Laaltain

نٹ راج

12 ستمبر, 2016
Picture of ستیہ پال آنند

ستیہ پال آنند

[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]

نٹ راج

[/vc_column_text][vc_column_text]

اونچے بانسوں سے بندھی رسی
تنی، مضبوط، سیدھی
وقت کی دو ساعتوں کو جوڑنے والی
صراطِ مستقیم اس زندگی میں
یومِ پیدائش، حیات و زیست کا آغاز
یومِ آخرت، مرگ و نبود و نیست
اور ان کو منسلک کرتی ہوئی
رسی ۔۔۔ تنی، مضبوط، سیدھی!

 

اس تنی رسی پہ ننگے پائوں وہ جم کر کھڑا ہے
لڑکھڑاتا، ڈولتا، کچھ کچھ سنبھلتا
اک نظر پیچھے کی جانب دیکھتا ہے
عمر کی لمبی مسافت میں صراطِ مستقیم اب
نصف سے زائد تو شاید
یہ قدم طے کر چکے ہیں
کتنی دوری اور باقی ہے؟
وہ خود سے پوچھتا ہے

 

بھولا، بھالا، نا سمجھ بچہ ہی تھا، جب
اُس نے چلنا سیکھ کر پکی زمیں کو
اک حقارت کی نظر سے دیکھ کر ٹھکرا دیا تھا
اس نے کیوں یہ طے کیا تھا؟
“دوسرے سب لوگ رسی پر نہیں چلتے
تو میں کیوں چل رہا ہوں؟”
پوچھتا ہے خود سے پھر اک بار ۔۔۔”آخر کیوں؟”

 

اپنے کرتب میں تماشا ہو، تماشائی نہیں ہو!
اس کے اندر کا یہ کرتب باز نٹ کہتا ہے اس سے

 

اور اس سچائی کو پہچان کر بھی
اپنے اندر کی حقیقت جان کر بھی
اک نظر پیچھے کی جانب دیکھ کر بھی
آج کا “نٹ راج” شاعر
خون بہتے ننگے پائوں پر پھسلتا
لڑکھڑاتا، ڈولتا، اور پھر سنبھلتا
خود سے اتنا پوچھتا ہے
“کتنی دوری اور باقی ہے؟”

[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]

ہمارے لیے لکھیں۔