پنجاب حکومت نے بہاولپورمیں یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز ، بہاولنگر میں میڈیکل کالج اور رحیم یار خان میں انجینئرنگ یونیورسٹی کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔ چولستان میں حکومت پنجاب کی بہاولپور میں فراہم کردہ ہزار ایکڑ زمین پر ترکی کی انقرہ یونیورسٹی اور سلکوک یونیورستی کے تعاون سے ویٹرنری یونیورسٹی بنائی جائے گی۔ پروونشل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کے آٹھویں اجلاس میں منظور کئے گئے منصوبوں کے تحت جنوبی پنجاب میں پیشہ ورانہ تعلیم کے اداروں پر 6.83 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔
چولستان ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز یونیورسٹی کے پہلے مرحلے کے لئے 2.39 ارب، رحیم یارخان میں خواجہ فرید انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے پہلے مرحلے کے لئے 3.5 ارب جبکہ بہاولنگر میڈیکل کالج کے لئے 1.74 ارب روپے کے فنڈز فراہم کئے جائیں گے۔ چولستان یونیورسٹی منصوبہ یونیورسٹی آف وٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز لاہور کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر طلحہ نصیر پاشا کی نگرانی میں دو سال میں مکمل کیا جائے گا جس کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی میں قائم کالج آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز کو نئی یونیورسٹی میں منتقل کر دیا جائے گا۔ نئی یونیورسٹی میں بائیو سائنسز، اینیمل پروڈکشن اینڈ ٹیکنالوجی اور ویٹرنری سائنسز کی تین فیکلٹیز، اٹھارہ ڈیپارٹمنٹ، تشخیص گاہیں اور تجربہ گاہیں قائم کی جائیں گی۔
جنوبی پنجاب سے ہر برس ہزاروں نوجوان تعلیم اور ملازمت کے باعث لاہور اور دیگر بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی افراد پسماندگی اور احساس محرومی کا شکار ہیں، تاہم نئے تعلیمی اداروں کے قیام سے اس صورت حال کے بدلنے کی امید ہے۔
سرائیکی قوم پرست طلبہ نے حکومت کے اس اقدام کو سراہا ہے تاہم انہوں نے ان اداروں میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والےعملہ کی تعیناتی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی میں پڑھنے والے علی بخش کے مطابق ملازمتوں کی فراہمی کے بغیر ان منصوبوں سے جنوبی پنجاب کی پسماندگی دور نہیں ہو گی،”صرف یونیورسٹیاں ہی تو کافی نہیں ہیں، ڈگریوں لینے کے بعد اگر نوکریاں نہ ملیں تو پھر ہم لوگ لاہور اور کراچی کا رخ کریں گے۔ حکومت صرف نئے تعلیمی ادارے ہی نہ بنائے بلکہ صنعتیں بھی لگائے۔” سرائیکی قوم پرست تحریک سے وابستہ محمد سلیم کے مطابق مقامی عملہ کی تعیناتی ضروری ہے،”اگر یونیورسٹیاں بن جائیں اور ان میں عملہ سارا پنجاب کا ہو تو ہمیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا، جب تک مقامی لوگوں اور طلبہ کو نوکریاں نہیں ملتیں ایسے منصوبہ ہمیں مزید پسماندہ بناتے رہیں گے۔”
جنوبی پنجاب سے ہر برس ہزاروں نوجوان تعلیم اور ملازمت کے باعث لاہور اور دیگر بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی افراد پسماندگی اور احساس محرومی کا شکار ہیں، تاہم نئے تعلیمی اداروں کے قیام سے اس صورت حال کے بدلنے کی امید ہے۔

Leave a Reply