Laaltain

نولکھی کوٹھی – تیتیسویں قسط

2 اکتوبر، 2017
Picture of علی اکبر ناطق

علی اکبر ناطق

[blockquote style=”3″]

علی اکبر ناطق کا خاندان 1947کے فسادات میں فیروز پور سے ہجرت کر کے وسطی پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی گاؤں 32ٹو ایل میں آباد ہوا۔ یہیں علی اکبر ناطق 1977 میں پیدا ہوئے اور اسی گاؤں میں موجود ہائی سکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انگریز دور میں یہ مثالی گاؤں تھا۔ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑ ا سے پاس کیا۔اُس کے بعدمعاشی حالات کی خرابی اور کسمپرسی کی وجہ سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کیے۔ ناطق نے تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اور بطور میسن پندرہ سال تک کام کیا۔ اسی دوران اُن کا اردو نثر، شاعری، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ 1998 میں کچھ عرصے کے لیے مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب اور مڈل ایسٹ بھی رہے۔ اِس سفر میں اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اسی دوران ایک افسانہ (معمار کے ہاتھ) لکھا، جو بہت مقبول ہوا اور اُس کا محمد حنیف نے انگریزی ترجمہ کیا، جو امریکہ کے مشہور ادبی میگزین گرانٹا میں شائع ہوا۔ ناطق 2007 میں اسلام آباد آ گئے، یہاں اِن کی ملاقات افتخار عارف سے ہوئی، جو اُن دنوں اکادمی ادبیات کے چیئر مین تھے، انھوں نے ناطق کو اکادمی میں ایک چھوٹی سی ملازمت دے دی، جو افتخار عارف کے اکادمی چھوڑ جانے کے بعد ختم ہو گئی۔ پھر تین سال کے لیے مقتدرہ قومی زبان میں رہے اور اُس کے بعد فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن میں چلے گئے۔ اب ایک نجی یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتے ہیں۔

 

ناطق ادبی طور پر 2009میں اُس وقت اچانک دنیا کے سامنے آیا، جب کراچی کے مؤقر ادبی رسالے،”دنیا زاد “نے اُن کی ایک دم دس نظمیں شائع کیں اور ادبی رسالے”آج”نے پانچ افسانے چھاپے۔ ناطق کی تخلیقات نے اچھوتے اور نئے پن کی وجہ سے لوگوں کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ 2010 میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ “بے یقین بستیوں میں “ آج،کراچی سے چھپا اور یو بی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔ 2012میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “قائم دین “ چھپا،جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا اور اِسے بھی یو بی ایل ایوارڈ ملا، 2013میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ “ یاقوت کے ورق “آج کراچی سے چھپا۔ یہ تمام کتابیں انگلش اور جرمن میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور پینگوئن انڈیا شائع کرچکا ہے۔ علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے، پینگوئن انڈیا اسے انگلش میں چھاپ رہا ہے، ہم لالٹین قارئین کے لئے یہی ناول سلسلہ وار شائع کر رہے ہیں۔

[/blockquote]

نولکھی کوٹھی کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

(۵۵)
دسمبر کا آغاز ہو چکا تھا۔ جاڑے نے دُھند اور کُہر کے پر پھیلا کر ہر شے اپنے حصار میں لے لی۔ خاص کر نہروں کے درمیانی خطے میں یہ کُہر اتنا زیادہ تھا کہ کبھی تمام دن نکل جاتا،مگرسورج کو ایک لمحے کے لیے بھی منہ دکھانے کو راستہ نہ ملتا۔ بس دُھند کے غبار تھے،جو اُتر رہے تھے اور چڑھ رہے تھے اور انسانوں کی آنکھیں گویا سائبیریامیں جا پہنچیں تھیں،جو سفید سایوں کے سوا کچھ نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ ولیم ایسی حالت میں زیادہ سے زیادہ یہ کرتا کہ کمرے سے نکل کر کچھ دیر کے لیے کوٹھی کے صحن میں آجاتا،جو ایک ایکڑ تک پھیلا ہوا تھا۔ کبھی آموں کے باغ کا بھی ایک آدھ چکر لگا لیتا۔ یہ باغ اُسے اِتنی دھند میں نظرتو نہیں آتا لیکن محسوس ضرور ہوتاتھا۔ اِس کے علاوہ اُس کی آمدو رفت ہر جگہ بند ہو چکی تھی۔ آج دُھند تو موجود تھی لیکن اُس میں اتنی شدت نہیں تھی اور یہ پورے پندرہ دن بعد ہوا تھا۔ ولیم نے کمرے سے نکل کردیکھا،سورج سر پر آچکا تھا اور مدھم دھوپ ٹھنڈی گھاس کو ہلکے ہلکے تھپتھپا رہی تھی۔ لیکن گھاس ابھی گیلی تھی۔ ولیم اپنی کرسی صحن میں لگا کر بیٹھ گیا اور اُس اَندھی دھوپ کو غنیمت جان کر سینکنے لگا۔ کچھ عرصے سے اُس کے ہاتھ میں بید کی بجائے عصا آچکا تھا۔ اُس نے وہ عصا ایک طرف بینچ کے ساتھ لگا دیا۔ سر پر اُون کی ٹوپی جو اَب کافی میلی ہو چکی تھی،کے اُوپر چوڑے کناروں کا ہیٹ اچھی طرح سے جما لیا تھا۔ کرسی پر بیٹھ کر ولیم نے،جہاں تک نظر جا سکتی تھی،اِس دُھندلائے ہوئے منظر کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اُس کی نظر پہلے سے کہیں زیادہ کمزور تھی اور عینک کے شیشے بھی اِتنے پرانے ہوگئے تھے کہ اُن کو صاف کرکر کے گھسا دیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے واضح اور صاف دکھائی نہ دیتا تھا۔ پھر بھی اُسے بہت ساری چیزیں ویسی ہی نظر آ رہی تھی،جیسی اُس کے بچپن میں تھیں۔ کچھ بھی تو نہ بدلا تھا،وہی آموں کے باغ،وہی کوٹھی،وہی نہریں اور وہی دور تک آلو،مکئی اور کماد کے کھیتوں کا سلسلہ تھا۔ کوٹھی کے صحن کے ایک کنارے پر کھڑا پیپل کا درخت بھی ویسا ہی تروتازہ تھا،آلووں کی فصلیں اور بیلیں سخت دُھند سے بہت حد تک سڑ گئی تھیں۔ مگر یہ واقعہ بھی ہر سال اُسی طرح سے ہوتا تھا۔ اگر پورے منظر میں کوئی شے بدلی تھی تو وہ خود ولیم تھا۔ وہ مسلسل اورمزید تیزی سے بدل رہا تھا۔ نہ صرف یہ کہ بدل رہا تھا،بلکہ جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا تھا،وہ اپنی ذات سے بے نیاز بھی ہوتا جارہا۔ حتیٰ کہ مقامی لوگوں کے ساتھ بات چیت اور قصہ خوانی کی محفلیں بھی ایک عرصہ ہواچھوڑ دیں تھیں۔ اِس حالت میں تمام نوکر بھی ایک ایک کر کے رخصت ہوچکے تھے۔ شاید اُنہوں نے اندازہ لگا لیا تھا،ولیم کی نقد پونجی اب اِس قابل نہیں رہ گئی کہ اُس پر مزید بوجھ ڈالا جائے۔ کیونکہ ذرائع آمدن تو کبھی کے ختم ہو چکے تھے۔ جب ذرائع نہ رہیں،تو دولت کے کنویں بھی ساتھ نہیں دیتے۔ یہی وجہ تھی،اُس کوٹھی کے صحن میں بڑی بڑی گھاس اور کمروں میں چیزیں گردسے اٹی جا رہی تھیں،جن کو صاف کرنے والا شاید اب کبھی نہیں آنا تھا۔ اِن چیزوں کے علاوہ ولیم نے بولنا اور بات کرنا بھی کم کردیا۔ پچھلے چھ مہینے سے مسلسل خاموشی نے اُسے اپنی ذات میں اِتنا داخل کر دیا کہ سب کی پروا کرنا چھوڑ دی۔ حتیٰ کہ اپنے جسم کی خارجی ہیئت کو بھی نظر انداز کر دیا۔ کئی کئی دن کپڑے نہ بدلتا۔ کئی کپڑے تو اب پانچ پانچ سال پُرانے ہو گئے تھے۔ یہ پرانے کپڑے پہلے دھوبی کے ہاں سے باقاعدہ دُھل کے آتے تھے مگر اب یہ تکلف بھی جاتا رہا تھا اور وہی میلے کچیلے کپڑے پہن کر ادھر اُدھر پھرتا رہتا۔ کبھی تو سارا سارا دن باہر ہی گزار دیتا اور آدھی رات کے وقت جاکر کوٹھی میں داخل ہوتا۔

اوکاڑہ شہر میں،رینالہ شہر اور اسی طرح دوسرے چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں پھرتا رہتا۔ ولیم کی اِس آوارہ گردی سے اِن علاقوں کا قریب قریب ہر شخص جان گیا تھا کہ یہ کون ہے۔ اِسی آوارگی میں ولیم کے کئی دوست بھی بن چکے تھے،جو اُسے چائے پلا دیتے،اگر رات رہنے کی کہیں ضرورت ہوتی،تو وہ چارپائی اور کھانے کا بندوبست بھی کر دیتے۔ اگر دور نکل جاتا تو وہ کئی دن کوٹھی پر واپس نہ آتا۔ مگر یہ باتیں گرمیوں کی تھیں۔ سردیوں میں عمر کے اِس حصے میں وہ یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے پچھلے ایک مہینے سے کلیانہ اسٹیٹ اور شہر سے باہر نہ نکلا کیونکہ بڑھاپا،نزلے،بخار اور دوسری چھوٹی موٹی بیماریوں کے ذریعے اپنے اثرات بھی دکھانے لگا تھا۔ پچھلی سردیوں کی بات ہے نمونیے سے مرتے مرتے بچا تھا۔ ناشتا اور کھانااکثر اوقات ولیم کے ایک پُرانے نوکر کے ہاں سے پک کر آجاتا،جو اَب اُس کا نو کر تو نہ رہا تھا لیکن مروت کا پُرانا رشتہ ابھی بھی قائم تھا اورولیم کی کوٹھی کے پچھواڑے ہی میں رہتا تھا۔ اُس نے کر کرا کے اپنی تین ایکڑ زمین بنا لی تھی اور کچھ زمین برگیڈئر صاحب کے منشی سے راہکی پر لے کر کاشت کرتا تھا۔ وہ اُس میں سبزیاں وغیرہ اُگاتا،پھر اُنہیں شہرمیں بیچ کر گھر کا گزارہ چلا رہاتھا۔

ولیم کُرسی پر کافی دیر اُسی طرح بیٹھا،اِس نکمی دھوپ میں اپنے آپ کو ٹھٹھراتا رہا کیونکہ مسلسل کمروں میں بند رہنے سے اُسے آج گھبراہٹ ہو گئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اُٹھ کر دو چار قدم تک چہل قدمی بھی کرلیتا۔ ولیم کو اس حالت میں دو گھنٹے ہوگئے۔ حتیٰ کہ سورج پھر دُھند کی دبیز تہوں میں دب گیا اور اندھیر سا چھا گیا۔ اب ولیم اُٹھ کر کوٹھی کے پچھواڑے فارم کی طرف چلا گیا،جو کبھی اُس کا اپنا تھا۔ اب اُس کا مالک ایک ریٹائرڈ برگیڈیئر تھا،جو خود تو وہاں نہ رہتا تھا۔ لیکن اُس کے مزارعوں کے گھر موجود تھے۔ اُن کے ولیم کے ساتھ اچھے مراسم بھی تھے،جن میں اُس کا وہی پُرانا ملازم بھی تھا۔ ولیم کو دیکھ کر ایک لڑکا بھاگ کر آگے بڑھا اور لکڑیاں اکٹھی کر کے آگ جلانے لگا۔ دوسرے آدمی نے ایک چار پائی اُٹھا کر اُس آگ کے پاس رکھ دی۔ جب آگ کا الاؤ روشن ہو گیا تو ولیم چارپائی پر بیٹھ گیا اور جلتی ہوئی آگ سے ہاتھ تاپنے لگا۔ چند لمحوں بعد وہی آدمی چائے اور روٹی اور روکھا سوکھا سالن،جو آلوؤں کی بُھجیاپر مشتمل تھا،لے کر آ گیا۔ ولیم نے عین پنجابیوں کی طرح چارپائی پر چوکڑی مار کر کھانا شروع کر دیا۔ اِس طرح کھانا کھلانے یا چائے پلانے میں اب مقامی لوگوں کے اندر لالچ کا کوئی مادہ نہیں تھا اور نہ کوئی احسان کا جذبہ کار فرما تھا۔ بلکہ یہ ایسی خدمت تھی،جس کا معاوضہ صرف شکریے پر ختم ہوجاتا،جو ولیم نے کبھی زبانی نہیں کیا تھا۔ شاید دل میں اُس کی گواہی موجود ہو۔ بعض اوقات ولیم کے لیے کئی گھروں سے اکٹھا چائے اور کھانا آجاتا،جسے وہ کبھی واپس نہ کرتا اور اُس وقت کے لیے ذخیرہ کر رکھتا جب کہیں سے نہ آتا۔ کیونکہ اِس طر ح کے مواقع اکثر پیش آ جاتے تھے۔ جب ہفتہ ہفتہ کسی کے گھر سے کچھ نہ آتا۔ کھانا کھا کر اور چائے پی کر ولیم بہت دیر تک وہیں بیٹھا آگ تاپتا رہا۔ اُسے یہ آگ اِتنا سکون دے رہی تھی،جیسے ولیم کی زندگی کی آخری اور پہلی خواہش یہی تھی،جو پوری ہو گئی تھی۔ پاس تین چار آدمی اور بھی بیٹھے آگ جلاتے رہے اور تاپتے رہے۔ اِس دوران وہ بہت سی باتیں فصلوں کے متعلق،اپنے کام کے متعلق،اپنی رشتہ داریوں کے متعلق،کچھ جگ بیتی غرض بہت کچھ کہتے رہے،جنہیں ولیم سنتا تو رہا لیکن بولا ایک لفظ بھی نہیں۔ ولیم کو اِن بے معنی اورمعصوم باتوں کے سننے کی عادت سی ہو گئی تھی،جن کا نہ اُسے کچھ فائدہ تھا اور نہ نقصان۔ ہاں اِن باتوں کے ذریعے سے اُن لوگوں کے گھریلو جھگڑے،شادی،غمی اور معاشی حالات سے بخوبی واقف ہوگیا تھا۔ ولیم کو اِسی حالت میں رات کے دس بج گئے اور وہ اُٹھ کر کوٹھی میں چلا گیا۔

اگلے دن ولیم ابھی اپنے بستر میں ہی تھا کہ باہر سے کچھ شور شرابے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ یہ آوازیں بالکل قریب کوٹھی کے صحن سے آتی محسوس ہو رہی تھیں۔ ولیم حیران تھا کہ یہ کیا ہے؟رات جب وہ بستر پر گیا تھا،تو کوٹھی کے صحن کے سب دروازوں کو اُس نے اپنے ہاتھوں سے تالے لگائے تھے۔ پھر صبح سویرے صحن میں یہ کیا ہڑبونگ مچ رہا تھا۔ اُس نے جلدی سے اپنی چھڑی پکڑی،سر پر اُونی ٹوپی جمائی اور بغیر چادر اوڑھے صحن میں آ گیا۔ دیکھا تو کئی آدمی ایک ٹریکڑٹرالی سے نیچے اُتر کر صحن میں گھوم رہے تھے۔ ارد گرد سے کوٹھی کا جائزہ لے رہے تھے اور شور شرابہ کر رہے تھے۔ پولیس کی ایک گاڑی میں چھ سات سپاہی بھی آئے تھے۔ ان کے علاوہ ایک دو کاریں تھیں لیکن اب تمام لوگ گاڑیوں سے باہر نکل کر صحن میں آگئے تھے۔ ولیم نزدیک پہنچا تو ایک شخص آہستہ رفتار سے آگے ہو کر اُس کی طرف بڑھا اور ایک فائل ولیم کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا،ولیم صاحب،میں یہاں کا علاقہ مجسٹریٹ ہوں،آپ اِن کاغذات پر دستخط کر دیں کہ یہ کوٹھی آپ ابھی خالی کر رہے ہیں۔ گورنمنٹ پنجاب نے یہ کوٹھی جناب سید شمس الحق گیلانی کے نام الاٹ کر دی ہے۔ آپ اپنا جو کچھ سامان اُٹھا کر لے جانا چاہتے ہیں،اُس کی اجازت ہے۔

اُس شخص کے یہ الفاظ سن کر ولیم کے اوسان گویا بالکل جاتے رہے اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ جیسے کسی نے سر پر ایک زور دار ضرب لگائی ہو۔ اگرچہ اِن پہلے جملوں کے بعد بھی اُس نے ولیم کو دوچار باتیں کیں لیکن وہ اُس نے بالکل نہیں سنیں،بس مجسٹریٹ کے ہونٹ ہلتے دکھائی دے رہے تھے۔ ولیم پر یہ سکتہ کچھ ہی لمحوں تک جاری رہا۔ وہ فوراً اُس کیفیت میں داخل ہو گیا،جہاں ہر چیز نہ چاہتے ہوئے بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔

ولیم کے اوسان جب پہلے جھٹکے سے بحال ہوئے تواُس نے مجسٹریٹ کی آنکھوں میں بغور دیکھتے ہوئے سوال کیا،کیا ایسا ہو سکتا ہے مجھے کچھ دِنوں کی مہلت دے دی جائے۔؟

سوری ولیم،وہ دوبارہ بولا،میری معلومات کے مطابق آپ کو تین بار اِس کے متعلق اطلاع دی جا چکی ہے۔ اِس لیے اب وقت نہیں۔
ولیم بخوبی سمجھ رہا تھا،یہ سراسر جھوٹ ہے۔ اُسے اس معاملے میں مکمل بے خبر رکھا گیا تھا۔ اگر اس وقت مجسٹریٹ تین مرتبہ کے نوٹس کی بات کر رہا تھا تو کاغذات میں یہ خانہ پُری ضرور کر لی گئی ہو گی۔ اِس لیے اب اُس سے مزید تکرا ر بھی فضول تھی۔ اِدھر سردی اور کُہر کے ساتھ ہوا بھی چلنے لگی تھی۔ جس کی وجہ سے ولیم کا اِس حالت میں گرم چادر کے بغیر کھڑے رہنا خود کشی کے مترادف تھا۔ اُس نے جلدی سے ایک اور سوال کیا،میرا بہت سا سامان اِس وقت یہاں موجود ہے،جسے میں ابھی اُٹھانے سے قاصر ہوں۔ آپ اگر آج کا دن رُک جائیں یا فی الحال میرا سامان ان سردیوں تک یہیں پڑا رہنے دیں یا مجھے ایک بار شمس الحق سے ملاقات کر لینے دیں،پھر آپ جو کارروائی چاہیں، کریں۔

سردی کی شدت،ولیم کا بڑھاپا اور سب سے بڑھ کر بُرد باری سے پیش کی گئی زبانی درخواست نے مجسٹریٹ کو انتہائی متاثر کیا۔ اُسے توقع تھی،ولیم اِس حکم کو سنتے ہی آپے سے باہر ہو جائے گا۔ چیخ وپکار کے ساتھ واویلا شروع کر دے گا اور دیواروں سے لپٹ جائے گا۔ اُنہیں گالیاں دے گا۔ پنجاب حکومت،بیوروکرسی،سیاست دان اور پاکستانی عوام کو بُرا بھلا کہے گا۔ جس کی وجہ سے وہاں دیر تک بدمزگی پیدا ہو گی۔ نتیجے میں اُسے زبردستی اُٹھا کر باہر پھینکنا پڑے گا۔ لیکن جب یہ سب کچھ نہ ہوا تو مجسٹریٹ نے سب لوگوں کو حکم دیا،وہ کچھ دیر کے لیے باہر چلے جائیں۔ سب نکل کر سڑک پر کھڑے ہو گئے تو مجسٹریٹ ولیم کو کاندھے سے پکڑکر کوٹھی کے دالان کی طرف لے گیا۔ وہاں انتہائی بوسیدہ کرسیوں میں سے ایک پر ولیم کو بیٹھنے کے لیے کہا اور دوسری پر خود بیٹھ گیا۔ پھر کچھ لمحے خموشی سے گزر گئے۔ اِس کے بعد مجسٹریٹ بولا،ولیم صاحب ایک بات طے ہے،اب کوٹھی آپ کو چھوڑنا پڑے گی۔ اِس بارے میں دو رائے نہیں رہیں۔ رہا آپ کو وقت دینے کا معاملہ،وہ مَیں اپنی طرف سے آپ کی شرافت کی وجہ سے دودن کا دے سکتا ہوں۔ اُس کے بعد مَیں بے بس ہوں۔ میرا مشورہ یہ ہے،اپنے سامان کو اُٹھا کر کسی دوسری جگہ ٹھکانے لگانے کی کوشش کریں۔ کوٹھی نہ آپ سے اب بچ سکے گی،نہ آپ اِس میں وقت ضائع کریں۔ ابھی آپ ٹھنڈے دل سے اپنے گرم بستر میں جائیں،کچھ دیر لیٹ کر یہ سوچیں،آپ کو کہاں منتقل ہونا ہے اور سامان کہاں رکھنا ہے؟ مَیں جا رہا ہوں اور جمعہ کے روز بارہ بجے آؤں گا۔ اِتنا کہا کر مجسٹریٹ اُٹھ کھڑا ہوا اور جیسے ہی چلا،ولیم کی آواز سنائی دی،مسٹر سنیے۔
جی،مجسٹریٹ نے ولیم کی طرف دیکھ کر کہا۔

آپ دیکھ رہے ہیں،مَیں اتنا بوڑھا ہو گیا ہوں کہ اِس لکڑی کے بغیر چلنے میں میرے گھٹنے درد کر تے ہیں۔ کاندھے پر چادر پھیلانے کے لیے ہاتھ اُٹھاؤں تو بازؤوں کے سِرے کانپ اُٹھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مَیں اس ملک میں اِتنا اجنبی ہوں کہ میری پُرسش کو اِس وقت ایک چیونٹی تک نہیں آئے گی۔ پھر آپ یہ پولیس کس لیے لائے تھے؟

مجسٹریٹ ولیم کے اِس چبھتے ہوئے سوال پر لرز کے رہ گیا۔ بڈھے نے کتنی کڑواہٹ کے ساتھ اُس کی توہین کی تھی۔ اُ س کی سمجھ میں نہ آیا،وہ اس سوال کا کیا جواب دے۔ وہ تھوڑا سا آگے بڑھا اور ولیم کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا،ولیم آپ بہت معقول آدمی ہو۔ سول سروس میں رہے ہو۔ اگر میں آپ کے اس سوال کا جواب نہ بھی دوں تو مجھے معاف کرنا۔ یہ کہہ مجسٹریٹ جلدی سے باہر نکل گیا۔ اُس کے بعد تمام گاڑیاں اور لوگ رخصت ہونے لگے۔ سب کے بعد ٹریکٹر سٹارٹ ہوا،جس کی آواز نے دور تک ولیم کا پیچھا کیا۔ آج پہلی بار اُس نے محسوس کیا،کٹریکٹر کی آواز انتہائی کرخت اور شور پیدا کرنے والی ہے۔ وہ حیران تھا،اِس سے پہلے اُسے اس مشینری کی آواز اتنی بیہودہ کیوں نہیں لگی؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *