[blockquote style=”3″]

علی اکبر ناطق کا خاندان 1947کے فسادات میں فیروز پور سے ہجرت کر کے وسطی پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے نواحی گاؤں 32ٹو ایل میں آباد ہوا۔ یہیں علی اکبر ناطق 1977 میں پیدا ہوئے اور اسی گاؤں میں موجود ہائی سکول میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انگریز دور میں یہ مثالی گاؤں تھا۔ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑ ا سے پاس کیا۔اُس کے بعدمعاشی حالات کی خرابی اور کسمپرسی کی وجہ سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ طور پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پاس کیے۔ ناطق نے تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اور بطور میسن پندرہ سال تک کام کیا۔ اسی دوران اُن کا اردو نثر، شاعری، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی جاری رہا۔ 1998 میں کچھ عرصے کے لیے مزدوری کے سلسلے میں سعودی عرب اور مڈل ایسٹ بھی رہے۔ اِس سفر میں اُنھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اسی دوران ایک افسانہ (معمار کے ہاتھ) لکھا، جو بہت مقبول ہوا اور اُس کا محمد حنیف نے انگریزی ترجمہ کیا، جو امریکہ کے مشہور ادبی میگزین گرانٹا میں شائع ہوا۔ ناطق 2007 میں اسلام آباد آ گئے، یہاں اِن کی ملاقات افتخار عارف سے ہوئی، جو اُن دنوں اکادمی ادبیات کے چیئر مین تھے، انھوں نے ناطق کو اکادمی میں ایک چھوٹی سی ملازمت دے دی، جو افتخار عارف کے اکادمی چھوڑ جانے کے بعد ختم ہو گئی۔ پھر تین سال کے لیے مقتدرہ قومی زبان میں رہے اور اُس کے بعد فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ایجوکیشن میں چلے گئے۔ اب ایک نجی یونیورسٹی میں اُردو پڑھاتے ہیں۔

ناطق ادبی طور پر 2009میں اُس وقت اچانک دنیا کے سامنے آیا، جب کراچی کے مؤقر ادبی رسالے،”دنیا زاد “نے اُن کی ایک دم دس نظمیں شائع کیں اور ادبی رسالے”آج”نے پانچ افسانے چھاپے۔ ناطق کی تخلیقات نے اچھوتے اور نئے پن کی وجہ سے لوگوں کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ 2010 میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ “بے یقین بستیوں میں “ آج،کراچی سے چھپا اور یو بی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔ 2012میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ “قائم دین “ چھپا،جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا اور اِسے بھی یو بی ایل ایوارڈ ملا، 2013میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ “ یاقوت کے ورق “آج کراچی سے چھپا۔ یہ تمام کتابیں انگلش اور جرمن میں ترجمہ ہو چکی ہیں اور پینگوئن انڈیا شائع کرچکا ہے۔ علی اکبر ناطق کے ناول "نولکھی کوٹھی” نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی ہے، پینگوئن انڈیا اسے انگلش میں چھاپ رہا ہے، ہم لالٹین قارئین کے لئے یہی ناول سلسلہ وار شائع کر رہے ہیں۔

[/blockquote]

نولکھی کوٹھی کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

(52)

نواز الحق مولانا فضل دین کی امیدوں پر اس طرح پورا اُتر رہا تھا کہ اِتنی توقع اُسے بھی نہیں تھی۔ لڑکا ایسا ذہین اور لائق نکلا کہ باپ دادا کے بھی کان کاٹنے لگا۔ بڑے بڑے جاگیرداروں،فوجیوں اور افسروں کے بیٹے اُس نے دوست بنالیے۔ اُنہی کی صحبت میں دن رات گزارنے سے اُسے وہ تمام معلومات اور طریقے حاصل ہو گئے تھے،جو سول سروس کا زینہ تھے اور خاندان کی کایا کلپ کر دینے کے لیے نتیجہ خیز ثابت ہو سکتے تھے۔ اِس کے علاوہ انگلش،عربی،فارسی،تا ریخ،غرض ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ سُدھ بدھ حاصل کر لی تھی۔ لباس اور بات چیت میں بھی اِتنی نفاست پیدا کر لی کہ موقع کی مناسبت سے تمام جگہ اپنے آپ کو فِٹ کر لیتا۔ عربی اور اور فارسی کی لیاقت نے اُس کے اندر شعر سے لُطف لینے کا مادہ بھی پیدا کر دیا۔ لیکن یہ مادہ تھوڑا بہت شعر کو سُن کر،یا پڑھ کر یاد کر لینے کی حد تک تھا۔ شعر کی فنی جمالیات کو سمجھنے یا خود کسی مشق میں پڑنے کی اہلیت نہیں تھی۔ یہ بات بھی اُس کو کسی نے سمجھا دی تھی کہ پاکستان میں سول سروس کی نوکری حاصل کرنے کے لیے بندے کو تین چیزوں میں خاص طور پر توجہ دینی چاہیے۔ ایک اُسے تھوڑا بہت اقبال کی شاعری اور اُس کی زندگی کے نیک نیک حالات ازبر ہوں۔ دوسرا انگریزی بول چال کی مہارت حاصل ہو اور تیسری اہم بات یہ کہ اپنے باس کی چاپلوسی کرنے کی تر بیت میں نُقص نہ ہو۔ اگر اِن میں انسان طاق ہو تو نوکری ملنے کے بعد اُس کی ترقی میں خدا بھی رکاوٹ کھڑی نہیں کر سکتا۔ بندہ اِس طرح بائیس سکیل کے زینے طے کرتا ہے،جیسے گہری نیند سوئے ہوئے پر صبح آجاتی ہے۔ نوازلحق نے اِن تینوں مضامین میں اپنی استعداد کو اِتنا بڑھایا کہ ایک تو اقبال کا ستر فی صد کلام اُسے یاد ہو گیا،دوم وہ انگریزی کو ایسے چاٹنے لگا کہ بعض اوقات اُس پر انگریز ہونے کا شبہ ہوتا۔ وہ تو غنیمت تھی رنگ زیادہ صاف نہ تھا۔ سوم افسر کی بات سے اتفاق کرنے کا ملکہ حاصل ہو گیا۔ نتیجہ یہ کہ نوازلحق پنجاب سول سروس کا امتحان پاس کر کے ڈائریکٹ نائب تحصیل دار بھرتی ہوگیا۔ لیکن اس پر وہ مطمئن ہو کر بیٹھ نہیں گیا۔ بلکہ مزید ترقی کے لیے کوشاں رہا۔ جس میں اُس نے مولانا فضل دین کی جمع کی گئی بے شمار دولت کا بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ لاہور میں کوئی افسر ہو گا،جس کے ساتھ اُس نے تعلقات قائم نہیں کیے اور اُسے تحفے تحائف نہیں بھیجے۔ وہ اِس معاملے میں اپنے افسران کا اِس قدر وفادار تھا کہ اُن کی بیویوں تک سے ذاتی مراسم قائم کر لیے۔ کوئی نوازلحق صاحب کی بڑی بہن بن گئی اور کو ئی خالہ ہوگئی۔ کوئی اُس کے دوست کی والدہ تھی۔ اِس لحاظ سے نواز صاحب کی بھی والدہ بن گئی۔ اِن رشتوں کے بن جانے کی وجہ سے نواز کو عید بقر عید اور سالگرہوں پر تحفے بھی دینے ہوتے تھے اور وہ دل کھول کر دیتا۔ خاص کر اُسے یہ پتا چل گیا تھا کہ عورت ذات سونے کی بڑی لالچی ہوتی ہے۔ اِس لیے وہ جو بھی تحفہ دیتا،سونے ہی کا ہوتا۔ کیونکہ سونے کے بغیر چاہے ہزاروں تحفے ہوں،لوگ بھول جاتے ہیں۔ لیکن یہ ایک ایسی دھات ہے،جس کا تحفہ ایک تو لینے والے کو احسان مند کر دیتا ہے اور دوسرا عمر بھر نہ لینے والے کو بھولتا ہے اور نہ دینے والے کو۔ اِس کے علاوہ جب ضرورت ہوتی،سودا سلف بھی خود بخود گھر بھجوا دیتا۔ اِن اطاعت شعاریوں سے یہ ہوا کہ کسی افسر کی جرات نہ ہوتی تھی،وہ نوازلحق کی اے،سی آر میں،اُس کے کردار اور کام کی پاکدامنی کی گواہی نہ ثبت کرے۔ اپنے باس کے گھر روزانہ جا کر اُن کی ضروریات کی خبر لے کر اُنہیں پورا کرنا تو نواز صاحب نے اپنے اُوپر لازم کر لیا تھا۔ یہ فرض شناسی اِس حد تک تھی کہ ایک دن جب کمشنر صاحب کو ہلکا سا نزلہ ہوگیا تو نواز صاحب کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی۔ آپ اُس کی تیمارداری میں اِس طرح مگن ہو ئے کہ تین دن تک اپنے گھر نہیں آئے۔ وہیں اُن کی کوٹھی کے سرونٹ کوارٹر میں رہنے لگے۔ اگرچہ صاحب نے بہت کہا،کوئی بات نہیں نواز صاحب،آپ گھر چلے جائیں،مَیں ٹھیک ہو جاؤں گا۔ لیکن یہ نہیں مانے،کہ جانے کب ضرورت پڑ جائے،پھر خدا نخواستہ آنے میں دیر ہوگئی تو آپ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ اِسی فرض شناسی کی وجہ سے اُس کے دفتر والے نواز صاحب کا مذاق بھی اُڑاتے۔ ایک دن میٹنگ کے دوران جب کئی ماتحت بھی بیٹھے تھے،صاحب کا چھوٹا بیٹا ساتھ والی کرسی پر بیٹھا کھیل رہا تھا۔ اُس نے وہیں بیٹھے پیشاب کر دیا۔ نواز صاحب نے اپنے ہاتھوں سے اُس کو غسل خانے میں لے جا کر پانی سے صاف کیا اور اُس کا پیشاب دھویا،جس کی وجہ سے اُس کا مذاق اُڑایا گیا۔ لیکن اُنہوں نے اِن احمقوں کی ذرا پروا نہیں کی اور سب نے دیکھا،انہی خدمت گزاریوں کی وجہ سے وہ صرف دو سال میں ہی تحصیل دار ہو گیا۔ جبکہ ساتھ والے،جو ذرا خدمت گزاری میں کم تھے،ابھی تک اُنہی بوسیدہ میزوں پر بیٹھے مکھیاں مار رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی اُنہیں یہ کلیہ بھی کسی نے سمجھا دیا تھا کہ ریٹائرڈ افسر مردہ گھوڑے سے زیادہ اہم نہیں ہوتا۔ اِس لیے جتنی جلدی ہو سکے،اُس پر مٹی ڈال دینی چاہیے۔ کیونکہ جو وقت کو ضائع کرتا ہے،وقت اُسے ضا ئع کر دیتا ہے۔ ریٹائرڈ افسر کی بات ماننا یا اُسے ملنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ تھی کہ نواز صاحب نے کبھی پلٹ کر بھی ایسے لوگوں کی طرف نہیں دیکھا تھا،جو سرکاری نوکری سے فارغ ہو چکے تھے۔

اُن کے تحصیل دار بننے کے کچھ عرصے بعد ملک میں فوج کی حکومت آگئی۔ نواز صاحب اُن دنوں خوش قسمتی سے ضلع راولپنڈی کے محکمہ مال میں تھے۔ یہ حکومت ہر لحاظ سے شرعی کہی جا سکتی تھی۔ تمام سزائیں شرعی ہو گئی تھیں۔ لباس شرعی ہو گیا۔ ٹوپیاں،تسبیاں،لوٹے اور چٹائیوں کی قیمتیں شریعت کے مطابق بڑھ گئیں۔ شلواریں گھٹنوں سے اُوپر۔ حتیٰ کہ سر کے بال اورڈارھیاں شرعیت کے مطابق ڈھل گئیں۔ گاؤں گاؤں میں مولویوں کے وظائف مقرر کر دیے گئے اور اُنہیں خطبے لکھے لکھائے آنے لگے تاکہ کسی بھی مولوی کو دماغ پر زور دینے کی زحمت نہ پڑے۔ ہزاروں چوہڑے بطور جلاد بھرتی کیے گئے،پھر بھی کوڑے مارنے والے کم پڑ جاتے تھے۔ عوام کا نماز روزے کی طرف اِتنا رجحان ہو گیا کہ سر زمین جنت نشان ہو گئی۔ ہر طرف امن و امان کی فضاقائم ہو گئی۔ تبلیغی مرکزوں میں،جہاں کبھی ویرانی ہونکتی تھی،اب کھوے سے کھوا چھلنے لگا۔ عدل انصاف کا اِس قدر بول بالا ہو ا کہ جرم کے شبے کی بنا پر بھی سزائے موت دی جانے لگی۔ اور اِس معاملے میں اتنی احتیاط تھی کہ چاہے مجرم وزیراعظم ہی کیوں نہ ہو،تختے پر چڑھا دیا جاتا۔ دراصل عدالتوں نے پتا چلا لیا تھاکہ سوائے فوجی اور ایک خاص مکتبہ فکر کے مولوی کے،باقی لوگ کافر اور غدار ہیں۔ تمام بدعتی مذاہب اور مسالک کا قلعہ قمع کرنے کی ٹھان لی گئی اور صحابہ کے سچے پیرو کاروں اور خفیہ اداروں کو اجتماعی طور پر پورے اختیار دے دیے گئے کہ وہ آسانی سے نشاۃ اسلامیہ کے دشمنوں کی سرکوبی کر سکیں۔ یہی وہ دن تھے،جب نوازلحق صاحب پر صحیح دین کی سمجھ اور فوجی حکومت کی برکتوں کے پے بہ پے انکشافات ہوئے۔ اُنہوں نے نہ صرف خود،بلکہ لوگوں کی بھی اِس امر کی طرف توجہ دلانی شروع کر دی کہ امیرالمومنین جنرل صاحب اللہ کے ولی اور مجدد دین ہیں۔ اُن کے حکم کی سرتابی خدا سے بغاوت کے مترادف ہے اور یہ کہ جمہوریت مغرب کا پراپیگنڈہ ہے۔ اسلام ایسی کسی حکومت کو جائز قرار نہیں دیتا جس کی بنیاد غیر مذہبوں نے رکھی ہو۔ اُنہوں نے علی الاعلان یہ بھی کہنا شروع کر دیا کہ رافضی اور خانقاہی نظامِ،دین میں فساد کا دوسرا نام ہے۔ چنانچہ اُنہیں بالکل ختم کر دینا چاہیے۔ اِس عرصے میں نواز صاحب نے اپنی ڈاڑھی مزید بڑھا لی اور رضا کارانہ طور پر دفتر میں کام کرنے والوں کو نماز پڑھانے کے ساتھ دین کی صحیح سمجھ بوجھ دینا بھی شروع کر دی۔ جس کی اُس وقت اُن لوگوں کو سخت ضرورت تھی۔ جو آدمی نماز پڑھنے نہ آتا،اُسے دفتری قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کا نام دے کر وارننگ لیٹر جاری کرنے کا اہتمام بھی ہونے لگا۔ اِس میں بھی نواز صاحب سب سے زیادہ پیش پیش تھے۔ اِس کے ساتھ ہی فوجیوں سے مراسم اور لاہور کی نہایت شریف فیملی،جس پر جنرل صاحب کی برکات بے پایاں تھیں،کے درِ دولت پر دن رات حاضری کو اپنا ایمان اور کعبہ کی زیارت کے مترادف جان لیا۔ اور اُن نامرادوں کے نام اور کوائف دینے لگا،جو سرکاری یا غیر سرکار ی سطح پر فوج یا اسلام کے خلاف بات کرتے پائے جاتے تھے۔ نواز صاحب میں اِن سب خوبیوں اور اسلام کے سچے عاشق ہونے کی وجہ سے،یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ حساس اداروں کی نظرسے اُس کی وفادار ی اُوجھل رہ جاتی۔ بالآخر اُس کا نام اُن افراد کی فہرست میں شامل ہو گیا،جنہیں بلا شبہ غیر مشروطی طور پر حکومت کے وفاداروں میں شمار کیا جاسکتا تھا۔ چنانچہ اُسی شریف فیملی کی غلام گردشوں میں پھرتے نواز صاحب نے اپنی ترقی کے ایک اور زینے کی راہ دیکھ لی۔ بالآخر پنجاب کی وزارت ِ خزانہ کی سفارش سے انُیس سو بیاسی میں اُس کی اسسٹنٹ کمشنری کے آڈر جاری ہو گئے۔ اُنہیں پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ جھنگ شہر کی افسری کا پروانہ دے دیا گیا،جہاں دیگر کاموں کے ساتھ بعض مسالک اور اُن کے عقائد کے خلاف کام کرنے والوں کے لیے آسانیاں فراہم کرنا تھیں۔

(53)

اُنیس سو تراسی کاآدھا اکتوبر گزر چکا تھا۔ پنجاب میں اکتوبر کا مہینہ موسم کی کیفیت کو اِس قدر معمول پر لے آتا ہے کہ اُس وقت گرمی گرمی نہیں رہتی اور سردی ابھی تک نومبر کے پردوں میں چھپی ہوتی ہے۔ اُس وقت نہ تو گرمی تھی ہے اور نہ سردی۔ اِس ٹھہرے ہوئے موسم میں اُداس کر دینے والی ایسی خموش کیفیت تھی،جس کو بیان کرنے کی قدرت نہیں۔ یہ موسم بہار کانہیں ہوتا۔ لیکن اُس سے کہیں زیادہ طبیعت کو راس آنے والا ہوتا ہے۔ بہار ہر چیز میں ایک قسم کاہلکا سا شور،تحرک اور چہچہاہٹ پیدا کر دیتی ہے۔ حتیٰ کہ خوشبوئیں بھی بولتی ہیں۔ اِس کے بر عکس اکتوبر کے درمیان سے لے کر نومبر کے ابتدائی دس دنوں میں ہر شے خموش،چپ اور ٹھہری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ جس میں پوری فضا پر اُداس کر دینے والے غمگین سائے چھا جاتے ہیں۔ موسم کی اِن چپ چاپ سفیدیوں میں انسان بھی افسردہ ہو جاتا ہے۔ ماضی کی گونج عام حالات کی نسبت زیادہ سنائی دیتی ہے اور آج کل یہی کیفیت ولیم کی تھی۔ وہ اوکاڑہ کے مضافات اور نہری کوٹھی کے جامنوں،پھولوں اور گوگیرہ کی بستیوں میں اکیلا گھومتے پھرنے کے ساتھ ماضی کے ورقوں کو پرتالتا جاتا اور اُن میں لکھے افسانوں کی سطر یں بغور پڑھتا،مکرر پڑھتا،سہ بار پڑھتا،بار بار پڑھتا۔ روپے اُس کے پاس کم ہوتے جا رہے تھے۔ بلکہ اِس تیزی سے کم ہو رہے تھے،جیسے عمر کی منزلیں سمٹتی جا رہی تھیں۔ یوں بھی اُس کی عمر بہتر سال ہو چکی تھی لیکن کمر ابھی تک جھکی نہیں تھی،جیسا کہ عام اور مقامی ہندوستانیوں کے بوڑھے ہونے پر جھک جاتی ہیں۔ پاکستان کی بیوروکریسی سے اب اُسے کوئی سروکار نہیں تھا۔ سیاسی حالات کیا ہیں،؟ لوگوں کے رویے کتنے بدل چکے ہیں یا بیرونی دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟برطانیہ امریکہ یا دوسرے مغربی ممالک کی کیا صورت ہے؟ ولیم اِس سب کچھ سے اس طرح بیگانہ ہو چکا تھا،جیسے اِن چیزوں کا وجود اساطیری دنیا میں ہو۔ جہاں صرف کہانیا ں جا سکتی تھیں۔ البتہ اوکاڑہ کے کیتھلک چرچ میں اتوار کے اتوار اُس کی حاضری اب لازمی ہو گئی تھی۔ یہ چرچ اُس کے دادا نے اپنے خرچے سے بنوایا تھا۔ جہاں یہ چرچ موجود تھا،اُس کے سامنے والے بازار کا نام بھی چرچ بازار رکھ دیا گیا تھا،جو ابھی تک اُسی نام سے تھا۔ یہ بازار جنوب کی طرف سے ریلوے پھاٹک نمبر دو سے لے کر سرور سوڈا چوک کو کراس کرتا ہوا شمال میں کمپنی باغ کے جنوب مشرقی کونے تک چلا جاتا تھا۔ ولیم اِس چرچ میں عبادت سے زیادہ اُن لوگوں کی پُرسش کے لیے جاتا،جن کے لیے خداوند خدا چرچ کی لال اینٹوں میں پھنسا ہوا ایک بے بس صلیب کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ جو دنیا میں تو اِن کالے عیسائیوں کے کچھ کام نہیں آ سکتا تھا۔ اگر کوئی آخرت تھی،تو وہاں ان کالوں کے لیے دودھ کی سفید نہروں اور میوہ کے باغوں کی دستیابی کا ذمہ دار تھا۔

آج وہ اسی اداس کر دینے والی فضا میں اتنا بوجھل ہو چکا تھا،جس میں دل کو سنبھال لینا ایرے غیرے کا کام نہیں تھا۔ ولیم کمرے سے نکل کر کوٹھی کے صحن میں آیا اور سامنے والی اُسی بنچ پر بیٹھ گیا،جس کو اس صحن میں لگے اب ساٹھ برس گزر چکے تھے۔ یہ کرسی ولیم کے دن رات بیٹھنے سے اِتنی چمکدار ہو گئی تھی کہ پالش کا گمان ہو تا۔ پرندے اِدھر اُدھر اڑے جاتے تھے،اگر کوئی چہچہا بھی رہا تھا،تو اُس کی چونچ ہلتی نظر آتی تھی مگر آواز سنائی نہ دیتی۔ سامنے کا پیپل بھی بالکل خموش اور حیرانی کی حالت میں تھا،جیسے ولیم کی تنہائی پر نوحہ کناں ہو۔ اُسے آنے والے لمحوں کا پتا چل چکا تھا۔ کبھی ایک آدھ چڑیا اُس کے پاس سے اُڑ کر نکل جاتی،پھر دورتک کھیتوں میں،کبھی ایک جگہ پر،کبھی دوسری جگہ پھدکتی ہوئی بیٹھتی۔ پھر اُسی طرح نظروں سے اوجھل ہو جاتی۔ ولیم کو جب کافی دیر اِسی حالت میں گزرگئی تو وہ اُٹھ کر دوبارہ کوٹھی میں چلا گیا اور اپنے بیڈ روم میں جا کر پُرانے سامان کو ٹٹولنے لگا،جو اَب زیادہ نہیں رہ گیا تھا۔ چندچیزیں تھیں،جو کیتھی کے ہاتھوں سے یا تحفہ دینے سے بچ گئی تھیں۔ یہ چیزیں بازار میں قیمت تو نہیں رکھتی تھیں لیکن ولیم کے لیے بہت زیادہ اہم تھیں۔ اِن میں ولیم کے دوستوں کی کچھ تصویریں،ولیم کے بچوں کی تصویریں،اُس کے ذاتی کاغذات،ملازمت کے دنوں کی فوٹو گراف،قلم،پینٹنگز،ایشلے کی شاعری کے کچھ مسودات،بے شمار کتابیں اور اِسی طرح کی یادگاریں تھیں۔ چیزوں کو دیکھتے ہوئے ولیم کے ہاتھ میں ایک ایسا کاغذ لگا،جو اُس کی اپنی ہینڈرائیٹنگ میں تھا۔ وہ ایشلے کی ایک نظم تھی،جو اُسے بہت پسند تھی۔ ولیم نے اپنے ہاتھ سے اُسے لکھ لیا تھا۔ نظم دیکھ کر ولیم کو ایشلے کی شدت سے یاد آنے لگی،جس کے مرنے کی اطلاع اُسے دس سال پہلے مل چکی تھی۔ وہ اُس کے مرنے کی خبر سُن کر اُس وقت بھی بہت افسردہ ہوا تھا اور بہت دنوں تک اپنے حواس میں نہ ر ہا تھا۔ جب کاغذات سے وہ نظم سامنے آئی تو ولیم کی آنکھوں میں پھر آنسووں کا سیلاب اُمڈ آیا۔ وہ نظم لے کر اُسی بیڈ پر لیٹ گیا اور اُسے اپنے سینے پر رکھ کرآہستہ آہستہ نظم کو پڑھنے لگا اورگزری ہوئی ساعتیں یاد کر کے رونے لگا۔

نظم
کیا تم ایسی دھوپ دیکھنا چاہو گے
جو چمکتی ہے جلاتی نہیں
نہ اس کی روشنی میں آنکھیں چندھیاتی ہیں
نہ سفید عورتیں عرق آلود ہوتی ہیں
وہ دھوپ نومبر کی خاموش وادی میں ہے
نومبر کی دھوپ کو دیکھ سکتے ہو
نرم لباس کی طرح محسوس کر سکتے ہو
اُس میں تلخی نہیں
موت کے نزدیک لے جانے والی اُداسی ہے
اُداسی کو تم چھو نہیں سکتے
نہ فریب دے سکتے ہو
نہ اس سے بھاگ سکتے ہو
یہ ہجوم میں تنہا کر دیتی ہے
کیا پچھلے برس کا نومبر اُداس نہیں تھا؟
نومبر ہمیشہ اُداس ہوتا ہے
رُکا ہوا،مطمئن اور بے نیاز
اِس کی وادی میں صبح ہوتی ہے،دوپہر،سہ پہر
پھر شام آجاتی ہے
مگر دھوپ کا مزاج نہیں بدلتا
آسمان کی طرح پُر وقار بزرگی والا
زندگی نومبر کی طرح نہیں
زندگی بدلتی ہے،متواتر بدلتی ہے
وہ تجھے نومبر میں نہیں رہنے دے گی
دھوپ غبار آلود ہو جائے گی
صاف نظر آنے والی چیزیں دُھندلا جائیں گی
پھر سیاہ ہو جائیں گی
پھر اندھیرا کھا جائے گا
اُس وقت،جب میں نہیں ہوں گا
دوست کوشش کرنا،نومبر نہ گزرے
مگر یہ وہ کوشش ہے جس کا حاصل خسارا ہے
ولیم بار بار نظم پڑھتا رہا اور پرانے بیڈ کے بوسیدہ مگر صاف بسترپر لیٹا آنسووں کی بارش روکنے کی کوشش کرتارہا۔ اسی حالت میں وہ سو گیا۔

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: