورتی جگہ جگہ چھلکتی ہے۔ یہاں کا طرز تعمیر قدرے یورپین ہے۔ جو اس وادی کو دیگر وادیوں سے ممتا ز کرتا ہے۔ باقی معروف جگہیں اب بہت کمرشل ہو چکیں۔ لہذا ان کا تذکرہ پھر سہی۔ سون سکیسر ایک ایسا مقام ہے جہاں کسی بھی موسم میں جایا جا سکتا ہے۔ یہاں ویرانہ بھی ہے اور ہجوم بھی۔
جامی: جناب مسافر ہیں، سیاح نہیں۔ بات پلے نہیں پڑی۔
سلمان رشید: بھولے بادشاہو!سیاح تو ہر گز نہیں۔ ٹریولر ہوں، مسافر ہوں، وہ ڈھونڈنے جاتا ہوں، جو پہلے لوگوں نے دیکھا۔ یہ فرق جاننے کے لیے کہ اب میں کیا دیکھتا ہوں۔
سلمان رشید: بھولے بادشاہو!سیاح تو ہر گز نہیں۔ ٹریولر ہوں، مسافر ہوں، وہ ڈھونڈنے جاتا ہوں، جو پہلے لوگوں نے دیکھا۔ یہ فرق جاننے کے لیے کہ اب میں کیا دیکھتا ہوں۔
جامی: ہر جگہ نئی ہوتی ہے مسافر کے لیے۔ وہاں کے باسی بھی شاید کسی مسافر کے لیے اجنبی ہی ہوتے ہیں۔ لوگ کیسے ملے؟
سلمان رشید: میری خوش قسمتی ہے کہ جہاں گیا۔ بہت اچھے لوگ ملے۔ چالیس سال سے ٹریولنگ کر رہا ہوں۔ محبت کرنے والے میزبان ملے، ہاتھ پکڑ کر گھر لے گئے، کہ آئیے، کھانا ہمارے ہاں کھائیے، اور یہ خوبی پاکستانیوں کو باقی دنیا سے بہت ممتاز کرتی ہے۔ فوجی ملازمت کے ابتدائی روز تھے، ٹلہ جوگیاں مشقیں جاری تھیں، میں ہمیشہ دور بین لے کر دور ٹیلے کی ٹاپ کا مشاہدہ کرتا رہتا تھا۔ چھٹی ملی تو ایک دوست کو ساتھ لے کر ٹلہ جوگیاں آن نکلا۔ رات کا وقت تھا،سوچا قریبی گاؤں کی مسجد ڈھونڈی جائے کہ رات بسر ہو سکے۔ ایک صاحب سے مسجد کا پتہ پوچھا اور جب انہیں وجہ معلوم ہوئی کہ ہم مسجد کا پتہ کیوں پوچھ رہے ہیں تو وہ شدید برہم ہوئے۔یہ کہہ کر "کی پنڈ دے لوکی مر گئے نیں؟ ” وہ گھر لے آئے، خاطر مدارت کی، اور پھر ہم اگلے روز ٹیلے کی سیر کرنے نکل گئے۔
سلمان رشید: میری خوش قسمتی ہے کہ جہاں گیا۔ بہت اچھے لوگ ملے۔ چالیس سال سے ٹریولنگ کر رہا ہوں۔ محبت کرنے والے میزبان ملے، ہاتھ پکڑ کر گھر لے گئے، کہ آئیے، کھانا ہمارے ہاں کھائیے، اور یہ خوبی پاکستانیوں کو باقی دنیا سے بہت ممتاز کرتی ہے۔ فوجی ملازمت کے ابتدائی روز تھے، ٹلہ جوگیاں مشقیں جاری تھیں، میں ہمیشہ دور بین لے کر دور ٹیلے کی ٹاپ کا مشاہدہ کرتا رہتا تھا۔ چھٹی ملی تو ایک دوست کو ساتھ لے کر ٹلہ جوگیاں آن نکلا۔ رات کا وقت تھا،سوچا قریبی گاؤں کی مسجد ڈھونڈی جائے کہ رات بسر ہو سکے۔ ایک صاحب سے مسجد کا پتہ پوچھا اور جب انہیں وجہ معلوم ہوئی کہ ہم مسجد کا پتہ کیوں پوچھ رہے ہیں تو وہ شدید برہم ہوئے۔یہ کہہ کر "کی پنڈ دے لوکی مر گئے نیں؟ ” وہ گھر لے آئے، خاطر مدارت کی، اور پھر ہم اگلے روز ٹیلے کی سیر کرنے نکل گئے۔
جامی: استاد، یہ نگری نگری گھوم مسافر اور سندھیا میں سکندر کی کیا رام کہانی ہے؟
سلمان رشید: یار بھلا ہو منیزہ ہاشمی کا، ورنہ ٹی وی کے لیے یہ ڈاکومینٹریاں کبھی بھی تیار نہ ہو پاتیں، ہمارے سرکاری ٹی وی کے کرتا دھرتا بادشاہ لوگ ہیں۔ کیا افسر اور کیا ایک عام ملازم، سب ہڈ حرام ہیں۔ ہاں، ایک کیمرہ مین تھا، دلنواز خان۔ بہت جان ماری کی اس نے۔ واقعی دلنواز تھا وہ۔ منیزہ نہ ہوتیں تو نگری نگری گھوم مسافر اور سندھیا میں سکندرجیسی سفری ڈاکومنٹریاں شاید خواب ہی رہتیں۔
سلمان رشید: یار بھلا ہو منیزہ ہاشمی کا، ورنہ ٹی وی کے لیے یہ ڈاکومینٹریاں کبھی بھی تیار نہ ہو پاتیں، ہمارے سرکاری ٹی وی کے کرتا دھرتا بادشاہ لوگ ہیں۔ کیا افسر اور کیا ایک عام ملازم، سب ہڈ حرام ہیں۔ ہاں، ایک کیمرہ مین تھا، دلنواز خان۔ بہت جان ماری کی اس نے۔ واقعی دلنواز تھا وہ۔ منیزہ نہ ہوتیں تو نگری نگری گھوم مسافر اور سندھیا میں سکندرجیسی سفری ڈاکومنٹریاں شاید خواب ہی رہتیں۔
مجھے حیرانی ہوتی ہے ان لوگوں پر جو سینہ ٹھونک کے یہ کہتے ہیں؛ "توں مینوں جاندا نئیں میں کون آں”۔ ایسے لوگ کس قدر بے وقوف ہیں۔ اپنے نہ ہونے کا احساس ہی ویرانے میں ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے صوفی ملنگ جنگل ویرانے کا رخ کرتے تھے۔ اپنے نہ ہونے کے احساس کو محسوس کرنے کے لیے۔ اور یقین جانیے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔
جامی: سندھیا میں سکندر ٹی وی کا سفر نامہ تو ہے ہی، لیکن اس میں آپ نے سکندر اعظم کی اس خطے میں موجودگی کے حوالے سے کئی تاریخی حقائق سے بھی پردہ ہٹا یا ہے۔ کیا الیگزینڈر دی گریٹ کو راجہ پورس سے واقعی شکست ہوئی تھی؟ آپ کی کیا فائنڈنگز ہیں؟؟
سلمان رشید: سکندر کو راجہ پوروا سے شکست ہوئی، یہ جھوٹ ہے۔ اس دن بلا کا رن ضرور پڑا۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ سکندر باجوڑ کے قریب سے اس علاقے میں داخل ہو ا تھا، نواگئی پہنچا، شمال بالخصوص سوات سے ہوتا ہوا ٹیکسلا پہنچا اور واپسی گوادر کے رستے ہوئی۔ میدان منڈی بہاوالدین میں لگا تھا، چالیس ہزار کا لشکر سکندر کا اپنا تھا، پانچ ہزار سپاہی ٹیکسلا کے راجہ نے دیے تھے۔ راجہ پورس کی سپاہ کی تعداد پچیس ہزار تھی۔ پوروا کو شکست ہوئی۔ اس موقع پر سکندر نے پوچھا، بولو راجہ! تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ جواب میں راجہ پورس نے تاریخی جواب دیا۔ اس نے کہا،میرے ساتھ وہی سلوک کیا جائے، جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ سکندر پھر گویا ہوا تو جواب میں راجہ پورس نے کہا کہ میرے جواب میں مزید وضاحت کی گنجا ئش نہیں۔ یہ بات سن کر سکندر اعظم متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ لہذا سکندر نے راجہ پورس کو سلنطت واپس دان دی۔
سلمان رشید: سکندر کو راجہ پوروا سے شکست ہوئی، یہ جھوٹ ہے۔ اس دن بلا کا رن ضرور پڑا۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ سکندر باجوڑ کے قریب سے اس علاقے میں داخل ہو ا تھا، نواگئی پہنچا، شمال بالخصوص سوات سے ہوتا ہوا ٹیکسلا پہنچا اور واپسی گوادر کے رستے ہوئی۔ میدان منڈی بہاوالدین میں لگا تھا، چالیس ہزار کا لشکر سکندر کا اپنا تھا، پانچ ہزار سپاہی ٹیکسلا کے راجہ نے دیے تھے۔ راجہ پورس کی سپاہ کی تعداد پچیس ہزار تھی۔ پوروا کو شکست ہوئی۔ اس موقع پر سکندر نے پوچھا، بولو راجہ! تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ جواب میں راجہ پورس نے تاریخی جواب دیا۔ اس نے کہا،میرے ساتھ وہی سلوک کیا جائے، جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ سکندر پھر گویا ہوا تو جواب میں راجہ پورس نے کہا کہ میرے جواب میں مزید وضاحت کی گنجا ئش نہیں۔ یہ بات سن کر سکندر اعظم متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ لہذا سکندر نے راجہ پورس کو سلنطت واپس دان دی۔
جامی: کہیں پڑھا تھا کہ راجہ پورس انتہائی غیر معمولی قد کاٹھ کا مالک تھا۔ یہ کیا معاملہ ہے؟
سلمان رشید: اوہ یس!راجہ پورس کا قد ساڑھے سات فٹ تھا۔ جب اسے شکست ہوئی اور رتھ سے نیچے اترا۔ تو سکندر کے سپاہی گھوڑوں پر تھے۔ راجہ پورے لشکر میں سب سے نمایاں دکھ رہا تھا۔ پھر جب اسے سلطنت واپس ملی تو اس نے سکندر اعظم کا ساتھ دیا۔ نندا سلطنت بہت مضبو ط تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مزید پیش قدمی سے سکندر رکا، واپس منڈی بہاوالدین آیا۔ پھر دریا کے ساتھ ساتھ گوادر کی جانب نکل گیا۔ کئی جگہوں پر راجہ پورس نے سکندر کا ساتھ بھی دیا۔
سلمان رشید: اوہ یس!راجہ پورس کا قد ساڑھے سات فٹ تھا۔ جب اسے شکست ہوئی اور رتھ سے نیچے اترا۔ تو سکندر کے سپاہی گھوڑوں پر تھے۔ راجہ پورے لشکر میں سب سے نمایاں دکھ رہا تھا۔ پھر جب اسے سلطنت واپس ملی تو اس نے سکندر اعظم کا ساتھ دیا۔ نندا سلطنت بہت مضبو ط تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مزید پیش قدمی سے سکندر رکا، واپس منڈی بہاوالدین آیا۔ پھر دریا کے ساتھ ساتھ گوادر کی جانب نکل گیا۔ کئی جگہوں پر راجہ پورس نے سکندر کا ساتھ بھی دیا۔
جامی:۔ اب جب کہ ہماری محفل اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے۔تو یہ بتا دیجیے کہ سیر و سیاحت کا ہمارے ہاں اب موجودہ حالات میں کوئی مارجن باقی رہ گیا ہے؟
سلمان رشید: افسوس کہ نہیں۔ انت مارجن تھا۔ یہ ملک کسی نے دیکھا ہی نہیں۔ صرف بلوچستان دیکھنے لیے ایک پوری عمر درکار ہے۔
سلمان رشید: افسوس کہ نہیں۔ انت مارجن تھا۔ یہ ملک کسی نے دیکھا ہی نہیں۔ صرف بلوچستان دیکھنے لیے ایک پوری عمر درکار ہے۔
جامی: نگری نگری گھومنا تو مہنگا شوق نہیں؟
سلمان رشید: ہر گز نہیں، میں نے بسوں پر ٹریول کیا، جہاں جی چاہ پڑاؤ کیا۔ یہ تو سستا شوق ہے اگر ذوق ہو تو۔ دو ہزار بارہ میں ایک موٹر سائیکل خریدا۔ اس پر کشمیر گیا۔ موٹر سائیکل کی سواری تو عام ہے۔ یعنی جنون ہوتو آپ پیدل بھی گھوم سکتے ہیں۔
سلمان رشید: ہر گز نہیں، میں نے بسوں پر ٹریول کیا، جہاں جی چاہ پڑاؤ کیا۔ یہ تو سستا شوق ہے اگر ذوق ہو تو۔ دو ہزار بارہ میں ایک موٹر سائیکل خریدا۔ اس پر کشمیر گیا۔ موٹر سائیکل کی سواری تو عام ہے۔ یعنی جنون ہوتو آپ پیدل بھی گھوم سکتے ہیں۔
جامی:۔ بھنورا بننے کے لیے کیا بنیادی خصوصیات درکار ہیں؟
سلمان رشید: ذہنی مضبوطی۔ گھبرانے والے لوگ اس شوق سے پرہیز کریں۔ "ہائے اللہ۔ ہائے امی ۔ میں کتھے آ گیا واں” اگر ایسا ہے تو برائے مہربانی گھر بیٹھ کر ڈاکومینٹری پر ہی گزارا کریں۔ کیونکہ یہ ڈینجر ناک کام ہے۔
سلمان رشید: ذہنی مضبوطی۔ گھبرانے والے لوگ اس شوق سے پرہیز کریں۔ "ہائے اللہ۔ ہائے امی ۔ میں کتھے آ گیا واں” اگر ایسا ہے تو برائے مہربانی گھر بیٹھ کر ڈاکومینٹری پر ہی گزارا کریں۔ کیونکہ یہ ڈینجر ناک کام ہے۔
جامی:۔ پاکستان کے قدرتی حسن کا کونا کونا دیکھ مارا آپ نے۔کیا باقی رہ گیا ہے؟
سلمان رشید:۔ موہن لعل کی کتاب ہے جو اٹھارہ سو تیس میں لکھی گئی۔ یہ لاہور سے پشاور تک کا سفر ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک انگریز ٹریولر کا سفر نامہ ہے۔ یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لیے بگھی اور گھوڑا تحفتہً لے کر ٹھٹھہ سے لاہور دریائی راستے سے آیا۔ اصل میں اس سفر میں الیگزینڈر برنس نے دریائی سفر کے دوران دریائے سندھ کی میپنگ کی تھی۔ یہ پہلی افغان جنگ کے دوران اٹھارہ سو انتالیس میں مارا گیا تھا۔ لاہور سے پشاور تک کے سفر پر مبنی اس کتاب میں موہن لعل نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جن کے پاس موہن لعل اور الیگزینڈر برنس رکے۔ میں ان کی اولادیں ڈھونڈنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ ان کی نسلیں اسی خطے میں آباد ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر کا علاقہ ماشکے ویلی دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ خاران اور واشوک کی وادیاں بھی دیکھنا ابھی باقی ہیں۔ باقی پورا پاکستان دیکھ لیا۔
سلمان رشید:۔ موہن لعل کی کتاب ہے جو اٹھارہ سو تیس میں لکھی گئی۔ یہ لاہور سے پشاور تک کا سفر ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک انگریز ٹریولر کا سفر نامہ ہے۔ یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لیے بگھی اور گھوڑا تحفتہً لے کر ٹھٹھہ سے لاہور دریائی راستے سے آیا۔ اصل میں اس سفر میں الیگزینڈر برنس نے دریائی سفر کے دوران دریائے سندھ کی میپنگ کی تھی۔ یہ پہلی افغان جنگ کے دوران اٹھارہ سو انتالیس میں مارا گیا تھا۔ لاہور سے پشاور تک کے سفر پر مبنی اس کتاب میں موہن لعل نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جن کے پاس موہن لعل اور الیگزینڈر برنس رکے۔ میں ان کی اولادیں ڈھونڈنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ ان کی نسلیں اسی خطے میں آباد ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر کا علاقہ ماشکے ویلی دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ خاران اور واشوک کی وادیاں بھی دیکھنا ابھی باقی ہیں۔ باقی پورا پاکستان دیکھ لیا۔
جامی: اب تک سیر و سیاحت پر کتنی کتابیں لکھ چکے ہیں، کچھ تعارف کرواتے جائیے ۔
سلمان رشید: میں نے اب تک کوئی نو کتابیں لکھی ہیں۔Gujranwala, the glory that was کو جام درک سرکاری ایوارڈ ملا۔ Riders on the windمختلف اخبارات میں میرے مضامین کا مجموعہ ہے۔ Between Two Burrs on the Map مغربی ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑوں کے 1100 کلومیٹر لمبے پیدل راستے کی ٹریول بک ہے۔ The Salt range and the Potohar Plateau دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان کے پہاڑی علاقوں کی تاریخ ہے۔ Prisoner on a Bus یہ سن 91 سے 98 تک کے اخباری مضامین کا مجوعہ ہے۔ Jehlum: City of the Vitasta, Sea Monster and the Sun God, The Apricot road to Yarkand اور Deosai: Land of the Giant وغیرہ میری دوسری کتابیں ہیں۔
سلمان رشید: میں نے اب تک کوئی نو کتابیں لکھی ہیں۔Gujranwala, the glory that was کو جام درک سرکاری ایوارڈ ملا۔ Riders on the windمختلف اخبارات میں میرے مضامین کا مجموعہ ہے۔ Between Two Burrs on the Map مغربی ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑوں کے 1100 کلومیٹر لمبے پیدل راستے کی ٹریول بک ہے۔ The Salt range and the Potohar Plateau دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان کے پہاڑی علاقوں کی تاریخ ہے۔ Prisoner on a Bus یہ سن 91 سے 98 تک کے اخباری مضامین کا مجوعہ ہے۔ Jehlum: City of the Vitasta, Sea Monster and the Sun God, The Apricot road to Yarkand اور Deosai: Land of the Giant وغیرہ میری دوسری کتابیں ہیں۔
جامی: انسان غم یا خوشی اور دیگر احساسات کو کافی حد تک بیان کر سکتا ہے۔ فطرت کو آپ نے بہت قریب سے دیکھا۔ اس تجربے کو بیان کیا جا سکتا ہے؟
سلمان رشید: یہ شاید ناقابل بیان ہے۔ اسے صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہاں، ایسی جگہوں پر جہاں آپ قدرت کے بہت قریب ہوں وہاں اپنے نہ ہونے کا احساس شدت سے ہوتا ہے۔ یعنی میں کچھ نہیں، اس احساس نے بہت لطف دیا۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے ان لوگوں پر جو سینہ ٹھونک کے یہ کہتے ہیں؛ "توں مینوں جاندا نئیں میں کون آں”۔ ایسے لوگ کس قدر بے وقوف ہیں۔ اپنے نہ ہونے کا احساس ہی ویرانے میں ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے صوفی ملنگ جنگل ویرانے کا رخ کرتے تھے۔ اپنے نہ ہونے کے احساس کو محسوس کرنے کے لیے۔ اور یقین جانیے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔
سلمان رشید: یہ شاید ناقابل بیان ہے۔ اسے صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہاں، ایسی جگہوں پر جہاں آپ قدرت کے بہت قریب ہوں وہاں اپنے نہ ہونے کا احساس شدت سے ہوتا ہے۔ یعنی میں کچھ نہیں، اس احساس نے بہت لطف دیا۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے ان لوگوں پر جو سینہ ٹھونک کے یہ کہتے ہیں؛ "توں مینوں جاندا نئیں میں کون آں”۔ ایسے لوگ کس قدر بے وقوف ہیں۔ اپنے نہ ہونے کا احساس ہی ویرانے میں ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے صوفی ملنگ جنگل ویرانے کا رخ کرتے تھے۔ اپنے نہ ہونے کے احساس کو محسوس کرنے کے لیے۔ اور یقین جانیے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔
جامی: تمام عمر سفر میں کٹی۔ اپنے نہ ہونے کے احساس کے علاوہ کیا حاصل سفر ہے؟
سلمان رشید: گلزار نے کہا تھا، تم جسے بھٹکنا کہتے ہو، میں اسے اور جاننے کی تلاش کہتا ہوں۔ یہی حاصل ہے۔
سلمان رشید: گلزار نے کہا تھا، تم جسے بھٹکنا کہتے ہو، میں اسے اور جاننے کی تلاش کہتا ہوں۔ یہی حاصل ہے۔
جامی: راہ شوق میں موسیقی تو ہمسفر رہتی ہو گی؟
سلمان رشید: ہیمنت کمار بہت پسند ہیں۔ حامد علی بیلا نے جنگل بیلوں میں بہت ساتھ دیا۔ پٹھانے خان نے ہمیشہ لطف دیا۔
سلمان رشید: ہیمنت کمار بہت پسند ہیں۔ حامد علی بیلا نے جنگل بیلوں میں بہت ساتھ دیا۔ پٹھانے خان نے ہمیشہ لطف دیا۔
جامی: محفل ادھوری چھوڑی جائے تو ناگوار ی کی شدت کیسی ہوتی ہے؟
سلمان رشید: ادھار چکانا چاہیے۔ اگلی ملاقات میں سہی۔ ملنگ ملاقاتیں ہوتی رہنی چاہیں۔
سلمان رشید: ادھار چکانا چاہیے۔ اگلی ملاقات میں سہی۔ ملنگ ملاقاتیں ہوتی رہنی چاہیں۔
Salman Rashid is a great travel writer n a far greater human being. His passion for exploration has rendered a mellow ripeness n richness to his work. Reading his work is sheer delight.
بہت شاندار انٹرویو ہے۔۔۔۔۔۔ یہی اصل زندگی ہے جس میں انسان خود کو دریافت کرتا ہے!!!!
BOHAT HE KOOOOOOB HE JI ALLHA KAREIN ZORE QALAM AUR ZEYDHA AMEEN
Its really informative and interesting. keep it up Dost!
This is an interview that doesn’t look like a (typical) interview. Its a reportage, its a travel story of many stories and its a beautiful blend of fact into fition and fiction into facts. Believe me, I really enjoyed it to the core and felt as if I was all the time with Salman Rashid in his travels around Pakistan. Salman is a travel writer whose style is umatchable but I must give credit to Ajmal Jami too for this beautful rendition that enables the reader to peep deep into Salman’s mind and thoughts on travel. But sorry travel is not the only thing. Many a time it appeared to me Salman is more a sufi, a malang than a superb trveller (musafir), and writer that he indeed is.
Akasar logo ko bas ghumnay say he matlab hota hay bhot kam log hoty hain jo unnazaro ko ked Karna chate hain "his e jamaliyat” bhe kya chez hoti hay
کیا شاندار انٹرویو ہے۔ بہت سی معلومات اور گہری باتیں شامل ہیں۔