[blockquote style=”3″]

علی اکبر ناطق کا خاندان 1947کے فسادات میں فیروز پور سے ہجرت کر کے وسطی پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی گاؤں 32ٹو ایل میں آباد ہوا۔ یہیں علی اکبر ناطق 1977 میں پیدا ہوئے اور اسی گاؤں میں موجود ہائی سکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انگریز دور میں یہ مثالی گاؤں تھا۔ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑ ا سے پاس کیا۔اُس کے بعدمعاشی حالات کی خرابی اور کسمپرسی کی وجہ سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کیے۔ ناطق نے تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اور بطور میسن پندرہ سال تک کام کیا۔ اسی دوران اُن کا اردو نثر، شاعری، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ 1998 میں کچھ عرصے کے لیے مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب اور مڈل ایسٹ بھی رہے۔ اِس سفر میں اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اسی دوران ایک افسانہ (معمار کے ہاتھ) لکھا، جو بہت مقبول ہوا اور اُس کا محمد حنیف نے انگریزی ترجمہ کیا، جو امریکہ کے مشہور ادبی میگزین گرانٹا میں شائع ہوا۔ ناطق 2007 میں اسلام آباد آ گئے، یہاں اِن کی ملاقات افتخار عارف سے ہوئی، جو اُن دنوں اکادمی ادبیات کے چیئر مین تھے، انھوں نے ناطق کو اکادمی میں ایک چھوٹی سی ملازمت دے دی، جو افتخار عارف کے اکادمی چھوڑ جانے کے بعد ختم ہو گئی۔ پھر تین سال کے لیے مقتدرہ قومی زبان میں رہے اور اُس کے بعد فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن میں چلے گئے۔ اب ایک نجی یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتے ہیں۔

ناطق ادبی طور پر 2009میں اُس وقت اچانک دنیا کے سامنے آیا، جب کراچی کے مؤقر ادبی رسالے،”دنیا زاد “نے اُن کی ایک دم دس نظمیں شائع کیں اور ادبی رسالے”آج”نے پانچ افسانے چھاپے۔ ناطق کی تخلیقات نے اچھوتے اور نئے پن کی وجہ سے لوگوں کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ 2010 میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ “بے یقین بستیوں میں “ آج،کراچی سے چھپا اور یو بی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔ 2012میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “قائم دین “ چھپا،جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا اور اِسے بھی یو بی ایل ایوارڈ ملا، 2013میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ “ یاقوت کے ورق “آج کراچی سے چھپا۔ یہ تمام کتابیں انگلش اور جرمن میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور پینگوئن انڈیا شائع کرچکا ہے۔ علی اکبر ناطق کے ناول "نولکھی کوٹھی” نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے، پینگوئن انڈیا اسے انگلش میں چھاپ رہا ہے، ہم لالٹین قارئین کے لئے یہی ناول سلسلہ وار شائع کر رہے ہیں۔

[/blockquote]

علی اکبر ناطق کے ناول "نولکھی کوٹھی” کی مزید اقساط پرھنے کے لیے کلک کیجیے۔

(44)

غلام حیدر کو حویلی میں آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔ اِس عرصے میں اُس نے تمام عزیزوں،دوستوں اور ملازموں کو اکٹھا کر کے نئے سرے سے چودھراہٹ کا کام شروع کر دیا۔ یہ چودھراہٹ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور ہیبت ناک تھی۔ چودھری غلام حیدر اب شاہ پور اورجودھا پور کا مالک ہی نہیں،پندرہ آدمیوں کا قاتل بھی تھا۔ اور یہ پندرہ لوگ کوئی ایسے ویسے نہیں تھے۔ علاقے کے سر چُنویں بدمعاش اور بڑے زمیندار تھے۔ اِسی لیے اب وہ پینتیس سال کا منجھا ہوا چودھری اور طاقتور سورما بن چکا تھا۔ صرف شیر حیدر کا ندان مُنڈا نہیں رہ گیا تھا۔ دوم،سردار سودھا سنگھ جیسے سورماؤں کو چت کر کے اور انگریز سرکار میں صاف بچ نکلنے کی وجہ سے اب بڑے بڑے بد معاش بھی اُس کا نام سُن کر نہ لرزتے اور سلام کے لیے حاضری نہ بھرتے تو کیا فائدہ تھا۔ یہی وجہ تھی،حویلی میں آکر بیٹھنے والے لوگوں کی تعداد پہلے سے دُگنی ہوگئی۔ ایک ہفتے بعد جب غلام حیدر نے محسوس کیا حویلی کا انتظام قدرے ٹھیک ہوگیا ہے،تو اُس نے ایک دعوت کا اہتمام کر دیا۔ الیکشن کا وقت قریب آرہا تھااور غلام حیدر کو نواب صاحب کے احسان کا پاس بھی رکھنا تھا۔ اِس لیے جلد ہی ایسے حالات پیدا کرنا چاہتا تھا،جس میں پورا فیروزپور نہ سہی،مکھسر اور جلال آباد تحصیل میں تو مسلم لیگ کا طوطی بول جائے۔ چنانچہ حویلی میں سینکڑوں لوگ مبارک سلامت کے لیے جمع ہو گئے۔ رفیق پاؤلی،جانی چھینبا،حاجی کمبو،امیر سبحانی تو خیر اُس کے اپنے آدمی تھے،جو غلام حیدر کی معافی کا سن کر دوسرے تیسرے روز ہی چلے آئے تھے۔ دعوت میں وہ لوگ بھی تھے،جن کا غلام حیدر سے دُور دُور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ وہ سب اہل و عیال سمیت حویلی میں جمع ہو گئے اورحویلی میں ایک دم گہما گہمی ہو گئی،جو پچھلے دس سال سے تقریباً بند پڑی تھی اوراُس کے صحنوں اور دیوار وں سے ویرانی سیم اور تھورکی شکل میں جھڑ جھڑ کر گرتی رہی اوروارثوں کی غریب الوطنی پر نوحے پڑھتی تھی۔ نیم اور پیپل کے درخت بدلتے موسموں کو بے آبرو ہوتے دیکھتے رہے اور زرد ہواؤں کے تھپیڑوں کو سہتے رہے۔ آج اُس حویلی میں ایسے رونق پیدا ہو گئی،جیسے دنیا نئے سرے سے بسی ہو۔ حویلی سے غلام حیدر کو نکلنے کا غم کم نہیں تھا۔ وہ واپس آ کر بہت زیادہ جذباتی ہو گیا تھا لیکن رفیق پاؤلی اور دوسرے ملازم اُس سے بھی زیادہ جذباتی تھے۔ سب خوشی سے اِدھر اُدھر بھاگتے ہوئے آپس میں مل کر رو بھی رہے تھے۔ اُنہیں یہ دوبارہ جنم ملے گا اورامیر سبحانی کی قصہ گوئی کی محفلیں جمیں گی،اِس طرح کا وہم بھی جی سے اُٹھ گیا تھا۔ کیونکہ غلام حیدر نے سودھا سنگھ کے قتل کے بعداُن سے ایسے ربط توڑا تھاجیسے وہ اِس دنیا میں موجود ہی نہ ہو۔ اِدھر یہ سب ملازم،نوکر،دوست یار گورنمنٹ کے ڈر سے حویلی تو ایک طرف فیروز پور ضلع بھی چھوڑ کردُور دُور جا بسے تھے اور خوف کے مارے غلام حیدر کا نام بھی منہ سے نہیں نکالتے تھے۔ مگر اب سب کچھ ٹھیک ہو گیا تھا۔ رفیق پاؤلی لوگوں کو اِدھر اُدھر مختلف کاموں کے بارے میں حکم دیتا پھرتا تھا،تم یہ کرو،تم وہ کرو۔ گویا اُس کی نئے سرے سے اجارہ داری تسلیم کر لی گئی تھی۔ جس پر کسی کو اعتراض نہیں تھا۔ ہر ایک نے اپنا اپنا کام بغیر کسی کے کہے سنبھال لیا جیسے یہ طے شدہ بات تھی۔ دعوت کی اِس تقریب میں شاہ پور اور جودھا پور کی رعایا بھی جلال آباد آگئی۔ بالکل وہی نقشہ بن گیا جو شیر حیدر کی موت کے وقت تھا۔ لیکن اُس میں اور اِس میں ایک فرق تھا کہ اِس رونق میں بھرپور جذباتی کیفیت کے ساتھ ایک بڑی فتح کی سر شاری بھی تھی۔ غلام حیدر نے ملک بہزاد اور امانت خاں کو بھی بلا لیا۔ وہ بھی لوگوں میں پھنسے بڑی بڑی ہانک رہے تھے،جس میں زیادہ تر اپنی بڑ ھکوں کی کہانیاں تھیں۔ سودھا سنگھ،عبدل گجر اور شریف بودلے کے قتل اور اُس کے بعد ان دس سالوں کے دوران ہونے والے تمام واقعات کے بیان کرنے میں اتنا وقت درکار تھا،جس میں غلام حیدر کی حالیہ دعوت کے برابر سو دعوتیں بھی ہوتیں تو ناکافی تھیں۔

غلام حیدر نے اپنے آنے کی خوشی میں کئی سو دیگیں گوشت اور چاولوں کی چڑھا دیں۔ اِن دیگوں کی منت اُس کی والدہ نے اُسی دن مانی تھی،جب غلام حیدر جلال آباد سے نکلا تھا۔ دیگوں کے دہانوں سے بُھنے ہوئے گوشت اور پکتے ہوئے باسمتی کے چاولوں کی بھاپ دماغوں میں چڑھ کر بھوک کی اشتہا کو مزید بڑھا رہی تھی۔ دیگوں کے نیچے جلانے کے لیے کلہاڑوں سے سوکھی لکڑیاں پھاڑی جا رہی تھیں اور آگ کے الاو مسلسل جل رہے تھے۔ غلام حیدر سب سے مل ملا کر ملک بہزاد کے پاس آبیٹھا۔ جہاں امانت خاں بھی بیٹھا تھا۔ ملک بہزاد کافی بوڑھا لگ رہا تھا۔ دس سال کی طویل مدت نے اُس کی صحت پر جو اثرات ڈالے تھے،وہ چہرے کی بڑھتی ہوئی جُھریوں اور چھلکتی ہوئی زردی میں بہت نمایاں تھے۔ مگر باتوں میں وہی دلیری اور سیانا پن اب بھی تھا۔ غلام حیدر جانتا تھا،اگر ملک بہزاد اُس وقت اُس کا ساتھ نہ دیتا تو شاید وہ بُرے طریقے سے ذلت کا منہ دیکھتا۔ پھر اُسے نواب افتخار کا خیال آ گیا،جس کی وجہ سے وہ پورے طور پر سرخ رو ہوا تھا۔ غلام حیدر نے سوچا،حقیقت یہ ہے کہ سب کے تعاون سے ہی سودھا سنگھ کی چتا کو آگ لگی ہے۔

غلام حیدر نے ماحول کے مطابق پورا پنجابی چوہدریوں کا لباس پہنا ہوا تھا۔ کھُسا،لمبے بَر والا سیمابی کڑھائی کا لاچا،سر پر پف والی کُلے دار پگڑی اور ہاتھ میں چھوٹا سا چاندی کا حقہ،جو غلام حیدر کو نواب افتخار کے ماموں سے تحفے میں ملا تھا۔ یہ شان و شوکت تو واقعی غلام حیدر کی ذات کو نوابوں سے کم نہیں دکھاتی تھی اوراِن سب سے بڑھ کر وہ رائفل جو اپنے کارنامے بھری دنیا کی انگریزی سرکار میں دکھا چکی تھی۔ غلام حیدر کے کاندھے پر لٹکی اُس کی چاندی جیسی نال تو ایک موت کی پری کی گردن تھی۔ غلام حیدر نے امانت خاں کی طرف دیکھ کر ملک بہزاد سے کہا،چاچا بہزاد،اصل میں تیرا یہ بھانجا اِس پورے قضیے کا سورما ہے۔ اُس دن یہ نہ ہوتا تو سکھڑے اِتنی آسانی سے قابو میں نہ آتے۔ (امانت خاں نے اپنی مونچھوں کو مزید مروڑا دیا،جو پہلے ہی کھسے کی نوک کی طرح اُوپر کو چڑھی ہوئی تھیں ) مجھے اِس پر فخر ہے۔ خدا نے موقع دیا تومَیں اس کا بدلا ضرور چکاؤں گا۔

ملک بہزاد بھتیجے کی طرف دیکھ کر بولا،غلام حیدر تمھیں پتا ہے،اِس نے پہلا بندہ کس عمر میں قتل کیا ہے؟اُس وقت اس کی عمر صرف تیرہ سال تھی،جب چودھری الہ بخش جندے کا سے اِس نے اپنے باپ کا بدلا لیا تھا اور کیو ں نہ لیتا،تربیت جو ( اپنے سینے پر ہاتھ مار کر ) ملک بہزاد نے کی تھی۔ آگے بھی یاد رکھ،لڑائی بھڑائی میں راہکوں اور مزارعوں سے کام نہیں لیا جاتا۔ بندہ مار کھا جاتا ہے۔

سینکڑوں آدمی اِدھر اُدھر چار پائیوں پر بیٹھے اپنی اپنی گپوں میں لگے تھے۔ اکثر امیر سبحانی سے غلام حیدر کے وائسرائے کے ساتھ گہرے تعلقات کی کہانی بڑی دلچسپی اور مزے لے کر سُن رہے تھے۔ غلام حیدر کو اُ س کی یہ ڈینگیں سُنائی دے رہی تھیں لیکن وہ اُسے اِن کے ہانکنے سے روکنا نہیں چاہتا تھا۔ بلکہ اب وہ چاہتا تھا،لوگوں پر اُس کی دلیری اور تعلقات کا جتنا بھی رعب پڑ جائے،اُسی قدر اچھا ہے اور وہ یہ رعب ملک بہزاد کے سامنے بھی رکھنا چاہتا تھا۔ ویسے بھی ملک بہزاد کو اُس کے تعلقات کا پتہ اُس کی سزا میں معافی اور نواب صاحب کی طرف سے اِتنے بڑے تعاون کے باعث چل ہی گیا تھا۔

چاچا بہزاد،غلام حیدر نے چارپائی پر ملک بہزاد کے پہلو میں آرام سے بیٹھنے کے بعد کہا،الیکشن بہت قریب ہیں۔ نواب افتخار پنجاب مسلم لیگ کے صدر ہیں۔ وہ خود ہمارے علاقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ نواب صاحب نے جو کچھ میرے لیے کیا ہے،اُس کا تقاضا ہے،ہم اُس کا ساتھ ووٹ دینے سے کچھ زیادہ کریں تاکہ اُس کی نمک حلالی کا پورا حق ادا ہو جائے۔ نواب کاجو میرے اُوپر احسان چڑھ گیا ہے،وہ تو شاید عمر بھر نہ اُترے لیکن کم از کم اس علاقے میں تو اُس کے خلاف کوئی بندہ پرچی نہ ڈال سکے۔ اِس کے لیے ہمیں چاہے کسی بھی قسم کی زبردستی کرنی پڑے،مسلم لیگ کو ہر حالت میں پورے علاقے سے الیکشن جتوانا ہے۔ کانگریس اور یونینسٹ کے اُمیدواروں کو پرچیاں دینا تو ایک طرف،جلسہ تک نہیں کرنے دینا۔ اِس کے لیے جتنا خرچہ اور اسلحہ چاہیے،وہ مَیں بندوبست کرنے کو تیار ہوں لیکن نواب صاحب اور جناح صاحب کے آگے ہماری بے عزتی نہ ہو جائے۔

ملک بہزاد غلام حیدر کی بات تحمل سے سنتا رہا، پھر حقے کی نَے کو ہاتھ سے پکڑ کر اُس پر اپنی ٹھوڑی ٹکاتے ہوئے بولا،چوہدری غلام حیدر،بھلا مسلم لیگ کا ساتھ ہم نہ دیں گے تو کون دے گا؟ یہ کام سودھا سنگھ کی چتا سے زیادہ اوکھا تو نہیں لیکن اِس کے لیے ایک کام کرو،اگر وہ کام ہو گیا تو ہمیں زیادہ تردد کرنے کی ضرورت ہی نہیں،لوگ خود بخود مسلم لیگ کی طرف جھکتے جائیں گے۔
وہ کیا کام ہے؟ غلام حیدر نے پوچھا۔

ایک ریکاٹ لو،جس میں تمھاری دلیری کے سارے واقعے قصے کی شکل میں بھرے ہوں۔ اِس کام کے لیے امیر سبحانی بہت مناسب ہے۔ وہ ریکاٹ الیکشن سے پہلے پورے علاقے میں پہنچا دو اور اپنے خرچے پر سنوا دو۔ جب تیری بہادری،خدا ترسی اور بڑے گھروں تک پہنچ کے قصے لوگ سنیں گے تو وہ خود بخود ہماری طرف دوڑے چلے آئیں گے۔ کچھ تو پہلے ہی تیری بہادر ی کا گُڈا چڑھا ہوا ہے،رہتی سہتی کسر یہ رکاٹ نکال دے گا۔ ابھی دو مہینے الیکشن میں باقی ہیں،امیر سبحانی سے دو چار دن میں یہ کام کرا کے چار پانچ بندے ریکاٹ چلانے والے کرائے پر لے لیتے ہیں اور گاؤں گاؤں پھرا کر سنا دیتے ہیں۔ ویسے بھی لوگوں کو شغل کے لیے بہانہ چاہیے۔ وہ جب امیر سبحانی کی چٹخارے والی زبان سے یہ مزیدار قصہ سنیں گے تو تم خود بخود اُن کا سورما بن جاؤ گے۔ اُس کے بعد ہم دونوں اپنے بندوں کے ساتھ پورے علاقے کا دورہ کریں گے اور باقی کسر دورے میں نکال دیں گے۔ پھر بھی جس جگہ سے نواب کے خلاف ووٹ پڑنے کا خطرہ ہوا،وہاں پرنواب سے کہہ دینا،الیکشن والے دن وہ اپنے بندے ہمارے ساتھ کر دے،نگرانی ہم کریں گے اور وہ پرچیاں اپنے ہاتھوں سے نواب صاحب کی صندوقچی میں ڈالتے جائیں گے۔ جس نے بھی چوں چراں کی،چار متہریں چوتڑوں پر ماریں گے اور سیدھا کر دیں گے۔
بس یہ ٹھیک ہے،غلام حیدر بولا،ہم کل ہی اِس کا انتظام کر لیتے ہیں۔ پہلے ڈیڑھ مہینے میں امیر سبحانی والا ریکارڈچلواتے ہیں۔ آخری پندرہ دنوں میں علاقے کا دورہ شروع کریں گے اور پورے علاقے میں گھوڑے دوڑا کر نقارہ بجا دیں گے۔ کوئی شخص نواب افتخار کے علاوہ کسی کو ووٹ دینے کی جرات نہ کرے۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ اپنا ذمہ دار خود ہو گا۔ ہمیں نواب صاحب کے گاؤوں میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو اُس کی ملکیت سے باہر کا علاقہ ہے،وہاں نواب کو چکر لگانے کی ضرورت پیش نہیں آنی چاہیے۔ اُس کے بعد غلام حیدر ملک بہزاد کو اُٹھا کر ڈیوڑھی میں لے گیا اور جیب سے چاندی کے روپوں کی ایک بھاری تھیلی نکال کر اُس کے حوالے کردی۔

چاچا بہزاد،یہ نواب صاحب کی طرف سے دو ہزار روپے ہیں،آپ یہ رکھ لو اور اِس میں سے کچھ امانت خاں کو دے دینا۔ مَیں اُسے روپے دیتا اچھا نہیں لگتا۔ اِس الیکشن میں سو طرح کے کام ہیں اور کئی طرح کے خرچے ہیں۔ اُن میں کام آئیں گے،مَیں نے تو نواب صاحب سے کہا تھا،اِن کی ضرورت نہیں لیکن اُس نے ضد کر کے ہمیں دے دیے ہیں۔ بہر حال اب نواب صاحب کو پتا چلنا چاہیے،اُس کے دوست حالات کا پھیر بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

ملک بہزاد جان گیا تھا،غلام حیدر کو نواب نے کوئی پیسے نہیں دیے مگراُس نے پیسوں کی تھیلی پکڑ لی کیونکہ اب اُسے بھی پیسوں کی ضرورت تھی،پھر روز روز مفت میں تو کام نہیں ہو سکتے تھے۔ اور یہ بات غلام حیدربھی جانتا تھا،شاید اب ملک بہزاد پیسوں کے بغیر بے دلی سے چلے،اسی لیے اُس نے یہ چال چل دی تھی۔ غلام حیدر اب زمانے کا پانی پی چکا تھااور جانتا تھا،مایا ایسا ہتھیار ہے،جو فساد کے علاوہ دلوں کی محبت میں اضافہ بھی کرتاہے۔

غلام حیدر اور ملک بہزاد ڈیوڑھی سے نکلے تو کھانا تیار تھا۔ وہ دونوں اور میاں امانت خاں،جانی چھینبا،رفیق پاؤلی اور غلام حیدر کے وہ ساتھی،جو سودھا سنگھ کو مارتے وقت ساتھ تھے،چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ گرم گرم گوشت اور چاولوں کی بھری ہوئی کنالیاں اُن کے سامنے آگئیں تھیں۔ وہ کھانے کے دوران اُس واقعے کو چٹخارے لے کر چُٹکلے بھی چھوڑ رہے تھے اور چاولوں کے مزے بھی۔ اِن کے علاوہ بھی حویلی کا پورا صحن آدمیوں سے بھرا کھانا کھانے اور باتیں کرنے میں مصروف تھا۔

(45)

فضل دین اب چوبیس سال کا سمجھ بوجھ والا ایسا سرکاری بابو بن چکا تھا،جو مولوی کرامت کی تربیت سے ہوتا ہوا جلال آباد،وہاں سے ایف سی کالج لاہور اور اب گورنر ہاؤس لاہور میں پچھلے چھ سال سے سرکار انگریز کا نوکر تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اِتنا سیانا ہو گیا کہ مولوی کرامت سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گیا۔ آنکھوں کو گول شیشوں کی عینک چڑھ گئی تھی،جس نے شخصیت کو اور بھی سنجیدہ کر دیا۔ گورنر ہاوس لاہور میں نوکری کے دو سال بعد ہی ا ُس نے لاہورمیں اپنی جگہ لے کر وہاں مکان بنا لیا۔ تنخواہ تو اتنی نہیں تھی کہ اُس سے گھر کا خرچ چلانے کے بعد مکان بھی خریدا جا سکتا مگرمولوی کرامت نے جلال آباد اپنی نوکری کے دوران مختلف حیلوں سے اِتنی پونجی جمع کر لی تھی جو دیر تک کام آ سکتی تھی۔ ولیم کی وجہ سے فضل دین کو مولوی کرامت کی وفات کے فوری بعد نوکری ملنے سے وہ رقم محفوظ رہی اور خرچ ہونے سے بچ گئی۔ وہ رقم اور کچھ تنخواہ سے بچا کر فضل دین نے لاہور میں مکان بنا لیا،جہاں اب وہ اپنی ماں شریفاں،ساس رحمت بی بی اور اپنی بیوی اور ایک دو سالہ بیٹے نوازالحق کے ساتھ رہنے لگا۔ اپنے باپ مولوی کرامت کی طرح فضل دین بھی کام اور عاجزی کا پیکر تھا۔ اِن خوبیوں کی وجہ سے تمام افسروں کا منظور نظر ہو گیا۔ جس نے جو بھی کام کہا،چاہے آدھی رات تک بیٹھنا پڑتا،فضل دین اُسے مکمل کر کے ہی دم لیتا۔ بلکہ بعض غیر متعلقہ کام بھی اُس کے ذمے لگا دیے جاتے تو وہ اُنہیں بھی ڈیوٹی سمجھ کر پورا کر دیتا۔ اِن سب باتوں کے علاوہ اُس نے اپنے کئی افسروں کو گھر کی بنی ہوئی دیسی گھی کی پنجیری پر لگا دیا،جو فضل دین کی ساس ایسی عمدہ بناتی کہ کسی نے کیا بنائی ہوگی۔ اُس نے ایک سائیکل بھی خرید لی،جس پر دفتر آنے جانے کے علاوہ فضل دین صبح سویرے افسروں کے گھر ناشتہ وغیرہ کا سامان بھی بازار سے خرید کر پہنچاآتا۔ جس کی فہرست اور پیسے فضل دین کو شام ہی دے دیے جاتے تھے۔ اِن کاموں سے فارغ ہو کر وہ سب سے پہلے دفتر میں داخل ہوتا۔ بعض اوقات تو چپڑاسی کے گیٹ کھولنے سے پہلے ہی باہر تھڑے پر بیٹھا ہوتا۔ فضل دین کی بیوی زینت ایسی ہشیار تھی کہ وہ فضل دین کا کھانا نماز پڑھ کے سورج نکلنے سے پہلے ہی تیار کر دیتی۔ فضل دین،جسے بچپن میں مولوی کرامت کی ڈانٹ نے سانجرے اُٹھنے کا خوگر بنا دیا تھا،جب تک نماز پڑھ کر فارغ ہوتا،کھانا تیار ہوتا۔ وہ کھانا کھاتا،سائیکل اُٹھاتا اور اپنے افسر کی دی ہوئی فہرست کے مطابق بازار سے سودا سلف خریدتا اور افسر کے گھر والوں کے اُٹھنے سے پہلے یہ سامان پہنچا دیتا۔ پھر وہیں سے اپنے دفتر آجاتا۔ دوپہر کا کھانا وہ سویرے گھر ہی سے لیے آتا اور شام یا رات کو گھر پر ہی جا کر کھاتا۔ آفس کے مسلمان افسروں اور کلرکوں کو ظہر اور عصر کی نماز بھی پڑھا دیتا۔ اِس لیے گورنرہاؤس میں رفتہ رفتہ مولوی فضل دین کے نام سے معروف ہو گیا۔ آفس کے اکثر لوگ اُس کی اِس وجہ سے بھی عزت کرتے تھے کہ جتنی آئتیں اور سورتیں اُسے یاد تھیں،کسی دوسرے کو اُن کا عشرِ عشیر بھی یاد نہیں تھا۔ اُس نے نماز کی قرات کے دوران لمبی لمبی سورتیں پڑھ کر سب کو مرعوب کردیا تھا۔ کئی دفعہ دفتر میں کام کرنے والے بابوؤں اور افسروں کے باپ دادا کے جنازے بھی پڑھا دیے۔ اُن کو گویا یہ ایک مفت کی سہولت مل گئی تھی کہ ایک تو مولوی ڈھونڈنا نہیں پڑتا تھا،دوسرا عام مولویوں سے فضل دین کا علم کہیں زیادہ تھا۔ بعض اوقات کئی لوگ خوش ہو کر اُسے کپڑے اور روپے پیسے بھی دے دیتے بلکہ رفتہ رفتہ اُس سے نکاح بھی پڑھوانے لگے۔ کئی دفتر والوں کو فضل دین کے علم کا پتا چلا تو اُنہوں نے اُس سے اپنے بچوں کو قرآن پڑھانے کا بھی کام لینا شروع کر دیا۔ اِس عمل میں فضل دین کو مزید آمدنی ہونے لگی۔ آمدنی کے اضافے نے فضل دین کے اندر ایک اور طرح کا جذبہ پیدا کر دیا۔ وہ سوچنے لگا،کسی طرح خود نہیں تو اپنے بیٹے کو ضرور افسر بنائے۔ کیونکہ افسروں کے ٹھاٹھ بابووں سے کہیں زیادہ تھے۔ چنانچہ فضل دین اِس کھوج میں لگ گیا کہ لوگ افسر کیسے بنتے ہیں اور چپکے چپکے ہر ایک سے معلومات لینے لگا۔ کسی نے فضل دین کو کچھ بتایا،کسی نے کچھ۔ پہلے پہل اُس کے ذہن میں یہ بات تھی،افسر صرف انگریز ہی بن سکتا ہے۔ لیکن جب آہستہ آہستہ اُسے پتا چلا،بہت سے مسلمان بھی افسر ہیں تو فضل دین نے اُس کی خبر لینا ضروری سمجھی۔ وہ بہت سے افسروں کے بچوں کو قرآن پڑھا رہا تھا،جس کی وجہ اُن کے والدین کے متعلق بہت سی معلومات اُس کے پاس جمع ہو رہی تھیں۔ اِن معلومات میں ایک بات اُس کی سمجھ میں آ گئی کہ افسر بننے کے لیے انگریزی میں بولنااور امیر بچوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا ضروری ہے۔ اِس سلسلے میں انگلستان بھی جانا پڑتا ہے،جس کے لیے بہت زیادہ پیسے چاہییں۔ اِس سب کے پیش نظر فضل دین نے بیٹے کے لیے میدان ہموار کرنا شروع کر دیا اور روپے پیسے کو کنجوسی کی حد تک احتیاط سے برتنے لگا۔ دفتر سے ملنے والی تنخواہ ساری کی ساری بچانے کے چکر میں فضل دین نے نماز،جنازے،نکاح،ختم دورد اور افسر کالونیوں میں قرآن پڑھا کر پیسے کمانے کی کاوشیں مزید تیز کر دیں۔ اِس سلسلے میں فضل دین کے گھر باہرسے ختم درود کا کھانا بھی آنے لگا اور ہانڈی کے پیسے مزید بچنے لگے۔ یہ سب کچھ اول تو فضل دین نے اپنے بیٹے کے لیے کیا تھا مگر آہستہ آہستہ اُس کی یہ عادت اپنے بچپن کی افتاد کو غالب کر گئی اور وہ بابو سے زیادہ دوبارہ مولوی بن گیا۔ لیکن دفتر کے کام میں کوتاہی پھر بھی کبھی نہ کرتا۔ البتہ اِتنا ہوا کہ جو دین کے کام وہ دفتر میں بغیر پیسوں کے کرتا تھا،اب پیسوں سے شروع کر دیے،جس میں اُسے کافی زیادہ ترقی ہوئی اور آمدنی میں کئی گنا اضافہ۔

Leave a Reply