Laaltain

نولکھی کوٹھی – تئیسویں قسط

19 جولائی, 2017
Picture of علی اکبر ناطق

علی اکبر ناطق

[blockquote style=”3″]

علی اکبر ناطق کا خاندان 1947کے فسادات میں فیروز پور سے ہجرت کر کے وسطی پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی گاؤں 32ٹو ایل میں آباد ہوا۔ یہیں علی اکبر ناطق 1977 میں پیدا ہوئے اور اسی گاؤں میں موجود ہائی سکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انگریز دور میں یہ مثالی گاؤں تھا۔ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑ ا سے پاس کیا۔اُس کے بعدمعاشی حالات کی خرابی اور کسمپرسی کی وجہ سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کیے۔ ناطق نے تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اور بطور میسن پندرہ سال تک کام کیا۔ اسی دوران اُن کا اردو نثر، شاعری، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ 1998 میں کچھ عرصے کے لیے مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب اور مڈل ایسٹ بھی رہے۔ اِس سفر میں اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اسی دوران ایک افسانہ (معمار کے ہاتھ) لکھا، جو بہت مقبول ہوا اور اُس کا محمد حنیف نے انگریزی ترجمہ کیا، جو امریکہ کے مشہور ادبی میگزین گرانٹا میں شائع ہوا۔ ناطق 2007 میں اسلام آباد آ گئے، یہاں اِن کی ملاقات افتخار عارف سے ہوئی، جو اُن دنوں اکادمی ادبیات کے چیئر مین تھے، انھوں نے ناطق کو اکادمی میں ایک چھوٹی سی ملازمت دے دی، جو افتخار عارف کے اکادمی چھوڑ جانے کے بعد ختم ہو گئی۔ پھر تین سال کے لیے مقتدرہ قومی زبان میں رہے اور اُس کے بعد فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن میں چلے گئے۔ اب ایک نجی یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتے ہیں۔

 

ناطق ادبی طور پر 2009میں اُس وقت اچانک دنیا کے سامنے آیا، جب کراچی کے مؤقر ادبی رسالے،”دنیا زاد “نے اُن کی ایک دم دس نظمیں شائع کیں اور ادبی رسالے”آج”نے پانچ افسانے چھاپے۔ ناطق کی تخلیقات نے اچھوتے اور نئے پن کی وجہ سے لوگوں کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ 2010 میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ “بے یقین بستیوں میں “ آج،کراچی سے چھپا اور یو بی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔ 2012میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “قائم دین “ چھپا،جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا اور اِسے بھی یو بی ایل ایوارڈ ملا، 2013میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ “ یاقوت کے ورق “آج کراچی سے چھپا۔ یہ تمام کتابیں انگلش اور جرمن میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور پینگوئن انڈیا شائع کرچکا ہے۔ علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے، پینگوئن انڈیا اسے انگلش میں چھاپ رہا ہے، ہم لالٹین قارئین کے لئے یہی ناول سلسلہ وار شائع کر رہے ہیں۔

[/blockquote]

علی اکبر ناطق کے ناول “نولکھی کوٹھی” کی مزید اقساط پرھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

(41)

لاہور چیف سیکرٹری ہاؤس ولیم کے لیے نیا نہیں تھا۔ ابتدائی آٹھ نو مہینے ٹریننگ کے اور مختلف اوقات میں میٹنگ کے سلسلے میں اُس کا یہاں قیام رہا۔ اِس دوران ولیم کے ذاتی طور پر بھی بہت سے دوست نکل آئے تھے۔ اس کے علاوہ ولیم کے باپ اور دادا کو جاننے والے بھی کئی لوگ یہاں موجود تھے،جو اس خاندان کا نجی سطح پر بھی احترام کرنے والے تھے۔ اس لیے کسی قسم کی اجنبیت نہیں تھی۔ پھر بھی جو اختیار ولیم کو جلال آباد میں حاصل تھا،اُس کا یہاں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ کہاں تو ایک پورے علاقے میں بے تاج بادشاہ ہونا،نوابوں کی طرح فیصلے صادر کرنا بلکہ اُس کے اختیارات تو نوابوں سے بھی بڑھ کر تھے،کہ اِن کو حکومت کی قانونی حییثت بھی حاصل ہو جاتی تھی،اور کہاں ایک پندرہ مربع فٹ کے کمرے میں بیٹھ کر صبح سے شام تک مکھیاں مارتے رہنااور ملازم کو بلا کر کافی یا چائے پیتے جانا۔ قہر تو یہ تھا کہ اُسے افسروں کی چھٹیوں کا گھٹیا کام دے دیا گیا،جسے وہ کراہت کی حد تک ناپسند کرتا تھا۔ اِس کے بر عکس کیتھی یہاں انتہائی خوش تھی۔ ولیم کو رہنے کے لیے مال روڈ پر جو بنگلہ ملا تھا،وہ جلا ل آباد والے بنگلے سے اگرچہ چھوٹا تھا لیکن اُس سے کہیں خوبصورت تھا۔ ارد گرد میں دوسرے بنگلوں میں رہنے والے افسروں کی بیگمات اور بچوں کی رونق مستزاد تھی۔ جلال آباد میں ولیم ڈ یوٹی پر چلا جاتاتھا تو کیتھی کو ایک ایک گھنٹہ سال سال کا ہو جاتا لیکن یہاں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ نوکروں کی تعداد کم ہو گئی تھی مگر ایسی بھی کم نہیں کہ کمتری کا احساس پیدا ہو جاتا۔ شام کے بعد لاہور کے کلبوں اور جم خانوں میں ولیم کے ساتھ جانے میں ایک عجیب طرح کا احساسِ تفاخر جاگ اُٹھتا۔ ولیم جیسا خوبصورت اور وجیہہ شکل و صورت کا انگریز افسر وہاں کم ہی تھا۔ اس لحاظ سے کیتھی اپنی سہیلیوں کے آگے بہت زیادہ سرخرو تھی۔ کیونکہ اُن کے خاوندوں میں کوئی بھی ولیم کے پاسک نہیں تھا۔ جب دیگر انگریز بیگمیں کیتھی کے خاوند کو دیکھتیں اور جل بھن کے رہ جاتیں،تو کیتھی کا سینہ فخر سے پھول جاتااور وہ پہلے سے بھی زیادہ ولیم کے ساتھ لپٹ لپٹ جاتی۔

ایک دن ولیم نے اپنے کمرے میں اُونگھتے اُونگھتے سوچا،کیوں نہ چیف سیکرٹری سے دو دو ہاتھ ہو جائیں۔ زیادہ سے زیادہ کوئی نیا کام مشکل سمجھ کر دے دے گا۔ ملاقات کر کے دیکھتے ہیں۔ ولیم اپنے کمرے سے اُٹھا اور چیف سیکر ٹری کے پی اے جوزف جان کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ جوزف نے فوراً اُٹھ کر ہاتھ بڑھایا اور کہا،ویلکم ولیم،آج ہمارے کمرے میں کیسے؟ زہے نصیب تشریف رکھیے۔

ولیم آرام سے کرسی پر بیٹھا،اپنا ہیٹ سر سے اُتار کر جوزف کی میز پر رکھا۔ چِٹ پیک سے ایک کاغذ نکالا،اُس پر اپنا نام لکھ کر جوزف کے آگے بڑھاتے ہوئے کہا،جوزف یہ چٹ اندر بھیج دو،مجھے ملاقات کرنی ہے۔

جوزف نے چٹ پکڑ کر سامنے رکھی،بیل کا بٹن دبایا اور ولیم سے پوچھا،کافی پیئیں گے یا چائے؟

جوزف،اِس دفتر میں اب میں اِسی کام کے لیے رہ گیا ہوں (اتنے میں ملازم اندر داخل ہو چکا تھااور حکم کا منتظر تھا )بہر حال کافی ٹھیک رہے گی۔

ملازم حکم سن کر باہر نکل گیا تو جوز ف بولا،چیف صاحب لاہور ڈویزن کے ڈپٹی کمشنروں سے میٹنگ کر رہے ہیں،ابھی ختم ہونے والی ہے۔ وہ باہر نکلتے ہیں تو آپ اندر چلے جایئے۔ یہ آپ کی چٹ مَیں ابھی پہنچا دیتا ہوں۔

جوزف صاحب مجھے ایک بات بتائیں؟

پوچھیں۔

جب میری ٹرانسفر کی فائل چل رہی تھی تو آپ یہیں تھے۔ کچھ ہَوا کی زبانی کہہ دیا ہوتا۔ مَیں کسی تنکے کو پکڑنے کی کوشش کرتا۔
ولیم،تم ابھی لارنس صاحب سے میٹنگ کرنے والے ہو۔ چند لمحوں بعد خبر ہو جائے گی کہ تم اُس وقت بھی کچھ نہ کر سکتے۔

جوزف،تم میں اور مجھ میں ایک فرق ہے۔ مَیں اپنی رائے سے فائل تیار کرتا ہوں اور تم آزاد رائے سے واقف نہیں۔ کبھی اِس چھ گز کے حبس زدہ کمرے سے نکل کر دیکھ،دن کتنے روشن ہیں۔

مَیں پچھلے تیرہ سال سے اِس آفس میں ہوں۔ ولیم،آپ کی طرح کچھ نوجوان اور بھی جذباتی ہو گزرے ہیں۔ مگر اُنہیں زیادہ دیر سکھانا نہیں پڑا۔ روشنی اِس کمرے میں بھی کم نہیں لیکن ابھی آپ اِس سے مانوس نہیں ہوئے۔

آپ کی آنکھوں پر اِن فائلوں کی سیاہی جم چکی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کلر بلائنڈ ہو گئے ہو؟ جو روشنی اور اندھیرے میں تمیز نہیں جانتے۔

جوزف نے ولیم کی بات میں تلخی کو محسوس کیا لیکن ظاہراًمسکرا کر بولا،ولیم،زیادہ تلخی اچھی نہیں (کافی جو چند لمحے پہلے ہی ملازم رکھ گیا تھا )کافی پیئیں۔ رنگوں کی تمیز کرنے والے ضروری نہیں حالات کی تمیز کرنا بھی جانتے ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ آج کھُلے دالانوں کی راہداریاں چھوڑ کر اس حبس زدہ کمرے میں چیف سیکرٹر ی صاحب کا انتظار نہ کاٹتے۔ اِتنا کہ کر جوزف ولیم کی چٹ چیف سیکرٹری صاحب کے کمرے میں لے گیا۔ اس بھرپور طنز پر کافی ولیم کے ہاتھ سے گرتے گرتیبچی۔ اُس نے کپ وہیں رکھ دیا اور غصے سے ہونٹ کاٹنے لگا،دو ٹکے کا ملازم سول سروس کی توہین کیسے کر گیا۔ لیکن ولیم بے بس تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ملاقات کیے بغیر اُٹھ کے چلا جائے۔ اُٹھنے کے لیے ارادہ باندھا ہی تھا کہ جوزف نے باہر آکر کہا،چلیے جناب،صاحب بلاتے ہیں۔ ولیم فوراً اُٹھ کر کمرے میں داخل ہو گیا۔ سیکرٹری صاحب نے بیٹھے ہی بیٹھے ولیم کے سلام کا جواب دیا اور سامنے کی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ولیم بغیر تکلف کے شکریہ کہہ کر کُرسی پر بیٹھ گیا۔ چیف سیکرٹری صاحب کا کمرہ ولیم پہلے بھی کئی بار دیکھ چکا تھا جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ کمرے کی ہیبت کم تو نہیں تھی لیکن اُس میں اور ڈپٹی کمشنروں کے کمروں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ تمام لوازمات ویسے ہی تھے۔ بس فرق میز کی دوسری طرف بیٹھنے والے آدمی کا تھا۔ لارنس صاحب کرسی پر بیٹھے ہوئے بھی اتنے لمبے لگ رہے تھے جتنا ایک درمیانے قد کا آدمی کھڑا ہو ا لگتا ہے۔ مونچھیں سیاہ کالی اور بڑی بڑی تھیں۔ سر سامنے سے گنجا لیکن آنکھیں اِتنی بڑی اور سُرخ جیسے ابھی دو مٹکے شراب کے پیے ہوں۔ مگر انتہائی چمکدار۔ چند لمحے پُر تکلف سلام کے بعد ولیم اور چیف سیکرٹری میں ایک باقاعدہ گفتگو شروع ہوئی۔

سر مَیں کچھ کہنا چاہتا ہوں
مَیں سننے کے لیے بیٹھا ہوں۔
مَیں چاہتا ہوں کچھ کام کروں۔
یہاں آپ کو کچھ کام نہیں دیا گیا؟
دیا گیا ہے سر۔ اُونگھنے کا کام دیا گیا ہے۔
اُسے اچھے طریقے سے کرو۔
سر،جو کام چار سال تک کیا ہے،مجھے اُس میں زیادہ تجربہ ہے۔
اِس کام میں بھی تجربہ حاصل کرو۔
مجھے اس کام میں بھی چھ ماہ ہو چُکے ہیں سر۔ اور اس درجے کے کام کے لیے اِتنا تجربہ کافی ہے.
اِس کا فیصلہ تمھارے بجائے ہم کریں گے۔ ویسے میری اطلاع کے مطابق آپ افسران کی چھُٹیوں کا حساب کتاب سنبھالے ہوئے ہیں۔
سر،یہ کام میرا باورچی مجھ سے بہتر کر لیتا ہے۔

اب لارنس صاحب نے اپنی آنکھیں ولیم کی آنکھوں میں ڈالیں اور خوفناک طریقے سے گھورتے ہوئے کہا،ولیم،مَیں نہیں جانتا تھا،آپ کا باورچی آپ سے زیادہ لائق ہے۔ اگر ہے،تو یہ آپ کے لیے بہت بُرا ہے۔ اِس بعد چیف سیکرٹری صاحب اپنی کرسی سے اُٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ اُسے دیکھ کر ولیم بھی کھڑا ہو گیا۔

سیکرٹری صاحب دوبارہ بولے،ولیم،آپ کو وقت دیا جارہا ہے۔ اپنے کو باورچی سے بہتر ثابت کرو اور وقت آنے کا انتظار کرو۔ یہاں آپ کو کسی وجہ سے بلایا گیا ہے۔ یہ کہ کر لارنس صاحب کمرے سے باہر نکلنے کے لیے تیار ہوگئے۔ ولیم نے بھانپ لیا کہ اب مزید بات کرنا اور یہاں ٹھہرنا اُس کے لیے زیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی بات کچھ ایسا انداز اختیار کر چکی تھی جس کو طول دینا ولیم کے لیے بہتر نہیں تھا۔ لہذا ولیم سلام کر کے سیکرٹری کے کمرے سے نکلنے سے پہلے ہی باہر نکل آیا اور سوچتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھا کہ جوزف سچ کہتا تھا۔ اِس ملاقات کے بعد ولیم نے چیف سیکرٹری سے ملنے کی کبھی کوشش نہیں کی اور وقت نکلتا گیا۔

ولیم کو لاہور میں ایک سال تین ماہ گزر چکے تھے۔ اِن پندرہ مہینوں میں سوائے جم خانہ جانے کے،اِدھر اُدھر کی گھٹیا اور بے کار فائلوں پر دستخط جمانے اور کلرکوں کے بیہودہ چہروں کے دیکھنے کے علاوہ کوئی کام نہ تھا۔ یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں سینکڑوں ہندوستانی چاپلوس افسر ہر وقت موقعے کی طاق میں رہتے کہ کب صاحب سے سامنا ہو اور وہ ایک زور دار سلام داغیں۔ ایسے دیسی افسر بھی تھے،جو افسری کے آداب سے تو سرے سے ناواقف تھے لیکن اُنہیں اپنے وطن کے لوگوں اور اُس کی مٹی میں کوئی خوبی نظر نہ آ تی تھی۔ یہ وہ افسرتھے جو انگریز کلرکوں تک کی چاپلوسی سے بھی نہیں ہچکچاتے تھے اور چاہتے تھے،کسی طرح اپنی اولادوں کو ٹوڈی بنا کر انگلستان بھیج دیں۔ یہ نوکری ہی اِسی کو خیا ل کرتے تھے۔ اُن کے خیال میں ہندوستان کی بُرایاں بیان کرنا اور یہاں کے لوگوں کے خلاف کام کرنے کا نام سرکاری نوکری تھا۔ یہ دیسی افسر انگریزوں کی طرح کھانا کھانے کی کوشش کرتے،سر پر کنٹوپ اور ہیٹ جمانا،ہاتھ میں سیر کرتے ہوئے چھڑی تھامنا،شام کو کلب جانا اور تھوڑی بہت ڈرنک کرنا یا مہنگے کتے رکھنا اپنا اعزاز سمجھتے۔ ولیم دیکھتا تھا،اِن افعال کی وجہ سے یہ لوگ بعض اوقات تماشا بن جاتے مگر اپنی حرکتوں سے باز نہ آتے۔ اِن معاملات میں ہندووں اور سکھوں کی نسبت مسلمان بڑھے ہوئے تھے۔ اِنہی اعمال کی بنا پر یہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو جاتے۔ بعض خاندان تو دیکھتے دیکھتے انگلستان میں داخل ہو چکے تھے اور وہاں مستقل قیام کا بندوبست کرنے میں مصروف تھے۔ افسر تو افسر بعض ہندوستانی کلرک بھی اس معاملے میں بہت چالاک واقع ہوئے تھے۔ وہ اپنے صاحب کو اِس طرح شیشے میں اُتارتے کہ بچارے صاحب کو خود بھی پتا نہ چلتا۔ ولیم نے اِن سے بڑھ کر یہ ہُنر کسی میں نہیں دیکھا تھا۔ اِس بارے میں جو سب سے افسوس ناک بات تھی وہ یہ،کہ اِنہی کے دم سے ولائتی افسر رشوت خوری میں مبتلا ہوچکے تھے۔ ولیم اپنے اس قیام میں جو کچھ دیکھ چکا تھا،ایک طرح سے یہ بھی اُس کے تجربے میں اضافہ ہی ہوا تھا۔ اِس تمام عرصے میں وہ اِن دیسی اور ولائتی افسروں سے متنفر ہو چکا تھا۔ وہ اس کوشش میں رہتا کہ دیسی افسر یا کلرک سے سامنا نہ ہو۔ اگر ہوتا بھی تو وہ انہیں سختی سے نظر انداز کر دیتا۔ ولیم کے اِس رویے کی وجہ سے وہ یہاں انتہائی مغرور اورمتکبر مشہور ہو گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہلکی پھلکی سازشوں کے ذیل میں آنے لگا۔ مگر ولیم نے اِن باتوں کی پروا بالکل ہی چھوڑ دی اور اپنی پوری توجہ بیوی بچوں پر صرف کر دی۔ اسی فارغ البالی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کئی کئی دن اوکاڑہ اپنے فارم پر چلا آتا اور ذاتی کام میں دلچسپی لینے لگا۔ اس عرصے میں اُس نے وہاں ایک دو جدید اسکولوں اور پارکوں کی بنیاد بھی رکھی۔ سکول کا کام کیتھی کے سپرد تو نہ کیا جا سکا البتہ اُن کا سلسلہ ضرور شروع کر دیا اور اپنی زرعی زمینوں پر مزید باغات اور درخت لگانے کا کام کرتا رہا۔

ولیم ایک دن اپنے کمرے میں بیٹھا چھٹی ہونے کا انتظارکر رہا تھا۔ جب کام نہ ہویا ایسا کام پیٹے ڈال دیا جائے جو طبیعت سے لگاؤ نہ رکھتا ہو تو ایک ایک لمحہ پہاڑ معلوم ہوتا ہے۔ ولیم کی اِس وقت یہی حالت تھی۔ اپنی شوریدہ مزاجی کے سبب وہ کسی افسر اور کلرک کو منہ بھی نہیں لگانا چاہتا تھا۔ چنانچہ وقت گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہاتھا۔ اس لیے ولیم نے آج گیارہ بجے ہی چھٹی کرنے کی ٹھانی اور بیگ اُٹھانے کے لیے اپنے پی اے کو بلوایا۔ پی اے کمرے میں داخل ہوا تو اُس کے ہاتھ میں کاغذ کی ایک پرچی تھی۔ ولیم کو زبانی پوچھنے کی عادت تو نہیں تھی لیکن اِس وقت چونکہ وہ نکلنے لگا تھا،اُس نے پی اے سے اس کاغذ کے بارے میں پوچھ لیا،یہ کیا ہے؟
پی اے نے کہا،سر یہ ایک لڑکا ہے،جو پچھلے کئی دن سے یہاں چکر لگا رہا ہے اور آپ سے ملاقات کی کوشش کر رہاہے۔ اپنا نام فضل دین بتاتا ہے لیکن ملنے کا کوئی سبب نہیں بتاتا۔ اِس لیے میں نے اُسے ملنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ آج مجھے اُس پر کچھ ترس آیا تو میں اُس کا رقعہ اندر لے آیا ہوں۔ اِس پر اُس کا نام اور حوالہ موجود ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو حاضر کر دیتا ہوں۔
ولیم نے پی اے کے ہاتھ سے کاغذ پکڑا تو اُس پر صرف اتنا درج تھا،صاحب بہادر ولیم کے دروازے کا گدا گر فضل دین ولد مولوی کرامت سکنہ جلا ل آباد۔

ولیم نے رقعہ پڑھتے ہی حکم دیا،اُسے حاضر کرو اور خود دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا۔

فضل دین کمرے میں داخل ہوا تو اُس نے دونوں ہاتھ باندھے ہوئے تھے اور آنکھیں بالکل نیچے تھیں۔ ولیم ایک نظر دیکھتے ہی پہچان گیا۔ انداز سارے باپ جیسے تھے۔ اُسے مولوی کرامت کی وہی پہلی ملاقات یاد آ گئی،جو جودھا پور میں چراغ دین کے قتل کے وقت دورے میں ہوئی تھی۔

کیا بات ہے؟ ولیم نے پوچھا۔

سر،حضور کے اقبال سے انٹرنس پڑھ گیا ہوں،فضل دین اسی عاجزی سے کھڑے کھڑے بولا،جناب کی شکر گزاری کوحاضر ہونے کے لیے کئی دن سے کوشش کر رہا تھا۔ آج خدا وند یسوع مسیح کی برکت سے بار یابی ہوگئی۔ ابا جان نے بھی آپ کی جناب میں حاضری کے لیے کہا تھا۔

مولوی صاحب خیریت سے ہیں؟

جی،دو مہینے پہلے اُن کو تپ چڑھی اور وہ فوت ہوگئے۔
اوہ خدا،ولیم نے افسوس کرتے ہوئے فضل دین کی طرف دیکھا اور کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،بیٹھو۔
فضل دین نہایت آہستگی اور ادب کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اُس کے بعد کچھ دیر مکمل خاموشی چھائی رہی۔

فضل دین،دس تاریخ کواپنے سرٹیفیکیٹ لے کر آ جانا،گورنر ہاؤس میں کچھ دیسی اسسٹنٹوں کی ضرورت ہے۔ میں آپ کے بارے میں مسٹر جیس کو کہہ دیتا ہوں،جاؤ اور اُس کے لیے تیاری کرو۔ اِس کے ساتھ ہی ولیم نے دوبارہ اپنے پی اے کو طلب کر کے فضل دین کے بارے میں ہدایات دیں اور کہا،دس تاریخ کو فضل دین آئے تو میرے پاس بھیج دینااور انٹر پرجیس سے میری بات کراؤ۔

حکم سنتے ہی پی اے نے تعمیل کی۔ اِسی اثنا میں ولیم نے فضل دین کو چلے جانے کا اشارہ کیا اور وہ باہر نکل گیا۔

پندرہ ماہ چیف سیکرٹری آفس میں بیکار گزارنے کے بعد ولیم بہت زیادہ اُکتا گیا۔ و ہ چا ہتا تھا،کسی طرح اِس جہنم سے نکل جائے لیکن کس طرح؟ اِس بارے اُس کی تمام کاوشیں اور اعمال ضائع ہو چکے تھے اورکوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ وہ یہ تو جانتا تھا،اُسے سزا کے طور پر بھیجا گیا ہے لیکن کتنا عرصہ؟اِس کے متعلق اُسے پوری طرح آگاہی نہ تھی مگریہ پتہ تھا کہ اُس کے جلال آباد میں کام کرنے کی نوعیت سے افسرانِ بالا خوش نہیں تھے۔ وہ اُس پر کھلا اعتراض تو نہیں کر سکتے تھے لیکن بار بار دبے لفظوں کے انتباہ کے باوجود اُس نے مقامی لوگوں کے بارے میں اپنی انفرادی پولیسی پر نظر ثانی نہیں کی تھی۔ جس میں معاشی سطح پر بے شک گورنمنٹ کو فائدہ پہنچا تھا لیکن ولیم کے مقامی آبادی کے ساتھ شیرو شکر اور میل ملاپ نے انگریزی وقار کو کافی نقصان پہنچایا تھا۔ جب تک کمشنر ہاؤس ایڈم کے قبضے میں رہا،اُس وقت تک ولیم کو فکر نہ تھی۔ وہ خود بھی ہندوستانی عوام کے لیے رحمت کا فرشتہ تھے۔ مگر اُس کے جاتے ہی حالات یکسر بدل گئے تھے۔ اب ولیم کو جلال آباد سے نکلنا ہی تھااور انتظامیہ اُنہیں کسی دوسری جگہ بھیجنے کا رسک نہیں لے سکتی تھی۔ اُس نے لاہور آتے ہی بہت ہاتھ پاؤں مارے،اپنے باپ دادا کی خدمات کا حوالہ دیا اور کام میں اپنی مہارت کے ثبوت پیش کیے۔ مگر مسلسل ابتدائی تین مہینوں کی محنت کے باوجود اُسے لگا،وہ اپنی کارکردگی کے افسانے افسروں کی بجائے سیکرٹریٹ کی دیواروں کو سنا رہا تھا۔ اس لیے پچھلے آٹھ ماہ سے خاموش تھا اور اکثر چھٹیوں پر رہنے لگا تھا۔ لیکن اتنا ہوا اِس عرصے میں فرصت کی وجہ سے اُس نے بہت سے کام ایسے بھی کر لیے،جن میں اُس کی اپنی تر جیحات تھیں۔ یعنی اوکاڑہ میں چرچ اسکول اور لیڈی پارک کا قیام۔ اِس کے علاوہ اپنے فارم ہاؤس کی مزیدوسعت۔ اور نو لکھی کوٹھی کی مزید رینو ویشن اور باغوں کی توسیع۔

ہمارے لیے لکھیں۔