میرا نکاح نامہ بھی حق مہر، طلاق اور نان نفقے کی ان تمام شرائط کو کاٹ کر نہ صرف پُر کیا گیا ہے بلکہ مجھے ان شرائط کا پابند بنایا گیا ہے جو مجھ سے پوچھے بغیر طے کر دی گئی ہیں۔ اپنے نکاح نامے کے تحت نہ تو میں طلاق دے سکتی ہوں، نہ نان نفقے کی شرائط طے کر سکتی ہوں اور نہ ہی حق مہر پر لین دین کرسکتی ہوں۔ اس نکاح نامے میں میرے جہیز کی تفصیلات بھی درج نہیں جو میں اپنے ہم راہ لائی ہوں اور اس لیے شوہر کے چھوڑنے یا طلاق دینے کی صورت میں میرے پاس کوئی ایسی ٹھوس قانونی بنیاد نہیں جس کے تحت میں اپنا سامان واپس لے سکوں۔ میں نہیں جانتی کہ یہ نکاح نامہ میرا ہے اور نہ ہی مجھ سے اس نکاح کی شرائط پر رضامندی حاصل کی گئی۔ مجھے افسوس ہے کہ میرے والدین کے نزدیک شادی کی تیاری محض میرے عروسی جوڑے، زیورات، جہیز اور طنبو قناتوں تک محدود تھی اور مجھ سے میرے لباس اور زیورات کے علاوہ کسی اور معاملہ میں رضامندی اور مشاورت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ نکاح نامے میں عورت کے مہر، طلاق کے حق اور نان نفقے سے متعلق خانوں کو عورت کی مرضی کے بغیر پہلے سے ہی کاٹ دیا جاتا ہے ۔ اس سے بھی تشویش ناک امر یہ ہے کہ اگر لڑکی یا اس کے گھر والے ان شرائط پر بات کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے کیوں کہ ایسی صورت میں لڑکے اور اس کے گھروالوں کی عزت پر حرف آنے کا اندیشہ ہے۔
کیا ہمارے نکاح شرعی اور قانونی طور پر جائز قرار دیے جاسکتے ہیں جب کہ ہمیں نہ تو اس نکاح نامے اور نہ ہی فیملی آردیننس میں شریک سمجھا گیا ؟
آپ ایک سولہ برس کی لڑکی سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ نکاح کے وقت ان تمام شرائط سے واقف ہو گی اور اسے اپنے تمام حقوق کی آگہی ہو گی جو مسلم فیملی آرڈیننس 1961 کے تحت دیے گئے ہیں اور کیا وہ اس آرڈیننس میں اپنے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں سے بھی واقف ہوگی؟ شادی کی کم سے کم عمر اگر سولہ برس سے بڑھا کر ۱ٹھارہ یا بیس برس بھی کر دی جائے تو کیا موجودہ سماجی ڈھانچے میں یہ ممکن ہے کہ کوئی بھی لڑکی یا عورت نکاح نامے کی ان تمام شقوں سے واقف ہواوران پر رضامند بھی ہو جو اس کی زندگی اور اس کا مستقبل اس کے سسرال اور شوہر کے "تابع” کرنے والی ہیں۔ میری ماں، دادی، نانی اور میں بھی ان شرائط اور قواعد سے ناواقف ہیں اور تھیں جب ہمارا نکاح کیا گیا اور یوں لگتا ہے کہ ہماری آنے والی نسل بھی اپنے حقوق سے ناواقف ہوگی۔ کیا ہمارے نکاح شرعی اور قانونی طور پر جائز قرار دیے جاسکتے ہیں جب کہ ہمیں نہ تو اس نکاح نامے اور نہ ہی فیملی آرڈیننس میں شریک سمجھا گیا ؟
پاکستان میں رائج مسلم فیملی آرڈیننس اس مفروضے پر قائم ہے کہ ہمارا مذہب، معاشرہ اور ثقافت عورت کا تحفظ کرتے ہیں اور عورت کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری مرد پر ڈالتے ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ مذہب، معاشرہ اور ثقافت ایسا کرنے سے پہلے عورت کی رضامندی حاصل کرنا گوارا نہیں کرتے۔ اس سے بھی زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مرد عورت کی حفاظت سے مراد اسے محکوم، تابع اور محتاج رکھنا لیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت سے متعلق فیصلے مرد کو برتر سمجھتے ہوئے کیے جاتے ہیں اور اس عمل میں عورت بھی مرد کے ساتھ خاموش رہ کر شریک ہے۔ بہتر ہوتا کہ فقہا اور قانون ساز ادارے عورت کی رضامندی بھی حاصل کرلیتے ،اچھاہوتا اگر معاشرہ اور ریاست قانون سازی سے قبل عورت کو مرد کے مدمقابل یکساں اور برابر کا انسان تسلیم کرلیتے۔طلاق، شادی، وراثت، نان نفقہ اور اولاد پر حق کے حوالے سے مذہبی اور ریاستی قوانین نہ صرف عورت کو ایک آزاد اور خود مختار فرد ہونے کی نفی کرتے ہیں بلکہ وہ تمام راستے جن کے ذریعے عورت اپنی شادی ، شادی شدہ زندگی اور اولاد کے حوالے سے فیصلہ کر سکتی ہے مسدود کر دیے گئے ہیں۔
اگرچہ شادی بیاہ کے معاملات عام طور پر خواتین کا شعبہ سمجھے جاتے ہین لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی خواتین انہی پدرسری روایات کے تحفظ اور نفاذمیں مشغول رہتی ہیں جو انہیں اور ان سے پہلے ان کی ماوں اور ساسوں کے حقوق اور آزادیاں سلب کرتی رہی ہیں۔ معاشرے اور ریاست کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ نکاح نامہ محض ایک خانہ پری نہیں بلکہ ایک معاہدہ ہے جو دوخاندانوں نہیں بلکہ دوانسانوں کے درمیان طے پارہا ہے۔ یہ ایک کم زور عورت اور ایک طاقت ور مرد کے درمیان سودے بازی کی بجائےایک برابر، خود مختار اور آزاد عورت اور ایک برابر، آزاد اور خودمختار مرد کے درمیان باہمی رضامندی اور شراکت کے تحت خاندان کی تشکیل کا معاہدہ ہونا چاہیے ۔ اس معاہدے میں برابری کی سطح پر رضامندی سے شمولیت تبھی ممکن ہے جب مرد اور عورت کی سماجی حیثیت میں موجود معاشی، سیاسی اور معاشرتی تفاوت کو توازن میں لایا جائے گا ورنہ شادی محض ایک بیگار ثابت ہوتی رہے گی۔
عورت تب تک خاندان اور خانگی زندگی میں مرد کی برابری کی دعویدار نہیں ہو سکتی جب تک اسے طلاق ، بچوں کی ولدیت، وراثت اور خاندان کی سربراہی کا حق مردوں کے برابر نہیں دیا جاتا۔
غیرت، عزت اور حیا کے وہ ناقص پدرسری تصورات جو عورت کو خاندان میں مرد کے مساوی حیثیت دینے کو تیار نہیں، عورت کو لاعلم اور محتاج رکھنا چاہتے ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک اس طرح معاشرے میں "استحکام”، "سکون” اور خاندان کا "تحفظ” ممکن ہے۔ نکاح نامے میں طلاق کا حق عورت کو شوہر کی جانب سے دیے جانے کی بجائے ریاست کی جانب سےلازماً دیا جانا چاہیے، نان نفقہ کے معاملات پر لکیر کھینچنے کی بجائے لڑکا اور لڑکی کے درمیان اس بارے میں ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے اور مہر عورت کی مرضی سے طے کیا جانا چاہیے۔ مگر کیا یہ تب تک ممکن ہے جب تک ہمارے ماں باپ ہمیں ہم سے پوچھے بنا ایسے مردوں سے بیاہتے رہیں گے جو ان کے مطابق مناسب ہیں؟ یہ تب تک ممکن نہیں جب تک خاندان اور شادی کے معاملات مین عورت بھی مرد جتنی خود مختار اور آزاد نہیں ہو جاتی ۔ عورت تب تک خاندان اور خانگی زندگی میں مرد کی برابری کی دعویدار نہیں ہو سکتی جب تک اسے طلاق ، بچوں کی ولدیت، وراثت اور خاندان کی سربراہی کا حق مردوں کے برابر نہیں دیا جاتا۔
نکاح نامہ، نکاح نامے کی شرائط اور خاندان سے متعلق قوانین عورت کو تحفظ کی بجائے محتاجی دینے کا باعث بن رہے ہیں، ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورت کے حوالے سے بیشتر فیصلے اس کی پیدائش سے پہلے کیے جاچکے ہوں وہاں عورت محض قانون سازی سے بھی محفوظ نہیں ہوسکتی،اور نہ ہی ایسے نکاح نامے اور خانگی قوانین کی موجودگی میں مرد کی برابری کر سکتی ہے جس کی بنیاد ناانصافی پر رکھی گئی ہو۔ اگر آپ واقعی عورت کو مرد کے برابر کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں تو نکاح نامے اور شادی کی شرائط میں عورت کو مرد کے ہم پلہ جگہ اور اہمیت دیجیے کیوں کہ یہ دنیا ہماری بھی اتنی ہی ہے جتنی مردوں کی۔

3 Responses

  1. sayed kami shah

    جناب اگر کسی کی آنکھ میں مروت نہ رہے تو کاغذ کے ٹکڑے کی کوئی اہمیت نہیں رہتی چاہے اس پر کتنی بھی شرائط لکھوالی جائیں۔

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: