پاکستان کا سب سے کم آبادی مگر سب سے زیادہ معدنی وسائل رکھنے والا صوبہ بلوچستان گزشتہ روز اپنے ایک عظیم رہنما سے محروم ہو گیا۔ نواب خیر بخش مری ۱۹۲۸ کو بلوچستان کے ضلع کوہلو میں پیدا ہوئے۔ نواب مہراللہ خان مری کے بڑے بیٹے ہونے کے ناطے وہ ان کے بعد مری قبیلے کے سردار بنے۔ مری قبیلہ مزاحمت کی ایک طویل تاریخ کا حامل ہےجس کے بڑوں نےانگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد بھی کی اور بعد میں سیاست کا حصہ بھی بنے۔ نواب خیر بخش مری کے چھ بیٹوں میں بالاچ مری، چنگیز خان مری، ہربیار مری، گزین مری، حمزہ مری اور مہران مری شامل ہیں۔
نواب خیر بخش عمر کے بڑے حصے تک سیاست سے بالکل الگ تھلگ رہے جس کی وجہ ان کے بقول ایچی سن کالج لاہور کا پرسکون ماحول ہے۔ پہلی بار ان کی سیاست میں دلچسپی تب پیدا ہوئی جب جنرل ایوب خان نے بلوچستان میں مری قبیلے کے علاقے میں تیل اور گیس کی تلاش کا کام شروع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے زیادہ توہین آمیز بات کسی بلوچ کے لیے کوئی نہیں ہو سکتی کہ کوئی باہر سے آ کر انہیں بتائے کہ ترقی کیسے کرنی ہے۔ ان کے تحفظات کتنے بجا تھے اس کا اندازہ آج بخوبی کیا جا سکتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچستان کے معدنی وسائل سے سوائے بلوچستان کے پورا پاکستان فیض یاب ہو رہا ہے۔
نواب خیر بخش عمر کے بڑے حصے تک سیاست سے بالکل الگ تھلگ رہے جس کی وجہ ان کے بقول ایچی سن کالج لاہور کا پرسکون ماحول ہے۔ پہلی بار ان کی سیاست میں دلچسپی تب پیدا ہوئی جب جنرل ایوب خان نے بلوچستان میں مری قبیلے کے علاقے میں تیل اور گیس کی تلاش کا کام شروع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے زیادہ توہین آمیز بات کسی بلوچ کے لیے کوئی نہیں ہو سکتی کہ کوئی باہر سے آ کر انہیں بتائے کہ ترقی کیسے کرنی ہے۔ ان کے تحفظات کتنے بجا تھے اس کا اندازہ آج بخوبی کیا جا سکتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچستان کے معدنی وسائل سے سوائے بلوچستان کے پورا پاکستان فیض یاب ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے زیادہ توہین آمیز بات کسی بلوچ کے لیے کوئی نہیں ہو سکتی کہ کوئی باہر سے آ کر انہیں بتائے کہ ترقی کیسے کرنی ہے۔
خیر بخش مری اپنے نظریات میں سوشلسٹ تھے اور مسلح جدوجہد کے بہت بڑے حامی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت سے بات کرنا بیکار ہے کیونکہ اسلام آباد کی حکومت واشنگٹن کی حکومت کی کٹھ پتلی ہے۔ ذوالفقار بھٹو کے دور میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کے ساتھ تمام بلوچ قوم پرستوں بشمول خیر بخش مری کو حیدر آباد سازش کیس میں قید کرلیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب بلوچ رہنماؤں کو حیدرآباد جیل سے رہا کیا جانا تھا تو حکومت نے سوائے خیر بخش مری کے سب کو رہا کرنے کا حکم دے دیا لیکن ان کے ساتھی رہنما میر غوث بخش بزنجو نے بھی تب تک جیل سے نکلنے سے انکار کر دیا جب تک خیر بخش مری کو رہا نہیں کیا جاتا لہٰذا مجبوراً حکومت کو انہیں بھی رہا کرنا پڑا۔
رہائی کے بعد خیر بخش مری یورپ چلے گئے اور کچھ عرصہ وہاں گزارنے کے بعد خودساختہ جلا وطنی اختیار کر کے افغانستان میں کئی سال گزارے۔ کئی اور قوم پرست اور بائیں بازو کے رہنما وہاں ان کے ساتھ تھے۔ افغانستان میں قیام کے دوران نواب خیر بخش مری نے سوشلسٹ روس کی حمایت حاصل کی اور خود ان کے بقول اپنی مسلح جدوجہد کے لیے اسلحہ انہوں نے اسی دور میں جمع کیا تھا۔ البتہ روس کی حمایت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ روس نے ہمیں اگر کچھ دیا ہے تو وہ صرف کتابیں ہیں۔
افغانستان میں جب روس کا انخلاء شروع ہوا تو خیر بخش پاکستان آ گئے اور کراچی میں رہائش اختیار کی۔ اس کے بعدسے انہوں نے سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اس دوران انہیں حکومت کی طرف سے گورنر شپ اور وزارتوں کی پیشکش بھی کی گئی جو انہوں نے ٹھکرا دیں۔ البتہ ان کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ کراچی میں بیٹھ کر بی ایل اے (بلوچ لبریشن آرمی) کی پشت پناہی اور رہنمائی کر رہے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہیں بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس نواز مری کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور انہیں پھر سے ایک لمبا عرصہ جیل میں گزارنا پڑا۔
نواب خیر بخش مری کے مطابق بلوچوں کو قیام پاکستان کے وقت سے دھوکے پر دھوکا دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان بنا تو یہ بات واضح کر دی گئی تھی کہ قلات کی ریاست آزاد رہے گی لیکن بعد میں اسے زبردستی پاکستان مِن شامل کر لیا گیا، بلوچستان کا ایک بڑا حصہ ایران کے قبضے میں ہے اور کچھ افغانستان میں شامل کر دیا گیا ہے۔ خیر بخش مری متحدہ بلوچستان کے لیے گوریلا کارروائیوں کے حق میں تھے اور اپنے انٹرویوز میں صاف الفاظ میں کہتے تھے کہ بلوچوں کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے،بلوچستان سے پنجابیوں کا مکمل انخلاء۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجابیوں نے پہلے ان کے وسائل پر قبضہ کیا اور جب بلوچوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی تو انہیں انہی کی سر زمین پر خون میں نہلا دیا گیا۔
رہائی کے بعد خیر بخش مری یورپ چلے گئے اور کچھ عرصہ وہاں گزارنے کے بعد خودساختہ جلا وطنی اختیار کر کے افغانستان میں کئی سال گزارے۔ کئی اور قوم پرست اور بائیں بازو کے رہنما وہاں ان کے ساتھ تھے۔ افغانستان میں قیام کے دوران نواب خیر بخش مری نے سوشلسٹ روس کی حمایت حاصل کی اور خود ان کے بقول اپنی مسلح جدوجہد کے لیے اسلحہ انہوں نے اسی دور میں جمع کیا تھا۔ البتہ روس کی حمایت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ روس نے ہمیں اگر کچھ دیا ہے تو وہ صرف کتابیں ہیں۔
افغانستان میں جب روس کا انخلاء شروع ہوا تو خیر بخش پاکستان آ گئے اور کراچی میں رہائش اختیار کی۔ اس کے بعدسے انہوں نے سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اس دوران انہیں حکومت کی طرف سے گورنر شپ اور وزارتوں کی پیشکش بھی کی گئی جو انہوں نے ٹھکرا دیں۔ البتہ ان کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ کراچی میں بیٹھ کر بی ایل اے (بلوچ لبریشن آرمی) کی پشت پناہی اور رہنمائی کر رہے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہیں بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس نواز مری کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور انہیں پھر سے ایک لمبا عرصہ جیل میں گزارنا پڑا۔
نواب خیر بخش مری کے مطابق بلوچوں کو قیام پاکستان کے وقت سے دھوکے پر دھوکا دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان بنا تو یہ بات واضح کر دی گئی تھی کہ قلات کی ریاست آزاد رہے گی لیکن بعد میں اسے زبردستی پاکستان مِن شامل کر لیا گیا، بلوچستان کا ایک بڑا حصہ ایران کے قبضے میں ہے اور کچھ افغانستان میں شامل کر دیا گیا ہے۔ خیر بخش مری متحدہ بلوچستان کے لیے گوریلا کارروائیوں کے حق میں تھے اور اپنے انٹرویوز میں صاف الفاظ میں کہتے تھے کہ بلوچوں کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے،بلوچستان سے پنجابیوں کا مکمل انخلاء۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجابیوں نے پہلے ان کے وسائل پر قبضہ کیا اور جب بلوچوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی تو انہیں انہی کی سر زمین پر خون میں نہلا دیا گیا۔
روس کی حمایت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ روس نے ہمیں اگر کچھ دیا ہے تو وہ صرف کتابیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجابیوں نے پہلے بنگالیوں کے ساتھ یہی امتیازی سلوک کیا جو آج بلوچوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے لیکن بنگالی اس وقت سیاسی طور پر بلوچوں کی نسبت شائد زیادہ باشعور تھے اور ان کو بھارت کی مدد بھی حاصل تھی لہٰذا انہوں نے آزادی حاصل کر لی۔ آج بلوچوں کے ساتھ وہی زیادتیاں کی جا رہی ہیں، انہیں تعلیم نہیں دی جاتی اور پھر جب گوادر پورٹ پر کام شروع ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ تم پڑھے لکھے نہیں ہو، یہاں کام کیسے کرو گے۔
گوریلا کارروائیوں پر ان کا یقین اتنا پکا تھا کہ انہوں نے خود اپنے بیٹوں کو پہاڑوں پر لڑنے کے لیے بھیجا جہاں ان کا سب سے بڑا بیٹا بالاچ مری ۲۰۰۷ میں پاکستان افواج سے لڑتے ہوئے مارا گیا۔ شروع میں انہوں نے بالاچ مری کی موت کی تردید کی لیکن پھر ۲۰۱۰ میں کراچی کے ایک مشہور اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اقرار کیا کہ بالاچ مری شہید ہو گیا ہے لیکن ان کے لیے بلوچستان کی آزادی کے لیے لڑنے والا ہر نوجوان ان کا بالاچ ہے۔ خیر بخش مری کے یہ الفاظ بلوچ نوجواںوں کے لیے بہت حوصلہ افزاء ثابت ہوئے اور بی ایل اے میں شامل ہونے والے گوریلوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گیا۔
نواب خیر بخش مری اور ان کے بیٹے چنگیز مری کے درمیان شدید نظریاتی اختلافات پائے جاتے تھے۔ کیونکہ نواب خیر بخش مری ساری زندگی اس بات پر اٹل رہے کہ وہ کبھی بھی اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے جبکہ چنگیز مری موجودہ حکومت کا حصہ ہیں اور ان کی سیاسی وابستگی مسلم لیگ ن کے ساتھ ہے۔ اب جبکہ نواب خیر بخش مری اس دنیا میں نہیں رہےتو بلوچستان کے حالات میں نمایاں تبدیلی پیدا ہونے کا امکان ہے کیونکہ قبائلی رسوم کے مطابق ان کی جگہ چنگیز مری اپنے قبیلے کے سردار بنیں گے جو کہ نظریاتی طور پر اپنے والد کے مخالف ہیں اور مسلح جدوجہد کے حق میں نہیں ہیں۔ جبکہ خیر بخش مری کے نظریاتی جانشین ہربیار مری ہیں جو مبینہ طور پر بی ایل اے کو چلا رہے ہیں۔ سو اب بلوچستان کی صورتحال میں تبدیلی کا انحصار بڑی حد تک مری قبیلے اور بی ایل اے میں شامل بلوچوں پر ہے کہ وہ خیر بخش مری کے بعد کس کو اپنا لیڈر تسلیم کریں گے۔
گوریلا کارروائیوں پر ان کا یقین اتنا پکا تھا کہ انہوں نے خود اپنے بیٹوں کو پہاڑوں پر لڑنے کے لیے بھیجا جہاں ان کا سب سے بڑا بیٹا بالاچ مری ۲۰۰۷ میں پاکستان افواج سے لڑتے ہوئے مارا گیا۔ شروع میں انہوں نے بالاچ مری کی موت کی تردید کی لیکن پھر ۲۰۱۰ میں کراچی کے ایک مشہور اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اقرار کیا کہ بالاچ مری شہید ہو گیا ہے لیکن ان کے لیے بلوچستان کی آزادی کے لیے لڑنے والا ہر نوجوان ان کا بالاچ ہے۔ خیر بخش مری کے یہ الفاظ بلوچ نوجواںوں کے لیے بہت حوصلہ افزاء ثابت ہوئے اور بی ایل اے میں شامل ہونے والے گوریلوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گیا۔
نواب خیر بخش مری اور ان کے بیٹے چنگیز مری کے درمیان شدید نظریاتی اختلافات پائے جاتے تھے۔ کیونکہ نواب خیر بخش مری ساری زندگی اس بات پر اٹل رہے کہ وہ کبھی بھی اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے جبکہ چنگیز مری موجودہ حکومت کا حصہ ہیں اور ان کی سیاسی وابستگی مسلم لیگ ن کے ساتھ ہے۔ اب جبکہ نواب خیر بخش مری اس دنیا میں نہیں رہےتو بلوچستان کے حالات میں نمایاں تبدیلی پیدا ہونے کا امکان ہے کیونکہ قبائلی رسوم کے مطابق ان کی جگہ چنگیز مری اپنے قبیلے کے سردار بنیں گے جو کہ نظریاتی طور پر اپنے والد کے مخالف ہیں اور مسلح جدوجہد کے حق میں نہیں ہیں۔ جبکہ خیر بخش مری کے نظریاتی جانشین ہربیار مری ہیں جو مبینہ طور پر بی ایل اے کو چلا رہے ہیں۔ سو اب بلوچستان کی صورتحال میں تبدیلی کا انحصار بڑی حد تک مری قبیلے اور بی ایل اے میں شامل بلوچوں پر ہے کہ وہ خیر بخش مری کے بعد کس کو اپنا لیڈر تسلیم کریں گے۔
Leave a Reply