[blockquote style=”3″]
[/blockquote]
(51)
یہ انیس سو پچھتر کے دسمبر کا آغاز تھا اور ملک کو وجود میں آئے اٹھائیس سال ہو گئے تھے۔ اِس عرصے میں ولیم مقامی لوگوں میں اِس طرح گھل مل گیا کہ رنگ اور آنکھوں کے سوا اُس میں ولائتیوں کی کوئی حرکت نہ رہی۔ اردو پہلے بھی روانی سے بول لیتا تھا،اب پنجابی میں بھی خاصا ہاتھ صاف کر لیتا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مرغے لڑانے،کبڈی کروانے اور قصے کہانیاں سننے کا شوق حدسے آگے نکل گیا۔ آئے دن نولکھی کوٹھی پر محفلیں جمنے لگیں۔ ولیم کے جاننے والے عشا کے بعد جمع ہو جاتے۔ کوئی نہ کوئی کہانی کہتا،جس میں رات کے گیارہ بج جاتے۔ محفل کے بعد ولیم کی طرف سے سب کو کبھی کھانا کھلایا جاتا اور کبھی صرف چائے پلائی جاتی۔ سب جانتے تھے،اُس کے پاس پیسے بہت زیادہ ہیں۔ اِس لیے وہ اُس کا احترام بھی ویسے ہی کرتے۔ مگر یہ سب لوگ غریب غربا اورمزارع قسم کے تھے۔ بیورو کریسی اور اُمرا کو ولیم نے بالکل نظر انداز کر دیا۔ بلکہ اُن کو اب ولیم کے بارے میں پتا بھی نہیں تھا کہ ایسا کوئی انگریز بھی یہاں موجود ہے۔ اِس معاملے میں اشرافیہ تو ایک طرف،مدت ہوئی،اُس کے اپنے بیوی بچوں نے بھی اُسے بالکل بھلا دیا تھا۔ پہلے پہل اُنہوں نے دو تین چکر لگائے اور ولیم کو بھی سرسری انگلستان جانے کا مشورہ دیا لیکن جب ولیم نے سختی سے اِس بات کو رد کر دیا تو وہ بھی آہستہ آہستہ اُسے بھولنے لگے اور اب نوبت یہاں تک آگئی کہ ولیم کے خطوں کا جواب بھی نہیں دیتے تھے۔ ایک آدھ بارجواب دیا بھی،تو وہ ایک دو سطر میں ایسا سرسری تھا،جسے خط کے نام پر مذاق کہہ لینا چاہیے۔ اُس کے بعد مکمل خا موشی طاری ہو گئی تھی۔ اُنہوں نے گھر بدل لیا تھا تو اُس کا پتا بھی نہیں بتایا اور پچھلے چھ سال سے ولیم کے کسی خط کا جواب بھی نہ دیا،نہ ٹیلی فون ہی کیا۔ بہت سے پرانے دوستوں کی وساطت سے ولیم نے اُن کا پتا بھی کرایا مگر کچھ خبر نہ ملی۔ ویسے بھی دوستوں نے اِس بارے میں زیادہ کھوج لگانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ولیم نے اُنہیں زیادہ تنگ کیا۔ کیونکہ اب یہ بھی اُن کے بغیر اِس طرح رہنے کا عادی ہو چکا تھا،جیسے اُس کا کوئی رشتے دارتھا ہی نہیں۔ ایسی بات نہیں تھی کہ اُسے اپنے رشتوں کا احساس نہیں تھا۔ شروع شروع میں جب اُس کے بیوی بچے گئے،تو وہ کئی سال مضطرب رہا اور بہت دفعہ،جب بھی اُنہیں ضرورت پڑی،ولیم نے اپنی بچی کھچی پونجی سے رقم بھیجنے میں تامل نہ کیا اور رشتوں کا درد رکھے رکھا۔ مگر اب اُس کے ہاتھ سے سارے رشتے ہی نکل چکے تھے،تووہ کیا کرتا۔ مچلز والے ابھی موجود تھے،جن کے ساتھ سلام دعا چل رہی تھی۔ لیکن وہ بھی لندن او ر اوکاڑہ کے درمیان معلق رہتے۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ اِس آنے جانے میں اُنہوں نے اپنے رئیسانہ ٹھاٹھ کو برقراررکھا اور ولیم سے بہت زیادہ مختلف ہو چکے تھے۔ یا کہہ لیں کہ ولیم ہی اُن سے مختلف ہو گیا تھا۔ اِس لیے اُن کے اندر بھی اب دبی دبی سرد مہری موجود تھی،جسے ولیم نے بہت دیر پہلے بھانپ لیا تھا۔ مگر وہ شاید اُن میں گزری نشانیوں کے ریزے تلاش کرنے کے لیے تعلق کو ٹوٹنے نہیں دے رہا تھا اوربرابر وہاں پھیرا لگایا کرتا۔ بلکہ اُس وقت بھی،جب وہ لندن میں موجود ہوتے۔
زمانے کے گزرتے ماہ سال میں ولیم کو اِس پورے نقصان پر تاسف تو ہوا لیکن وہ اُس کو قبول کر چکا تھا۔ چنانچہ ایک عرصے سے اُس نے بھی اُنہیں یاد کرنا چھوڑ دیا۔ اگر یاد آتے بھی تو طبیعت کو جلد کسی اور طرف مائل کر کے مصروف ہو جاتا۔ زیادہ تر انگریزی ناولیں اور انگریزی شاعری کی کتابیں پڑھنے میں لگا رہتا،جو سینکڑوں کے حساب سے اُس کی کوٹھی میں موجود تھیں۔ اُن کے خریدنے میں اُس نے ایک خطیر رقم خرچ کی تھی۔ کتاب خوانی کے علاوہ قصہ سننے کی لت اُسے شدت سے لگ چکی تھی،جس کے لیے وہ عصر سے ہی تیاری کر نا شروع کر دیتا۔
اکثر ہاتھ میں چھڑی تھامے سرپر ہیٹ رکھے پیدل ہی نکل پڑتااور اِدھر اُدھر پھرتا رہتا۔ زیادہ تر کمپنی باغ اوکاڑہ میں،جو اُسی کی تجویز پر بنا تھا۔ کبھی دس کلومیٹر طے کر کے نہری کوٹھی چلا جاتا یاکسی اور جگہ۔ مگر زیادہ تر اُس کا سفر لمبا نہیں ہوتا تھا۔ اِسی طرح دیسی لوگوں کے ساتھ چلتے چلتے بات چیت کر لیتا۔ بگھی،ٹانگے پر ہوتا تو ایک آدھ سواری بھی ساتھ بٹھا لیتا۔ کافی عرصہ پہلے زمین پر سے اُس کا قبضہ اُٹھ گیا تھا۔ جب وہ باقاعدہ آہستہ آہستہ کر کے چند ہی سالوں میں ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی افسروں کے نام الاٹ ہوگئی۔ اِس لیے جو پیسہ ہاتھ میں تھا،وہ رفتہ رفتہ کنارے لگنے لگا۔ ولیم کو اب اُس کی زیادہ پروا بھی نہیں تھی۔ کیونکہ کوٹھی ابھی تک اُس کے پاس تھی اور آٹھ دس سال تک مزید ساتھ دینے والا پیسہ بھی تھا۔ اِس لیے بھی اُسے کوئی فکر نہیں تھی کہ دیسی لوگوں کی طرح اُس کے دس دس بچے نہیں تھے۔ اُس نے رینالہ،اوکاڑہ،گوگیرہ اور اُن کے مضافات میں اِس طرح اپنے آپ کو گم کر لیا،جیسے یہ سب علاقے اُس کی ملکیت ہوں۔ حالانکہ اب تمام زمینیں اور فارم ملٹری نے اپنے قبضے میں لے لیے تھے،جو تقسیم سے پہلے گوروں کی ملکیت تھے۔ ولیم نے کئی طرح سے اثر رسوخ اختیار کر کے نولکھی کوٹھی پر اپنا قبضہ بر قرار ہی رکھا اور کچھ روپے سا لا نہ کے حساب سے اُس کا کرایہ اداکرتا رہا۔ جب اُس کی زمینوں پر قبضہ ہوا تھا تو وقتی طور پر ولیم انگلستان چلا گیا تھا لیکن کچھ ہی مہینوں بعد واپس آگیا تھااور نولکھی کوٹھی میں بطور کرایہ دار براجمان رہا۔ ویسے بھی یہ کوٹھی ایک جرنیل کے نام لیز پر تھی،جس میں اُسے رہنا تو نہیں تھا کیونکہ نہ تو یہ کوٹھی کسی بڑے شہر میں تھی اور نہ ہی اوکاڑہ شہر کے درمیان میں تھی۔ اوکاڑہ کے شمال مشرق میں نہر کے دوسری طرف تین کلومیٹر باہر تھی،جس میں کسی مقامی کو رہنے کی کیا ضرورت تھی،جبکہ ولیم اِس کا کرایہ بھی زیادہ دینے کو تیار تھا اور پچھلے کئی سال سے دیتا بھی رہا تھا۔ اِس لیے اُس کا یہ مسکن بر قرار رہا۔
کچھ دنوں سے اُس کی طبیعت میں ایک بے چینی پھر داخل ہو رہی تھی۔ وہ کون سی بات تھی،جس کے باعث یہ کیفیت تھی۔ اس بارے میں ابھی وہ خود بھی لا علم تھا۔ ایک شام اِسی طرح سب جمع تھے اورمیاں محبوب علی خاص لاہورسے داستان کہنے کے لیے آئے ہوئے تھے،جو پہلے بھی کئی دفعہ آ چکے تھے۔ کوٹھی کے دالان میں ولیم کی کرسی کے سامنے پہلے آٹھ دس کرسیاں اور اُس کے آگے تین تین چار پا ئیاں دو طرفہ لگی ہوئی تھیں،جن کے درمیان چھ فٹ کی کھلی جگہ تھی۔ ولیم کی کرسی سے آخری چار پائی تک کم از کم دس قدم کا فاصلہ تھا۔ اِس طرح کہ داستان گو موقع کے مطابق بیچ میں چہل قدمی کر سکے۔ جیسا کہ اکثر پنجابی داستان گو مجمعے کے بیچ چل پھر کر اور اداکاری کر کے کہانی سناتے ہوئے،بیچ میں کہیں کہیں لوک بولیوں،دوہروں اور ماہیوں کے ٹانکے لگاتے جاتے ہیں۔ اِس سے کہانی کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ ولیم کے ہاں اکثرکہانی کہنے والے پنجابی ہوتے تھے۔ اِس لیے اُس نے کوٹھی کے دالان میں بیٹھنے کی شکل اسی صورت میں ڈھال رکھی تھی۔ میاں محبوب علی در اصل نواب مظفر علی قزلباش کا ذاتی داستان گو تھا،جو ولیم کے اُن دِنوں کا دوست تھا،جب وہ ڈپٹی کمشنر تھا۔ اِسی دوستی کو وہ آج تک نبھائے چلا آ رہا تھا۔ یہ سردیوں کی رات تھی اورآٹھ بج چکے تھے۔ محبوب علی داستان شروع کرنے ہی والے تھے کہ چوہدری شفیع محمد بھی آن بیٹھا،جس کے ساتھ سترسال کا ایک بڈھا تھا۔ شفیع محمدکی ستگھرہ موڑ پردو مربعے زمین تھی اور ولیم کے ساتھ اچھی خاصی دوستی بھی تھی۔ ولیم جب بھی سیرکو نکلتا،اکثر چوہدری شفیع محمد کے پاس جا بیٹھتا۔ اِس طرح شفیع محمد بھی اُس کے حاضر باشوں میں تھا اوریہ رشتہ برابری کی سطح پر ہی قائم تھا۔ آج شفیع محمد کے ساتھ یہ بڈھا البتہ نیا تھا۔ اُس کے سر پر سفید پگڑی تھی اور سفید ہی کھدر کا دُھوتی اورکُرتہ تھا۔ پاؤں میں چمڑے کے دیسی جوتے تھے،جس کو خریدے ہوئے غالباً کئی سال گزر چکے تھے۔
سلام دعا کے بعد سب بیٹھ گئے تو چوہدری شفیع نے ولیم سے مخاطب ہو کر کہا،صاحب بہادر،یہ امیر سبحانی ہے۔ آج ہی حویلی لکھا سے آیا ہے۔ میں کل وہاں اپنی بہن کے ہاں گیا تھا۔ وہیں اپنے بہنوئی کے ہاں میری اِس سے ملاقات ہوئی۔ بہت عمدہ داستان کہتا ہے۔ جب میں نے اِس سے وہاں داستان سنی تو اِس کا شیدائی ہو گیا اورمنت کی کہ میرے ساتھ ایک دو دن اوکاڑہ چل۔ امیر سبحانی اُجاڑے سے پہلے فیروز پور کی تحصیل جلال آباد میں رہتا تھا۔ اِس لحاظ سے میں نے سوچا،اِسے آپ سے ملانا اچھا رہے گا۔ کیونکہ آپ بھی کافی عرصہ جلال آباد میں رہے ہیں اوراُسے یاد بھی کرتے ہیں۔ یہ آپ کا ہم وطن بھی ہے اور داستان تو یہ ایسی کہتا ہے کہ ساری رات گزر جائے گی۔ مگر آپ کا جی چاہے گا،سنتے جائیں۔
شفیع محمد تعارف کرا چکا تو ولیم نے ایک نظر بھر کر امیر سبحانی کی طرف دیکھا،گویا وہ آئینہ ہو،جس میں ولیم اپنے ماضی کا چہرہ دیکھ رہاتھا۔ دل ہی دل میں ولیم نے پوری کائنات کی خاموشی سمیٹ کر اپنے اندر بھر لی اور چند لمحے اُسی کیفیت میں بیٹھا رہا۔ لوگوں نے اُسے حقہ پیش کیا اور بیٹھنے کے لیے سامنے کی ایک کرسی خالی کر دی۔ اتنے میں ولیم اپنی سابقہ حالت میں لوٹ چکا تھا۔ اُس نے پورے مجمعے کی طرف دیکھا اور کہا،کوئی بات نہیں۔ چلو آج ہم امیر سبحانی سے سن لیتے ہیں۔ محبوب علی تو ایک دو دن ابھی یہاں ہی ہیں۔ کیوں امیر سبحانی ہمیں سناؤ گے؟
جیسی آپ کی رائے،(اور سوالیہ انداز میں چوہدر ی شفیع کی طرف دیکھا)
اُس نے کہا،بھائی امیر آپ کو لایا کس لیے ہوں؟یہ صاحب ہمارے لیے بڑالاڈلا ہے۔ آج اِسے ایسی داستان سناؤ کہ خوش ہو جائے۔
چوہدری صاحب کوشش کرتا ہوں۔ اِس کے بعد امیر سبحانی نے حقے کے دو چار لمبے لمبے تیز کش لیے،پھر اُٹھ کے چارپائیوں اورکرسیوں کے درمیان والی راہداری میں کھڑا ہو گیا۔ ہاتھ بھر کا کڑھا ہوا رومال گلابی رنگ کا،جیب سے نکال کرہاتھ میں پکر لیا،جو داستان گووں کی تسکین کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ امیر سبحانی نے رومال کے چاروں کونے اکٹھے کر کے مٹھی میں دبا لیے اور ولیم کی طرف منہ کرکے بولا،صاحب اجازت ہے تو عرض کروں؟ پھر داستان شروع کر دی اور ہلکے ہلکے قدموں سے آگے پیچھے چلنے بھی لگا۔
اول حمد خدا وند باری، دوم پاک رسول
تیجا نام علی کاجاپوں،جس کی دو جگ دھوم
چوتھی پاک رسول کی بیٹی پانچواں حسن حسین
اِن کے بعد ہیں بارہ ہادی سید کُل کونین
غازی پاک عباس بہادر،لے کر اُس کا نام
قصہ ایک دلاور کا مَیں تم کو سناؤں تمام
امیر سبحانی تمہید کے بعد اصلی داستان کی طر ف اس طرح پلٹا کہ اچانک ولیم سمیت پورا مجمع ہمہ تن گوش ہو گیا اورکہانی سننے کے ساتھ ساتھ امیر سبحانی کی حرکات و سکنات کو بھی غورسے دیکھنے لگا۔
آنکھوں دیکھا حال ہے،نہیں سُنی گنی یہ بات
سب سچ کہانی بیلیوں،شاہد رب کی ذات
اک شہرجلال آباد تھا،اُس مشرق کے پنجاب
جسے چھوڑا وِچ فساد میں،سنو مرے احباب
اُس شہرجلال آبادمیں،تھا ایک جوان دلیر
بیٹا حیدرشیر کا تھا،دھرتی کا وہ شیر
نام غلام حیدر اُس کا،جانے سب سنسار
ہوا شہید وہ سورما،پَر دیے گورکھے مار
اِس کے بعد جیسے ہی امیر سبحانی نے داستان کا قد غلام حیدر کے ذکر کے ساتھ آگے بڑھایا اور قصے کی رمزیں کُھلنا شروع ہوئیں،ولیم کی آنکھیں کُھلنے لگیں۔ امیر سبحانی کی آواز میں ایسی تمکنت اور داستان کہنے میں ایسی دلآویزی تھی کہ سب مجمعے کے سروں پر گویا پرندے بیٹھے ہوں۔ مجال ہے،کسی کا دھیان ادھر اُدھر بھٹک جائے۔ ولیم کا معاملہ کچھ آگے کا تھا۔ جیسے جیسے داستان آگے بڑھ رہی تھی،اُس کی یاد داشت کے دریچوں کے پٹ ایک ایک کر کے وا ہوتے جا رہے تھے۔ اُسے یوں لگ رہا تھا۔ وہ ایک دفعہ پھر جلال آباد کا اسسٹنٹ کمشنر بن چکا ہے۔ امیر سبحانی چارپائیوں کے درمیان کی راہداری میں ایک ہاتھ میں جریب پکڑے،کبھی آگے اور کبھی پیچھے چلتا اور غلام حیدر کا قصہ نظم کی شکل میں بیچ بیچ نثرکے ٹوٹے جما کر یوں اُٹھاتا،جیسے آئتوں کے درمیان تفسیر کی وضاحتیں ہوں۔ اِس طرح کہانی میں ایک تو تا ثیر بڑھ جاتی تھی،دوسرا سمجھنے میں آسانی رہتی۔ کہانی کے اِس انداز سے یوں تو سارا مجمع ہی کہانی سننے کی بجائے دیکھ رہا تھا۔ مگر ولیم توگویا پچھلے زمانے میں پہنچ گیا تھااورنہیں چاہتا تھا کہ یہ قصہ ختم ہو۔ اُس کے لیے چالیس سال بعد یہ ایک ایسا منظر تھا،جو اگر نہ آتا تو شاید ولیم کی زندگی میں ایک ایسا خلا رہ جاتا،جو نہ تو کبھی پُر ہوتا اور نہ ہی ولیم کو پتا چلتا،وہ کون سا خلا ہے؟ داستان آگے بڑھتی گئی۔ سب سنتے گئے اور ولیم اُس کے ایک ایک منظر میں کھوتا گیا۔ حتیٰ کہ رات گیارہ بجے امیر سبحانی نے داستان دوسرے دن عشا کے وقت تک روک دی۔ اِس کے بعد سب مہمانوں کو کھانا پیش کیا گیا۔ کھاناکھا کر سب رخصت ہو گئے اور امیر سبحانی چوہدری شفیع کے ساتھ ٹانگے پر بیٹھ کر چلا گیا۔
لوگ تو داستان سن کر چلے گئے مگر ولیم کی رات سو سال کی ہو گئی۔ امیر سبحانی نے داستان شروع نہیں کی تھی،ولیم کی زندگی کا افسانہ چھیڑ دیا تھا۔ اگرچہ ِاس میں اُس کا اپنا ذکر تین چاردفعہ ہی آیا تھا۔ وہ بھی غلام حیدر کے ضمن میں مبالغے کے ساتھ،۔ مگر یہ مبالغہ بھی ولیم کو اچھا لگا۔ بلکہ عین سچ لگا اوروہ چاہ رہا تھا،یہ کہانی کبھی ختم نہ ہو۔ اِنہی سوچوں میں ولیم کی ساری رات نکل گئی اور اُس کی آنکھیں گویا یاقوت ہو گئیں۔ کبھی اُٹھ کے ٹہلنے لگتا،کبھی بستر پر جا پڑتا۔ حتیٰ کہ فجر کی اذان نے صبح کی سواری کا نقارہ بجا دیا۔ رات بھر ولیم کے دماغ میں جودھا پور،جھنڈو والا،غلام حیدراورجلال آباد کے مضافات کا وہ علاقہ پھرتا رہا،جہاں اُس نے اُن دنوں دورہ کیا تھا۔ وہ رہ رہ کر اُنہی مضافات میں چلا جاتا اور تڑپ تڑپ کے رہ جاتا۔ کہانی ابھی تک وہاں تک پہنچی تھی،جب غلام حیدرفیروز پور میں شیخ مبارک کے پاس ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کے بندوبست میں گیا تھا۔ لیکن وہ دلچپ اِتنی تھی کہ ولیم کو اپنے ساتھ غلام حیدر کے کردار سے بھی شدید دلچسپی پیدا ہو گئی۔ وہ یہ جاننے کے لیے بے چین ہو گیا کہ آخر اُس کے ساتھ کیا بنی؟ دن چڑھا تو اُس نے بادامی رنگ کی بید پکڑی اور سیر کو نکل کھڑا ہوا۔ یہ سیر اُن زمینوں اور باغوں کی تھی،جو اب اُس کی ملکیت میں نہیں تھیں۔ اُس کی عمر اتنی لمبی سیر کے قابل نہیں رہ گئی تھی۔ پھر بھی وہ جوانوں سے کہیں زیادہ پھرتیلا اور پیدل چلنے والا تھا۔ وہ دوبارہ شام ہونے اور کہانی کے شروع ہونے کے انتظار میں کُڑھنے لگا اور خدا خدا کر کے پھر عشا کا وقت ہو گیا اور ولیم کی کوٹھی میں داستان کے پالان لگ گئے۔
یہ محفل دس دن بر پا رہی۔ امیر سبحانی نے اِس طرح اُس میں رنگ بھرا کہ محبوب علی بھی اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ ہر آدمی عش عش کر اُٹھا اور سب نے اُسے کچھ نہ کچھ ضرور دیا۔ ولیم نے دس ہزار روپے کے ساتھ کئی تحفے بھی دیے۔ اتنی بڑی رقم امیر سبحانی نے کبھی ایک دم نہیں دیکھی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں ولیم کے لیے تشکر کے آنسو آگئے۔ اب چونکہ ہر شخص پر کھل گیا تھا کہ جلال آباد کا اُس وقت کا اسسٹنٹ کمشنر ولیم تھا،اور یہ کہ ُاس نے غلام حیدر کے ساتھ زیادہ سخت رویہ اختیار بھی نہیں کیا تھا۔ اِس کے علاوہ یہ اِس داستان میں ایک بڑے متحرک کردار کی شکل میں سامنے رہا ہے اور سکھوں کی بانسری بجانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اِس لیے وہ سب ولیم کی محبت میں اور زیادہ مانوس ہو گئے۔ لیکن ولیم کہانی سننے کے بعد مزید اُداس رہنے لگا۔ اُسے وہ بھولی ہوئی تمام شامیں اور اُن شاموں میں جلنے والے قمقمے یاد آنے لگے،جو کسی بھی طرح سے خوش گوار تھے۔ اِس منظر میں اُسے پھر کیتھی اور بچوں کی یادیں ستانے لگیں،جو اگر چہ اب بچے نہ رہے تھے لیکن ولیم نے اُنہیں جس قدوقامت میں چھوڑا تھا،وہ اُسے اُسی قامت میں دِکھنے لگے اور مسلسل تڑپانے لگے۔ مگر اب اُن کا کوئی پتا نہیں تھا۔ ولیم نے سوچا،اگر ایک بار اُسے خط آ جائے تو وہ اُن سے ملنے کے لیے لندن ضرور جائے گا۔ وہ اپنے بیڈ روم میں داخل ہوا اور خط لکھنے لگا۔
بیڈ روم کی تمام چیزیں بوسیدہ ہو چکی تھیں۔ بلکہ کئی چیزیں تو استعمال کے قابل بھی نہیں رہی تھیں اور اُس نے نئی چیزیں نہ خریدنے کی قسم کھا لی تھی۔ کوٹھی بھی ولیم کی طرح بوسیدہ ہو چکی تھی۔ پھر بھی کوئی چیز اِس تنہائی میں دل کو سکون اور اطمنان بخشنے والی تھی،تو وہ یہی کوٹھی تھی،جو اُس کی اپنی تھی۔ ولیم نے کیتھی اور بچوں کو تسلی سے بیٹھ کر دوبارہ خط لکھا اور خود جا کر اوکاڑہ کچہری بازارکے تار گھر سے تار کیا۔ لیکن اُس کا کبھی جواب نہ آیا اور دن مزید گزرتے گئے۔ ولیم آہستہ آہستہ اپنی زندگی میں واپس آنے کی کوشش کرنے لگا۔ شاید امیر سبحانی سے کہانی سننے کے بعد وہ جلد بوڑھا ہونے لگا تھا۔ اُ س نے سوچا،کاش اُس کی امیر سبحانی سے ملا قات ہی نہ ہوتی اور وہ اتنا جلدی بوڑھا نہ ہوتا۔ یہ اُداسی کی حالت ولیم پر کئی مہینوں تک جاری رہی۔ سردیاں گزر گئیں،بہار نکل گئی،گرمیاں چلی گئیں،پھر سردیاں آگئیں۔ اِن بدلتے مہ و سال کے فاصلوں سے اُس کے زخم بھرنے لگے اور دو سال بعد اُس کی حالت پھر معمول پر آگئی۔ لیکن اب اُس کی شاہ خرچیاں ختم ہو گئی تھیں۔ کیونکہ جمع پونجی قریب قریب ٹھکانے لگ چکی تھی اور اُس کی زندگی کے شب و روز ارد گرد کے علاقوں میں گھومتے ہوئے،اُفق کی طرف جلدی سے سمٹتے جارہے تھے۔
waiting for next