[blockquote style=”3″]
عدنان عامر کی یہ تحریر اس سے قبل انگریزی روزنامے دی نیوز میں بھی شائع ہو چکی ہے۔ مصنف کی اجازت سے اس کا اردو ترجمہ لالٹین پر شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
مترجم
ظاہر کریم
ظاہر کریم
مری معاہدے کے تحت اقتدار کی ہموار منتقلی کے بعد گزشتہ ماہ نواب ثناء اللہ خان زہری نے بائیسویں وزیرِاعلیٰ بلوچستان کا حلف اٹھایا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ادھورے وعدوں کی ایک طویل فہرست وزیر اعلیٰ دفتر میں چھوڑ آئے۔ نواب زہری نے تقریباً ایک ماہ کی تاخیر سے کابینہ تشکیل دی ہے۔ گزشتہ ہفتے تمام وزراء اور مشیران کو یہ اطلاع دی گئی کہ نئے وزیرِاعلیٰ صاحب کی حکومت کام کرنے کےلیے تیار ہے۔ تاہم انہیں کامیابی سے حکومت چلانے کے لیے بہت سے سخت فیصلے کرنا ہیں۔
سیاسی عزم کے فقدان اور استعداد کار کے مسائل کے علاوہ نیشنل پارٹی حکومت کی ناکامی کی اہم وجوہ میں سے ایک اتحادی جماعتوں (پختونخوامیپ اور مسلم لیگ ن) کی طرف سے بلیک میل کیا جانا بھی ہے۔
اس سے قبل کے پیش آمدہ مشکل فیصلوں کاذکر کیا جائے، یہ ضروری ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی بطور وزیر اعلیٰ ناکامیوں کا بھی جائزہ لیا جائے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچستان کے لوگوں کی بہت سے توقعات کے ساتھ وزارتِ اعلیٰ کا قلم دان سنبھالا تھا۔ لیکن وہ چند محاذوں پر ناکام رہے۔ سیاسی عزم کے فقدان اور استعداد کار کے مسائل کے علاوہ نیشنل پارٹی حکومت کی ناکامی کی اہم وجوہ میں سے ایک اتحادی جماعتوں (پختونخوامیپ اور مسلم لیگ ن) کی طرف سے بلیک میل کیا جانا بھی ہے۔ نتیجتاً، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ مشکل مگر اہم فیصلے نہیں لے سکے جو ایک کامیاب حکومت کے لیے لازم تھے۔ تمام تر مشکلات اور روکاوٹوں کے باوجود وزیر اعلیٰ کا عہدہ کامیابی کے لیے مشکل فیصلوں کا متقاضی ہے۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دورِاقتدار میں ایک متوازی حکومت قائم تھی، وہ وزیر اعلیٰ تھے مگرطاقت تین جماعتوں کے پاس تھی۔ پختونخوامیپ اور مسلم لیگ ن کے وزراء ڈاکٹر عبدلمالک کے زیر اثر نہ تھے اور بسا اوقات کئی امور پر ڈاکٹر مالک بے بس دکھائی دیے۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ایک اقلیتی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ تھے لیکن نواب ثناءاللہ زہری کا معاملہ کچھ الگ ہے، انہیں تمام وزارتوں بشمول نیشنل پارٹی اور پختونخوامیپ کے وزراء پر مضبوط گرفت قائم رکھنی ہو گی۔ انہیں صوبائی وزراءکے ایسے فیصلوں کو ضرور ردّ کرنا چاہیئے جو بڑے پیمانے پر حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتے ہوں۔
بلوچستان کے اہم مسائل میں سے ایک پسماندگی ہے۔ سالانہ میزانیے میں منظور کی جانے والی ترقیاتی اسکیمیں اس صوبے کی زبوں حالی اور پسماندگی میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ صوبائی وزراء دیر پا سماجی و معاشی ترقی کی بجائے سیای مفادات کے حصول کے لیے ترقیاتی منصوبے تجویز کرتے ہیں۔ نتیجتاً، ہر سال صوبے کے ترقیاتی بجٹ میں سے اربوں روپے ضائع ہو جاتےہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے 30ماہ کے دورِاقتدار میں یہی روش عام رہی۔
صوبائی وزراء دیر پا سماجی و معاشی ترقی کی بجائے سیای مفادات کے حصول کے لیے ترقیاتی منصوبے تجویز کرتے ہیں۔
اس چلن کو روکنے کے لیے نواب زہری کو مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ سابقہ طرز عمل کی بجائے صوبے کے لیے ایک جامع مرکزی ترقیاتی منصوبہ تشکیل دیا جا سکتا ہے، جس کے تحت ہر منظور شدہ ترقیاتی سکیم کو اسی منصوبے کا حصہ قرار دے دیا جائے تو معاملات بہتر انداز میں چلائے جا سکتے ہیں۔ یہ اقدام یقیناً ترقیاتی بجٹ کو ضائع ہونے سے بچائے گا لیکن اس کے نتیجے میں نواب زہری کو اراکین صوبائی اسمبلی کی ناراضی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
صوبائی محکمہ ترقی و منصوبہ بندی صوبے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ محکمہ تمام ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ کو منظور اور جاری کرتا ہے۔ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کے دورِ اقتدار میں یہ محکمہ پختونخوا میپ کے تابع تھااور سیای بنیادوں پر چلایا جاتا تھا۔ پختونخوا میپ کے رہنماؤں کی کوشش رہی کہ ایسے ترقیاتی منصوبے منظور ہوں جن سے ان کے آبائی ضلع ”قلعہ سیف اللہ“ کو فائدہ پہنچے۔ اس طرز انتظام سے بلوچستان کی ترقی کا عمل حقیقتاً بے جان ہو کر رہ گیا۔ موجودہ وزیر اوعلیٰ کو محکمہ ترقی و منصوبہ بندی کو مکمل طور پر اپنے زیرِاثر لاکر اسے سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کرنا ہو گا۔
نواب زہری کے لیے ایک اور مشکل ہدف صوبائی افسر شاہی کو نظم و ضبط میں رکھنا ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ سیاست دانوں کی طرح افسرشاہی میں بھی ماسوائے چند ایک کے، سب بری طرح بدعنوان ہیں۔ نااہل افسر شاہی کی وجہ سے تقریباً 60ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ گزشتہ 30ماہ کے دوران محض اس لیے مرکز کو لوٹا دیا گیا کیونکہ افسر شاہی معینہ مدت میں مذکورہ بجٹ استعمال کرنے میں ناکام رہی۔ افسر شاہی کو لگام دینے کی اشد ضرورت ہے، حالات کا تقاضا بھی یہی ہے تا کہ صوبے میں جمود کا شکار معاملات رواں کیے جا سکیں۔
ان کے دورِاقتدار میں ضلع کیچ کو ترقیاتی منصوبوں سے بے دریغ نوازا گیا اوربلوچستان کے بیشتر اضلاع کو نظر انداز کیا گیا، بلکہ ان پر نصیر آباد ڈویژن کے ترقیاتی فنڈز مکران ڈویژن کو دینے کا الزام بھی لگایا گیا۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بھی سابق حکمرانوں کی طرح اپنے آبائی ضلعے کو باقی بلوچستان پر ترجیع دیتے رہے۔ ان کے دورِاقتدار میں ضلع کیچ کو ترقیاتی منصوبوں سے بے دریغ نوازا گیا اوربلوچستان کے بیشتر اضلاع کو نظر انداز کیا گیا، بلکہ ان پر نصیر آباد ڈویژن کے ترقیاتی فنڈز مکران ڈویژن کو دینے کا الزام بھی لگایا گیا۔ نواب زہری کو اس سابقہ روش سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنے آبائی علاقے خضدار کو اس طرح نوازنے سے گریز کرنا چاہیئے جس طرح ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنے دورِاقتدار میں ضلع کیچ کو نوازا۔ اگر چہ نواب زہری کو 2018 کا انتخاب خضدار سے لڑنا ہوگا جس کے پیشِ نظریہ فیصلے انتہائی مشکل ہوں گے، لیکن اس کے باوجود یہ فیصلے انہیں کرنے ہوں گے۔
نیشنل پارٹی کے دورِاقتدار میں روا رکھے جانے والی اقرباء پروری اور منظور نظر افراد کو نوازنے کے عمل سے بھی اجتناب ضروری ہے۔ نیشنل پارٹی کے وہ رہنما جو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے قربت رکھتے تھے، ان کے دور اقتدار سے فوائد حاصل کرتے رہے۔ نیشنل پارٹی کے ایک رہنما کو چیف منسٹرز پالیسی ریفارم یونٹ CMPRUکا کوآرڈینیٹر بنایا گیا، ایک اور صاحب کو کیسکو کے بورڈ آف ڈائریکٹر ز کا چیئر مین لگایا گیا اور یوں یہ فہرست لمبی ہوتی گئی۔ مسلم لیگ ن میں بھی بہت سے ایسے رہنما ہیں جو نواب زہری سے حسب سابق عنایات کے طلب گار ہیں۔ اہم عہدوں پر نااہل افراد کی تعیناتی سے گریز ان کے لیے ایک کٹھن امتحان ثابت ہو گا۔
نواب ثناءاللہ زہری کے لیے 30 ماہ کا دورِاقتدار یقیناً پھولوں کی سیج نہیں ہوگا۔ نواب زہری کی کامیابی کے لئے ایک زود اثر آسان نسخہ یہ ہے کہ انہیں گزشتہ حکومت کی کوتاہیوں سے اجتناب کرنا ہو گا۔ دوسرا یہ کہ وہ سخت فیصلے کریں تاکہ تبدیلی لاسکیں۔ یقیناً یہ تمام فیصلے جنابِ وزیر اعلیٰ کے لئے بہت سے مسائل بھی کھڑے کریں گے تاہم تاریخ میں ایک کامیاب وزیراعلیٰ اور بلوچستان میں تبدیلی کا موجب کہلانے لئے انہیں یہ سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔
Image: Pakistan Today