[blockquote style=”3″]

علی اکبر ناطق کا خاندان 1947کے فسادات میں فیروز پور سے ہجرت کر کے وسطی پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی گاؤں 32ٹو ایل میں آباد ہوا۔ یہیں علی اکبر ناطق 1977 میں پیدا ہوئے اور اسی گاؤں میں موجود ہائی سکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انگریز دور میں یہ مثالی گاؤں تھا۔ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑ ا سے پاس کیا۔اُس کے بعدمعاشی حالات کی خرابی اور کسمپرسی کی وجہ سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کیے۔ ناطق نے تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اور بطور میسن پندرہ سال تک کام کیا۔ اسی دوران اُن کا اردو نثر، شاعری، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ 1998 میں کچھ عرصے کے لیے مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب اور مڈل ایسٹ بھی رہے۔ اِس سفر میں اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اسی دوران ایک افسانہ (معمار کے ہاتھ) لکھا، جو بہت مقبول ہوا اور اُس کا محمد حنیف نے انگریزی ترجمہ کیا، جو امریکہ کے مشہور ادبی میگزین گرانٹا میں شائع ہوا۔ ناطق 2007 میں اسلام آباد آ گئے، یہاں اِن کی ملاقات افتخار عارف سے ہوئی، جو اُن دنوں اکادمی ادبیات کے چیئر مین تھے، انھوں نے ناطق کو اکادمی میں ایک چھوٹی سی ملازمت دے دی، جو افتخار عارف کے اکادمی چھوڑ جانے کے بعد ختم ہو گئی۔ پھر تین سال کے لیے مقتدرہ قومی زبان میں رہے اور اُس کے بعد فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن میں چلے گئے۔ اب ایک نجی یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتے ہیں۔

ناطق ادبی طور پر 2009میں اُس وقت اچانک دنیا کے سامنے آیا، جب کراچی کے مؤقر ادبی رسالے،”دنیا زاد “نے اُن کی ایک دم دس نظمیں شائع کیں اور ادبی رسالے”آج”نے پانچ افسانے چھاپے۔ ناطق کی تخلیقات نے اچھوتے اور نئے پن کی وجہ سے لوگوں کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ 2010 میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ “بے یقین بستیوں میں “ آج،کراچی سے چھپا اور یو بی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔ 2012میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “قائم دین “ چھپا،جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا اور اِسے بھی یو بی ایل ایوارڈ ملا، 2013میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ “ یاقوت کے ورق “آج کراچی سے چھپا۔ یہ تمام کتابیں انگلش اور جرمن میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور پینگوئن انڈیا شائع کرچکا ہے۔ علی اکبر ناطق کے ناول "نولکھی کوٹھی” نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے، پینگوئن انڈیا اسے انگلش میں چھاپ رہا ہے، ہم لالٹین قارئین کے لئے یہی ناول سلسلہ وار شائع کر رہے ہیں۔

[/blockquote]

علی اکبر ناطق کے ناول "نولکھی کوٹھی” کی مزید اقساط پرھنے کے لیے کلک کیجیے۔

(42)

بہت دنوں سے ولیم سوچ رہا تھا کہ سرکاری نوکری پر لعنت بھیج دے۔ صرف اوکاڑہ میں رہ کر اپنا ذاتی فارم چلائے،جس پر کیتھی کسی طرح بھی راضی نہ ہو سکتی۔ شاید وہ اُسے بھی نظر انداز کر کے فیصلہ کر بیٹھتا کہ اچانک اُس کی خوش نصیبی سے برطانیہ پر ایک آفت ٹوٹ پڑی اور وہ تھی جنگ عظیم دوم۔ ہٹلر کی حکومت نے مشرقی یورپ میں ایک وسیع اور جدید سلطنت "لونگ اسپیس” (لیبن سروم) کے قیام کا خواب دیکھا تھا۔ اُس نے یہ خیال اپنے لوگوں پر واضح کیا تو جرمن لیڈروں نے یورپ پر جرمنی کے تسلط کیلئے جنگ کو ضروری قرار دے دیا۔ سویت یونین کی غیر جانبداری حاصل کرنے کے بعد جرمنی نے یکم ستمبرانیس سو انتالیس میں پولنڈ پر حملہ کرکے دوسری جنگ عظیم کا آغاز کر دیا۔ اِس کھلم کھلا جارحیت کو روکنے کے لیے برطانیہ اور فرانس نے رد عمل کے طور پر تین ستمبر کو جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اُدھر ایک ماہ کے اندر جرمن نے سویت فوجوں کے اتحاد سے پولنڈ کو شکست دے دی۔ پولینڈ جرمنی اور سویت یونین کے درمیان تقسیم ہو گیا۔ یہ وہ دور تھا جب اِس سب کچھ سے لا تعلق ولیم پنجاب کے چیف سیکرٹری ہاؤس لاہور میں کُھڈے لائن لگا،فائلوں کے اُوپر سے مکھیاں اُڑا رہا تھا۔ وہ اِس جنگ کی خبریں تو مسلسل سُن رہا تھا لیکن ابھی جنگ کی آواز براہ راست ہندوستان نہیں پہنچی تھی۔ اِس لیے اُسے اس سب کچھ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ویسے بھی کچھ وقت تک عارضی سکون ہو چکا تھا،جونو اپریل انیس سو چالیس تک جاری رہا اور اُس وقت ختم ہوگیا،جب جرمن فوجوں نے پھر ایک دفعہ ناروے اور ڈنمارک پر حملہ کردیا۔ یہی وہ وقت تھا جب بر طانیہ کے کان پر دوبارہ جوں رینگی اور وہ اِس کھجلی پر چونکا۔ اُدھر جنگ کا آغاز ہو ااِدھر برطانوی کالونیوں میں انگریزوں اور مقامیوں کو افسریاں پلیٹوں میں بکنے لگیں۔ اِسی ریلے میں کئی معتوبوں کی غلطیاں بھی تھوڑی بہت سرزنش کے بعد بخش دی گئیں۔ چنانچہ ولیم کی بھی سنُ لی گئی اور اُس کی خدمات دہلی ڈویژن کے سپرد کر دیں۔ جہا ں انہیں بطور ڈپٹی کمشنر ضلع روہتک بھیج دیا۔

ولیم کا اتنی جلدی اچانک ڈپٹی کمشنر بن جانا نہایت اعزاز کا باعث تھا اور کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ کجا لاہورمیں پندرہ ماہ سے مکھیاں مارنے کاکام اور کجاایک دم پورے ضلع کا وائسرائے۔ آڈر ملنے کے بعد اُس نے فوراً کیتھی کو اطلاع دی اور کہا،محترمہ جلدی ضلع کی میم بننے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ کیتھی نے یہ سنتے ہی اوکاڑہ میں اپنی نیابت کے منصوبے شروع کرنے کے ساتھ سفر کی تیاری شروع کر دی۔ سب سے پہلے اُس نے ڈپٹی کمشنر کو ذاتی طور پر ملنے والے ملازمین کی لسٹ تیار کی۔ جس کی تعداد پینتیس کے لگ بھگ تھی۔ اِن میں خاص کر،سائیس،دھوبی،خانساماں،بھنگی،باورچی،مالی،گھسیارا،چڑی مار، قصاب، مچھیرا، ماشکی، مالشیا،حلوائی،سگ پرور،بٹیر باز،مرغ باز،اور اسی طرح کے نجانے کیا کیا الا بلا نوکروں کی پلٹنیں تھیں۔ یہ تو باقاعدہ نجی ملازم تھے۔ ورنہ تو اب پورا ضلع ملازم ہونے والا تھااور کسی کی کیا جرات کہ اُن کی مرضی کے خلاف پر بھی مارتا۔ ولیم اِسی خوشی میں نولکھی کوٹھی پر پہنچا اور سب دوستوں کو بلا کر ایک لمبی دعوت سے سر فراز کیا۔ جانسن صاحب نے (جو ایک سال پہلے ریٹائرڈ ہو چکے تھے) اپنے تجربات کی تھکادینے والی کہانیاں سنائیں اور ایسی ایسی نصیحتوں کی زنبیلیں کھولیں،جو اگرچہ بوسیدہ ہو چکیں تھیں،پھر بھی ولیم کو سننی پڑیں کہ یہ کچھ دیر کی کوفت اُس کے والد کے لیے طمانیت کاباعث تھی۔ جانسن کے لیے ویسے بھی یہ ایک ایسی خوشی تھی،جس کا نہ ملنا ایک طرح کی بے توقیری تھی،کہ پشت در پشت ملنے والی کمشنری اگر کسی جگہ رک جاتی تو خاندان کو بٹہ لگ جاتا۔ اِس لیے جانسن صاحب ولیم سے بھی زیادہ پُرجوش تھے اور دوستوں کو اپنے خاندان کے قصے لطف لے لے کر سنا رہے تھے۔ اگر ولیم کے ڈپٹی کمشنر بننے کی کہانی اندر سے کھولی جاتی تو کہیں جانسن صاحب کی بار آور کوششیں درمیان میں موجود تھیں۔ دعوت میں پادریوں سے لے کرڈپٹی کمشنروں تک سب جمع تھے،جنہیں جانسن صاحب کو اپنا نام و نامود دکھانا منظور تھا۔ دعوت کے بعد ولیم بلا تاخیر افسرانہ اعزاز کے ساتھ روہتک کی طرف روانہ ہوگیا اور سیدھا ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں جا کر دم لیے۔ جو چنددن پہلے اُس کے لیے خالی کر کے،اُس میں ولیم کا ذاتی سامان لگا دیا گیا تھا۔

یہ بنگلہ ایک طرح کا گورنر ہاؤس ہی تھا۔ وہ بڑی بڑی پیلے رنگوں کی دیواریں اور دیواروں کے اندر سفید انڈے کی طرح کا اونچا سا بنگلہ،جس کے بے شمار کمرے،مہمان خانے،ڈائیننگ روم،ڈرائینگ روم اور دوسرے کمرے تھے۔ اِن کے علاوہ کئی کئی چبوترے،سہ دریاں،بارہ دریاں اور شش دریاں سفید رنگوں میں ایک کے بعد ایک بنگلے کے کھلے صحنوں میں ہنس رہی تھیں۔ یہ سب تو ایک طرف،ولیم بنگلے میں اُترا تو اُس کا استقبال کرنے کے لیے آدھا شہر وہاں موجود تھا۔ دو ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر،ضلع کی پانچوں تحصیلوں کے تحصیلدار،نائب تحصیلدار،پولیس کے افسر اور نہ جانے کس کس شعبے کے لوگ تھے۔ ان سرکاری لوگوں کے علاوہ شہر کے بڑے اور امیر لوگوں کی الگ کھیپ سلام کرنے کے لیے پہنچی ہوئی تھی۔ ولیم نے ان سینکڑوں افراد کے مجمعے کو دیکھا،جو اُسی کی خاطر کھڑے تھے،تو چند لمحوں کے لیے اُس کے اندر رعونت نے بھرپور پھریری لی۔ لیکن اِس طرح کے معمولات وہ اپنے باپ دادا کے ساتھ دیکھ چکا تھا،اِس لیے زیادہ فرق نہ پڑا اور وہ پہلی حالت میں آ گیا۔ لوگ بہت زیادہ تھے لیکن ولیم نے ترتیب میں کھڑے ہوئے آٹھ دس سے ہی ہاتھ ملانے پر اکتفا کیا۔ اسی طرح ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر جان میکن نے بھی چند لوگوں کا تعارف کرا کے باقی کو نظر انداز کر دیا۔ وہ جان گیا تھا،صاحب اِس وقت تھکے ہوئے ہیں اور جلد ی مجمع اپنے سے دور کر دینا چاہتے ہیں۔

روہتک میں کافی عرصے سے ڈپٹی کمشنر کی جگہ پر اسسٹنٹ کمشنر ہی کام کر رہا تھا۔ یہاں کسی کو اتنی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی اور کام بخوبی چل رہا تھا لیکن اچانک جنگ کی وجہ سے ہنگامی حالات پیدا ہوئے تو اس آسامی کو پُر کرنے کا خیال آ گیا اور قرعہ ولیم کے نام نکل آیا۔

تعارف کے بعد ولیم نے جلد ہی سب کو رخصت کر دیا تاکہ دوسرے دن مکمل آزادی کے ساتھ اگلے اقدام کا بندوبست کیا جائے۔
دوسرے دن ولیم ڈپٹی کمشنر ہاؤس پہنچا تو عمارت کو اندازے کے مطابق نہایت پُر شکوہ پایا۔ دور تک بلندو بالا کمرے ہی کمرے اور کھلی راہداریاں۔ ولیم کا اپنا کمرہ جلال آباد والے سے دگنا تھا۔ انتظامیہ کا پروٹوکول بھی کمال تھا۔ مگر اِس کے باوجود ولیم کو یہاں کچھ خلا سا محسوس ہو رہا تھا۔ جس کی فی الحال نشان دہی تو نہیں ہو رہی تھی لیکن کچھ ایسا ضرور تھا،جسے ولیم سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ یہاں اُس کا،پی اے،ایک راجپوت رانا دھنپت رائے تھا،جو شائستہ اور صاف ستھرا پچاس سال کی عمر کے لگ بھگ کا شخص تھا۔ اُس کی مونچھیں ضرور تھیں لیکن ایسی،جس سے ولیم کو کسی قسم کی تکلیف پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ سر پر کُلے دار پگڑی نے مو نچھوں کو مزید بارعب بنا رکھا تھا۔ رائے دھنپت صاحب اردو کے ساتھ انگلش بھی اچھی طرح سمجھتا اور بولتا تھا۔ ولیم کو پہلے دن ہی اُس کی لیاقت کا اندازہ ہو گیا۔ اُس نے اُسے جتنی ہدایات دیں،اُن پر اس قدر پھرتی سے عمل کیا کہ خود ولیم بھی دنگ رہ گیا۔

ولیم نے دوسرے روز ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنرز اورتمام تحصیلداروں کا اجلاس طلب کیا اور کام کے آغاز کے بارے میں منصوبہ بندی کرنے لگا۔ اُسے ایک بات کا اطمنان تھا کہ اب اُسے بہت سے کاموں میں آزادی ہوگی۔ وہ اُن کے بارے میں کسی کو جواب دہ نہیں ہو گا۔ وہ بے دھڑک اُن کو نبٹانے کی طرف توجہ دے گا اور جو کام اپروول کے محتاج ہوئے،وہ آہستہ آہستہ بھی آگے بڑھتے رہے تو مضائقہ نہیں۔ ولیم نے پہلے ہی اجلاس میں اپنی گزارشات کی وضاحت کردی اور تمام تحصیلوں کے ذمہ دار افسروں پر واضع کر دیا کہ اُسے صرف تین چیزوں کی ضرورت ہے۔ اول تعلیم کے بہتر نتائج،دوم معاشی ذرائع کا پیدا کرنا اور سوم گورنمنٹ کے لیے خراج کے نظام کو مزید بہتر بنانا۔ یہ اُن کی پہلی ترجیحات ہیں۔ اِن کے علاوہ تمام کام ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ ضلعی گزٹ کے مطابق،جس کا مطالعہ کئی روز پہلے ولیم کر چکا تھا،روہتک میں امن و امان کے حوالے سے زیادہ خرابی نہیں تھی۔ لوگوں میں اکڑ پھکڑ کافی تھی لیکن بڑے پیمانے پر شر پسندی پھیلانے کی جرات ابھی تک پیدا نہ ہو سکی تھی،نہ ہی آگے توقع تھی۔ اس لیے ولیم نے اس معاملے پر بات کرنے کی زحمت نہیں کی اور ہدایات دے کر اجلاس ختم کر دیا۔ آفیسرز،جنہیں ابھی تک روہتک میں کسی ڈپٹی کمشنر نے ڈیل نہیں کیا تھا،کو بھی ولیم کے انداز گفتگوسے واضح ہو گیا کہ اب بڑے افسر کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ میٹنگ کے انجام پر اُنہوں نے بھی کام کرنے کے انداز میں تبدیلی لانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔

لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد ولیم کو محسوس ہوا،وہ جو سوچ رہا تھا،اتنا آسان نہیں تھا۔ اب اور طرح کی مجبوریاں سامنے دکھائی دینے لگیں۔ اُسے اس بات کا ندازہ نہیں تھا کہ حالات میں بڑے پیمانے پر تبدیلی شروع ہو چکی ہے۔ اچانک مسلم لیگ اور کانگرس کے جلسے چل نکلے تھے،جن سے اُسے پہلے ہی بہت زیادہ کوفت ہوتی تھی۔ وہ اُن کو روکنے کا اختیار بھی نہیں رکھتا تھا۔ کئی بار دفعہ چوالیس کا نفاذ کر کے اس طرح کے جلسوں کا ناطقہ بند بھی کیا َلیکن صاحبانِ جلسہ کہیں اُوپر سے احکامات حاصل کر کے لے آتے اورآزادی کی بکواس شروع کر دیتے۔ ولیم کو بعض اوقات ان سے وحشت محسوس ہوتی۔ ولیم کو اس بات پر شدید غصہ آتا کہ ان کے بڑے اصل میں انگریزوں کو نکال کر اپنی حکومت چاہتے ہیں۔ اُس کے ذہن میں طرح طرح کے اندیشے آنے شروع ہو جاتے۔ وہ سوچتا،کیایہ ہندوستانی اُسے بھی نکال دیں گے؟ حالا نکہ اُن کے خاندان کو یہاں پورے ڈیڑھ سو سال ہوگئے ہیں۔ بعض اوقات ولیم دل کو دلاسا دینے کے لیے کہتا،یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔ جو حکومت اتنی جدو جہد اور طاقت سے حاصل کی گئی ہے،اُسے انگریز اتنی آسانی سے اِن گنواروں کے سپرد نہیں کریں گے۔ جن کے پاس نہ تعلیم ہے اور نہ حکومت چلانے کا تجربہ ہے۔ وہ خیال کرتا،اصل میں یہ سب کچھ جنگ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ان خیالات اور اندیشوں کے باوجود ولیم اپنے تئیں کچھ نہ کچھ کرنے میں جتا رہا اور کافی سارے نتائج حاصل بھی کر لیے مگر چند مہینوں میں حالات کے پیشِ نظر ولیم کو اندازہ ہو گیا کہ اُس کے جنگ کے متعلق اندازے ٹھیک نہیں تھے۔ وہ طول پکڑتی جارہی تھی۔ اِدھر اُس کے اختیار ات کی کڑیاں آہستہ آہستہ ٹوٹتی جا رہی تھیں۔ مقامی اور کالوں کی جراتیں بڑھ رہی تھیں اور بعض احکامات پر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ عمل کر نے پر مجبور تھا،جو ہندوستان کی آزادی اور کالوں کے وافر حقوق کے متعلق ہوتے۔ ولیم نے حالات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیا تو اُسے لگا،اُوپر کی سطح پر کہیں گڑ بڑ ہو چکی ہے۔ اُس کی بھیجی ہوئی فائلیں یا تو بغیر اپروول کے واپس آ رہی تھیں یا اُن میں بلا وجہ کی تاخیر ہو رہی تھی۔ کبھی بجٹ کا بہانہ کر کے،کبھی کہ دیا جاتا،حکومت کی اِس کام میں ترجیح نہیں ہے۔ پھروہ جلد ہی بہت کچھ جان گیا اوراُسے پتا چل گیا کہ اس وقت پورے ہندوستان کی انتظامیہ اِسی طرح چل رہی ہے۔ جس میں اُس کا کام بھی عبوری سطح کا اور ہنگامی بنیادوں پر ہو گیا تھا۔ اس حالت میں اُسے ایک سال گزر گیا۔ اس دوران کام کی بڑھتی ہوئی یکسانیت نے اُس کی طبیعت کو تباہ کر دیا۔ اِن حالات میں کیتھی اُسے اِدھر اُدھر سے ہر وقت دلاسا دینے میں لگی رہتی اور پل پل کا خیال رکھتی۔ لیکن اسے کمشنری کی جتنی خوشی ہونی چاہیے تھی، وہ سب غارت ہو کے رہ گئی۔ اِس وقت کمشنر ی کے اختیارات اُس کے لیے ایک ایسا خواب ہو گئے تھے،جن میں مناظر تو نظر آتے ہیں لیکن خواب دیکھنے والا اُن مناظر کو نہ چھو سکتا ہے،نہ اُن سے لذت حاصل کرسکتا ہے۔ ایک تو یہ ایسی گائے کا دودھ تھا،جو جنگ کی وجہ سے ہر کس و ناکس کو پلا دیا گیا۔ دوئم،اِس شاہانہ عہدے کے ساتھ کچھ ایسی ہدایات نتھی کردی گئیں،جو کسی طرح بھی ڈپٹی کمشنر جیسی پُر وقار ذات کے لیے جائزنہیں تھیں۔ بجائے اِس کے،کہ ڈپٹی کمشنر اپنے ضلع میں بلا شرکتِ غیرے،جیسا کہ وہ سوچ رہا تھا، حکمرانی کرے، اُسے بریگیڈیروں اور جنرلوں کی ہدایات پہنچنا شروع ہو گئیں اور سخت سے سخت حکم وصول ہونے لگے۔ مثلاً ضلع سے جتنے جوان ہو سکیں،فوج میں بھرتی کے لیے بھیجے جائیں۔ غلہ کو ذخیرہ کر کے اُس کا حساب پہنچایا جائے۔ زیادہ سے زیادہ خراج اور مالیہ وصول کیا جائے۔ ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا جائے۔ بعض اوقات تو یہ حکم نامے کمشنر آفس سے آنے کے بجائے ڈائریکٹ ہی وصول ہونے لگے،جو ولیم کے لیے اس قدر آزار کا باعث تھے کہ اُسے اپنا یہ عہدہ ایک چپڑاسی سے بھی بد تر معلوم ہونے لگتا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ آخر وہ کس کے ماتحت ہے؟ آیا اپنے ڈویژن آفس کی سول انتظامیہ کا،جہاں سے اصولی طور پر اُسے تنخواہ ملتی ہے یا پھر میرٹھ چھاونی کا،جہاں کے فوجیوں کی حیثیت اُس کے سامنے ایک گنوار زبان استعمال کرنے والے جانوروں کی تھی۔ ولیم کبھی کبھی خیال کرتا،اِس سے تو بہتر اُس کے وہی دن تھے،جب وہ جلال آباد میں اسسٹنٹ کمشنر تھا اور ہیلے کا ماتحت تھا۔ اُسے ہیلے،اپنے باپ اور اُن ڈپٹی کمشنروں پر رشک آنے لگا،جووقار کو تباہ کردینے والی جنگ سے پہلے ریٹائر ہوکر عزت بچا چکے تھے۔ اِس کے باوجود ولیم دل کو دلاسا دینے کے لیے سوچتا کہ مصیبت کے دن تھوڑے ہی ہیں،گزر جائیں گے تو اُن کی افسری کی شان میں بھی پہلے والی چمک دمک آجائے گی۔ مگر اُسے پھر آزادی کے متوالوں کے بے ڈھنگے مطالبوں کی یاد آجاتی جو روز بروز بڑھ رہے تھے اور منظور بھی ہورہے تھے۔

ایک طرف درج بالا بکواسیات تھیں،دوسری طرف روہتک کا ماحول ولیم کے لیے انتہائی اذیت ناک تھا۔ اُسے روہتک میں ڈیڑھ سال کے قریب گزر چکا تھا۔ یہ عرصہ اُس کی طبیعت کو اچاٹ کر دینے کے لیے ہر دن نئی بیزاری لے کر آتا اور ولیم کی نحوست میں اضافہ کر دیتا۔ یہ ضلع دہلی کے مغرب میں چالیس یا پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر ایک خشک شہر تھا،جس کے مضافات میں مٹی کے ٹیلے،عک اور ببول کی جھاڑیاں حد نظر تک پھیلی ہوئی تھیں۔ شہر کے ساتھ ساتھ پختہ اینٹیں بنانے والے بھٹوں کی کثرت تھی۔ اُن کی چمنیوں سے اُٹھنے والا دھواں ہر وقت شہر پر سایے بلند کیے رکھتا۔ اُن سایوں کے بیچ اُڑتی ہوئی چیلیں چکر کاٹتی رہتیں،کبھی بلندی پر اور کبھی بالکل چھتوں کے اُوپر۔ شہر کی عمارتیں زیادہ تر پکی اینٹوں کی اور پُرانے دور کی یاد دلانے والی تھیں۔ اُن پر کام اگرچہ بہت نفاست سے کیا گیا تھا لیکن اب وہ اکثر جگہ سے خراب ہو رہا تھا۔ شہر کی قریباً ساری آبادی نہ جانے کون سی زبان بولتی تھی اور کس کلچر سے تعلق رکھتی تھی۔ راجستان سے روز کی اُٹھنے والی آندھیوں نے اُس پر مزید کام دکھایا تھا۔ آئے دن شہر کے درو دیوار گرد و غبار کی تہوں میں دب جاتے۔ مضافات میں اُڑتی ہوئی ریت اور دھول نے ہر چیز کو مٹیالا بنا دیا تھا۔ لوگوں کے چہرے بھی اسی مٹی،خشکی اور دھول کے باعث اتنے بے رونق ہو چکے تھے کہ ولیم کو جلال آباد کے لوگ اِن کے مقابلے میں نہایت خوبصورت لگنے لگے۔ کڑوا تمباکو اِن کی مرغوب غذا تھی۔ آٹھوں پہر میں کوئی لمحہ ہو گا کہ اُن کے بوڑھے،جوان حتیٰ کہ بچے بھی اس لعنت میں گرفتار نہ ہوں۔ تمباکو کے کثیف اور مسلسل دھویں سے اُن کی مونچھیں اور داڑھیاں بھوری،زرد اور بدبو دار ہو چکی تھیں اور وہ اُسی ابکائی پیدا کر دینے والے رنگوں سے مانوس تھے۔ یہ لوگ نہایت سوکھے سڑے،لمبی مونچھوں،چھوٹی قامتوں،باریک آنکھوں اور چھوٹے چھوٹے پاؤں کے ساتھ دھوپ اُگاتی سڑکوں پر آتے جاتے نظر آ تے۔ بعض دفعہ ولیم اِن کے رنگ برنگے چیتھڑوں اور ٹاکیوں سے سیے گئے بستروں کے بارے میں غور کر کے کانپ جاتا،جو اُس نے دیکھے تو نہیں تھے،لیکن اِن لوگوں کی ظاہری حالت سے ہی اُن بستروں کی کیفیت کا اندازہ ہو جاتا تھا۔ جن میں دوپہر کی گرمی نکلنے تک پڑے سوتے یہ لوگ پیٹ کی بودار کثیف ہوائیں چھوڑتے رہتے اور اُن کو خود ہی سونگھتے رہتے۔ ولیم کو اُن کی دھوتیوں پر ہرگز اعتراض نہ ہوتا،اگر وہ اصل میں دھوتیاں ہی ہوتیں۔ وہ تو محض بے کار چیتھڑے تھے،جو ہمیشہ اُن کے گھٹنوں سے اُوپر اُٹھے رہتے۔ اُن چیتھڑو ں کا ایک پلو نیچے سے کھینچ کر مزید پیچھے گانڈ کی طرف سے باندھ لیاجاتا،جو ایک کچھا سا بن کر رہ جاتا اور وہ رانگڑ اُسی کچھے میں ننگادندناتا پھرتا۔ بعض اوقات وہ کچھا اتنا چھوٹا ہوتا کہ اُس کے سُکڑے ہوئے سیاہ چوتڑ صاف نظر آتے۔ ولیم یقیناً اُن کا لباس،عادات اور زبان بدلنے پر قادر نہ تھا لیکن وہ چاہتا تھا،کم از کم جس سے بھی اُس کی ملاقات ناگزیر ہو،وہ انسانوں کی حالت میں اُس کے پاس آئے۔ ولیم نے اپنے عملے کو ملاقات کے لیے ضروری ہدایات جاری کر دیں کہ ملاقاتی اپنے لباس میں پاجامہ اور کُرتہ کا اہتمام کرے۔ اسی طرح دیسی چمڑے کے جوتوں کی بجائے انگلش جوتے پہن کر آئے یاکم از کم جوتوں کے اندر اُس کے پاؤں سرسوں کے تیل اور مٹی میں غچ غچ نہ ہوں،نہ جوتوں کے چمڑے سے چرر چرر کی آواز پیدا ہو۔

لوگوں کی بد شکلی کے علاوہ ولیم کو روہتک کے مضافات سے بھی وحشت آنے لگی۔ کوسوں تک سبزے کی ایک پتی بھی نہیں تھی۔ نہ کوئی نہر اور پانی کا انتظام نظر آ رہا تھا۔ کچھ تھا،تو تمباکو کی سر سر ی فصلیں،جو اِن لوگو ں کے رزق کا واحد سہارا تھیں۔ تمباکو کی اسی بہتات کی وجہ سے ہر شخص کے ہاتھ میں اپنا ایک حقہ تھا،جسے وہ ہر وقت گُڑ گڑاتا رہتا۔ شہر کی منڈی معمول کے مطابق ہندووں کے ہاتھ میں تھی۔ مسلمان یہاں بھی محض حقے پر گزارہ کیے ہوئے تھے۔ کلچر دونوں قوموں کا ایک ہی تھا بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ جو مسلمان تھے،اُن میں مسلمانوں والی کوئی بات نہیں تھی،سوائے مفلسی اور غربت کے۔ جسے دور کرنا ولیم کے بس سے باہر تھا۔ یہاں اِتنے مسائل اور حکومت کی طرف سے عدم دلچسپی دیکھ کر ولیم کا دل چھوٹ چکا تھا۔ وہ چاہتا تھا،جتنی جلدی ہوسکے،اُس کو دہلی کے مضافات سے نکال کر جالندھر،لاہور یا ملتان ڈویژن کے حوالے کر دیا جائے مگر جو کام کرنے کے لیے اُسے یہاں تعینات کیا گیا تھا،اُس کا ٹارگٹ حاصل کرنا بھی ضروری تھا۔ جس کے لیے ولیم نے بہر حال اپنی سی کوشش ضرور کی اور اُس میں کامیاب بھی ہوا۔ سچ پوچھیں تو یہ ضلع اِس کام کے لیے ویسے بھی مناسب ترین تھا۔ وسطی پنجاب یا فیروز پور سے لوگوں کوبرطانوی فوج میں لے جانا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ وہاں لوگوں کی روٹی پوری ہو رہی تھی۔ دریاؤں کے ارد گرد بیلے،چراگاہیں اور فصلیں اُن لوگوں کی زیادہ نہ سہی،بنیادی ضروریات پوری کر رہی تھیں۔ جبکہ روہتک اور راجستان جیسے علاقوں میں بھوک اور ریت کے بگولوں کے سوا کچھ نہیں تھا،یاپھر مونچھیں تھیں کہ اُگی چلی جاتی تھیں۔ چنانچہ ولیم کی طرف سے فوج میں بھرتی کے اعلان کے ساتھ ہی ہزاروں لوگ بھاگے چلے آئے۔ جنہوں نے انگریزی وقار کو میدانِ جنگ میں مزید برقرار رکھنے کے لیے اپنی مونچھوں کے تاؤ اور زیادہ کر دیے تھے۔ ایک ایک دن میں دو دوسو لوگوں کی بھرتی ہونے لگی اور چند مہینوں میں ہزاروں لوگوں کو انگریزی ٹوپیاں پہنا کر محاذوں پر بھیجنے کے لیے ریوڑوں کے ریوڑ تیار کر لیے گئے۔ یہ اتنی بڑی اور شاندار کامیابی صرف جہلم،روہتک یا راجستان ہی سے حاصل ہوئی تھی۔ باقی تمام اضلاع میں اتنی نفری کسی بھی علاقے سے نہیں مل سکی تھی۔

اِدھر ولیم کے یہ حالات تھے،اُدھرجرمنی کی حوصلہ افزائی پرسویت یونین نے جون انیس سو چالیس میں بالٹک ریاستوں پر قبضہ کرکے اُنہیں باقاعدہ طور پر اپنے ملک کا حصہ بنا لیا۔ اٹلی،جو اتحاد (جرمنی کے حلیف ممالک) کا رُکن تھا،وہ بھی اس جنگ میں شریک ہوگیا۔ تیرہ اگست سے اکتیس اکتوبرانیس سو چالیس تک جرمنی نے انگلستان کے خلاف ہوائی جنگ شروع کی اور اْس میں شکست کھائی۔ اِس جنگ کو بیٹل آف برٹن یعنی برطانیہ کی لڑائی کہا جاتا ہے۔

مئی انیس سو بیالیس میں جب ولیم روہتک سے ہندوستانی راجپوتوں کو فوجی بھرتی کروانے میں لگا ہوا تھا،برطانوی شاہی فضائیہ نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر پہلی بار جرمنی کے اندرجنگ کرتے ہوئے ہزاروں بمبار جہازوں سے بمباری شروع کردی اور جرمنی کے بیشتر شہری علاقوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ انیس سو بیالیس کے اختتام اور انیس سو تینتالیس کے شروع میں اتحادی فوجوں نے شمالی افریقہ میں سلسلہ وار زبردست فوجی کامیابیاں حاصل کیں۔ افریقہ میں ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ نفری پر مشتمل مخالف فوجوں کے اتحاد نے مئی انیس سو تینتالیس میں ہتھیار ڈال دیا۔

اِدھر ولیم کا تبادلہ کانگرا کر دیا گیا،جہاں اُسے با لکل اِنہی حالات کا سامنا ہوا جیسا روہتک میں چل رہے تھے۔ یہاں ولیم نے ایک سال گزارا اور اگلے سال اُسے ریاست کپور تھلہ کے پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر متعین کر دیا۔ یہاں تک کہ اگست انیس سو پینتالیس میں برلن میں جرمنی کے ہتھیار ڈال دینے پر جنگ ختم ہو گئی۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی ہندوستان میں برطانوی حکومت کے دن گنے جا چکے تھے۔ جس کا احساس ولیم کو ایک سال پہلے ہوگیا تھا مگر ابھی شاید اُسے یقین تھا کہ یہ کام کہیں اُس کی ریٹائر منٹ کے قریب جا کر ہو سکے گا۔ اُنہی دنوں ولیم کا تبادلہ بطور ڈپٹی کمشنرگُرداسپور کردیا گیا اور ہزار کوششوں کے باوجود اُسے منٹگمری نہیں بھیجا گیا۔ اِس بارے میں ولیم نے نہایت اہم سفارشیں بھی کروائیں۔ لیکن جب اُسے اس معاملے میں شدید ناکامی ہوئی تو وہ سوچنے لگا کہ منٹگمری میں اُس کی پوسٹنگ ایک خواب ہی ہو کر رہ جائے گی کیونکہ معاملات ہر دن مزید بگڑتے جا رہے تھے۔ ان حالات میں ولیم کی ذہنی کیفیت اتنی تبدیل ہو گئی کہ قریب کے جاننے والوں کو اُس پر شبہ ہونے لگا،کہیں پاگل نہ ہو جائے۔ بات بات پر اُلجھنا،احکام دیتے ہوئے تحمل کو چھوڑ بیٹھنا اور بعض اوقات سامنے والے کو گالی بھی دے دینا ولیم کی عادات میں شامل ہو رہا تھا۔ اِس بات کی سب سے زیادہ تشویش کیتھی کو تھی،جو سب سے زیادہ یہ عذاب جھیل رہی تھی مگر وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی۔ اُسے اس بات کا شدید احساس تھا کہ یہ سب کچھ ولیم سے مستقبل میں پیدا ہونے والے حالات کے پیش نظر ہو رہا ہے۔ ولیم کے ہاتھ سے اختیارات کی ڈور روز بروز نکلتی جا رہی تھی اورگورنمنٹ کی طرف سے وصول ہونے والے ہرنئے حکم پر اُس کے چڑچڑے پن میں اضافہ ہو جاتا،جو کئی دن تک بر قرار رہتا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا،ہٹلر نے گورنمنٹ بر طانیہ کی ہڈیوں کا تمام گودا کھینچ لیا ہے اور اب اُن کے پاس نو آبادیات میں اپنا اقتدار قائم رکھنے کی نہ طاقت ہے اور نہ ہی جواز۔ خاص کر ہندوستان کی حالت اس معاملے میں بہت مختلف تھی۔ اتنے بڑے اور وسیع خطے کو کنٹرول کرنے کے لیے اُن کے پاس وقت بھی نہیں بچا تھا اور نہ وسائل۔ کیونکہ سوسال میں اکٹھی کی گئی دولت پانچ ہی سالوں میں ٹھکانے لگ گئی تھی اور وہ اس ماشکی کی طرح خالی ہو گئے تھے،جس کی مشک میں چھید ہو گئے ہوں،کہ گہرے کنویں سے مشک کی لمبی رسی کھینچتے کھینچتے جس کے ہاتھ شل ہو جائیں مگر مشک کا سارا پانی اس عرصے میں دوبارہ اُسی کنویں میں بہ جائے۔ ان باتوں کے علاوہ جو مشکل سب سے اہم تھی وہ یہ کہ اب ہندوستانی بھی پہلے والے نہیں رہے تھے۔ اب یہ لوگ چالاکی اور عیاری میں گوروں کے بھی کان کاٹتے تھے اور اِس چکر میں تھے،کب انگریز یہاں سے نکلیں۔ ایسے میں انہیں آزاد نہ کرنا ایسے ہی تھا،جیسے بغیر ہتھیار کے بھیڑیے کے ساتھ رات گزاری جائے۔ اس ساری صورت حال میں ولیم نہ صرف یہ کہ ہند وستانیوں سے ناخوش تھا بلکہ انگریزوں سے اور اپنے آپ سے بھی ناراض تھا۔ وہ یہ سب کچھ ہوتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اُس وقت تو اُسے اور بھی غضب آتا،جب وہ کسی انگریز کو ہندوستان چھوڑنے کے متعلق گفتگو کرتے دیکھتا،یا اُسے پتا چلتا،اُس کا فلاں دوست اپنا بوریا بستر سمیٹ کر انگلستان جا رہا ہے۔ ولیم کا اُس وقت خون کھولنے لگ جاتا گویا یہ سب اُس کے خلاف سازش تھی جس میں انگریز،مسلمان،ہندو سب شامل تھے۔

Leave a Reply